(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، قال ابو حازم: سمعته من سهل بن سعد الساعدي صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" بعثت انا والساعة كهذه من هذه، او كهاتين، وقرن بين السبابة والوسطى".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ أَبُو حَازِمٍ: سَمِعْتُهُ مِنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيّ صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ كَهَذِهِ مِنْ هَذِهِ، أَوْ كَهَاتَيْنِ، وَقَرَنَ بَيْنَ السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ ابوحازم نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری بعثت قیامت سے اتنی قریب ہے جیسے اس کی اس سے (یعنی شہادت کی انگلی بیچ کی انگلی سے) یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (راوی کو شک تھا) کہ جیسے یہ دونوں انگلیاں ہیں اور آپ نے شہادت کی اور بیچ کی انگلیوں کو ملا کر بتایا۔
Narrated Sahl bin Sa`d As-Sa`idi: (a companion of Allah's Apostle) Allah's Apostle, holding out his middle and index fingers, said, "My advent and the Hour's are like this (or like these)," namely, the period between his era and the Hour is like the distance between those two fingers, i.e., very short.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 63, Number 221
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5301
حدیث حاشیہ: کرمانی کے زمانہ تک تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبری پر سات سو اسی برس گزر چکے تھے۔ اب تو چودہ سو برس پورے ہو رہے ہیں پھر اس قرب کے کیا معنی ہوں گے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ قرب بہ نسبت اس زمانہ کے ہے جو آدم علیہ السلام کے وقت سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت تک گزرا تھا۔ وہ تو ہزاروں برس کا زمانہ تھا یا قرب سے یہ مقصود ہے کہ مجھ میں اور قیامت کے بیچ میں اب کوئی نیا پیغمبر صاحب شریعت آنے والا نہیں ہے اور عیسیٰ علیہ السلام جو قیامت کے قریب دنیا میں پھر تشریف لائیں گے تو ان کی کوئی نئی شریعت نہیں ہوگی۔ وہ شریعت محمدی پر چلیں گے پس مرزائیوں کا آمد عیسیٰ علیہ السلام سے عقیدہ ختم نبوت پر معارضہ پیش کرنا بالکل غلط ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5301
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4936
4936. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ اپنی درمیانی انگلی اور انگوٹھے کے قریب والی انگلی کے اشارے سے فر رہے تھے: "میں ایسے وقت میں مبعوث ہوا ہوں کہ میرے اور قیامت کے درمیان صرف ان دو کے فاصلے برابر فاصلہ ہے۔" ٱلطَّآمَّةُ کے معنی ہیں: جو ہر چیز پر چھا جائے اور غالب آ جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4936]
حدیث حاشیہ: یعنی قیامت میں اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت میں اب صرف اتنا فاصلہ رہ گیا ہے جتنا ان دو انگلیوں میں ہے۔ دنیا کے اول سے آخر تک وجود کی مثال انگلیوں سے دی گئی ہے اور مراد یہ ہے کہ اکثر مدت گزر چکی اور جو کچھ رہ گئی ہے وہ مدت بہت ہی کم ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4936
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6503
6503. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں اور قیامت اس قدر نزدیک بھیجے گئے ہیں۔“ آپ نے اپنی دو انگلیوں سےاشارہ فرمایا، پھر ان کو پھیلا دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6503]
حدیث حاشیہ: مطلب یہ ہے کہ مجھ میں اور قیامت میں اب کسی نئے پیغمبرورسول کا فاصلہ نہیں ہے اور میری امت آخری امت ہے اسی پر قیامت آئے گی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6503
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4936
4936. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ اپنی درمیانی انگلی اور انگوٹھے کے قریب والی انگلی کے اشارے سے فر رہے تھے: "میں ایسے وقت میں مبعوث ہوا ہوں کہ میرے اور قیامت کے درمیان صرف ان دو کے فاصلے برابر فاصلہ ہے۔" ٱلطَّآمَّةُ کے معنی ہیں: جو ہر چیز پر چھا جائے اور غالب آ جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4936]
حدیث حاشیہ: 1۔ درمیانی انگلی تھوڑی سی آگے ہوتی ہے اور سبابہ اس کے پیچھے ہوتی ہے،مطلب یہ ہے کہ میں تھوڑا سا آگے ہوں اور میرے بعد جلد ہی قیامت آجائے گی۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس طرح یہ انگلیاں ایک دوسری سے ملی ہوئی ہیں،اسی طرح اور قیامت ملے ہوئے ہیں،یعنی میرے اور قیامت کے درمیان اللہ تعالیٰ کوئی رسول یا نبی نہیں بھیجے گا۔ 2۔ اس حدیث سے بعض اہل علم نے اس امت کی عمر کاتعین کرناچاہا ہے لیکن بے سود ثابت ہواہے کیونکہ قیامت کے واقع ہونے کا علم اللہ کے سوا کسی کےپاس نہیں ہے۔ واللہ اعلم w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4936