(مرفوع) حدثنا هناد بن السري، اخبرنا محمد بن فضيل، عن المختار بن فلفل، قال: سمعت انس بن مالك، يقول:" اغفى رسول الله صلى الله عليه وسلم إغفاءة، فرفع راسه متبسما، فإما قال لهم، وإما قالوا له: يا رسول الله، لم ضحكت؟ فقال: إنه انزلت علي آنفا سورة، فقرا: بسم الله الرحمن الرحيم، إنا اعطيناك الكوثر حتى ختمها، فلما قراها، قال: هل تدرون ما الكوثر؟ , قالوا: الله ورسوله اعلم، قال: فإنه نهر وعدنيه ربي عز وجل في الجنة، وعليه خير كثير، عليه حوض ترد عليه امتي يوم القيامة، آنيته عدد الكواكب". (مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، أخبرنا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ الْمُخْتَارِ بْنِ فُلْفُلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ:" أَغْفَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِغْفَاءَةً، فَرَفَعَ رَأْسَهُ مُتَبَسِّمًا، فَإِمَّا قَالَ لَهُمْ، وَإِمَّا قَالُوا لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لِمَ ضَحِكْتَ؟ فَقَالَ: إِنَّهُ أُنْزِلَتْ عَلَيَّ آنِفًا سُورَةٌ، فَقَرَأَ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ حَتَّى خَتَمَهَا، فَلَمَّا قَرَأَهَا، قَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَا الْكَوْثَرُ؟ , قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّهُ نَهْرٌ وَعَدَنِيهِ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ فِي الْجَنَّةِ، وَعَلَيْهِ خَيْرٌ كَثِيرٌ، عَلَيْهِ حَوْضٌ تَرِدُ عَلَيْهِ أُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، آنِيَتُهُ عَدَدُ الْكَوَاكِبِ".
مختار بن فلفل کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا: (ایک بار) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہلکی اونگھ طاری ہوئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے سر اٹھایا، تو یا تو آپ نے لوگوں سے کہا، یا لوگوں نے آپ سے کہا: اللہ کے رسول! آپ کو ہنسی کیوں آئی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابھی میرے اوپر ایک سورت نازل ہوئی“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا: «بسم الله الرحمن الرحيم إنا أعطيناك الكوثر» یہاں تک کہ سورت ختم کر لی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پڑھ چکے تو آپ نے فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو کوثر کیا ہے؟“ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جنت کی ایک نہر ہے جس کا وعدہ مجھ سے میرے رب نے کیا ہے اور اس پر بڑا خیر ہے، اس پر ایک حوض ہے جس پر قیامت کے دن میری امت (پینے) آئے گی، اس کے برتن ستاروں کی تعداد میں ہوں گے“۔
Anas bin Malik said: The Messenger of Allah ﷺ dozed for a short while and raised his smiling. He either said to them (people) or they said to him: Messenger of Allah! Why did you laugh? He said: A surah has been revealed to me just now, and then he recited: “In the name of Allah, Most Gracious. Most Merciful. To thee We have granted the fount (of abundance)” up to the end. When he recited, he asked: Do you know what al-kauthar is? They replied: Allah and his Messenger know best. He said: It is a river which my Lord, the Exalted, has promised me ( to grant) in Paradise: there is abundance of good and upon it there is a pond which my people will approach on the Day of Resurrection. There are vessels as numerous as stars (in the sky).
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4729
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (400) مشكوة المصابيح (5929) وانظر الحديث السابق (784)
ما الكوثر قال ذاك نهر أعطانيه الله يعني في الجنة أشد بياضا من اللبن أحلى من العسل فيها طير أعناقها كأعناق الجزر إن هذه لناعمة قال رسول الله أكلتها أحسن منها
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4747
فوائد ومسائل: 1: میدان کا حشر کا حوض، نہر کوثر کا ایک حصہ ہو گا۔
2: اس حدیث میں دلیل (بسم الله الرحمن الرحيم) ہر سورت کا جزواور اس کی آیت ہوتی ہے، مگر دوسرا فریق دوسرے دلائل سے اس کو مرجوح کہتا ہے، ایک تیسرا مسلک یہ ہے کہ بسم اللہ صرف سورۃ فاتحہ کی آیت ہے۔ دوسری سورتوں میں اس کو تبرک اور فصل کے طور پر لکھا جاتا ہے، اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں اسے سورۃ فاتحہ کی ایک آیت قرار دیا گیا ہے۔ (الصحیحة:179/3، رقم:1183)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4747
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 784
´ «بسم الله الرحمن الرحيم» زور سے نہ پڑھنے کے قائلین کی دلیل کا بیان۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابھی ابھی مجھ پر ایک سورۃ نازل ہوئی ہے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا: «بسم الله الرحمن الرحيم * إنا أعطيناك الكوثر» یہاں تک کہ آپ نے پوری سورۃ ختم فرما دی، پھر پوچھا: ”تم جانتے ہو کہ کوثر کیا ہے؟“، لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کو زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوثر ایک نہر کا نام ہے، جسے میرے رب نے مجھے جنت میں دینے کا وعدہ کیا ہے۔“[سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 784]
784۔ اردو حاشیہ: مذکورۃ الصدر دونوں احادیث صحیح اور حسن ہیں۔ لہٰذا ترجیح صحیح احادیث کو ہے۔ نیز اگلے باب کی حدیث کہ «بسم الله» سے دو صورتوں کے مابین فرق و فصل نمایاں ہوتا تھا۔ اس سے یہی جانب راحج معلوم ہوتی ہے کہ «بسم الله» سورت کا جز نہیں۔ تفصیل کے لئے دیکھیے: نیل الاوطار۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 784
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 905
´(نماز میں) «بسم اللہ الرحمن الرحیم» پڑھنے کا بیان۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن آپ یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان تشریف فرما تھے کہ یکایک آپ کو جھپکی سی آئی، پھر مسکراتے ہوئے نے اپنا سر اٹھایا، تو ہم نے آپ سے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کو کس چیز نے ہنسایا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ پر ابھی ابھی ایک سورت اتری ہے «بسم اللہ الرحمن الرحيم * إنا أعطيناك الكوثر * فصل لربك وانحر * إن شانئك هو الأبتر»”شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان، نہایت رحم والا ہے، یقیناً ہم نے آپ کو کوثر عطا فرمائی، تو آپ اپنے رب کے لیے صلاۃ پڑھیں، اور قربانی کریں، یقیناً آپ کا دشمن ہی لاوارث اور بے نام و نشان ہے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم جانتے ہو کہ کوثر کیا ہے؟“ ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جنت کی ایک نہر ہے جس کا میرے رب نے وعدہ کیا ہے، جس کے آبخورے تاروں کی تعداد سے بھی زیادہ ہیں، میری امت اس حوض پر میرے پاس آئے گی، ان میں سے ایک شخص کھینچ لیا جائے گا تو میں کہوں گا: میرے رب! یہ تو میری امت میں سے ہے؟ تو اللہ تعالیٰ مجھ سے فرمائے گا: تمہیں نہیں معلوم کہ اس نے تمہارے بعد کیا کیا بدعتیں ایجاد کی ہیں۔“[سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 905]
905 ۔ اردو حاشیہ: ➊ سورۂ کوثر میں مذکور ”الکوثر“ کی تفسیر میں اسلاف اہل علم کا اختلاف ہے۔ مختلف اہل علم صحابہ اور تابعین وغیرہ نے اس کی مختلف تفسیریں بیان کی ہیں لیکن اس حدیث میں خود زبان رسالت سے ”الکوثر“ کی تفسیر معلوم ہو گئی ہے کہ وہ جنت میں ایک نہر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا وعدہ کیا گیا ہے۔ وہ بہت وسیع و عریض ہے۔ اس طرح کہ اس کی لمبائی اور چوڑائی برابر ہیں۔ اس کے آب خورے آسمان کے تاروں سے بھی زیادہ ہیں۔ اس کے متعلق حدیث شریف میں یہ صراحت بھی ہے کہ ”جس نے اس نہر کا پانی پی لیا، اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے اور اس کی خوشبو کستوری کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔“[صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6579، وصحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 2292] ➋ مقتدی اپنے امام سے، چھوٹا اپنے بڑے سے اور اسی طرح مرید اپنے پیر سے کوئی نئی بات دیکھ کر اس کی بابت سوال کر سکتا ہے جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسکراتے دیکھا تو آپ سے مسکرانے کا سبب پوچھ لیا۔ بزرگوں اور مشائخ کو ایسے سوال کا جواب بھی دینا چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس سوال کا جواب بھی دیا تھا۔ ➌ اس اونگھ سے مراد وحی کی کیفیت ہو گی۔ ➍ امام صاحب کا استدلال یہ ہے کہ (بسم اللہ الرحمن الرحیم) سورت کا جز ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا اگرچہ یہ احتمال بھی ہے کہ آپ نے (بسم اللہ الرحمن الرحیم) تبرکا پڑھی ہو۔ دونوں صورتوں میں ہر سورت سے پہلے (بسم اللہ الرحمن الرحیم) پڑھنی ہے، خواہ جز ہو یا تبرک کے طور پر۔ البتہ سروجہر، یعنی آہستہ اور اونچی کی بحث ہو سکتی ہے۔ آپ نے مندرجہ بالا حدیث میں تو جہراً ہی پڑھی ہے مگر یہ نماز سے باہر کی بات ہے۔ نماز کے اندر اکثر روایات آہستہ پڑھنے کے بارے میں آتی ہیں اگرچہ کبھی کبھار جہرا بھی جائز ہے۔ ➎ امام شافعی (بسم اللہ الرحمن الرحیم) کو ہر سورت کا جز سمجھتے ہیں جب کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اسے تبرک خیال کرتے ہیں۔ درست بات یہ ہے کہ یہ سورۂ فاتحہ کا جز ہے۔ ➏ ”آپ کے بعد اس نے کیا نیاکام کیا۔“ یہ اشارہ ارتداد کی طرف بھی ہو سکتا ہے اور بدعات کے اجرا کی طرف بھی۔ واللہ أعلم۔ ➐ بدعت اس قدر خطرناک اور سنگین جرم ہے کہ روزقیامت بدعتی شخص کو حوض کوثر سے دور ہٹا کر جہنم کی طرف دھکیل دیا جائے گا۔ ➑ بدعتی کو حوض کوثر کے پانی کا ایک گھونٹ بھی نصیب نہیں ہو گا کیونکہ بدعتی نے جرم عظیم کا ارتکاب کیا کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو بدلا اور خود کو ”مقام رسالت“ پر فائز کر لیا، لہٰذا اس کے لیے سخت ترین وعید ہے۔ اعاذنا اللہ منه۔ ➒ اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں۔ ➓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس جہان فانی سے رخصت ہو چکے ہیں۔ (11) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مختار کل نہیں۔ قیامت والے دن بھی صرف اسے ہی نجات ملے گی جسے اللہ چاہے گا۔ اور اسے معاف فرمائے گا، لہٰذا درج ذیل عقیدہ تعلیمات نبوی کے منافی اور ایمان کے فنا کا موجب ہے کہ اللہ کے پلڑے میں وحدت کے سوا کیا ہے جو کچھ ہمیں لینا ہے لے لیں گے محمد سے
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 905
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3359
´سورۃ الکوثر سے بعض آیات کی تفسیر۔` انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ارشاد باری «إنا أعطيناك الكوثر» کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ ایک نہر ہے جنت میں جس کے دونوں کناروں پر موتی کے گنبد بنے ہوئے ہیں، میں نے کہا: جبرائیل! یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: یہ وہ کوثر ہے جو اللہ نے آپ کو دی ہے۔“[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3359]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ”کوثر وہ خیر کثیر ہے جو نبیﷺکو دی گئی ہے“ اس پر بعض لوگوں نے ان کے شاگرد سعید بن جبیرسے کہا کہ کہا تو یہ جاتا ہے کہ وہ ایک نہر ہے جنت میں؟ تو اس پر سعید بن جبیر نے کہا: یہ نہر بھی منجملہ خیر کثیر ہی کے ہے گویا سعید بن جبیر نے دونوں روایتوں کے درمیان تطبیق دینے کی کوشش کی ہے، ویسے جب بزبان رسالت مآب صحیح سند سے یہ تصریح آ گئی کہ کوثر جنت میں ایک نہر ہے تو پھر کسی اور روایت کی طرف جانے کی ضرورت نہیں (تحفة وتفسیرابن جریر)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3359
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3359
´سورۃ الکوثر سے بعض آیات کی تفسیر۔` انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ارشاد باری «إنا أعطيناك الكوثر» کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ ایک نہر ہے جنت میں جس کے دونوں کناروں پر موتی کے گنبد بنے ہوئے ہیں، میں نے کہا: جبرائیل! یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: یہ وہ کوثر ہے جو اللہ نے آپ کو دی ہے۔“[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3359]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ”کوثر وہ خیر کثیر ہے جو نبیﷺکو دی گئی ہے“ اس پر بعض لوگوں نے ان کے شاگرد سعید بن جبیرسے کہا کہ کہا تو یہ جاتا ہے کہ وہ ایک نہر ہے جنت میں؟ تو اس پر سعید بن جبیر نے کہا: یہ نہر بھی منجملہ خیر کثیر ہی کے ہے گویا سعید بن جبیر نے دونوں روایتوں کے درمیان تطبیق دینے کی کوشش کی ہے، ویسے جب بزبان رسالت مآب صحیح سند سے یہ تصریح آ گئی کہ کوثر جنت میں ایک نہر ہے تو پھر کسی اور روایت کی طرف جانے کی ضرورت نہیں (تحفة وتفسیرابن جریر)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3359
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 894
0 [صحيح مسلم، حديث نمبر:894]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) بَيْنَ اَظْهُرِنَا: ہمارے اندر، ہم میں۔ (2) اَغْفٰي اِغْفَاءَةً: جھپکی اور اونگھ کا طاری ہونا۔ (3) شَانِئَكَ: تیرا دشمن، تجھ سے بغض وعنادر رکھنے والا۔ (4) اَلْاَبْتَرْ: دُم کٹا، جس کی نسل نہ چلے۔ ہر خیرو برکت سے محروم۔ (5) يُخْتَلَجُ: چھینا جائے گا، الگ کیا جائے گا۔ (6) اَحْدَثَ: دین میں نئی بات نکالنا، کوئی واقعہ یا جرم کر گزرنا۔ فوائد ومسائل: (1) اس حدیث سے ثابت ہو تا ہے کہ بِسْمِ اللہ ہرسورۃ کا حصہ اور جز ہے جسے آپﷺ ہر سورۃ سے پہلے پڑھتے تھے اور سورۃ براءت کا استثناء ایک الگ دلیل کی بنا پر ہے اور اسی بنا پر ہر سورۃ کے شروع میں اس کو مصحف میں لکھا گیا ہے اور سورۃ اقرا کی ابتدا کی آیا ت جو سب سے پہلی وحی ہیں ان میں یہی تعلیم دی گئی کہ ﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ﴾”اپنے رب کے نام سے قرآءت کا آغاز کیجئے“ اور اس کے شروع میں بِسْمِ اللہ موجود ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ اگربسملہ ہر سورت کا جز و ہوتی تو اقراکے شروع میں نازل ہوتی درست نہیں ہے کیونکہ اگر یہ اس سے پہلے نازل ہوئی تھی تو اس سے پہلے لکھ کیسے دی گئی؟(2) اس حدیث سے علم غیب کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اثبات بلا محل ہے۔ نیز ایک حقیقت کو تسلیم کر کے ہیر پھیر سے دوسری بات کہنا علم کے منافی بات ہے جب یہ تسلیم ہے کہ”مطلقاً عَالِمُ الْغَیْب صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ہر چند کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطاء الٰہی سے علم غیب حاصل ہے لیکن مطلقاً یہ نہیں کہنا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ آپﷺ غیب پر مطلع ہیں یا آپﷺ پر غیب ظاہر کیا گیا ہے یا آپﷺ کو علم غیب عطا کیا گیا ہے (شرح صحیح مسلم سعیدی صاحب1/ 1160) بلکہ اس سے اوپر یہاں تک لکھا گیا ہے عام مسلمانوں اولیاء اللہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے ہر شخص کو اس کے ظرف کے مطابق غیب کا علم ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام مخلوقات سے زیادہ غیب کا علم ہے۔ تو امت کو اس بحث و مسئلہ میں کیوں الجھایا جاتا ہے کہ آپﷺ کو عَالِمُ الْغَیْب نہ ماننے والا گستاخ و بےادب ہے اور کافر ہے امت کا کونسا فرد ہے جو اس کا انکار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو جس چیز کا علم دیا وہ آپﷺ کو حاصل ہو گیا جس چیز سے آگاہ نہ کیا، آپﷺ خود آگاہ نہ ہو سکے، جس کی صریح دلیل اس حدیث کے اندر (إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ) کی صورت میں موجود ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 894
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6581
6581. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: میں جنت کی سیر کرتے کرتے ایک نہر پر پہنچا جس کے دونوں کناروں پر خول دار موتیوں کے گنبد بنے ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا: جبرئیل! یہ کیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ کوثر ہے جو آپ کو آپ کے رب نے دیا ہے میں نے دیکھا کہ اس کی خوشبو یا مٹی تیز مشک جیسی تھی، خوشبو یا مٹی کے الفاظ میں راوی ہدبہ کو شک تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6581]
حدیث حاشیہ: کہ آپ نے مٹی فرمایا یا خوشبو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6581
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6581
6581. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: میں جنت کی سیر کرتے کرتے ایک نہر پر پہنچا جس کے دونوں کناروں پر خول دار موتیوں کے گنبد بنے ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا: جبرئیل! یہ کیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ کوثر ہے جو آپ کو آپ کے رب نے دیا ہے میں نے دیکھا کہ اس کی خوشبو یا مٹی تیز مشک جیسی تھی، خوشبو یا مٹی کے الفاظ میں راوی ہدبہ کو شک تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6581]
حدیث حاشیہ: ایک حدیث میں تین دن کی مسافت بیان فرمائی تھی اور اس میں ایک ماہ کی مسافت کا ذکر ہے؟ ان میں تضاد نہیں ہے کیونکہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن کی مسافت بیان کی اس وقت اتنی ہی مقدار ہو گی، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ پر فضل و احسان فرمایا اور حوض کو وسیع کر دیا تو جس قدر حوض وسیع ہوتا گیا اسی اعتبار سے آپ امت کو مطلع کرتے رہے۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حوض کے آبخوروں کو آسمان کے ستاروں سے تشبیہ دینا بھی اس کی چمک دمک بتانا ہے اور ان کی نورانیت کو بیان کرنا ہے۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حوض کوثر کے مشروب کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”وہ دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے۔ اس میں جنت میں سے دو پرنالے گرتے ہیں۔ ان میں سے ایک سونے کا ہے اور دوسرا خالص چاندی سے بنا ہوا ہے۔ “(صحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 5990 (2301)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6581