صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: لباس کے بیان میں
The Book of Dress
8. بَابُ لُبْسِ الْقَمِيصِ:
8. باب: قمیص پہننا (کرتہ قمیص ہر دو ایک ہی ہیں)۔
(8) Chapter. Wearing of shirts.
حدیث نمبر: 5796
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا صدقة، اخبرنا يحيى بن سعيد، عن عبيد الله، قال: اخبرني نافع، عن عبد الله، قال: لما توفي عبد الله بن ابي جاء ابنه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" يا رسول الله اعطني قميصك اكفنه فيه، وصل عليه، واستغفر له، فاعطاه قميصه، وقال: إذا فرغت منه فآذنا، فلما فرغ آذنه به، فجاء ليصلي عليه، فجذبه عمر، فقال: اليس قد نهاك الله ان تصلي على المنافقين، فقال: استغفر لهم او لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة فلن يغفر الله لهم سورة التوبة آية 80 فنزلت ولا تصل على احد منهم مات ابدا ولا تقم على قبره سورة التوبة آية 84 فترك الصلاة عليهم".(مرفوع) حَدَّثَنَا صَدَقَةُ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ جَاءَ ابْنُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ أَعْطِنِي قَمِيصَكَ أُكَفِّنْهُ فِيهِ، وَصَلِّ عَلَيْهِ، وَاسْتَغْفِرْ لَهُ، فَأَعْطَاهُ قَمِيصَهُ، وَقَالَ: إِذَا فَرَغْتَ مِنْهُ فَآذِنَّا، فَلَمَّا فَرَغَ آذَنَهُ بِهِ، فَجَاءَ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَجَذَبَهُ عُمَرُ، فَقَالَ: أَلَيْسَ قَدْ نَهَاكَ اللَّهُ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى الْمُنَافِقِينَ، فَقَالَ: اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ سورة التوبة آية 80 فَنَزَلَتْ وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ سورة التوبة آية 84 فَتَرَكَ الصَّلَاةَ عَلَيْهِمْ".
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم کو یحییٰ بن سعید نے خبر دی، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا، کہا مجھ کو نافع نے خبر دی، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب عبداللہ بن ابی کی وفات ہوئی تو اس کے لڑکے (عبداللہ) جو مخلص اور اکابر صحابہ میں تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اپنی قمیص مجھے عطا فرمایئے تاکہ میں اپنے باپ کو اس کا کفن دوں اور آپ ان کی نماز جنازہ پڑھا دیں اور ان کے لیے دعائے مغفرت کریں چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص انہیں عطا فرمائی اور فرمایا کہ نہلا دھلا کر مجھے اطلاع دینا۔ چنانچہ جب نہلا دھلا لیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تاکہ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو پکڑ لیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین پر نماز جنازہ پڑھنے سے منع نہیں فرمایا ہے؟ اور فرمایا ہے «استغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة فلن يغفر الله لهم‏» کہ ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو یا مغفرت کی دعا نہ کرو اگر تم ستر مرتبہ بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو گے تب بھی اللہ انہیں ہرگز نہیں بخشے گا۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی «ولا تصل على أحد منهم مات أبدا‏» کہ اور ان میں سے کسی پر بھی جو مر گیا ہو ہرگز نماز نہ پڑھئیے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھنی چھوڑ دی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Abdullah bin `Umar: When `Abdullah bin Ubdi (bin Salul) died, his son came to Allah's Apostle and said ' O Allah's Apostle, give me your shirt so that I may shroud my fathers body in it. And please offer a funeral prayer for him and invoke Allah for his forgiveness." The Prophet gave him his shirt and said to him 'Inform us when you finish (and the funeral procession is ready) call us. When he had finished he told the Prophet and the Prophet proceeded to order his funeral prayers but `Umar stopped him and said, "Didn't Allah forbid you to offer the funeral prayer for the hypocrites when He said: "Whether you (O Muhammad) ask forgiveness for them or ask not forgiveness for them: (and even) if you ask forgiveness for them seventy times. Allah will not forgive them." (9.80) Then there was revealed: "And never (O Muhammad) pray for any of them that dies, nor stand at his grave." (9.34) Thenceforth the Prophet did not offer funeral prayers for the hypocrites.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 72, Number 688


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري5796عبد الله بن عمرنهاك الله أن تصلي على المنافقين فقال استغفر لهم أو لا تستغفر لهم
   صحيح البخاري1269عبد الله بن عمرأنا بين خيرتين قال الله تعالي استغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة فلن يغفر الله لهم فصلى عليه فنزلت ولا تصل على أحد منهم مات أبدا
   صحيح مسلم7027عبد الله بن عمرخيرني الله فقال استغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة وسأزيده على سبعين قال إنه منافق فصلى عليه رسول الله أنزل الله ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره
   صحيح مسلم6207عبد الله بن عمرخيرني الله فقال استغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة وسأزيد على سبعين قال إنه منافق فصلى عليه رسول الله أنزل الله ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره
   سنن النسائى الصغرى1901عبد الله بن عمرأنا بين خيرتين قال استغفر لهم أو لا تستغفر لهم فصلى عليه أنزل الله ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره
   سنن ابن ماجه1523عبد الله بن عمرأنا بين خيرتين استغفر لهم أو لا تستغفر لهم فأنزل الله ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره
   بلوغ المرام438عبد الله بن عمراعطني قميصك اكفنه فيه،‏‏‏‏ فاعطاه صلى الله عليه وآله وسلم قميصه

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5796 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5796  
حدیث حاشیہ:
آپ نے فرمایا مجھے اللہ پاک نے اختیار دیا ہے منع نہیں فرمایا اور میں ستر بار سے بھی زیادہ دعا کروں گا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا بھی ستر بار کافر یا منافق کے لیے فائدہ نہ بخشے تو سمجھ لینا چاہیئے کہ کسی اور عالم یا درویش کی دعا سے کافر یا منافق کیونکر بخشا جائے گا اور جو ایسی ایسی حکایتوں پر اعتماد کرے وہ محض بے وقوف اور جاہل ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5796   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5796  
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا موقف تھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا ہے منع نہیں فرمایا اور میں اس کے لیے ستر بار سے بھی زیادہ مرتبہ دعا کروں گا۔
دراصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بدفطرت کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتے تھے جو ایک مخلص مسلمان تھے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث سے ثابت کیا ہے کہ قمیص پہننا جائز ہے اور اس کا ذکر متعدد احادیث میں آیا ہے۔
(3)
واضح رہے کہ ایک مرتبہ عبداللہ بن ابی منافق نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اپنی قمیص دی تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص دے کر اس احسان کا بدلہ دیا تھا۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5796   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 438  
´میت کو ضرورت کے وقت قبر میں داخل کرنے کے بعد باہر نکالنا `
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بتایا کہ عبداللہ بن ابی جب فوت ہوا تو اس کا بیٹا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قمیص عنایت فرما دیں کہ میں اس میں اسے کفن دے دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص اتار کر عنایت فرما دی . . . [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 438]
لغوی تشریح:
«فَأَعْطَاهُ» اپنی قمیص عطا فرما دی۔ بظاہر اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمل تدفین سے پہلے ہوا ہے لیکن صحیح بخاری میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ اسے قبر میں داخل کر دیا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے باہر نکالنے کا حکم دیا، اسے باہر نکالا گیا، پھر اسے اپنی قمیص پہنائی۔ [صحيح البخاري، الجنائز، حديث: 1270]
علماء نے ان کے درمیان تطبیق دیتے ہوئے کہا ہے کہ ممکن ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے قمیص دینے کا وعدہ فرمایا ہو، دفن کے بعد جب یہ وعدہ یاد دلایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قمیص عنایت فرما دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص اس لیے عنایت فرمائی تھی کہ غزوہ بدر کے قیدیوں کو آپ نے لباس دیے تھے اور ان میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ بھی قیدی ہو کر آئے تھے، ان کا قد لمبا تھا، کسی کی قمیص انہیں پوری نہیں آتی تھی، عبداللہ بن ابی منافق نے اپنی قمیص دی تو انہیں پوری آ گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس احسان کا بدلہ چکانا چاہتے تھے، اس لیے یہ قمیص اسے پہنائی۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میت کو ضرورت کے وقت قبر میں داخل کرنے کے بعد باہر نکالنا جائز ہے۔
➋ اس واقعہ سے انداز لگایا جا سکتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانوں سے محبت و شفقت کتنی تھی، اپنے احباب و اصحاب کی خواہش کا کتنا لحاظ رکھتے تھے، اس لیے قوم کے راہنما و قائدین حضرات کو بھی اپنے ساتھیوں اور کارکنوں کا خیال رکھنا چاہیے۔

وضاحت:
عبداللہ بن ابي جاہلیت میں خزرج کا سردار تھا اور بظاہر اسلام میں داخل ہونے کا دعویٰ کیا لیکن حقیقت میں منافقین کا لیڈر رہا اور رئیس المنافقین کے لقب سے مشہور تھا۔ غزوہ احد کے موقع پر لشکر کا تہائی حصہ لےکر واپس ہو گیا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ افک میں مرکزی کردار اسی کا تھا۔ سورۃ منافقون میں آیت:
«لَئِنَ رَّجَعْناَ اِلَي الْمَدِيْنَةِ لّيُخْرِجَنَّ الَّاعَزُّ مِنْهَا الْاذَلٌ» [المنافقون: 8:63]
اسی کے متعلق ہے، یعنی اس نے کہا تھا کہ جب ہم مدینے لوٹ کر جائیں گے تو مدینے کا سب سے باعزت شخص (خود کو مراد لے رہا تھا) وہاں کے ذلیل ترین شخص کو ضرور نکال دے گا۔ اور اس ذلیل شخص سے اس خبیث کی مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ اور اس نے کہا تھا:
«لَا تُنْفِقُوْ عَلٰي مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ حَتّٰي يَنْفَضُّو»
یعنی تم اللہ کے رسول کے آس پاس رہنے والوں پر خرچ نہ کرو حتی کہ وہ یہاں سے بھاگ جائیں۔ ذی القعدہ ۹ ہجری میں فوت ہوا۔ «أُبَي» کے ہمزاد پر ضمہ اور یا پر تشدید ہے۔ سلول اس کی ماں کا نام تھا۔
«اِبْنُهُ» اس سے عبداللہ بن عبداللہ بن ابی ابن سلول رضی اللہ عنہ مراد ہیں۔ ان کا شمار عظیم اور صاحب فضل صحابہ میں ہوتا تھا۔ تمام غزوات میں شریک رہے اور جنگ یمامہ میں شہید ہوئے۔ ان کا رویہ اپنے باپ کے بارے میں سب سے زیادہ سخت تھا۔ جب عبداللہ بن ابی نے «لئن رجعنا . . . الخ» کہا تھا تو انھوں نے اپنے باپ کی گردن اڑا دینے کی اجازت طلب کی تھی۔ جاہلیت کے دور میں ان کا نام حباب تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام عبداللہ رکھا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 438   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1901  
´کفن میں قمیص کے ہونے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب عبداللہ بن ابی (منافق) مر گیا، تو اس کے بیٹے (عبداللہ رضی اللہ عنہ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، (اور) عرض کیا: (اللہ کے رسول!) آپ مجھے اپنی قمیص دے دیجئیے تاکہ میں اس میں انہیں کفنا دوں، اور آپ ان پر نماز (جنازہ) پڑھ دیجئیے، اور ان کے لیے مغفرت کی دعا بھی کر دیجئیے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص انہیں دے دی، پھر فرمایا: جب تم فارغ ہو لو تو مجھے خبر کرو میں ان کی نماز (جنازہ) پڑھوں گا (اور جب نماز کے لیے کھڑے ہوئے) تو عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو کھینچا، اور کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین پر نماز (جنازہ) پڑھنے سے منع فرمایا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں دو اختیارات کے درمیان ہوں (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا: «‏استغفر لهم أو لا تستغفر لهم» تم ان کے لیے مغفرت چاہو یا نہ چاہو دونوں برابر ہے (التوبہ: ۸۰) چنانچہ آپ نے اس کی نماز (جنازہ) پڑھی، تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) نازل فرمائی: «ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره» تم ان (منافقین) میں سے کسی پر کبھی بھی نماز جنازہ نہ پڑھو، اور نہ ہی ان کی قبر پر کھڑے ہو (التوبہ: ۸۴) تو آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھنا چھوڑ دیا۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1901]
1901۔ اردو حاشیہ:
➊ عبداللہ بن ابی منافق کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ انتہائی مخلص مسلمان تھے۔ ان کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر مندرجہ بالا گزارشات کرنا فطری چیز ہے۔ ہر بیٹا خصوصاً نیک بیٹا ماں باپ کی بھلائی چاہتا ہے۔ چونکہ عبداللہ بن ابی ظاہراً کلمہ گو تھا، اس لیے وہ سمجھتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے شاید اس کی مغفرت ہو جائے، بالخصوص جبکہ ابھی منافقین کی نماز جنازہ پڑھنے یا نہ پڑھنے کی بابت کوئی واضح حکم بھی نہیں آیا تھا۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کے مطالبات کو تسلیم فرما لینا دراصل اس مسلمان بیٹے کی دلداری کے علاوہ آپ کی رحمۃ للعالمینی کا بھی مظہر تھا۔ اس واقعے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ممانعت کا حکم نازل فرما دیا۔
قمیص دے دی کہا گیا ے کہ یہ قمیص دراصل اس قمیص کے بدلے کے طور پر دی تھی جو قمیص عبداللہ بن ابی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بدر کی جنگ کے قیدی کی حیثیت میں دی تھی۔
روکا نہیں؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سمجھا کہ جب اس کی مغفرت ممکن نہیں تو مسلب یہی ہے کہ جنازہ نہ پڑھو مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے انداز بیان میں امید کی کرن دیکھی کیونکہ صراحتاً حکم ممانعت نہ تھا، ہاں مشرک کے لیے استغفار سے صراحتاً روکا گیا تھا مگر عبداللہ بن ابی منافق تھا، مشرک نہ تھا، منافق کا حکم بعد میں اترا۔
➍ امام نسائی رحمہ اللہ نے اس حدیث سے استدلال فرمایا ہے کہ قمیص بھی کفن میں شامل ہو سکتی ہے۔ لیکن دیگر دلائل و احادیث کی روشنی میں یہ استدلال محل نظر ہے کیونکہ ان میں خود آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام کے لیے تین کپڑوں کا انتخاب ہوا اور یقیناًً جواللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تجویز ہوا وہی افضل ہے۔ رہی بات جواز کی تو صورتِ حال کا جائزہ لینے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک اتفاقی واقعہ تھا جو عام جواز کی دلیل نہیں بن سکتا، وہ اس طرح کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قمیص کا مطالبہ کیا تھا جو آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وجودِ مسعود پر تھی اور خاص کر آپ کی جلد کے ساتھ لگی تھی، آپ اس کا انکار نہ فرما سکے بلکہ تالیف قلب اور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حوصلہ افزائی کی خاطر آپ نے انہیں دے دی بلکہ عبداللہ بن ابی کو خود پہنا دی جیسا کہ صحیح بخاری (حدیث: 1270) میں ہے۔ بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس قمیص کا بدلہ تھا جو آپ کے چچا عباس رضی اللہ عنہ کو عبداللہ بن ابی نے دی تھی جبکہ وہ جنگ بدر کے بعد قیدی بنے کیونکہ ان کی قمیص پھٹی ہوئی تھی اور عام پیمائش کی قمیص انہیں پوری نہیں آئی تھی تب انہیں وہ قمیص مرحمت کی گئی عبداللہ بن ابی قدآور انسان تھا۔ بہرحال اس حدیث سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق عظیم کا پتا چلتا ہے کہ آآکو اس کے منافق ہونے کا یقین تھا، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، اسلام اور دیگر مسلمانوں کے لیے اس کی ایذا بھی ڈھکی چھپی نہیں تھی، اس کے باوجود آپ نے اسے قمیص پہنائی اور اس کا جنازہ پڑھا۔
➎ منافق پر اس کے ظاہر کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا میں اسلام والے احکام جاری ہوں گے۔
➏ آدمی زندہ ہو یا مردہ، اس کی حقیقت کے بارے میں اظہار کیا جا سکتا ہے، جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن ابی کے منافق ہونے کا اظہار کیا ہے، یہ لاتسبوا الاموات (مردوں کو برا بھلا نہ کہو) میں شامل نہیں۔
➐ آدمی صاحب علم و فضل شخصیت کو کوئی ایسا کام کرتے دیکھے جسے وہ خلاف شرع سمجھتا ہے تو وہ استفسار کر سکتا ہے۔
➑ صاحب فضل شخص کو اچھی طرح وضاحت کر کے اس آدمی کا اشکال دور کرنا چاہیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1901   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1523  
´اہل قبلہ کی نماز جنازہ ادا کرنا۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب (منافقین کے سردار) عبداللہ بن ابی کا انتقال ہو گیا تو اس کے (مسلمان) بیٹے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے اپنا کرتہ دے دیجئیے، میں اس میں اپنے والد کو کفناؤں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اس کا جنازہ تیار کر کے) مجھے اطلاع دینا، جب آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھنی چاہی تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا: یہ آپ کے لیے مناسب نہیں ہے، بہرحال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز جنازہ پڑھی، اور عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: مجھے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1523]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عبد اللہ بن ابی منافقوں کا سردار تھا۔
جو زندگی بھر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتا رہا۔
اور مسلمان کہلانے کے باوجود رسول اللہ ﷺ کو مختلف انداز میں تکلیفیں پہنچاتا رہا۔
لیکن اس کا بیٹا سچا مسلمان تھا۔
اس کا نام بھی عبد اللہ تھا۔

(2)
رسول اللہ ﷺ نے عبد للہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دلجوئی کےلئے ان کے منافق باپ عبد اللہ بن ابی کو پہنانے کے لئے اپنی قمیص عطا فرمائی۔

(3)
کفن کے کپڑے بن سلے ہوتی ہیں۔
لیکن اگر کوئی خاص صورت حال پیش آ جائے تو سلا ہوا کپڑا بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

(4)
رسول اللہ ﷺ کو معلوم تھا کہ اس منافق کی بخشش نہیں ہوگی۔
اس کے باوجود نبی کریمﷺنے اس کےلئے دعا کرنے کا ارادہ فرمایا۔
کیونکہ اللہ سے دعا کرنا ایک نیکی ہے۔
اس کے لئے قبولیت شرط نہیں۔

(5)
نفاق ایک قلبی کیفیت ہے۔
جسے اللہ ہی جانتا ہے۔
جب تک اللہ تعالیٰ نے نہیں بتایا رسول اللہﷺ کو بھی یقینی علم نہیں ہوا۔
جیسے کہ ارشاد ہے۔
﴿وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ﴾  (التوبة: 101)
 مدینے والوں میں سے کچھ ایسے (منافق)
ہیں جو نفاق پر اڑے ہوئے ہیں۔
آپ ﷺ ان کو نہیں جانتے ہم جانتے ہیں۔
بعد میں نبی اکرمﷺ کو بتا دیا گیا۔
اور حکم دیا گیا کہ ان کی نماز جنازہ نہ پڑھیں۔

(6)
ہم ظاہر کے مطابق عمل کے مکلف ہیں جو شخص لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ ﷺ کا اقرار کرتا ہے۔
اسے مسلمان سمجھا جائےگا۔
جب تک وہ کوئی ایسا کام نہ کرے۔
جس سے اس کا کافر ہونا ظاہرہو جائے۔
اس لئے جب تک کسی کا کفر ثابت نہ ہوجائے۔
اس کے مرنے پر اس کا جنازہ پڑھا جائےگا۔
اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائےگا۔
اس کے مسلمان رشتہ دار اس کے وارث ہوں گے۔
جب کہ غیر مسلم یا مرتد کے احکام اس کے برعکس ہوں گے۔

(7)
اگر دل میں ایمان نہ ہوتو کسی برکت والی چیز کا کوئی فائدہ نہیں۔
اس لئے ظاہری اشیاء سے برکت حاصل کرنے کی کوشش کے بجائے دل کی اصلاح ضروری ہے۔

(8)
جس کا کفر معلوم ہو۔
اس کے حق میں دعائے مغفرت جائز نہیں۔
مثلاً کوئی عیسائی، ہندو یا قادیانی ہمسایہ یا رشتہ دار ہو تو اس کی وفات پر جس طرح اس کا جنازہ نہیں پڑھا جاتا۔
اس کے حق میں دعا کرنا بھی درست نہیں۔
دیکھئے: (التوبة: 113)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1523   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.