ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے یونس نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں ابن مسیب نے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے روایت کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”حوض پر میرے صحابہ کی ایک جماعت آئے گی۔ پھر انہیں اس سے دور کر دیا جائے گا۔ میں عرض کروں گا میرے رب! یہ تو میرے صحابہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تمہیں معلوم نہیں کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کر لی تھیں، یہ الٹے پاؤں (اسلام سے) واپس لوٹ گئے تھے۔“
Narrated Ibn Al-Musaiyab: The companions of the Prophet said, "Some men from my companions will come to my Lake-Fount and they will be driven away from it, and I will say, 'O Lord, my companions!' It will be said, 'You have no knowledge of what they innovated after you left: they turned apostate as renegades (reverted from Islam).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 76, Number 586
بينا أنا قائم إذا زمرة حتى إذا عرفتهم خرج رجل من بيني وبينهم فقال هلم فقلت أين قال إلى النار والله قلت وما شأنهم قال إنهم ارتدوا بعدك على أدبارهم القهقرى ثم إذا زمرة حتى إذا عرفتهم خرج رجل من بيني وبينهم فقال هلم قلت أين قال إلى النار والله
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6586
حدیث حاشیہ: (1) روایت میں اصحابی سے مراد وہ لوگ ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مرتد ہو گئے تھے جن سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جہاد کیا تھا۔ یا ان سے مراد بعد میں آنے والے وہ نام نہاد مسلمان ہوں گے جنہوں نے دین میں نئی نئی بدعات نکال کر اس کا حلیہ بگاڑ دیا تھا کیونکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بدعت سے کوسوں دور تھے۔ (2) مجالس میلاد، مروجہ تیجہ، فاتحہ، ساتا، گیارہویں، چالیسواں، قل خوانی، قبر پرستی، عرس کرنے والے، تعزیہ پرست، اولیاء کی قبروں پر مزارات تعمیر کر کے انہیں مساجد کا درجہ دینے والے، مکار قسم کے پیر و مرشد اور خود ساختہ امام یہ سب حدیث کا مصداق ہیں۔ ظاہر میں یہ مسلمان نظر آتے ہیں لیکن اندر سے کفر و شرک اور بدعات و رسومات میں سرتاپا غرق ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے اہل بدعت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک سے جام کوثر نصیب نہیں کرے گا۔ (3) مروجہ بدعات سے ہر حال میں بچنا مخلص مسلمان کے لیے ضروری ہے تاکہ حوض کوثر کا پانی نصیب ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ”میرے حوض کوثر پر زیادہ تعداد (صحابہ میں سے) فقراء مہاجرین کی ہو گی، پراگندہ بالوں والے اور ان کے کپڑے بھی میلے کچیلے ہوں گے، یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے ناز و نعمت والی عورتوں سے نکاح کیا ہو گا نہ ان کے لیے دروازے کھولے جاتے تھے۔ “(مسند أحمد: 132/2، 275/5، و سلسلة الأحادیث الصحیحة للألباني، حدیث: 1082)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6586
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5993
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اپنے حوض سے کچھ مردوں کو اس طرح ہٹاؤں گا، جس طرح اجنبی اونٹوں کو ہٹایا جاتا ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:5993]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: جو لوگ آپ کے حوض سے پانی پینے کے حقدار نہیں ہوں گے، آپ ان کو اپنی امت کو پلانے کی خاطر ہٹا دیں گے، تاکہ آپ کی امت آسانی سے پانی پی سکے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5993
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2367
2367. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!(قیامت کے دن) میں اپنے حوض سے بہت سارے لوگوں کو اس طرح دفع کروں گا جس طرح اجنبی اونٹ حوض پر سے ہانک دیے جاتے ہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2367]
حدیث حاشیہ: یہیں سے باب کا مطابقت نکلتا ہے۔ کیوں کہ آنحضرت ﷺ نے اس حوض والے پر انکار نہیں کیا، اس امر پر کہ وہ جانوروں کو اپنے حوض سے ہانک دیتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2367
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2367
2367. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!(قیامت کے دن) میں اپنے حوض سے بہت سارے لوگوں کو اس طرح دفع کروں گا جس طرح اجنبی اونٹ حوض پر سے ہانک دیے جاتے ہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2367]
حدیث حاشیہ: رسول اللہ ﷺ نے اس حوض والے پر انکار نہیں کیا جو اجنبی اونٹوں کو اپنے حوض سے ہانک دیتا ہے۔ اگر وہ اپنے حوض کے پانی کا زیادہ حق دار نہ ہو تو وہ اقدام کیونکر کر سکتا ہے، نیز اس حدیث میں حوض کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف کی گئی ہے اور آپ اپنوں کو پلانے اور دوسروں کو بھگانے کے زیادہ حق دار ہیں۔ قیامت کے دن آپ اللہ کی طرف سے عطا کردہ اختیارات استعمال فرمائیں گے۔ (فتح الباري: 55/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2367
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6587
6587. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: میں سویا ہوا تھا کہ ایک جماعت میرے سامنے آئی۔ جب میں نے انہیں پہچان لیا تو ایک آدمی اور ان کے درمیان سے نکلا اور ان سے کہا: ادھر آؤ۔ میں نے کہا: انہیں کدھر جانا ہے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! جہنم کی طرف لے جانا ہے۔ میں نے کہا: ان کا کیا حال ہے؟ یعنی کیا وجہ؟ اس نے کہا: یہ لوگ آپ کے بعد الٹے پاؤں واپس لوٹ گئے تھے۔ پھر ایک اور گروہ میرے سامنے آیا۔ جب میں نے انہیں بھی پہچان لیا تو ایک شخص میرے اور ان کے درمیان سے نکلا اور ان سے کہا: ادھر آؤ۔ میں نے پوچھا: انہیں کدھر جانا ہے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! جہنم کی طرف۔ میں نے کہا:ان کا کیا حال ہے؟ یعنی کیا وجہ؟ اس نے کہا: یہ لوگ آپ کے بعد اپنی ایڑیوں کے بل پھر گئے تھے۔ میں کہتا ہوں کہ ان گروہوں میں سے ایک آدمی بھی نہیں بچے گا مگر اکا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:6587]
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں جن لوگوں کے متعلق خبر دی گئی ہے کہ وہ حوض کوثر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے سے روک دیے جائیں گے، ان کی تعیین مشکل ہے کہ یہ کون لوگ ہوں گے اور کس طبقے سے ان کا تعلق ہو گا۔ ان کا معلوم کرنا ہمارے لیے ضروری نہیں۔ ہمارے لیے تو خاص سبق ہے کہ اگر ہم حوض کوثر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرنے کے خواہش مند ہیں تو مضبوطی کے ساتھ اس دین پر قائم رہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے لائے تھے اور اس میں اپنی طرف سے کوئی ترمیم یا کمی بیشی نہ کریں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کے نیک افراد سے بہت امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں جیسا کہ آپ نے فرمایا: ”آخرت میں ہر نبی کا ایک حوض ہو گا اور وہ اس بات پر باہم فخر کریں گے کہ ان میں سے کس کے پاس زیادہ پینے والے آتے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ ان سب میں سے میرے پاس آنے والوں کی تعداد زیادہ ہو گی۔ “(جامع الترمذي، صفة القیامة، حدیث: 2443)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6587