282. حضرت ام المومنین ام سلمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ابوطلحہ کی بیوی حضرت ام سلیم ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ حق بات بیان کرنے سے حیا نہیں کرتا، جب عورت کو احتلام ہو جائے تو کیا اس پر غسل واجب ہوتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”ہاں، جب پانی دیکھے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:282]
حدیث حاشیہ: 1۔
انصار کی عورتیں ایسے مسائل دریافت کرنے میں کسی قسم کی روایتی شرم سے کام نہ لیتی تھی جن کا تعلق صرف عورتوں سے ہوتا تھا، چنانچہ حضرت ام سلیم ؒ نے سب سے پہلے نہایت خوبصورتی کے ساتھ اللہ کی صفت حیا بیان فرمائی کہ وہ حق بات بیان کرنے سے نہیں شرماتا، پھر شرم وحیا کے دائرے میں رہتے ہوئے وہ مسئلہ دریافت کیا جو بظاہر شرم سے متعلق تھا مگرایک مسئلہ ہونے کی حیثیت سے دریافت طلب ضرور تھا۔
اگرآپ اس کے دریافت کرنے میں عورتوں جیسی شرم سے کام لیتیں تو نہ صرف ایک دینی حکم سے محروم رہتیں بلکہ دوسری تمام مسلمان عورتیں بھی اس سے ناواقف رہتیں۔
اس اعتبار سے رسول اللہ ﷺ کا اس امت پر بڑا احسان ہے کہ آپ نے ذاتی زندگی سے متعلق وہ باتیں کھول کر بیان کردیں جنھیں عام طور پر روایتی شرم وحیا کے پیش نظر بیان نہیں کیا جاتا۔
دوسری طرف صحابیات مبشرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کا بھی اس امت پر بہت احسان ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے ایسے ایسے سوالات دریافت کیے جن کی ہر مسلمان عورت کو زندگی میں ضرورت پیش آسکتی تھی، اور جومسائل بعض اوقات اپنے خاوند سے بھی دریافت کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے۔
2۔
لفظ استحیاء میں ایک انفعالی کیفیت ہے جسے حافظ ابن حجر ؒ نے تغیر وانکسار سے تعبیر کیا ہے۔
علماء کو اس مقام پر بڑا اشکال ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف اسے کس معنی میں منسوب کیا جائے؟ ان حضرات کے بقول اس معنی کے لحاظ سے اللہ کی طرف نسبت کرنا صحیح نہیں، لہذا انھوں نے اس کی بایں الفاظ تاویل کرڈالی کہ اللہ تعالیٰ حق کے معاملات میں شرم وحیا کا حکم نہیں دیتا۔
درست بات یہ ہے کہ جن امور کی نسبت خود اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات اقدس کی طرف کی ہے ان کی نسبت اللہ کی طرف کرنے میں ہم بھی تامل نہیں کریں گے۔
البتہ ان کی کیفیت کا ہمیں علم نہیں، لہذا کیفیت کا معاملہ اللہ کے سپرد کریں گے۔
اس مقام پر بھی تاویل کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔
صفت حیا کو اللہ کی طرف بایں طور منسوب کریں گے جو اس کی شایان شان ہے اور اس طرح کہ کسی طرح بھی مخلوق اس صفت میں اپنے خالق سے مشابہت نہیں رکھتی، جیسا کہ دیگر صفات باری تعالیٰ کے متعلق اہل حق کا موقف ہے۔
یہی نجات کا راستہ اور حق بات ہے۔
3۔
اس عنوان سے امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ مرد کی طرح عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے، لیکن بحالت خواب اگروہ جماع کی حالت دیکھے تو بیداری کے بعد اگراپنے کپڑے پر تری دیکھے تو عورت پر غسل واجب ہوجاتا ہے۔
احتلام کے متعلق مرد وعورت میں مساوات کا حکم ہے کہ حالتِ نوم میں بصورت انزال دونوں پرغسل واجب ہوجاتا ہے اور بصورت عدم انزال دونوں پر غسل واجب نہیں ہوگا، چنانچہ امام ترمذی ؒ انے اپنی جامع میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیاہے
”جوشخص بیدار ہو،تری دیکھے لیکن احتلام کا خواب یاد نہ ہو
“ پھر انھوں نے حضرت عائشہ ٍؓ سے مروی ایک حدیث بیان کی ہے:
رسول اللہ ﷺ سے سوال ہوا کہ جو شخص تری دیکھے اوراسے احتلام کا خواب یاد نہ ہو تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟آپ نے فرمایا:
”وہ غسل کرے۔
“ پھر ایسے شخص کے متعلق سوال ہوا جسے احتلام تو یاد ہومگرتری نہ دیکھے؟آپ نے فرمایا:
”اس پر غسل نہیں۔
“ اس پر حضرت ام سلیم نے عرض کیا:
یارسول اللہ ﷺ !اگر عورت ایسا دیکھے تو کیا اس پر بھی غسل ہے؟ آپ نے فرمایا:
”ہاں اس پر بھی غسل ہے کیونکہ عورتیں بھی تومردوں کی طرح ہیں۔
“ (جامع الترمذي، الطھارة، حدیث: 113) یہ احادیث مجرد وجود منی کو معتبر ٹھہراتی ہیں، خواہ اس کے ساتھ دفق وشہوت ہو یا نہ ہو۔
4۔
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس حدیث سے ان حضرات کا موقف غلط ثابت ہوا جو کہتے ہیں کہ عورت کے پانی میں خروج وبروز ہوتا ہی نہیں اور اس کے انزال کو صرف اس کی شہوت ہی سے معلوم کیا جا سکتا ہے، لہٰذا ان کے نزدیک پانی دیکھنے سے مراد پانی کا معلوم ہو جانا ہے۔
یعنی روئیت، علم کے معنی میں ہے۔
ان کا یہ خیال درست نہیں۔
کلام کو ظاہر پر محمول کرنا زیادہ قرین قیاس ہے۔
(فتح الباري: 505/1) ایک روایت میں ہے کہ حضرت ام سلمہ ؓ نے تعجب کے طور پر سوال کیا:
آیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا:
”کیوں نہیں؟ایسا ہوتا ہے ورنہ بچے میں ماں کی شکل وصورت کیسے آتی ہے؟
“ اس سے ثابت ہوا کہ مرد کی طرح عورت کا بھی مادہ منویہ ہوتا ہے اور بچہ دونوں کے نطفے سے پیدا ہوتا ہے۔
جب عورت کے لیے منی کا وجود ثابت ہے تو اس کا انزال اورخروج بھی ممکن ہے، اگرچہ بحالت خواب ایساکم ہوتا ہے۔
5۔
صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں کہ مرد کا پانی گاڑھا سفید اور عورت کا پانی رقیق زرد ہوتا ہے اور دونوں میں سے جس کا پانی غالب آ جائے اس کی شکل وشباہت بچہ اختیار کرتا ہے۔
بعض روایات میں ہے کہ جس کا پانی رحم مادر میں پہلے پہنچ جائے، بچہ تذکیر و تانیث اس کی اختیارکرتا ہے۔
اس بنا پر چارصورتیں ممکن ہیں:
۔
رحم مادر میں مرد کا پانی پہلے پہنچتا ہے اورعورت کے پانی پر غالب آجاتا ہے تو اس صورت میں بچہ نرہوگا اور شکل وصورت بھی ددھیال کی اختیار کرے گا۔
۔
رحم مادر میں عورت کا پانی پہلے پہنچتا ہے اور عورت ہی کا پانی غالب آتا ہے تو بچہ مادہ ہو گا اور ننھیال کی شکل و صورت اختیار کرے گا۔
۔
رحم مادر میں مرد کا پانی پہلے پہنچتا ہے، لیکن غالب عورت کا پانی آتا ہے تو اس صورت میں بچہ نر ہوگا، لیکن شکل وصورت میں ننھیال جیساہوگا۔
۔
رحم مادر میں عورت کا پانی پہلے پہنچتا ہے، لیکن غالب مرد کا پانی آتا ہے تو اس صورت میں بچہ مادہ ہوگا، لیکن شکل وصورت ددھیال جیسی اختیار کرے گا۔
واللہ أعلم۔