وقال مجاهد: الكنود الكفور، يقال: فاثرن به نقعا: رفعنا به غبارا، لحب الخير: من اجل حب الخير: لشديد: لبخيل، ويقال: للبخيل شديد، حصل: ميز.وَقَالَ مُجَاهِدٌ: الْكَنُودُ الْكَفُورُ، يُقَالُ: فَأَثَرْنَ بِهِ نَقْعًا: رَفَعْنَا بِهِ غُبَارًا، لِحُبِّ الْخَيْرِ: مِنْ أَجْلِ حُبِّ الْخَيْرِ: لَشَدِيدٌ: لَبَخِيلٌ، وَيُقَالُ: لِلْبَخِيلِ شَدِيدٌ، حُصِّلَ: مُيِّزَ.
مجاہد نے کہا «كنود» کا معنی ناشکرا ہے۔ «فأثرن به نقعا» یعنی صبح کے وقت دھول اڑاتے ہیں، گرد اٹھاتے ہیں۔ «لحب الخير» یعنی مال کی قلت کی وجہ سے۔ «لشديد» بخیل ہے بخیل کو «لشديد» کہتے ہیں۔ «حصل» کے معنی جدا کیا جائے یا جمع کیا جائے۔
كالفراش المبثوث سورة القارعة آية 4: كغوغاء الجراد يركب بعضه بعضا كذلك الناس يجول بعضهم في بعض، كالعهن: كالوان العهن وقرا عبد الله كالصوف.كَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوثِ سورة القارعة آية 4: كَغَوْغَاءِ الْجَرَادِ يَرْكَبُ بَعْضُهُ بَعْضًا كَذَلِكَ النَّاسُ يَجُولُ بَعْضُهُمْ فِي بَعْضٍ، كَالْعِهْنِ: كَأَلْوَانِ الْعِهْنِ وَقَرَأَ عَبْدُ اللَّهِ كَالصُّوفِ.
«كالفراش المبثوث» یعنی پریشان ٹڈیوں کی طرح کی جیسے وہ ایسی حالت میں ایک دوسرے پر چڑھ جاتی ہیں یہی حال (حشر کے دن) انسانوں کا ہو گا کہ وہ ایک دوسرے پر گر رہے ہوں گے «كالعهن» اون کی طرح رنگ برنگ۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے یوں پڑھا ہے «الصوف. المنفوش» یعنی دھنی ہوئی اون کی طرح اڑتے پھریں گے۔
الم تر الم تعلم قال مجاهد: ابابيل: متتابعة مجتمعة، وقال ابن عباس: من سجيل هي سنك وكل.أَلَمْ تَرَ أَلَمْ تَعْلَمْ قَالَ مُجَاهِدٌ: أَبَابِيلَ: مُتَتَابِعَةً مُجْتَمِعَةً، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: مِنْ سِجِّيلٍ هِيَ سَنْكِ وَكِلْ.
مجاہد نے کہا «أبابيل» یعنی پے در پے آنے والے جھنڈ کے جھنڈ پرندے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «من سجيل»(یہ لفظ فارسی کا «معرب» ہے) یعنی سنگ پتھر اور گل مٹی مراد ہے۔
وقال مجاهد: لإيلاف: الفوا ذلك فلا يشق عليهم في الشتاء والصيف، وآمنهم: من كل عدوهم في حرمهم، قال ابن عيينة: لإيلاف لنعمتي على قريش.وَقَالَ مُجَاهِدٌ: لِإِيلَافِ: أَلِفُوا ذَلِكَ فَلَا يَشُقُّ عَلَيْهِمْ فِي الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ، وَآمَنَهُمْ: مِنْ كُلِّ عَدُوِّهِمْ فِي حَرَمِهِمْ، قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: لِإِيلَافِ لِنِعْمَتِي عَلَى قُرَيْشٍ.
مجاہد نے کہا «لإيلاف قريش.» کا مطلب یہ ہے کہ قریش کے لوگوں کا دل سفر میں لگا دیا تھا، گرمی جاڑے کسی بھی موسم میں ان پر سفر کرنا دشوار نہ تھا اور ان کو حرم میں جگہ دے کر دشمنوں سے بےفکر کر دیا تھا۔ سفیان بن عیینہ نے کہا کہ «لإيلاف قريش.» کا معنی یہ ہے قریش پر میرے احسان کی وجہ سے۔“
وقال مجاهد: يدع: يدفع عن حقه، يقال: هو من دععت يدعون يدفعون، ساهون: لاهون، والماعون: المعروف كله، وقال بعض العرب: الماعون الماء، وقال عكرمة: اعلاها الزكاة المفروضة، وادناها عارية المتاع.وَقَالَ مُجَاهِدٌ: يَدُعُّ: يَدْفَعُ عَنْ حَقِّهِ، يُقَالُ: هُوَ مِنْ دَعَعْتُ يُدَعُّونَ يُدْفَعُونَ، سَاهُونَ: لَاهُونَ، وَالْمَاعُونَ: الْمَعْرُوفَ كُلُّهُ، وَقَالَ بَعْضُ الْعَرَبِ: الْمَاعُونُ الْمَاءُ، وَقَالَ عِكْرِمَةُ: أَعْلَاهَا الزَّكَاةُ الْمَفْرُوضَةُ، وَأَدْنَاهَا عَارِيَّةُ الْمَتَاعِ.
مجاہد نے کہا «يدع» کا معنی دفع کرتا ہے یعنی یتیم کو اس کا حق نہیں لینے دیتا، کہتے ہیں یہ «دعوت» سے نکلا ہے۔ اسی سے سورۃ الطور میں لفظ «يوم يدعون» ہے (یعنی جس دن دوزخ کی طرف اٹھائے جائیں گے، ڈھکیلے جائیں گے۔ «ساهون» بھولنے والے، غافل۔ «ماعون» کہتے ہیں مروت کے ہر اچھے کام کو۔ بعض عرب «ماعون» پانی کو کہتے ہیں۔ عکرمہ نے کہا «ماعون» کا اعلیٰ درجہ زکوٰۃ دینا ہے اور ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص کچھ سامان مانگے تو اسے وہ دیدے، اس کا انکار نہ کرے۔
(مرفوع) حدثنا آدم، حدثنا شيبان، حدثنا قتادة، عن انس رضي الله عنه، قال: لما عرج بالنبي صلى الله عليه وسلم إلى السماء، قال:"اتيت على نهر حافتاه قباب اللؤلؤ مجوفا، فقلت: ما هذا يا جبريل؟" قال:" هذا الكوثر".(مرفوع) حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا عُرِجَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاءِ، قَالَ:"أَتَيْتُ عَلَى نَهَرٍ حَافَتَاهُ قِبَابُ اللُّؤْلُؤِ مُجَوَّفًا، فَقُلْتُ: مَا هَذَا يَا جِبْرِيلُ؟" قَالَ:" هَذَا الْكَوْثَرُ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک نہر پر پہنچا جس کے دونوں کناروں پر خولدار موتیوں کے ڈیرے لگے ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا اے جبرائیل! یہ نہر کیسی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ حوض کوثر ہے (جو اللہ نے آپ کو دیا ہے)۔
Narrated Anas: When the Prophet was made to ascend to the Heavens, he said (after his return), "I came upon a river the banks of which were made of tents of hollow pearls. I asked Gabriel. What is this (river?' He replied, 'This is the Kauthar.'
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 488
ما الكوثر قال ذاك نهر أعطانيه الله يعني في الجنة أشد بياضا من اللبن أحلى من العسل فيها طير أعناقها كأعناق الجزر إن هذه لناعمة قال رسول الله أكلتها أحسن منها