5. باب: جو شخص ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ گیا تو پھر اللہ تعالیٰ نے عمر کے بارے میں اس کے لیے عذر کا کوئی موقع باقی نہیں رکھا۔
(5) Chapter. If somebody reaches sixty years of age, he has no right to ask Allah for a new lease of life (to make up for his past shortcomings), for Allah says: "...Did We not give you lives long enough, so that whoever would receive admonition - could receive it? And the warner (of Allah) came to you..." (V.35:37)
لقوله اولم نعمركم ما يتذكر فيه من تذكر وجاءكم النذير سورة فاطر آية 37 يعني الشيب.لِقَوْلِهِ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ سورة فاطر آية 37 يَعْنِي الشَّيْبَ.
کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے «أولم نعمركم ما يتذكر فيه من تذكر وجاءكم النذير»”کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ جو شخص اس میں نصیحت حاصل کرنا چاہتا کر لیتا اور تمہارے پاس ڈرانے والا آیا، پھر بھی تم نے ہوش سے کام نہیں لیا۔“
ہم سے عبدالسلام بن مطہر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عمر بن علی بن عطاء نے بیان کیا، ان سے معن بن محمد غفاری نے، ان سے سعید بن ابی سعید مقبری نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کے عذر کے سلسلے میں حجت تمام کر دی جس کی موت کو مؤخر کیا یہاں تک کہ وہ ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ گیا۔“ اس روایت کی متابعت ابوحازم اور ابن عجلان نے مقبری سے کی۔
Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "Allah will not accept the excuse of any person whose instant of death is delayed till he is sixty years of age."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 76, Number 428
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6419
حدیث حاشیہ: یا اللہ! میں ستر سال کا پہنچ رہا ہوں، یا اللہ! موت کے بعد مجھ کو ذلت وخواری سے بچائیو اور میرے سارے ہمدردان کرام کو بھی۔ آمین یارب العالمین۔ (راز)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6419
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6419
حدیث حاشیہ: انسانی عمر کے چار حصے ہیں: ٭ سن طفولیت، جب تک وہ بالغ نہیں ہوتا۔ ٭ سن شباب، جب وہ جوان ہوتا ہے۔ ٭ سن کہولت، جب وہ ساٹھ برس کا ہو جائے۔ ٭ سن شیخوخت، جب اس سے اوپر چلا جائے۔ اس عمر میں انسان کی قوت کمزور پڑ جاتی ہے اور وہ انحطاط کا شکار ہو جاتا ہے۔ موت بھی اس کے سر پر منڈلانے لگتی ہے۔ جب انسان ساٹھ برس کا ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام عذر مسترد کر دیتا ہے۔ انسان کا اس وقت یہ عذر قبول نہیں کیا جائے گا کہ اسے توبہ و استغفار کے لیے تھوڑی عمر ملی ہے کیونکہ سن بلوغ سے ساٹھ سال تک کافی وقت ہے جس میں انسان سوچ بچار کر کے صحیح راستہ اختیار کر سکتا ہے۔ ایک آرزو٭ اے اللہ! میری اہلیہ کی وفات کے بعد میرا دل دنیا اور اہل دنیا سے اچاٹ ہو چکا ہے۔ اس وقت میری عمر ساٹھ سال سے دو سال کم ہے۔ میری خواہش ہے کہ عمر نبوت تریسٹھ سال سے پہلے تفسیر قرآن اور صحیحین کا ترجمہ اور فوائد مکمل ہو جائیں۔ میری اس خواہش کو پورا کر کے اپنے حضور میرا صدقۂ جاریہ قبول فرما۔ ٭ اے اللہ! یہ بھی آرزو ہے کہ مرنے سے پہلے مجھے اپنی رحمت کے علاوہ کسی کا محتاج نہ کر۔ موت کے بعد بھی مجھے ذلت و رسوائی سے محفوظ رکھنا۔ ٭ میری یہ بھی تمنا ہے کہ قیامت کے دن مجھے، میرے بیوی بچوں، والدین، بہن بھائیوں اور دوست احباب سمیت جنت الفدوس میں جگہ عطا فرما۔ آمین یا رب العالمین
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6419