صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
1. بَابُ:
1. باب:۔۔۔
(1) Chapter.
حدیث نمبر: Q4936
Save to word اعراب English
وقال مجاهد: الآية الكبرى: عصاه ويده، يقال: الناخرة والنخرة سواء مثل الطامع والطمع والباخل والبخيل، وقال بعضهم: النخرة البالية والناخرة العظم المجوف الذي تمر فيه الريح فينخر، وقال ابن عباس: الحافرة: التي امرنا الاول إلى الحياة، وقال غيره: ايان مرساها: متى منتهاها ومرسى السفينة حيث تنتهي.وَقَالَ مُجَاهِدٌ: الْآيَةَ الْكُبْرَى: عَصَاهُ وَيَدُهُ، يُقَالُ: النَّاخِرَةُ وَالنَّخِرَةُ سَوَاءٌ مِثْلُ الطَّامِعِ وَالطَّمِعِ وَالْبَاخِلِ وَالْبَخِيلِ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: النَّخِرَةُ الْبَالِيَةُ وَالنَّاخِرَةُ الْعَظْمُ الْمُجَوَّفُ الَّذِي تَمُرُّ فِيهِ الرِّيحُ فَيَنْخَرُ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: الْحَافِرَةِ: الَّتِي أَمْرُنَا الْأَوَّلُ إِلَى الْحَيَاةِ، وَقَالَ غَيْرُهُ: أَيَّانَ مُرْسَاهَا: مَتَى مُنْتَهَاهَا وَمُرْسَى السَّفِينَةِ حَيْثُ تَنْتَهِي.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا «الآية الكبرى‏» سے مراد موسیٰ علیہ السلام کی عصا اور ان کا ہاتھ ہے۔ «عظاما ناخرة» اور «ناخرة» دونوں طرح سے پڑھا ہے جیسے «طامع» اور «طمع» اور «باخل» اور «بخيل» اور بعضوں نے کہا «نخرة» اور «ناخرة» میں فرق ہے۔ «نخرة» کہتے ہیں گلی ہوئی ہڈی کو اور «ناخرة» کھوکھلی ہڈی جس کے اندر ہوا جائے تو آواز نکلے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «حافرة‏» ہماری وہ حالت جو دنیا کی (زندگی) میں ہے۔ اوروں نے کہا «أيان مرساها‏» یعنی اس کی انتہا کہاں ہے یہ لفظ «مرسى السفينة» سے نکلا ہے۔ یعنی جہاں کشتی آخر میں جا کر ٹھہرتی ہے۔

حدیث نمبر: 4936
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن المقدام حدثنا الفضيل بن سليمان حدثنا ابو حازم حدثنا سهل بن سعد رضي الله عنه قال رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم قال بإصبعيه هكذا بالوسطى والتي تلي الإبهام: «بعثت والساعة كهاتين» .(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بِإِصْبَعَيْهِ هَكَذَا بِالْوُسْطَى وَالَّتِي تَلِي الإِبْهَامَ: «بُعِثْتُ وَالسَّاعَةَ كَهَاتَيْنِ» .
ہم سے احمد بن مقدام نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوحازم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہا آپ اپنی بیچ کی انگلی اور انگوٹھے کے قریب والی انگلی کے اشارے سے فرما رہے تھے کہ میں ایسے وقت میں مبعوث ہوا ہوں کہ میرے اور قیامت کے درمیان صرف ان دو کے برابر فاصلہ ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Sahl bin Sa`d: I saw Allah's Messenger pointing with his index and middle fingers, saying. "The time of my Advent and the Hour are like these two fingers." The Great Catastrophe will overwhelm everything.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 458


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري6503سهل بن سعدبعثت أنا والساعة هكذا
   صحيح البخاري5301سهل بن سعدبعثت أنا والساعة كهذه من هذه أو كهاتين وقرن بين السبابة والوسطى
   صحيح البخاري4936سهل بن سعدبإصبعيه هكذا بالوسطى والتي تلي الإبهام بعثت والساعة كهاتين
   صحيح مسلم7404سهل بن سعدبعثت أنا والساعة هكذا
   مسندالحميدي954سهل بن سعدبعثت أنا والساعة كهذه من هذه

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4936 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4936  
حدیث حاشیہ:
یعنی قیامت میں اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت میں اب صرف اتنا فاصلہ رہ گیا ہے جتنا ان دو انگلیوں میں ہے۔
دنیا کے اول سے آخر تک وجود کی مثال انگلیوں سے دی گئی ہے اور مراد یہ ہے کہ اکثر مدت گزر چکی اور جو کچھ رہ گئی ہے وہ مدت بہت ہی کم ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4936   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4936  
حدیث حاشیہ:

درمیانی انگلی تھوڑی سی آگے ہوتی ہے اور سبابہ اس کے پیچھے ہوتی ہے،مطلب یہ ہے کہ میں تھوڑا سا آگے ہوں اور میرے بعد جلد ہی قیامت آجائے گی۔
دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس طرح یہ انگلیاں ایک دوسری سے ملی ہوئی ہیں،اسی طرح اور قیامت ملے ہوئے ہیں،یعنی میرے اور قیامت کے درمیان اللہ تعالیٰ کوئی رسول یا نبی نہیں بھیجے گا۔

اس حدیث سے بعض اہل علم نے اس امت کی عمر کاتعین کرناچاہا ہے لیکن بے سود ثابت ہواہے کیونکہ قیامت کے واقع ہونے کا علم اللہ کے سوا کسی کےپاس نہیں ہے۔
واللہ اعلم w
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4936   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5301  
5301. رسول اللہ ﷺ کے صحابی سیدنا سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں اور قیامت اس انگلی اور اس انگلی کی طرح ہیں۔ پھر آپ نے شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کو ملا دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5301]
حدیث حاشیہ:
کرمانی کے زمانہ تک تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبری پر سات سو اسی برس گزر چکے تھے۔
اب تو چودہ سو برس پورے ہو رہے ہیں پھر اس قرب کے کیا معنی ہوں گے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ قرب بہ نسبت اس زمانہ کے ہے جو آدم علیہ السلام کے وقت سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت تک گزرا تھا۔
وہ تو ہزاروں برس کا زمانہ تھا یا قرب سے یہ مقصود ہے کہ مجھ میں اور قیامت کے بیچ میں اب کوئی نیا پیغمبر صاحب شریعت آنے والا نہیں ہے اور عیسیٰ علیہ السلام جو قیامت کے قریب دنیا میں پھر تشریف لائیں گے تو ان کی کوئی نئی شریعت نہیں ہوگی۔
وہ شریعت محمدی پر چلیں گے پس مرزائیوں کا آمد عیسیٰ علیہ السلام سے عقیدہ ختم نبوت پر معارضہ پیش کرنا بالکل غلط ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5301   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6503  
6503. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں اور قیامت اس قدر نزدیک بھیجے گئے ہیں۔ آپ نے اپنی دو انگلیوں سےاشارہ فرمایا، پھر ان کو پھیلا دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6503]
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ مجھ میں اور قیامت میں اب کسی نئے پیغمبرورسول کا فاصلہ نہیں ہے اور میری امت آخری امت ہے اسی پر قیامت آئے گی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6503   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.