الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6102
´غصہ میں جن پر عتاب ہے ان کو مخاطب نہ کرنا`
«. . . عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَشَدَّ حَيَاءً مِنَ الْعَذْرَاءِ فِي خِدْرِهَا، فَإِذَا رَأَى شَيْئًا يَكْرَهُهُ عَرَفْنَاهُ فِي وَجْهِهِ . . .»
”. . . ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ شرمیلے تھے، جب آپ کوئی ایسی چیز دیکھتے جو آپ کو ناگوار ہوتی تو ہم آپ کے چہرے مبارک سے سمجھ جاتے تھے۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ: 6102]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6102 کا باب: «بَابُ مَنْ لَمْ يُوَاجِهِ النَّاسَ بِالْعِتَابِ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام عالی مقام امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں فرمایا کہ غصہ میں جن پر عتاب ہوا انہیں مخاطب نہ کرنا، تحت الباب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے حدیث نقل فرمائی، حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے باب کی مطابقت ظاہر ہے، مگر سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کی حدیث سے باب کی مطابقت کچھ مشکل ہے، کیوں کہ حدیث میں مخاطب کرنے کا کوئی ذکر نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جن پر غصہ ہوتے انہیں مخاطب کرتے یا نہ کرتے، چنانچہ علامہ عینی رحمہ اللہ باب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«مطابقة للترجمة من حيث إنه لشدة حيائه لا يعاتب أحدًا فى وجهه.»
”یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں حیاء بہت زیادہ تھی اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو شخصی طور پر مخاطب کر کے نہیں ڈانٹتے تھے۔“
محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ باب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
”امام بخاری رحمہ اللہ ترجمۃ الباب کے ذریعے اس حدیث کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں جسے امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب حسن العشرۃ، (رقم الحدیث: 4788-4789) میں ذکر فرمایا ہے: ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی آدمی سے کوئی بری بات پہنچتی تو آپ یوں نہ فرماتے کہ کیا حال ہے فلاں کا؟ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوں کہتے: ”کیا حال ہے لوگوں کا، وہ یوں یوں کہتے ہیں۔“(1)
شیخ الحدیث صاحب کے مطابق امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں جو مفہوم واضح کرنے کی کوشش فرمائی ہے اس کی مؤید ابوداؤد کی حدیث ہے، یعنی ابوداؤد کی حدیث کی طرف بھی امام بخاری رحمہ اللہ کا اشارہ مقصود ہے۔
لہذا ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت یوں قائم ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی متعین شخص کو مخاطب فرما کر عتاب نہیں فرماتے تھے، بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے اس عمل کا ناپسندیدہ ہونا پہچان لیتے، جیسا کہ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کی حدیث سے واضح ہے، پس یہیں سے باب اور حدیث میں مطابقت ہے۔
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 188