1073 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا عبيد الله بن ابي يزيد، عن نافع بن جبير بن مطعم، عن ابي هريرة، قال: خرجت مع رسول الله صلي الله عليه وسلم في طائفة من النهار لا يكلمني ولا اكلمه، حتي اتي سوق قينقاع، ثم انصرف حتي اتي فناء عائشة، فجلس فيه، ثم قال: «اثم اثم، يعني حسنا» فظننت انه إنما تحبسه امه لان تغسله وتلبسه سخابا، فلم يلبث ان جاء يسعي حتي اعتنق كل واحد منهما صاحبه، فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم: «اللهم إني احبه فاحبه واحب من يحبه» 1073 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي يَزِيدَ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعَمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي طَائِفَةٍ مِنَ النَّهَارِ لَا يُكَلَّمُنِي وَلَا أُكَلِّمُهُ، حَتَّي أَتَي سُوقَ قَيْنُقَاعٍ، ثُمَّ انْصَرَفَ حَتَّي أَتَي فِنَاءَ عَائِشَةَ، فَجَلَسَ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ: «أَثَمَّ أَثَمَّ، يَعْنِي حَسَنًا» فَظَنَنْتُ أَنَّهُ إِنَّمَا تَحْبِسُهُ أُمُّهُ لِأَنْ تُغَسِّلَهُ وَتُلْبِسُهُ سِخَابًا، فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ جَاءَ يَسْعَي حَتَّي اعْتَنَقَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللَّهُمُّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ وَأَحِبَّ مَنْ يُحِبُّهُ»
1073- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: ایک مرتبہ میں دن کے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ چند دیگر لوگوں سمیت جارہا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ کوئی بات نہیں کی۔ میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی بات نہیں کی یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنو قنیقاع کے بازار میں تشریف لائے۔ پھر وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مڑے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے آئے۔ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ”کیا وہ یہاں ہے؟ کیا وہ یہاں ہے؟“ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھ رہے تھے میں نے یہ اندازہ لگایا کہ ان کی والدہ نے انہیں روکا ہوا ہے، جوانہیں نہلا رہی تھیں اور انہوں نے انہیں ہار پہنا یا تھا۔ تھوڑی دیر بعد سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ دوڑتے ہوئے آئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گلے لگ گئے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ”اے اللہ! میں اس سے محبت رکھتا ہوں، تو بھی اس سے محبت رکھ اور جو شخص اس سے محبت رکھتا ہواس سے بھی محبت رکھ“۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2122، 5884، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2421، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6963، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 4805، 4819، 4827، 4849، 4851، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 8108، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 142، 143، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6995، 21135، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7516، 7991»
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث142
´علی رضی اللہ عنہ کے بیٹوں حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے مناقب و فضائل۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: ”اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر، اور اس سے بھی محبت کر جو اس سے محبت کرے“۱؎۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 142]
اردو حاشہ: (1) اس میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی فضیلت ہے کہ ان سے محبت اللہ کی محبت کے حصول کا ذریعہ ہے۔
(2) اپنے بچوں سے محبت کا اظہار کرنا، معاشرہ میں بلند مقام رکھنے والوں کی شان کے منافی نہیں بلکہ اخلاق حسنہ میں شامل ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 142
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6257
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دن کو ایک وقت میں نکلا، کہ نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے بات کرتے تھے اور نہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرتا تھا (یعنی خاموش چلے جاتے تھے) یہاں تک کہ بنی قینقاع کے بازار میں پہنچے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹے اور سیدہ فاطمۃالزہراء ؓ کے گھر پر آئے اور پوچھا کہ بچہ ہے؟ بچہ ہے؟ یعنی سیدنا حسن ؓ کا پوچھ رہے تھے۔ ہم سمجھے کہ ان کی ماں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6257]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) في طائفة من النهار: دن کے کسی حصہ میں، (2) صائفة: تو دن کی گرمی میں، (3) لا يكلمني ولا اكلمه: آپ ذکر و فکر میں مشغولیت کی بنا پر چپ چاپ چل رہے اور حضرت ابو ہریرہ، آپ کے ادب و احترام میں آپ کی مشغولیت میں دخل اندازی نہیں کرنا چاہتے تھے، اس لیے وہ بھی آپ سے کلام نہیں کر رہے تھے۔ (4) خباء: خیمہ کو کہتے ہیں، لیکن یہاں مراد گھر ہے اور بخاری شریف میں گھر کے سامنے کا آنگن، فناء کا لفظ ہے۔ (5) لكع: کمینے کو کہتے ہیں، لیکن پیار و محبت کے لیے چھوٹے بچے کو بھی کہہ دیتے ہیں۔ (6) سخاب: خوشبو سے تیار کردہ ہار اور بقول بعض مونگوں کا ہار۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6257
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5884
5884. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مدینہ طیبہ کےایک بازار میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھا آپ واپس آئے تو میں بھی آپ کے ساتھ واپس آیا آپ نے فرمایا: ”بچہ کہاں ہے“۔۔۔۔؟ ”آپ نے یہ تین مرتبہ فرمایا:۔۔۔ حسن بن علی ؓ کو بلاؤ۔“ چنانچہ حضرت حسن بن علی ؓ کھڑے ہوئے چل کر (آپ کی طرف) آ رہے تھے جبکہ ان کے گلے میں ایک خوشبودار (لونگ وغیرہ کا) ہار تھا۔ نبی ﷺ نے اپنے ہاتھ پھیلائے تو حضرت حسن بن علی ؓ نے بھی اسی طرح ہاتھ پھیلائےآپ نے انہیں گلے لگا کر فرمایا: ”اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر اور اس سے بھی محبت کر جو اس سے محبت کرے۔“ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کے بعد کوئی شخص بھی مجھے حضرت حسن بن علی ؓ سے زیادہ پیارا نہیں تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5884]
حدیث حاشیہ: فی الواقع آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنا شان ایمان ہے۔ یا اللہ! میرے دل میں بھی تیرے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے آل واولاد سے محبت پیدا کر۔ ومن مذھبي حب النبي وآله والناس فیما یعشقون مذاھب حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے گلے میں ہار تھا اسی سے باب کا مضمون نکلتا ہے نابالغ بچوں کے لیے ایسے ہار وغیرہ پہنا دینا جائز ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5884
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2122
2122. حضرت ابو ہریرہ دوسی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ دن کے وقت ایک طرف نکلے مگر نہ آپ مجھ سے باتیں کرتے اور نہ میں آپ سے کوئی بات کرتا تھا حتی کہ آپ بنو قینقاع کے بازار میں پہنچ گئے۔ (پھر واپس ہوئے) اور حضرت فاطمہ ؓ کے مکان کے صحن میں بیٹھ گئے تو فرمایا: ”کیا یہاں کوئی بچہ ہے؟کیا ادھر کوئی ننھا ہے؟“ حضرت فاطمہ ؓ نے اسے کچھ دیر کے لیے روکے رکھا۔ میں نے خیال کیا کہ وہ انھیں ہار وغیرہ پہنا رہی ہیں یا اسے نہلا رہی ہیں۔ پھر وہ (حضرت حسن ؓ) دوڑتے ہوئے آئے تو آپ ﷺ نے انھیں گلے لگایااور ان سے پیار کیا، پھر فرمایا: ”اے اللہ!تو اس سے محبت کر اور جو اس سے محبت کرے اسے بھی اپنا محبوب بنا۔ “[صحيح بخاري، حديث نمبر:2122]
حدیث حاشیہ: (1) صحیح مسلم کی روایت میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بازار بنو قینقاع سے واپس آئے،پھر حضرت فاطمہ ؓ کے گھر میں داخل ہوئے۔ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث: 6257(2421) یہ وضاحت اس لیے کی گئی ہے کہ حضرت فاطمہ ؓ کا گھر بنو قینقاع کے بازار میں نہیں تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بخاری کی اس روایت میں راوی سے کچھ الفاظ رہ گئے ہیں۔ (فتح الباري: 432/4) (2) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ بازار بنو قینقاع تشریف لے گئے، اس لیے بازاروں میں آنا جانا اور معاملات کرنا کوئی مذموم امر نہیں۔ ضروریات زندگی کے لیے بہر حال ہر کسی کو بازار جا نا پڑتا ہے۔ امام بخاری ؒ کا مقصد بھی اس امر کا بیان کرنا ہے کیونکہ بیوع کا تعلق زیادہ تر بازاروں ہی سے ہے۔ (3) وتر سے متعلق نافع ؒ کے عمل کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عبیداللہ کی نافع سے ملاقات ثابت ہے،اس لیے مذکورہ حدیث میں ان کا ''عن''سے بیان کرنا صحت حدیث پر اثر انداز نہیں ہوگا۔ (عمدة القاري: 404/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2122
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5884
5884. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مدینہ طیبہ کےایک بازار میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھا آپ واپس آئے تو میں بھی آپ کے ساتھ واپس آیا آپ نے فرمایا: ”بچہ کہاں ہے“۔۔۔۔؟ ”آپ نے یہ تین مرتبہ فرمایا:۔۔۔ حسن بن علی ؓ کو بلاؤ۔“ چنانچہ حضرت حسن بن علی ؓ کھڑے ہوئے چل کر (آپ کی طرف) آ رہے تھے جبکہ ان کے گلے میں ایک خوشبودار (لونگ وغیرہ کا) ہار تھا۔ نبی ﷺ نے اپنے ہاتھ پھیلائے تو حضرت حسن بن علی ؓ نے بھی اسی طرح ہاتھ پھیلائےآپ نے انہیں گلے لگا کر فرمایا: ”اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر اور اس سے بھی محبت کر جو اس سے محبت کرے۔“ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کے بعد کوئی شخص بھی مجھے حضرت حسن بن علی ؓ سے زیادہ پیارا نہیں تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5884]
حدیث حاشیہ: (1) واقعی آلِ رسول سے محبت کرنا ایمان کی علامت ہے۔ ”اے اللہ! ہمارے دل میں اللہ اور آل رسول کی محبت پیدا فرما۔ “ اس حدیث میں ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے گلے میں خوشبودار ہار تھا، اس لیے بچوں کے گلے میں اس طرح کے خوشبودار ہار ڈالے جا سکتے ہیں، خواہ وہ پھولوں کے ہوں یا خوشبودار موتیوں کے ہوں۔ (2) عرب کے لوگ لونگ کے ہار بھی بچوں کو پہنانے کا رواج تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دن چڑھے بنو قینقاع کے بازار گئے وہاں سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے، آپ نے فرمایا: ”بچہ کدھر ہے؟“ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے انہیں نہلایا اور خوشبودار ہار پہنایا تو وہ دوڑ کر آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغل گیر ہو گئے۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2122)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5884