(مرفوع) حدثنا عمر بن حفص بن غياث، حدثنا ابي، حدثنا الاعمش، قال: حدثني عمرو بن مرة، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال:" لما نزلت: وانذر عشيرتك الاقربين سورة الشعراء آية 214 صعد النبي صلى الله عليه وسلم على الصفا، فجعل ينادي يا بني فهر، يا بني عدي، لبطون قريش حتى اجتمعوا، فجعل الرجل إذا لم يستطع ان يخرج، ارسل رسولا لينظر ما هو، فجاء ابو لهب وقريش، فقال:"ارايتكم لو اخبرتكم ان خيلا بالوادي تريد ان تغير عليكم اكنتم مصدقي؟ قالوا: نعم، ما جربنا عليك إلا صدقا، قال: فإني نذير لكم بين يدي عذاب شديد، فقال ابو لهب: تبا لك سائر اليوم الهذا جمعتنا، فنزلت: تبت يدا ابي لهب وتب {1} ما اغنى عنه ماله وما كسب {2} سورة المسد آية 1-2".(مرفوع) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" لَمَّا نَزَلَتْ: وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214 صَعِدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الصَّفَا، فَجَعَلَ يُنَادِي يَا بَنِي فِهْرٍ، يَا بَنِي عَدِيٍّ، لِبُطُونِ قُرَيْشٍ حَتَّى اجْتَمَعُوا، فَجَعَلَ الرَّجُلُ إِذَا لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يَخْرُجَ، أَرْسَلَ رَسُولًا لِيَنْظُرَ مَا هُوَ، فَجَاءَ أَبُو لَهَبٍ وَقُرَيْشٌ، فَقَالَ:"أَرَأَيْتَكُمْ لَوْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ خَيْلًا بِالْوَادِي تُرِيدُ أَنْ تُغِيرَ عَلَيْكُمْ أَكُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ؟ قَالُوا: نَعَمْ، مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ إِلَّا صِدْقًا، قَالَ: فَإِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ، فَقَالَ أَبُو لَهَبٍ: تَبًّا لَكَ سَائِرَ الْيَوْمِ أَلِهَذَا جَمَعْتَنَا، فَنَزَلَتْ: تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ {1} مَا أَغْنَى عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ {2} سورة المسد آية 1-2".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے، کہا کہ مجھ سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب آیت «وأنذر عشيرتك الأقربين»”اور آپ اپنے خاندانی قرابت داروں کو ڈراتے رہئیے“ نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور پکارنے لگے۔ اے بنی فہر! اور اے بنی عدی! اور قریش کے دوسرے خاندان والو! اس آواز پر سب جمع ہو گئے اگر کوئی کسی وجہ سے نہ آ سکا تو اس نے اپنا کوئی چودھری بھیج دیا، تاکہ معلوم ہو کہ کیا بات ہے۔ ابولہب قریش کے دوسرے لوگوں کے ساتھ مجمع میں تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خطاب کر کے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے، اگر میں تم سے کہوں کہ وادی میں (پہاڑی کے پیچھے) ایک لشکر ہے اور وہ تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم میری بات سچ مانو گے؟ سب نے کہا کہ ہاں، ہم آپ کی تصدیق کریں گے ہم نے ہمیشہ آپ کو سچا ہی پایا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر سنو، میں تمہیں اس سخت عذاب سے ڈراتا ہوں جو بالکل سامنے ہے۔ اس پر ابولہب بولا، تجھ پر سارے دن تباہی نازل ہو، کیا تو نے ہمیں اسی لیے اکٹھا کیا تھا۔ اسی واقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی «تبت يدا أبي لهب وتب * ما أغنى عنه ماله وما كسب»”ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ برباد ہو گیا، نہ اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی ہی اس کے آڑے آئی۔“
Narrated Ibn `Abbas: When the Verse:--'And warn your tribe of near-kindred, was revealed, the Prophet ascended the Safa (mountain) and started calling, "O Bani Fihr! O Bani `Adi!" addressing various tribes of Quraish till they were assembled. Those who could not come themselves, sent their messengers to see what was there. Abu Lahab and other people from Quraish came and the Prophet then said, "Suppose I told you that there is an (enemy) cavalry in the valley intending to attack you, would you believe me?" They said, "Yes, for we have not found you telling anything other than the truth." He then said, "I am a warner to you in face of a terrific punishment." Abu Lahab said (to the Prophet) "May your hands perish all this day. Is it for this purpose you have gathered us?" Then it was revealed: "Perish the hands of Abu Lahab (one of the Prophet's uncles), and perish he! His wealth and his children will not profit him...." (111.1-5)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 293
أرأيتكم لو أخبرتكم أن خيلا بالوادي تريد أن تغير عليكم أكنتم مصدقي قالوا نعم ما جربنا عليك إلا صدقا قال فإني نذير لكم بين يدي عذاب شديد فقال أبو لهب تبا لك سائر اليوم ألهذا جمعتنا نزلت تبت يدا أبي لهب وتب ما أغنى عنه ماله وما كسب
أرأيتم لو أخبرتكم أن العدو يصبحكم أو يمسيكم أما كنتم تصدقوني قالوا بلى قال فإني نذير لكم بين يدي عذاب شديد فقال أبو لهب تبا لك ألهذا جمعتنا فأنزل الله تبت يدا أبي لهب
إني نذير لكم بين يدي عذاب شديد أرأيتم لو أني أخبرتكم أن العدو ممسيكم أو مصبحكم أكنتم تصدقوني فقال أبو لهب ألهذا جمعتنا تبا لك أنزل الله تبت يدا أبي لهب وتب
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4770
حدیث حاشیہ: یہی ابو لہب ہے جو بعد میں عذاب الٰہی میں گرفتار ہوا اور صرف ایک زہریلی پھنسی نکلنے سے اس کا سارا جسم زہر آلود ہو گیا۔ آخر جب سارا جسم گل سڑ گیا تب جا کر موت نے خاتمہ کیا۔ مرنے کے بعد کئی دنوں تک لاش سڑتی رہی، آخر متعلقین نے لکڑیوں سے نعش کو ڈھکیل کر ایک گڑھے میں ڈالا۔ اس طرح عذاب الٰہی کا وعدہ پورا ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4770
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4971
´اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرانا` «. . . عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214، وَرَهْطَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى صَعِدَ الصَّفَا فَهَتَفَ يَا صَبَاحَاهْ . . .» ”. . . ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ` جب یہ آیت نازل ہوئی «وأنذر عشيرتك الأقربين»”آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے اور اپنے گروہ کے ان لوگوں کو ڈرائیے جو مخلصین ہیں۔“ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور پکارا: یاصباحاہ! قریش نے کہا یہ کون ہے، پھر وہاں سب آ کر جمع ہو گئے . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/بَابٌ: 4971]
تخريج الحديث: [124۔ البخاري فى: 65 كتاب التفسير: 1 باب حدثنا يوسف 4971، مسلم 208] لغوی توضیح: «الصَّفَا» مکہ میں ایک مقام کا نام۔ «يَا صَبَاحَاه» یہ وہ کلمہ ہے جو فریاد کرنے والا پکارتا ہے یا لوگوں کو کسی اہم کام کے لیے جمع کرنے کی غرض سے پکارا جاتا ہے۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 124
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3363
´سورۃ «تبت یدا» سے بعض آیات کی تفسیر۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا (پہاڑ) پر چڑھ گئے، وہاں سے یا «صباحاه»۱؎ آواز لگائی تو قریش آپ کے پاس اکٹھا ہو گئے۔ آپ نے فرمایا: ”میں تمہیں سخت عذاب سے ڈرانے والا (بنا کر بھیجا گیا) ہوں، بھلا بتاؤ تو اگر میں تمہیں خبر دوں کہ (پہاڑ کے پیچھے سے) دشمن شام یا صبح تک تم پر چڑھائی کرنے والا ہے تو کیا تم لوگ مجھے سچا جانو گے؟ ابولہب نے کہا کیا: تم نے ہمیں اسی لیے اکٹھا کیا تھا؟ تمہارا ستیاناس ہو ۲؎، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت «تبت يدا أبي لهب وتب»”ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3363]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یہ آواز عرب اس وقت لگایا کرتے تھے جب قبیلہ حملہ والوں کو کسی خاص اوراہم معاملہ کے لیے جمع کرنا ہوتا تھا۔
2؎: دیگر روایات میں آتا ہے کہ لوگوں کے جمع ہو جانے پر پہلے آپﷺ نے ان سے تصدیق چاہی کہ اگر میں ایسا کہوں تو کیا تم میری بات کی تصدیق کرو گے، یا نہیں؟ اس پر انھوں نے کہا، کیوں نہیں کریں گے، آپﷺ ہمارے درمیان امین اور صادق مسلم ہیں، اس پر آپ ﷺنے توحید کی دعوت پیش کی اس دلیل سے کہ تب میری اس بات پر بھی تصدیق کرو اس پر ابولہب نے مذکورہ بات کہی۔
3؎: ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ہو گیا (تبت: 1)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3363
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4801
4801. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ ایک دن صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور فرمایا: ”یا صباحاہ، یعنی صبح کے وقت تم پر دشمن حملہ آور ہونے والا ہے۔“ یہ سن کر قریش جمع ہو گئے اور آپ سے کہا: تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”مجھے بتاؤ اگر میں تمہیں بتاؤں کہ دشمن تم پر صبح یا شام کے وقت حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا خٰيال کرو گے؟“ انہوں نے جواب دیا: کیوں نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”تو پھر سن لو کہ میں شدید عذاب آنے سے پہلے پہلے تمہیں ڈرانے والا ہوں۔“ یہ سن کر ابولہب (تنک کر) بولا: تیرے لیے ہلاکت ہو! کیا تو نے اسی لیے ہمیں یہاں جمع کیا تھا؟ اللہ تعالٰی نے اس کے جواب میں سورہ لہب نازل فرمائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4801]
حدیث حاشیہ: ابو لہب کی بد دعا الٹی اسی کے اوپر پڑی۔ اللہ نے اسے بڑی ذلت کی موت مارا۔ اس کا مال اس کا خاندان کوئی چیز اس کے کام نہیں آئی۔ اللہ والوں کے ستانے والوں کا آخری انجام ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ تاریخ کا مطالعہ کرنے والوں پر مخفی نہیں ہے۔ الحمد اللہ کہ اللہ کی مدد اور شائقین کرام کی پر خلوص دعاؤں سے یہ پارہ 19ختم ہوا اپنی ہر امکانی کوشش اسے بہتر سے بہتر بنانے اور ترجمہ اور تشریحات لکھنے میں صرف کی گئی ہے اور سفر و حضر شب و روز میں اس کے متن و ترجمہ و تشریحات کا بار بار مطالعہ کیا گیا ہے پھر بھی انسان سے خطا و نسیان کا ہر وقت امکان ہے۔ اللہ پاک ہر لغزش کو معاف فرمائے اور مخلصین ماہرین علم حدیث بھی چشم عفو سے کام لیتے ہوئے امکانی لغزشوں پر مطلع فرما کر مشکور کریں تا کہ طبع ثانی میں اصلاح کر دی جائے۔ دعا ہے کہ اللہ پاک احادیث نبوی کے اس پاکیزہ ذخیرہ سے مطالعہ فرمانے والے مسلمان بھائیوں بہنوں کو رشد و ہدایت سے مالا مال فرمائے اور اس پارے کے بعد والے پاروں کو بھی تکمیل تک پہنچانے میں مجھ ناچیز خادم کی مدد کرے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4801
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4971
4971. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی ”اور آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں۔“ اور ان لوگوں کو بھی خبردار کریں جو آپ کے گروہ میں مخلص ہیں، تو رسول اللہ ﷺ صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور بآواز بلند کہا: ”یا صباحاہ“! قریش نے کہا: یہ کون ہے؟ پھر وہاں سب آ کر جمع ہو گئے تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”تمہارا کیا خیال ہے اگر میں تمہیں بتاؤں کہ ایک لشکر اس پہاڑ کے پیچھے سے آنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا خیال کرو گے؟“ تمام نے بیک زبان جواب دیا: ہمیں کبھی جھوٹ کا آپ سے تجربہ نہیں ہوا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”پھر میں تمہیں اس عذاب سے ڈراتا ہوں جو تمہارے سامنے آ رہا ہے۔“ اس وقت ابولہب نے کہا: تیری تباہی ہو، کیا تو نے ہمیں یہاں اس لیے جمع کیا تھا؟ پھر آپ ﷺ وہاں سے روانہ ہوئے تو یہ سورت نازل ہوئی: ﴿تَبَّتْ يَدَآ أَبِى لَهَبٍ وَتَبَّ﴾ اعمش نے اس آیت کو یوں پڑھا ہے: وقد تب۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4971]
حدیث حاشیہ: دشمن کے حملہ کے خطرہ کے وقت اپنی قوم کو تنبیہ کرنے کے لئے اہل عرب لفظ یا صباحاہ کے ساتھ پکارا کرتے تھے۔ آنحضرت کو بھی ان کے کفر و شرک اور جہالت کے خلاف انہیں تنبیہ کرنا اور ڈرانا تھا۔ اس لئے آپ نے انہیں اس طرح پکارا جس طرح دشمن کے خطرہ کے وقت پکارا جاتا تھا۔ حضرت ابن عباس نے آیت ﴿و أَنذِر عَشیرَتك﴾ والی کے ساتھ لفظ ﴿و رھطكَ منھُمُ المُخلصِینَ﴾ بھی زیادہ کئے ہیں لیکن جمہور نے اس آیت کو نہیں پڑھا۔ اسی لئے یہ مصحف عثمانی میں بھی نہیں لکھی گئی۔ شاید اس کی تلاوت منسوخ ہو گئی جس کا علم حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو نہ ہو سکا ہو۔ قد کا لفظ قرآن شریف میں نہیں ہے۔ اعمش نے یہ اپنے طور پر کہا کہ اللہ نے جو خبر دی تھی وہ پوری ہو گئی وقد تب کا یہی معنی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4971
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4801
4801. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ ایک دن صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور فرمایا: ”یا صباحاہ، یعنی صبح کے وقت تم پر دشمن حملہ آور ہونے والا ہے۔“ یہ سن کر قریش جمع ہو گئے اور آپ سے کہا: تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”مجھے بتاؤ اگر میں تمہیں بتاؤں کہ دشمن تم پر صبح یا شام کے وقت حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا خٰيال کرو گے؟“ انہوں نے جواب دیا: کیوں نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”تو پھر سن لو کہ میں شدید عذاب آنے سے پہلے پہلے تمہیں ڈرانے والا ہوں۔“ یہ سن کر ابولہب (تنک کر) بولا: تیرے لیے ہلاکت ہو! کیا تو نے اسی لیے ہمیں یہاں جمع کیا تھا؟ اللہ تعالٰی نے اس کے جواب میں سورہ لہب نازل فرمائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4801]
حدیث حاشیہ: قریش مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیوانہ کہتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے خیال کے مطابق میں اس لیے دیوانہ ہوں کہ میں تمھیں اس بات سے آگاہ کر رہا ہوں کہ جو طریق زندگی تم نے اختیار کیا ہے۔ وہ سراسر غلط اور بے بنیاد ہے اور اس کے برے انجام سے میں تمھیں ڈرا رہا ہوں اور اگر میں اس کے برعکس یہ کہہ دیتا کہ تم لوگ بہت ٹھیک جا رہے ہوتب تم مجھے فرزانہ قرار دیتے اور اگر میں تمھیں چند ٹھوس حقائق کی اطلاع دیتا ہوں تو تم مجھے دیوانہ کہنے لگےہو۔ خدارا! کچھ غور و فکر اورعقل کے ناخن لو۔ واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4801
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4971
4971. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی ”اور آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں۔“ اور ان لوگوں کو بھی خبردار کریں جو آپ کے گروہ میں مخلص ہیں، تو رسول اللہ ﷺ صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور بآواز بلند کہا: ”یا صباحاہ“! قریش نے کہا: یہ کون ہے؟ پھر وہاں سب آ کر جمع ہو گئے تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”تمہارا کیا خیال ہے اگر میں تمہیں بتاؤں کہ ایک لشکر اس پہاڑ کے پیچھے سے آنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا خیال کرو گے؟“ تمام نے بیک زبان جواب دیا: ہمیں کبھی جھوٹ کا آپ سے تجربہ نہیں ہوا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”پھر میں تمہیں اس عذاب سے ڈراتا ہوں جو تمہارے سامنے آ رہا ہے۔“ اس وقت ابولہب نے کہا: تیری تباہی ہو، کیا تو نے ہمیں یہاں اس لیے جمع کیا تھا؟ پھر آپ ﷺ وہاں سے روانہ ہوئے تو یہ سورت نازل ہوئی: ﴿تَبَّتْ يَدَآ أَبِى لَهَبٍ وَتَبَّ﴾ اعمش نے اس آیت کو یوں پڑھا ہے: وقد تب۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4971]
حدیث حاشیہ: ابولہب کا نام عبدالعزی بن عبدالمطلب تھا۔ ابولہب اس کی کنیت تھی۔ چونکہ یہ گورا اور خوبصورت تھا، اس لیے قریش نے اسے ابولہب کا لقب دیا تھا جو بعد اسلام دشمنی کی وجہ سے اس کے، شعلے مارنے والی دوزخ کی آگ میں جانے کے لیے ایک دستاویز کی صورت اختیار کر گیا۔ قرآن کریم نے اس کا اصل نام چھوڑ کر ابولہب کا ذکر کیا ہے، کیونکہ ابو لہب کنیت میں جہنم سے ایک مناسبت تھی۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4971
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4972
4972. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ بطحاء کی طرف تشریف لے گئے اور پہاڑ پر چڑھ کر پکارا: يا صباحاه! اس آواز پر قریش کے لوگ آپ کے پاس جمع ہو گئے تو آپ نے پوچھا: ”بتاؤ، اگر میں تمہیں یہ کہوں کہ دشمن تم پر صبح یا شام کے وقت حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری تصدیق کرو گے؟“ سب نے کہا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں تمہیں عذاب شدید سے ڈراتا ہوں جو تمہارے سامنے ہے۔“ اس پر ابولہب بولا: تو تباہ ہو جائے، کیا تو نے ہمیں اس لیے جمع کیا تھا؟ اس پر اللہ تعالٰی نے یہ سورت نازل فرمائی: ﴿تَبَّتْ يَدَآ أَبِى لَهَبٍ وَتَبَّ﴾ ۔۔۔ آخر تک۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4972]
حدیث حاشیہ: 1۔ ابولہب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی چچا تھا۔ آپ کے والد توآپ کی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہوگئے تھے تو اسے باپ کی جگہ اپنے بھتیجے کی کفالت کرنا چاہیے تھی، لیکن یہ انتہائی بخیل تھا۔ جب آپ کے داداعبدالمطلب فوت ہونے لگے تو انھوں نے آپ کی کفالت ابولہب کے بجائے ابوطالب کے سپرد کی جو مالی لحاظ سے ابولہب کی نسبت بہت کمزور تھا۔ 2۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے پیغام کا برسرعام اعلان کیا تو ابولہب یکدم بھڑک اٹھا اور اس نے جو کہنا تھا وہ کہا جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا ہے۔ 3۔ اگرچہ ابولہب کی اس بدتمیزی سے یہ اجتماع کچھ نتیجہ خیز ثابت نہ ہوا، تاہم اس کایہ فائدہ ضرور ہوا کہ آپ نے حسب ارشاد الٰہی اپنے پورے قبیلے کو اپنی دعوت سے آگاہ کر دیا، البتہ ابولہب کی گستاخی اور بدتمیزی کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے پوری سورت نازل فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے دشمنوں میں سے صرف ابولہب کا نام لے کر اس کی مذمت کی ہے کیونکہ وہ آپ سے دشمنی اور بغض وعناد میں بہت آگے نکل چکا تھا۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4972