الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 156
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ نے فرمایا: ”حیاء خیرو بھلائی ہی کا باعث ہے۔“ تو بشیر بن کعب نے کہا: حکمت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اس میں بعض وقار سے اور بعض سکون سے، تو عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تمھیں رسول اللہ ﷺکی حدیث سناتا ہوں اور تم (اس کے مقابلہ میں) اپنی کتابوں کی باتیں سناتے ہو۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:156]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
وقار:
سوچ،
سمجھ کر کام کرنا،
عجلت اور جلد بازی کا مظاہرہ نہ کرنا،
اس کے قریب سکینہ ہے،
اطمینان اور سکون وثبات،
اضطراب و گھبراہٹ سے احتراز کرنا۔
فوائد ومسائل:
قرآن وحدیث کے مقابلہ میں کسی بڑے سے بڑے دانشمند یا امام کا قول پیش کرنا مناسب نہیں ہے،
کیونکہ رسول معصوم ہے اور دوسرا کوئی انسان معصوم نہیں۔
آئندہ روایت میں تفصیل ہے کہ اس نے حیاء کی دو قسمین بنائیں اور کہا کہ بعض تو وقار اور سکون ہوتے ہیں اور بعض دفعہ حیاء آدمی کی کمزوری اور بزدلی ہوتا ہے،
اس پر صحابی (رضی اللہ عنہ)
کو غصہ آیا کہ نبی ﷺ تو حیا کو سراسر خیر کہہ رہے ہیں اور یہ حیاء کی بعض قسموں کو ضعف اوربزدلی قرار دے رہا ہے اس لیے اس پر ناراض ہوئے جیسا کہ اگلی حدیث میں تفصیل آرہی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 156