صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
1. بَابُ: {وَلاَ تُخْزِنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ} :
1. باب: آیت کی تفسیر ”ابراہیم نے یہ بھی دعا کی تھی کہ یا اللہ! مجھے رسوا نہ کرنا اس دن جب حساب کے لیے سب جمع کئے جائیں گے“۔
(1) Chapter. “And disgrace me not on the day when (all the creatures) will be resurrected." (V.26:87)
حدیث نمبر: Q4768
Save to word اعراب English
وقال مجاهد: تعبثون: تبنون، هضيم: يتفتت إذا مس مسحرين المسحورين ليكة، والايكة جمع ايكة وهي جمع شجر، يوم الظلة: إظلال العذاب إياهم، موزون: معلوم، كالطود: كالجبل، وقال غيره لشرذمة: الشرذمة طائفة قليلة، في الساجدين: المصلين، قال ابن عباس: لعلكم تخلدون: كانكم الريع الايفاع من الارض، وجمعه ريعة وارياع واحده ريعة، مصانع: كل بناء فهو مصنعة، فرهين: مرحين فارهين بمعناه، ويقال: فارهين حاذقين، تعثوا: هو اشد الفساد عاث يعيث عيثا الجبلة الخلق جبل خلق، ومنه جبلا وجبلا وجبلا يعني الخلق، قاله ابن عباس.وَقَالَ مُجَاهِدٌ: تَعْبَثُونَ: تَبْنُونَ، هَضِيمٌ: يَتَفَتَّتُ إِذَا مُسَّ مُسَحَّرِينَ الْمَسْحُورِينَ لَيْكَةُ، وَالْأَيْكَةُ جَمْعُ أَيْكَةٍ وَهِيَ جَمْعُ شَجَرٍ، يَوْمِ الظُّلَّةِ: إِظْلَالُ الْعَذَابِ إِيَّاهُمْ، مَوْزُونٍ: مَعْلُومٍ، كَالطَّوْدِ: كَالْجَبَلِ، وَقَالَ غَيْرُهُ لَشِرْذِمَةٌ: الشِّرْذِمَةُ طَائِفَةٌ قَلِيلَةٌ، فِي السَّاجِدِينَ: الْمُصَلِّينَ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ: كَأَنَّكُمُ الرِّيعُ الْأَيْفَاعُ مِنَ الْأَرْضِ، وَجَمْعُهُ رِيَعَةٌ وَأَرْيَاعٌ وَاحِدُهُ رِيعَةٌ، مَصَانِعَ: كُلُّ بِنَاءٍ فَهُوَ مَصْنَعَةٌ، فَرِهِينَ: مَرِحِينَ فَارِهِينَ بِمَعْنَاهُ، وَيُقَالُ: فَارِهِينَ حَاذِقِينَ، تَعْثَوْا: هُوَ أَشَدُّ الْفَسَادِ عَاثَ يَعِيثُ عَيْثًا الْجِبِلَّةَ الْخَلْقُ جُبِلَ خُلِقَ، وَمِنْهُ جُبُلًا وَجِبِلًا وَجُبْلًا يَعْنِي الْخَلْقَ، قَالَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا لفظ «تعبثون‏» کا معنی بناتے ہو۔ «هضيم‏» وہ چیز جو چھونے سے ریزہ ریزہ ہو جائے۔ «مسحرين» کا معنی جادو کئے گئے۔ «ليكة» اور «لأيكة» جمع ہے «أيكة» کی اور لفظ «أيكة» صحیح ہے۔ «شجر» یعنی درخت۔ «يوم الظلة‏» یعنی وہ دن جس میں عذاب نے ان پر سایہ کیا تھا۔ «موزون‏» کا معنی معلوم۔ «كالطود‏» یعنی پہاڑ کی طرح۔ «الشرذمة» یعنی چھوٹا گروہ۔ «في الساجدين‏» یعنی نمازیوں میں۔ ابن عباس نے کہا «لعلكم تخلدون‏» کا معنی یہ ہے کہ جیسے ہمیشہ دنیا میں رہو گے۔ «ريع» بلند زمین جیسے ٹیلہ «ريع» مفرد ہے اس کی جمع «ريعة‏» اور «أرياع» آتی ہے۔ «مصانع‏» ہر عمارت کو کہتے ہیں (یا اونچے اونچے محلوں کو)۔ «فرهين‏» کا معنی اتراتے ہوئے خوش و خرم۔ «فاتحه» فارھین کا بھی یہی معنی ہے۔ بعضوں نے کہا «فارهين» کا معنی کاریگر ہوشیار تجربہ کار۔ «تعثوا‏» جیسے «عاث»، «يعيث» ‏‏‏‏، «عيثا‏»، «عيث» کہتے ہیں سخت فساد کرنے کو (دھند مچانا)۔ «تعثوا‏» کا وہی معنی ہے یعنی سخت فساد نہ کرو۔ «خلقت جبل» یعنی پیدا کیا گیا ہے۔ اسی سے «جبلا» اور «جبلا» اور «جبلا» نکلا ہے یعنی «خلقت» ۔

حدیث نمبر: 4768
Save to word مکررات اعراب English
وقال إبراهيم بن طهمان: عن ابن ابي ذئب، عن سعيد بن ابي سعيد المقبري، عن ابيه، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" إن إبراهيم عليه الصلاة والسلام يرى اباه يوم القيامة عليه الغبرة، والقترة الغبرة هي القترة".وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ: عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ يَرَى أَبَاهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَيْهِ الْغَبَرَةُ، وَالْقَتَرَةُ الْغَبَرَةُ هِيَ الْقَتَرَةُ".
اور ہم سے ابراہیم بن طہمان نے کہا کہ ان سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید مقبری نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام اپنے والد (آذر) کو قیامت کے دن گرد آلود کالا کلوٹا دیکھیں گے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا «غبرة» اور «قترة‏.‏» ہم معنی ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "On the Day of Resurrection Abraham will see his father covered with Qatara and Ghabara. (i.e. having a dark face).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 291


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4768 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4768  
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ اس حدیث میں مذکور ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پروردگار سے عرض کریں گے۔
میں نے تجھ سے دنیا میں دعا کی تھی کہ حشر کے دن مجھ کو رسوا نہ کیجيو اور تو نے وعدہ فرما لیا تھا۔
اب باپ کی ذلت سے بڑھ کر کون سی رسوائی ہو گی۔
دوسری روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ پھر اللہ پاک ان کے باپ کو ایک گندی نجا ست میں لتھڑے ہوئے بجو کی شکل میں کر دے گا، فرشتے اس کے پاؤں پکڑ کر اسے دوزخ میں ڈال دیں گے۔
حضرت ابراہیم یہ قبیح صورت دیکھ کر اس سے بیزار ہو جائیں گے، اس حدیث سے ان حکایتوں کا غلط ہونا ثابت ہوا کہ فلاں بزرگ یا فلاں ولی کا دھوبی یا غلام جو کافر تھا ان کا نام لینے سے بخش دیا گیا۔
ابراہیم خلیل اللہ سے زیادہ ان اولیاءاللہ کا مرتبہ نہیں ہوسکتا ہے۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کفر کی وجہ سے نہیں بخشے گئے تو ان بزرگوں یا ولیوں کے غلام اور خادم کس شمار میں ہیں۔
دوسری حدیث میں ہے ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ! میرا باپ کہاں ہے؟ آپ نے فرمایا دوزخ میں وہ روتا ہوا چلا آپ نے فرمایا میرا باپ اور تیرا باپ دونوں دوزخ میں ہیں۔
تیسری حدیث میں ہے کہ ابو طالب کو قیامت کے دن آگ کی دو جوتیاں پہنائی جائیں گی یا وہ ٹخنے برابر آگ میں رہیں گے ان کا دماغ گرمی سے جوش مارتا رہے گا۔
پناہ بخدا (وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4768   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.