(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا ابو عامر، حدثنا إبراهيم بن نافع، عن الحسن، عن طاوس، عن ابي هريرة، قال:" ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم مثل البخيل والمتصدق، كمثل رجلين عليهما جبتان من حديد، قد اضطرت ايديهما إلى ثديهما وتراقيهما، فجعل المتصدق كلما تصدق بصدقة انبسطت عنه حتى تغشى انامله، وتعفو اثره، وجعل البخيل كلما هم بصدقة قلصت واخذت كل حلقة بمكانها"، قال ابو هريرة: فانا رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: بإصبعه هكذا في جيبه فلو رايته يوسعها ولا تتوسع، تابعه ابن طاوس، عن ابيه، وابو الزناد، عن الاعرج، في الجبتين، وقال حنظلة، سمعت طاوسا، سمعت ابا هريرة يقول: جبتان، وقال جعفر بن حيان، عن الاعرج، جبتان.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:" ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَثَلَ الْبَخِيلِ وَالْمُتَصَدِّقِ، كَمَثَلِ رَجُلَيْنِ عَلَيْهِمَا جُبَّتَانِ مِنْ حَدِيدٍ، قَدِ اضْطُرَّتْ أَيْدِيهِمَا إِلَى ثُدِيِّهِمَا وَتَرَاقِيهِمَا، فَجَعَلَ الْمُتَصَدِّقُ كُلَّمَا تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ انْبَسَطَتْ عَنْهُ حَتَّى تَغْشَى أَنَامِلَهُ، وَتَعْفُوَ أَثَرَهُ، وَجَعَلَ الْبَخِيلُ كُلَّمَا هَمَّ بِصَدَقَةٍ قَلَصَتْ وَأَخَذَتْ كُلُّ حَلْقَةٍ بِمَكَانِهَا"، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَأَنَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: بِإِصْبَعِهِ هَكَذَا فِي جَيْبِهِ فَلَوْ رَأَيْتَهُ يُوَسِّعُهَا وَلَا تَتَوَسَّعُ، تَابَعَهُ ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَأَبُو الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، فِي الْجُبَّتَيْنِ، وَقَالَ حَنْظَلَةُ، سَمِعْتُ طَاوُسًا، سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: جُبَّتَانِ، وَقَالَ جَعْفَرُ بْنُ حَيَّانَ، عَنْ الْأَعْرَجِ، جُبَّتَانِ.
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوعامر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن نافع نے بیان کیا، ان سے امام حسن بصری نے، ان سے طاؤس نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بخیل اور صدقہ دینے والے کی مثال بیان کیا کہ دو آدمیوں جیسی ہے جو لوہے کے جبے ہاتھ، سینہ اور حلق تک پہنے ہوئے ہیں۔ صدقہ دینے والا جب بھی صدقہ کرتا ہے تو اس کے جبہ میں کشادگی ہو جاتی ہے اور وہ اس کی انگلیوں تک بڑھ جاتا ہے اور قدم کے نشانات کو ڈھک لیتا ہے اور بخیل جب بھی کبھی صدقہ کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا جبہ اسے اور چمٹ جاتا ہے اور ہر حلقہ اپنی جگہ پر جم جاتا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح اپنی مبارک انگلیوں سے اپنے گریبان کی طرف اشارہ کر کے بتا رہے تھے کہ تم دیکھو گے کہ وہ اس میں وسعت پیدا کرنا چاہے گا لیکن وسعت پیدا نہیں ہو گی۔ اس کی متابعت ابن طاؤس نے اپنے والد سے کی ہے اور ابوالزناد نے اعرج سے کی ”دو جبوں“ کے ذکر کے ساتھ اور حنظلہ نے بیان کیا کہ میں نے طاؤس سے سنا، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا «جبتان.» اور جعفر نے اعرج کے واسطہ سے «جبتان.» کا لفظ بیان کیا ہے۔
Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle has set forth an example for a miser and a charitable person by comparing them to two men wearing two iron cloaks and their hands are raised to their breasts and necks. Whenever the charitable man tries to give a charitable gift, his iron cloak expands till it becomes so wide that it will cover his fingertips and obliterate his tracks And, whenever the miser wants to give a charitable gift, his cloak becomes very tight over him and every ring gets stuck to its place Abu Huraira added; I saw Allah's Apostle putting his finger in the (chest) pocket of his shirt like that If you but saw him trying to widen (the opening of his shirt) but it did not widen.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 72, Number 689
مثل البخيل والمتصدق كمثل رجلين عليهما جبتان من حديد قد اضطرت أيديهما إلى ثديهما وتراقيهما فجعل المتصدق كلما تصدق بصدقة انبسطت عنه حتى تغشى أنامله وتعفو أثره وجعل البخيل كلما هم بصدقة قلصت وأخذت كل حلقة بمكانها
مثل البخيل والمتصدق مثل رجلين عليهما جبتان من حديد قد اضطرت أيديهما إلى تراقيهما فكلما هم المتصدق بصدقته اتسعت عليه حتى تعفي أثره وكلما هم البخيل بالصدقة انقبضت كل حلقة إلى صاحبتها وتقلصت عليه وانضمت يداه إلى تراقيه
مثل البخيل والمتصدق مثل رجلين عليهما جنتان من حديد إذا هم المتصدق بصدقة اتسعت عليه حتى تعفي أثره وإذا هم البخيل بصدقة تقلصت عليه وانضمت يداه إلى تراقيه وانقبضت كل حلقة إلى صاحبتها فيجهد أن يوسعها فلا يستطيع
مثل البخيل والمتصدق كمثل رجلين عليهما جنتان من حديد قد اضطرت أيديهما إلى ثديهما وتراقيهما فجعل المتصدق كلما تصدق بصدقة انبسطت عنه حتى تغشي أنامله وتعفو أثره وجعل البخيل كلما هم بصدقة قلصت وأخذت كل حلقة مكانها
مثل المنفق والمتصدق كمثل رجل عليه جبتان أو جنتان من لدن ثديهما إلى تراقيهما فإذا أراد المنفق وقال الآخر فإذا أراد المتصدق أن يتصدق سبغت عليه أو مرت وإذا أراد البخيل أن ينفق قلصت عليه وأخذت كل حلقة موضعها حتى تجن بنانه وتعفو أثره
مثل المنفق المتصدق والبخيل كمثل رجلين عليهما جبتان أو جنتان من حديد من لدن ثديهما إلى تراقيهما فإذا أراد المنفق أن ينفق اتسعت عليه الدرع أو مرت حتى تجن بنانه وتعفو أثره وإذا أراد البخيل أن ينفق قلصت ولزمت كل حلقة موضعها حتى إذا أخذته برقبته
مثل البخيل والمتصدق مثل رجلين عليهما جنتان من حديد قد اضطرت أيديهما إلى تراقيهما فكلما هم المتصدق بصدقة اتسعت عليه حتى تعفي أثره وكلما هم البخيل بصدقة تقبضت كل حلقة إلى صاحبتها وتقلصت عليه وانضمت يداه إلى تراقيه
مثل البخيل والمتصدق كمثل رجلين عليهما جبتان أو جنتان من حديد إلى ثدييهما أو إلى تراقيهما فجعل المتصدق كلما تصدق بشيء ذهبت عن جلده حتى تجن بنانه ويعفو أثره وجعل البخيل كلما أنفق شيئا أو حدث به نفسه عضت كل حلقة مكانها فيوسعها ولا تتسع
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5797
حدیث حاشیہ: جبتان سے دو کرتے اور جنتان سے دو زرہیں مراد ہیں اپنے گریبان کی طرف اشارہ کرنے ہی سے باب کا مطلب نکلتا ہے کہ آپ کے کرتے کا گریبان سینے پر تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5797
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5797
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث کے مطابق خرچ کرنے والے کی مثال اس شخص جیسی ہے جس نے زرہ پہنی اور وہ اس پر ڈھیلی ہو گئی حتی کہ اس نے اس کے سارے بدن کو ڈھانپ لیا اور وہ پاؤں کی انگلیوں تک پہنچ گئی اور بخیل کی مثال اس شخص جیسی ہے جس کا ہاتھ اس کی گردن سے چمٹا ہوا ہے اور اس کی زرہ اس قدر تنگ ہے کہ ہاتھ باہر نہیں نکلتا اور وہ زرہ ڈھیلی نہیں ہوتی بلکہ اس کا ہر حلقہ اپنی جگہ پر جم جاتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گریبان کی طرف اشارہ فرمایا جو آپ کی قمیص میں سینے کے پاس تھا۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے عنوان ثابت کیا ہے کہ گریبان سینے کے پاس ہوتا ہے۔ حضرت قرہ کہتے ہیں کہ میں قبیلۂ مزینہ کی ایک جماعت کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص کے بٹن کھلے ہوئے تھے۔ میں نے اپنا ہاتھ آپ کے گریبان میں ڈال کر مہر نبوت کو چھوا۔ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4082) اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص کا گریبان سینے کے پاس تھا۔ (3) واضح رہے کہ بٹن کھلے رکھنا اگر تواضع اور عاجزی کے طور پر ہو تو باعث اجروثواب ہے لیکن ہمارے ہاں اوباش لڑکے اپنا گریبان کھلا رکھتے ہیں، لہذا ان کی مشابہت سے بچنا ضروری ہے کیونکہ ایسا کرنا ان کے ہاں تکبر کی علامت ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5797
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 3
´بخیل اور سخی کی تمثیل` «. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَثَلُ الْبَخِيلِ وَالْمُتَصَدِّقِ، كَمَثَلِ رَجُلَيْنِ عَلَيْهِمَا جُبَّتَانِ أَوْ جُنَّتَانِ مِنْ حَدِيدٍ إِلَى ثَدْيَيْهِمَا أَوْ إِلَى تَرَاقِيهِمَا، فَجَعَلَ الْمُتَصَدِّقُ كُلَّمَا تَصَدَّقَ بِشَيْءٍ ذَهَبَتْ عَنْ جِلْدِهِ حَتَّى تُجِنَّ بَنَانَهُ وَيَعْفُوَ أَثَرُهُ، وَجَعَلَ الْبَخِيلُ كُلَّمَا أَنْفَقَ شَيْئًا أَوْ حَدَّثَ بِهِ نَفْسَهُ، عَضَّتْ كُلُّ حَلْقَةٍ مَكَانَهَا فَيُوَسِّعُهَا وَلا تَتَّسِعُ .» ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بخیل اور صدقہ دینے والے کی مثال ایسے دو شخصوں کی سی ہے جن کے بدن پر لوہے کے دو کرتے یا دو زرہیں ہوں، جو ان کی چھاتی یا ہنسلی تک ہوں۔ جب صدقہ دینے والا کوئی چیز صدقہ کرتا ہے تو وہ اس کے جسم سے دور ہٹتا جاتا ہے، اور اس کی انگلیوں کو چھپا دیتا ہے اور (چلنے میں) اس کے پاوں کا نشان مٹتا جاتا ہے۔ اور بخیل جب بھی کوئی چیز خرچ کرتا ہے یا خرچ کرنے کا اپنے دل میں ارادہ کرتا ہے تو اس کرتے یا زرہ کا ہر حلقہ اپنی جگہ کاٹنے لگتا ہے۔ بخیل اسے کشادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ کشادہ نہیں ہو پاتا۔“[صحيفه همام بن منبه/متفرق: 3]
شرح الحدیث: اس حدیث میں بخیل اور صدقہ کرنے والے کی مثالیں بیان کی گئی ہیں۔ سخی کی زرہ اتنی کشادہ ہو جاتی ہے کہ اس کی انگلیاں اس میں چھپ جاتی ہیں، اور اتنی نیچے ہو جاتی ہے جیسے بہت نیچا کپڑا، آدمی جب چلے تو وہ زمین پر گھسٹتا رہتا ہے، اور پاؤں کا نشان مٹا دیتا ہے، یعنی سخی آدمی کا دل روپیہ خرچ کرنے سے خوش ہوتا ہے، اور کشادہ ہو جاتا ہے۔ بخیل کی زرہ پہلے ہی مرحلے پر اس کے جسم کو کاٹنے لگتی ہے اور اس کو سخاوت کی توفیق ہی نہیں ہوتی۔ اس کے ہاتھ زرہ کے اندر قید ہوکر رہ جاتے ہیں۔ [ارشاد الساري: 38/3]
امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”سخی جب اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کام کے لیے اس کا سینہ کشادہ ہو جاتا ہے، اور اس کے ہاتھ بھی اس معاملہ میں اتفاق کرتے ہیں، اور وہ ہاتھ کھلا رکھ کر خرچ کرتا ہے کم خرچ نہیں کرتا۔ اور بخیل کا سینہ تنگ ہو جاتا ہے، اور اس کے ہاتھ نیکی کے کام میں خرچ کرنے سے کتراتے ہیں۔“[شرح السنة للبغوي: 159/6]
صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 3
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2548
´بخیل کے صدقے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صدقہ کرنے والے فیاض اور بخیل کی مثال ان دو آدمیوں کی سی ہے جن پر لوہے کے دو کرتے یا دو ڈھال ان دونوں کی چھاتیوں سے لے کر ان کی ہنسلی کی ہڈیوں تک ہوں، جب فیاض خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی زرہ اس کے بدن پر کشادہ ہو جاتی ہے، پھیل کر اس کی انگلیوں کے پوروں کو ڈھانپ لیتی ہے، اور اس کے نشان قدم کو مٹا دیتی ہے، اور جب بخیل خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ سکڑ جاتی ہے اور اس کی کڑیاں اپنی جگ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2548]
اردو حاشہ: (1)”لوہے کے کُرتے یا زرہیں۔“ زرہ چمڑے کی بھی ہوتی ہے، اس لیے لوہے کی صراحت فرمائی کہ تاکہ آئندہ مثال میں زور پیدا ہو۔ (2)”سینوں کو۔“ ویسے بھی زرہ سینے کے لیے ہوتی ہے۔ یہاں خصوصاً سینے کا ذکر اس لیے ہے کہ انسان کا دل، جس سے سخاوت اور کنجوسی کا تعلق ہے، سینے میں ہوتا ہے۔ اس مثال میں زرہ سے مراد نفس کا شکنجہ ہے جو وہ روح پر چڑھائے رکھتا ہے جو روحانی کمالات کے ظہور سے مانع ہوتا ہے۔ (3)”کھل جاتی ہے۔“ یعنی سخی کا دل اس شکنجے کو کھول دیتا ہے حتیٰ کہ سخاوت کا اثر پورے جسم پر نمایاں ہوتا ہے اور اس کے ہاتھ بھی کھل کر سخاوت کرتے ہیں۔ نشانات قدم کو مٹانے سے مراد اس کی غلطیوں کو ختم کرنا ہے۔ یا مطلب یہ ہے کہ جس طرح یہ زرہ اس کے سارے جسم کو ڈھانپ لیتی ہے، اسی طرح قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کے عیوب کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ (4)”سکڑ جاتی ہے۔“ یعنی اس کا دل تنگ ہو جاتا ہے اور وہ صدقہ کرنے کی ہمت نہیں پاتا حتیٰ کہ اس کے لیے صدقہ کرنا اپنا گلا گھونٹنے والی بات بن جاتی ہے۔ جس طرح زرہ اس کے گلے تک سکڑ گئی، اسی طرح اس کا دل تنگ ہو جااتا ہے اور اسے صدقے کی توفیق نہیں ہو پاتی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2548
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2549
´بخیل کے صدقے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بخیل اور صدقہ دینے والے (سخی) کی مثال ان دو شخصوں کی ہے جن پر لوہے کی زرہیں ہوں، اور ان کے ہاتھ ان کی ہنسلیوں کے ساتھ چمٹا دیئے گئے ہوں، تو جب جب صدقہ کرنے والا صدقہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی زرہ اس کے لیے وسیع و کشادہ ہو جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اتنی بڑی ہو جاتی ہے کہ چلتے وقت اس کے پیر کے نشانات کو مٹا دیتی ہے، اور جب بخیل صدقہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو ہر کڑی دوسرے کے ساتھ پیوست۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2549]
اردو حاشہ: سخی آدمی صدقہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا دل فراخ ہو جاتا ہے، ہاتھ کھل جاتے ہیں اور تمام رکاوٹیں دور ہو جاتی ہیں۔ اور کنجوس شخص صدقے کا ارادہ کرے بھی تو اس کا دل مزید تنگ ہو جاتا ہے، گویا کہ ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ وہ زنجیروں میں جکڑے شخص کی طرح لا چار ہو جاتا ہے اور صدقہ نہیں کر پاتا۔ أَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْہ
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2549
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2359
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خرچ کرنے والے اور صدقہ دینے والے کی مثال اس آدمی کی مثال ہے جو چھاتی سے لے کر گلے تک دو کرتے یا دو زرہیں پہنے ہوئے ہے۔ جب خرچ کرنے والے اور دوسرے راوی کے بقول صدقہ دینے والا۔ صدقہ دینے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ زرہ (پورے جسم پر) پھیل جاتی ہے یا پوری ہو جاتی ہے اور جب بخیل خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ (اپنی جگہ) جسم پر سکڑ جاتی ہے اور ہر... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:2359]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: سخی اور بخیل کی صحیح تمثیل اگلی روایات میں آگئی ہے اس حدیث میں تقدیم و تاخیر اور تحریف ہو گئی ہے۔ (مَثَلُ الْمُنْفِقِ وَالْمُتَصَدِّقِ) کی جگہ (مَثَلُ الْبَخِيلِ وَالْمُنْفِقِ) ہونا چاہیے (كَمَثَلِ رَجُل) کی جگہ (كَمَثَلِ رَجُلَيْنِ، ) ہونا چاہیے (جبتان او جَنَّتَانِ) کی جگہ جَنَّتَانِ ہے (تُجِنُّ بَنَانَهُ، وَتَعْفُو أَثَرَهُ) کا تعلق متصدق سے ہے بخیل سے نہیں ہے اور (يوسعها فلا تتسع) کا تعلق بخیل سے ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2359
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2361
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بخیل اور صدقہ دینے والے کی مثال دو آدمیوں کی مثال ہے جو لوہے کی زرہ پہنے ہوئے ہیں جب صدقہ دینے والا صدقہ دینے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ کشادہ ہو جاتی ہے حتی کہ اس کے نقش کو مٹا دیتی ہے اور جب بخیل صدقہ دینے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اس پر سکڑ جاتی ہے اور اس کے دونوں ہاتھ اس کی ہنسلی سے بندھ جاتے ہیں اور ہر حلقہ دوسرے حلقہ کے ساتھ پیوست ہو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:2361]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: جب سخی انسان صدقہ کرنے کی نیت اور ارادہ کرتا ہے تو اس کے دل میں کشادگی اور حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ دل کھول کر کشادہ دلی سے خرچ کرتا ہے اور اس کا صدقہ پھل پھول کر اس کے گناہوں کو مٹا ڈالتا ہے اور کنجوس و بخیل آدمی جب بھی صدقہ کرنا چاہتا ہے تو اس کا دل تنگ پڑتا اور اس کے ہاتھ سکڑ جاتے ہیں۔ وہ خرچ کرنے کی ہمت اور حوصلہ نہیں پاتا۔ اور اس کا مال اس کے لیے خیرو برکت کا باعث نہیں بنتا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2361
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2917
2917. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”بخیل کی اور زکاۃ دینے والے سخی کی مثال ان دو آدمیوں جیسی ہے جنھوں نے لوہے کے کرتے پہن رکھے ہوں، جبکہ ان دونوں کے ہاتھ گردن سے باندھے ہوتے ہیں۔ زکاۃ دینے والا سخی جب بھی زکاۃ کا ا رادہ کرتا ہے تو اس کاکرتا اتنا کشادہ ہوجاتا ہے کہ زمین پر گھسٹنے کی وجہ سے اس کے نشانات کو مٹادیتا ہے لیکن جب بخیل صدقے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی زرہ کا ایک ایک حلقہ بدن پر تنگ ہوکر اس طرح سکڑ جاتا ہے کہ اس کے ہاتھ گردن سے جڑ جاتے ہیں۔“ حضرت ابوہریرہ ؓنے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”وہ آدمی اس کوپھیلانے کی کوشش بھی کرتا ہے لیکن وہ کھلتا نہیں ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2917]
حدیث حاشیہ: یہ حدیث کتاب الزکوٰۃ میں گزر چکی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سخی کا دل تو زکوٰۃ اور صدقہ دینے سے خوش اور کشادہ ہو جاتا ہے اور بخیل اول تو زکوٰۃ دیتا نہیں دوسرے جبراً قہراً کچھ دے بھی تو دے تو دل تنگ اور رنجیدہ ہو جاتا ہے‘ اس کی زرہ کے حلقے سکڑنے کی یہی تعبیر ہے۔ بخل کی مذمت میں بہت سی آیات و احادیث موجود ہیں‘ مرد مومن زکوٰۃ نکالنے اور اللہ کے لیے خرچ کرنے سے اس قدر خوش ہوتا ہے گویا اس کی زرہ نے کشادہ ہو کر اس کے سارے جسم کو ڈھانپ لیا‘ اس کی زرہ کی کشادگی سے بھی زیادہ اس کا دل کشادہ ہو جاتا ہے۔ اللہ ہر مسلمان کو یہ خوبی عطا کرے آمین۔ چونکہ اس حدیث میں زرہ کا ذکر تھا‘ اس لیے حضرت امام بخاری ؒ یہاں اس کو لائے اور زرہ کا اثبات فرمایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2917
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2917
2917. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”بخیل کی اور زکاۃ دینے والے سخی کی مثال ان دو آدمیوں جیسی ہے جنھوں نے لوہے کے کرتے پہن رکھے ہوں، جبکہ ان دونوں کے ہاتھ گردن سے باندھے ہوتے ہیں۔ زکاۃ دینے والا سخی جب بھی زکاۃ کا ا رادہ کرتا ہے تو اس کاکرتا اتنا کشادہ ہوجاتا ہے کہ زمین پر گھسٹنے کی وجہ سے اس کے نشانات کو مٹادیتا ہے لیکن جب بخیل صدقے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی زرہ کا ایک ایک حلقہ بدن پر تنگ ہوکر اس طرح سکڑ جاتا ہے کہ اس کے ہاتھ گردن سے جڑ جاتے ہیں۔“ حضرت ابوہریرہ ؓنے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”وہ آدمی اس کوپھیلانے کی کوشش بھی کرتا ہے لیکن وہ کھلتا نہیں ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2917]
حدیث حاشیہ: اس حدیث کے مطابق مرد مومن زکاۃ دینے سے اس قدر خوش ہوتا ہے گویا اس کی زرہ نے کشادہ ہو کر اس کے تمام جسم کو ڈھانپ لیا۔ اس کی زرہ کی کشادگی سے بھی زیادہ اس کا دل کشادہ ہوتا ہے چونکہ اس حدیث میں زرہ کا ذکر تھا۔ اس لیے امام بخاری ؒنے اسے بیان کر کے زرہ کا اثبات فرمایا۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2917