صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book of As-Salat (The Prayer)
89. بَابُ الْمَسَاجِدِ الَّتِي عَلَى طُرُقِ الْمَدِينَةِ وَالْمَوَاضِعِ الَّتِي صَلَّى فِيهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.:
89. باب: ان مساجد کا بیان جو مدینہ کے راستے میں واقع ہیں اور وہ جگہیں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا فرمائی ہے۔
(89) Chapter. The mosques which are on the way to Al-Madina and the places where the Prophet ﷺ had offered Salat (prayers).
حدیث نمبر: 484
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن المنذر الحزامي، قال: حدثنا انس بن عياض، قال: حدثنا موسى بن عقبة، عن نافع، ان عبد الله اخبره،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان ينزل بذي الحليفة حين يعتمر وفي حجته حين حج تحت سمرة في موضع المسجد الذي بذي الحليفة، وكان إذا رجع من غزو كان في تلك الطريق او حج او عمرة هبط من بطن واد، فإذا ظهر من بطن واد اناخ بالبطحاء التي على شفير الوادي الشرقية فعرس، ثم حتى يصبح ليس عند المسجد الذي بحجارة ولا على الاكمة التي عليها المسجد كان، ثم خليج يصلي عبد الله عنده في بطنه كثب كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم يصلي فدحا السيل فيه بالبطحاء حتى دفن ذلك المكان الذي كان عبد الله يصلي فيه.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ أَخْبَرَهُ،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْزِلُ بِذِي الْحُلَيْفَةِ حِينَ يَعْتَمِرُ وَفِي حَجَّتِهِ حِينَ حَجَّ تَحْتَ سَمُرَةٍ فِي مَوْضِعِ الْمَسْجِدِ الَّذِي بِذِي الْحُلَيْفَةِ، وَكَانَ إِذَا رَجَعَ مِنْ غَزْوٍ كَانَ فِي تِلْكَ الطَّرِيقِ أَوْ حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ هَبَطَ مِنْ بَطْنِ وَادٍ، فَإِذَا ظَهَرَ مِنْ بَطْنِ وَادٍ أَنَاخَ بِالْبَطْحَاءِ الَّتِي عَلَى شَفِيرِ الْوَادِي الشَّرْقِيَّةِ فَعَرَّسَ، ثَمَّ حَتَّى يُصْبِحَ لَيْسَ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الَّذِي بِحِجَارَةٍ وَلَا عَلَى الْأَكَمَةِ الَّتِي عَلَيْهَا الْمَسْجِدُ كَانَ، ثَمَّ خَلِيجٌ يُصَلِّي عَبْدُ اللَّهِ عِنْدَهُ فِي بَطْنِهِ كُثُبٌ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثَمَّ يُصَلِّي فَدَحَا السَّيْلُ فِيهِ بِالْبَطْحَاءِ حَتَّى دَفَنَ ذَلِكَ الْمَكَانَ الَّذِي كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يُصَلِّي فِيهِ.
ہم سے ابراہیم بن المنذر حزامی نے بیان کیا، کہا ہم سے انس بن عیاض نے، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے نافع سے، ان کو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب عمرہ کے قصد سے تشریف لے گئے اور حجۃ الوداع کے موقعہ پر جب حج کے لیے نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحلیفہ میں قیام فرمایا۔ ذوالحلیفہ کی مسجد کے قریب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ببول کے درخت کے نیچے اترے اور جب آپ کسی جہاد سے واپس ہوتے اور راستہ ذوالحلیفہ سے ہو کر گزرتا یا حج یا عمرہ سے واپسی ہوتی تو آپ وادی عتیق کے نشیبی علاقہ میں اترتے، پھر جب وادی کے نشیب سے اوپر چڑھتے تو وادی کے بالائی کنارے کے اس مشرقی حصہ پر پڑاؤ ہوتا جہاں کنکریوں اور ریت کا کشادہ نالا ہے۔ (یعنی بطحاء میں) یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو صبح تک آرام فرماتے۔ یہ مقام اس مسجد کے قریب نہیں ہے جو پتھروں کی بنی ہے، آپ اس ٹیلے پر بھی نہیں ہوتے جس پر مسجد بنی ہوئی ہے۔ وہاں ایک گہرا نالہ تھا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما وہیں نماز پڑھتے۔ اس کے نشیب میں ریت کے ٹیلے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں نماز پڑھا کرتے تھے۔ کنکریوں اور ریت کے کشادہ نالہ کی طرف سے سیلاب نے آ کر اس جگہ کے آثار و نشانات کو پاٹ دیا ہے، جہاں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نماز پڑھا کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

The narrated Hadith is about the various places on the way from Medina to Mecca where the Prophet (saws) prayed and is not translated.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 8, Number 471


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري2336عبد الله بن عمرأري وهو في معرسه من ذي الحليفة في بطن الوادي فقيل له إنك ببطحاء مباركة
   صحيح البخاري484عبد الله بن عمرينزل بذي الحليفة حين يعتمر وفي حجته حين حج تحت سمرة في موضع المسجد الذي بذي الحليفة وكان إذا رجع من غزو كان في تلك الطريق أو حج أو عمرة هبط من بطن واد فإذا ظهر من بطن واد أناخ بالبطحاء التي على شفير الوادي الشرقية فعرس ثم حتى يصبح ليس عند المسجد الذي بحجا
   صحيح البخاري7345عبد الله بن عمرأري وهو في معرسه بذي الحليفة فقيل له إنك ببطحاء مباركة
   صحيح البخاري1799عبد الله بن عمرإذا خرج إلى مكة يصلي في مسجد الشجرة إذا رجع صلى بذي الحليفة ببطن الوادي وبات حتى يصبح
   صحيح البخاري1532عبد الله بن عمرأناخ بالبطحاء بذي الحليفة فصلى بها
   صحيح البخاري1535عبد الله بن عمررئي وهو في معرس بذي الحليفة ببطن الوادي قيل له إنك ببطحاء مباركة
   صحيح مسلم3282عبد الله بن عمرأناخ بالبطحاء التي بذي الحليفة فصلى بها
   صحيح مسلم3285عبد الله بن عمرأتي في معرسه بذي الحليفة فقيل له إنك ببطحاء مباركة
   صحيح مسلم2823عبد الله بن عمربات رسول الله بذي الحليفة مبدأه وصلى في مسجدها
   صحيح مسلم3286عبد الله بن عمرأتي وهو في معرسه من ذي الحليفة في بطن الوادي فقيل إنك ببطحاء مباركة
   صحيح مسلم3284عبد الله بن عمرإذا صدر من الحج أو العمرة أناخ بالبطحاء التي بذي الحليفة التي كان ينيخ بها رسول الله
   صحيح مسلم3283عبد الله بن عمرينيخ بالبطحاء التي بذي الحليفة التي كان رسول الله ينيخ بها ويصلي بها
   سنن أبي داود2012عبد الله بن عمريهجع هجعة بالبطحاء ثم يدخل مكة
   سنن أبي داود2044عبد الله بن عمرأناخ بالبطحاء التي بذي الحليفة فصلى بها
   سنن النسائى الصغرى2661عبد الله بن عمرإنك ببطحاء مباركة
   سنن النسائى الصغرى2660عبد الله بن عمربات رسول الله بذي الحليفة ببيداء وصلى في مسجدها
   سنن النسائى الصغرى2662عبد الله بن عمرأناخ بالبطحاء التى بذي الحليفة وصلى بها
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم129عبد الله بن عمراناخ بالبطحاء التى بذي الحليفة وصلى بها

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 484 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:484  
حدیث حاشیہ:
اس باب کی احادیث میں جن مساجد کا ذکر ہے ان میں سے اکثر لاپتہ ہوچکی ہیں۔
وہ درخت اورنشانات بھی ختم ہوچکے ہیں جن کے ذریعے سے ان مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے۔
اب ان مساجد میں سے صرف ذوالحلیفہ اور روحاء کی مساجد رہ گئی ہیں جنھیں وہاں کے باشندے پہچانتے ہیں۔
(فتح الباري: 738/1)
پہلی منزل:
رسول اللہ ﷺ جب مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ تشریف لے جاتے تو ذوالحلیفہ آپ کی پہلی منزل ہوتی۔
ذوالحلیفہ،مدینہ منورہ سے تین میل کے فاصلے پر ہے۔
اسے بئر علی کہاجاتا ہے۔
اہل مدینہ کے لیے احرام حج کی میقات ہے۔
رسول اللہ ﷺ ذوالحلیفہ میں ایک کیکر کے درخت کے نیچے نزول فرماتے تھے۔
اب اس مقام پر مسج بن چکی ہے۔
حضرت ابن عمر ؓ کےبیان کے مطابق ٹھیک اسی جگہ مسجد بنی ہے جہاں رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی تھی، لیکن واپسی کے وقت نماز پڑھنے کی جگہ ایک دوسرا مقام تھا۔
حضرت ابن عمر ؓ کے بیان کے مطابق جہاں رسول اللہ ﷺ واپسی کے وقت نماز پڑھتے تھے وہاں ایک گہری وادی تھی جس کے اندر ریت کے تودے تھے۔
وہاں جومسجدیں ہیں وہ رسول اللہ ﷺ کی نماز کی جگہوں کے علاوہ ہیں۔
ایک مسجد پتھروں سے بنی ہوئی ہے اور دوسری ٹیلے پر بنی ہوئی ہے۔
جہاں رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی تھی وہ جگہ سنگریزوں سے چھپ گئی ہے ایک مقام مدینہ منورہ سے تقریباً چھ میل کے فاصلے پر ہے جہاں رسول اللہ ﷺ نے آخر شب قیام فرمایا تھا۔
وہاں مسجد معرس تعمیر ہوچکی ہے۔
اب صرف دو مساجد ہیں:
مسجد ذوالحلیفہ اور مسجد معرس جو محفوظ ہیں۔
باقی رہے نام اللہ کا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 484   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 129  
´سواری کو سترہ بنانا جائز ہے`
«. . . 228- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أناخ بالبطحاء التى بذي الحليفة وصلى بها. قال نافع: وكان عبد الله بن عمر يفعل ذلك. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ ذوالحلیفہ کے پاس بطحاء کے مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری بٹھائی اور اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی۔ نافع نے کہا: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی اسی طرح کرتے تھے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 129]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1532، ومسلم 430/1257 بعد ح1345، من حديث مالك به]
تفقہ
➊ سترے کا اہتمام کرنا چاہئے اور یہ کہ سواری کے جانور کو سترہ بنایا جا سکتا ہے۔
➋ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ اتباع سنت میں ہر وقت مستعد رہتے تھے۔
➌ صحیح العقیدہ مسلمان کی ہر وقت یہی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے امام اعظم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتا رہے۔
➍ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کی نمازیں محصب (مکہ کے قریب ایک مقام) پر پڑھتے پھر رات کو مکہ میں داخل ہوتے اور طواف کرتے تھے۔ [الموطأ 1/405 ح934 وسنده صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 228   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2660  
´رات ذوالحلیفہ میں پڑاؤ ڈالنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحلیفہ کے شروع ہونے کی جگہ میں رات گزاری اور اس کی مسجد میں نماز پڑھی۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2660]
اردو حاشہ:
(1) یہاں سے احرام کا طریقہ بیان کرنا مقصود ہے۔ مدینہ منورہ والوں کا میقات ذوالحلیفہ ہے، لہٰذا آپ نے وہاں رات گزاری۔ صبح احرام باندھا۔ وہاں رات گزارنا کوئی ضروری نہیں۔ اس زمانے میں سفر کئی دنوں پر محیط ہوتا تھا، اس لیے رات گزارنے کی گنجائش تھی، اب تیز رفتار سفر کا دور ہے۔
(2) ابتداء ً سے مراد یہ ہے کہ مکہ مکرمہ کو جاتے ہوئے ابتدائے سفر میں، نہ کہ واپسی کے وقت۔
(3) مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں وہاں کوئی مسجد نہیں تھی، بعد میں بنائی گئی۔ عین اسی جگہ جہاں آپ نے نماز پڑھی تھی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2660   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2661  
´رات ذوالحلیفہ میں پڑاؤ ڈالنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں آیا گیا اور آپ ذوالحلیفہ کے پڑاؤ کی جگہ میں تھے اور کہا گیا کہ آپ بابرکت بطحاء میں ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2661]
اردو حاشہ:
بابرکت وادی میں ہیں۔ کیونکہ یہ وادی دوران سفر حج میں بہت سے انبیاء کی فرد گاہ رہی تھی۔ شام اور فلسطین انبیاء علیہم السلام کے علاقے ہیں۔ وہاں سے مکہ مکرمہ آتے ہوئے یہ وادی راستے میں پڑتی تھی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2661   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2823  
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر حج کے آغاز میں رات ذوالحلیفہ میں گزاری اور اس کی مسجد میں نماز پڑھی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2823]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے لیے مدینہ منورہ سے پچیس (25)
ذوالقعدہ کو ہفتہ کے دن ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد نکلے اور عصر کی نماز ذوالحلیفہ میں آ کر ادا کی،
رات ذوالحلیفہ میں بسر کی اوراتوار کے دن کی نماز ظہر پڑھنے کے بعد وہاں سے مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہوئے مہینہ انتیس دن کا تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار ذوالحجہ کو اتوار کے دن مکہ معظمہ پہنچ گئے اور نو (9)
ذوالحجہ عرفہ کا دن،
جمعۃ المبارک تھا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2823   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3285  
حضرت سالم رحمۃ اللہ علیہ اپنے باپ (ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما) سے بیان کرتے ہیں کہ رات کے آخری حصہ میں، ذوالحلیفہ کے پڑاؤ (منزل) میں، خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مبارک بطحاء میں ہیں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3285]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
بَطْحَاء:
کنکروں یا سنگریزوں والی زمین۔
(2)
مُعَرَّسْ:
پڑاؤ،
منزل۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3285   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3286  
حضرت سالم رحمۃ اللہ علیہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک فرشتہ آیا، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ کی وادی عتیق کے اندر اپنے پڑاؤ میں تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مبارک بطحاء میں ہیں، راوی موسیٰ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ سالم نے نماز کی جگہ میں جہاں حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اونٹ بٹھایا کرتے تھے، اونٹ بٹھائے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑاؤ کا قصد کرتے تھے، اور وہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3286]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حج اور عمرہ پر جاتے وقت اور واپسی پر ذوالحلیفہ میں پڑاؤ کرتے تھے،
اور وہاں نماز پڑھتے تھے،
اس لیے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک وہاں اترنا اور نماز پڑھنا بہتر ہے،
واپسی پر وہاں اترنا اور نماز پڑھنا حج کا حصہ نہیں ہے،
وادی عقیق متبرک وادی ہے،
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں بعض اہل مدینہ وہاں آ کر نماز پڑھتے تھے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3286   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1535  
1535. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کو ایک خواب دکھایا گیا جبکہ آپ ذوالحلیفہ کی ایک وادی (عقیق) کے درمیان رات کا پڑاؤ کیے ہوئے تھے۔ آپ سے کہا گیا: آپ اس وقت ایک بابرکت میدان میں ہیں۔ راوی حدیث کہتا ہے کہ حضرت سالم بن عبد اللہ نے ہمیں اسی مقام پر ٹھہرایا۔ وہ اسی جگہ کو تلاش کرتے جہاں حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ اونٹ بٹھایا کرتے تھے اور وہ بھی رسول اللہ ﷺ کے پڑاؤ کا قصد کرتے تھے، بطن وادی میں وہ مقام مسجد کی نچلی جانب ہے، یعنی پڑاؤ کرنے والوں اور راستے کے درمیان میں واقع ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1535]
حدیث حاشیہ:
حدیث سے وادی کی فضیلت ظاہر ہے۔
اس میں قیام کرنااور یہاں نمازیں ادا کرنا باعث اجر و ثواب اور اتباع سنت ہے۔
تبع جب مدینہ سے واپس ہوا تو اس نے یہاں قیام کیا تھااور اس زمین کی خوبی دیکھ کر کہا تھاکہ یہ تو عقیق کی مانند ہے۔
اسی وقت سے اس کا نام عقیق ہوگیا۔
(فتح الباری)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1535   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1799  
1799. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوتے تو مسجد شجرہ میں نماز پڑھتے اور جب واپس تشریف لاتے تو ذوالحلیفہ کی وادی کے نشیب میں نماز ادا کرتے اور صبح تک وہاں رات بسر کرتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1799]
حدیث حاشیہ:
پھر مدینہ میں دن میں تشریف لاتے لہٰذا مناسب ہے کہ مسافر خاص طور پر سفر حج سے واپس ہونے والے دن میں اپنے گھروں میں تشریف لائے کہ اس میں بھی شارع ؑ نے بہت سے مصالح کو مد نظر رکھا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1799   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7345  
7345. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپکو ایک خواب دکھایا گیا جبکہ آپ مقام ذوالحلیفہ میں محو استراحت تھے۔ آپ سے کہا گیا: بلاشبہ آپ بابرکت وادی ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7345]
حدیث حاشیہ:
ذوالحلیفہ میں ایک مبارک وادی ہے جس کا ذکر کیا گیا۔
حافظ نے کہا امام بخاری نے اس باب میں جو احادیث بیان کیں اس سے مدینہ کی فضیلت ظاہر کی اور اس کی فضیلت میں شک کیا ہے؟ وہاں وحی اترتی رہی‘ وہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر ہے اور منبر ہے جو بہشت کی ایک کیاری ہے کلام اس میں ہے کہ مدینہ کے عالم کیا دوسرے ملکوں کے عالموں پر مقدم ہیں تو اگر یہ مقصود ہو کہ آنحضرت کے زمانہ میں یا اس زمانہ میں جب تک صحابہ مدینہ میں جمع تھے تو یہ مسلم ہے۔
اگر یہ مراد ہو کہ ہر زمانہ میں تو اس میں نزاع ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ مدینہ کے عالم ہر زمانہ میں دوسرے ملکوں کے عالموں پر مقدم ہوں۔
اس لیے کہ ائمہ مجتہدین کے زمانہ کے بعد پھر مدینہ میں ایک بھی عالم ایسا نہیں ہوا جو دوسرے ملکوں کے کسی عالم سے بھی زیادہ علم رکھتا ہوں چہ جائیکہ دوسرے ملکوں کے سب عالموں سے بڑھ کر ہو بلکہ مدینہ میں ایسے ایسے بدعتی اور بد طینت لوگ جا کر رہے جن کی بد نیتی اور بد طینتی میں کوئی شک نہیں ہو سکتا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7345   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1532  
1532. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے ذوالحلیفہ کے میدان میں اپنے اونٹ کو بٹھایا، پھر وہاں نماز پڑھی اور حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ بھی ایسا کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1532]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ باب عنوان کے بغیر ہے۔
گویا سابق عنوان کا تکملہ ہے، یعنی میقات کے پاس احرام کی نیت کرنے سے پہلے دو رکعت پڑھنا مستحب ہے۔
شارح ابن بطال کے ہاں اس مقام پر بایں الفاظ عنوان ہے:
(الصلاة بذي الحليفة)
ذوالحلیفہ میں نماز پڑھنا ممکن ہے کہ یہ دو رکعت احرام کی ہوں یا فریضے کے طور پر ادا کی ہوں کیونکہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ذوالحلیفہ میں نماز عصر کی دو رکعت پڑھی تھیں۔
(2)
احرام کی دو رکعتیں پڑھنے کے بارے میں اختلاف ہے۔
راجح بات یہ ہے کہ احرام کی خصوصی طور پر دو رکعتیں کسی حدیث سے صراحتا ثابت نہیں ہیں، البتہ جو شخص احرام سے پہلے وضو کرے تو وضو کی دو رکعت پڑھ کر احرام باندھے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1532   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1535  
1535. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کو ایک خواب دکھایا گیا جبکہ آپ ذوالحلیفہ کی ایک وادی (عقیق) کے درمیان رات کا پڑاؤ کیے ہوئے تھے۔ آپ سے کہا گیا: آپ اس وقت ایک بابرکت میدان میں ہیں۔ راوی حدیث کہتا ہے کہ حضرت سالم بن عبد اللہ نے ہمیں اسی مقام پر ٹھہرایا۔ وہ اسی جگہ کو تلاش کرتے جہاں حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ اونٹ بٹھایا کرتے تھے اور وہ بھی رسول اللہ ﷺ کے پڑاؤ کا قصد کرتے تھے، بطن وادی میں وہ مقام مسجد کی نچلی جانب ہے، یعنی پڑاؤ کرنے والوں اور راستے کے درمیان میں واقع ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1535]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں بھی وادی عقیق کے بابرکت ہونے کا ذکر ہے۔
اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ کو بذریعہ خواب اطلاع دی گئی اور انبیاء ؑ کے خواب وحی پر مبنی ہوتے ہیں۔
اس وادی میں قیام کرنا اور نمازیں ادا کرنا باعث اجروثواب ہے۔
اتباع سنت کا الگ ثواب ہو گا۔
(2)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اس جگہ کو تلاش کر کے وہاں قیام کرتے تھے۔
سنن بیہقی میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وہاں درخت کے نیچے پڑاؤ کیا تھا اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اس درخت کو پانی دیتے تھے تاکہ وہ خشک نہ ہونے پائے۔
(السنن الکبرٰی للبیھقي: 245/5)
حضرت سالم بھی اپنے باپ حضرت عبداللہ ؓ کی اتباع میں اس جگہ کو تلاش کر کے وہاں قیام کرتے تھے۔
(فتح الباري: 495/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1535   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1799  
1799. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوتے تو مسجد شجرہ میں نماز پڑھتے اور جب واپس تشریف لاتے تو ذوالحلیفہ کی وادی کے نشیب میں نماز ادا کرتے اور صبح تک وہاں رات بسر کرتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1799]
حدیث حاشیہ:
مسافر کے لیے ممانعت ہے کہ وہ اچانک رات کے وقت اپنے گھر آئے جیسا کہ آئندہ بیان ہو گا، اس کے علاوہ صبح و شام جب چاہے اپنے گھر آ سکتا ہے، چنانچہ اس حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ واپس تشریف لاتے تو ذوالحلیفہ کی وادی میں رات بسر کرتے، صبح کے وقت اپنے گھر تشریف لاتے۔
اس میں شارع ؑنے بہت سی مصلحتوں کو پیش نظر رکھا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1799   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7345  
7345. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپکو ایک خواب دکھایا گیا جبکہ آپ مقام ذوالحلیفہ میں محو استراحت تھے۔ آپ سے کہا گیا: بلاشبہ آپ بابرکت وادی ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7345]
حدیث حاشیہ:
ذوالحلیفہ میں ایک مبارک وادی ہے جس کا اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت جو احادیث بیان کی ہیں ان سے مدینہ طیبہ کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔
اس کی فضیلت میں کوئی شک نہیں وہاں وحی اترتی رہی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7345   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.