صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
2. بَابُ قَوْلِهِ: {وَتَبَّ مَا أَغْنَى عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ} :
2. باب: آیت کی تفسیر ”وہ ہلاک ہوا نہ اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ جو کچھ اس نے کمایا وہ کام آیا“۔
(2) Chapter. The Statement of Allah: “...and perish he! His wealth and his children will not benefit him!” (V.111:1-2)
حدیث نمبر: 4972
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن سلام، اخبرنا ابو معاوية، حدثنا الاعمش، عن عمرو بن مرة، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم خرج إلى البطحاء، فصعد إلى الجبل، فنادى يا صباحاه، فاجتمعت إليه قريش، فقال:" ارايتم إن حدثتكم ان العدو مصبحكم او ممسيكم اكنتم تصدقوني؟ قالوا: نعم، قال:" فإني نذير لكم بين يدي عذاب شديد"، فقال ابو لهب: الهذا جمعتنا تبا لك، فانزل الله عز وجل: تبت يدا ابي لهب سورة المسد آية 1 إلى آخرها.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى الْبَطْحَاءِ، فَصَعِدَ إِلَى الْجَبَلِ، فَنَادَى يَا صَبَاحَاهْ، فَاجْتَمَعَتْ إِلَيْهِ قُرَيْشٌ، فَقَالَ:" أَرَأَيْتُمْ إِنْ حَدَّثْتُكُمْ أَنَّ الْعَدُوَّ مُصَبِّحُكُمْ أَوْ مُمَسِّيكُمْ أَكُنْتُمْ تُصَدِّقُونِي؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:" فَإِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ"، فَقَالَ أَبُو لَهَبٍ: أَلِهَذَا جَمَعْتَنَا تَبًّا لَكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ سورة المسد آية 1 إِلَى آخِرِهَا.
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو ابومعاویہ نے خبر دی، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ یعنی وہ ہلاک ہوا نہ اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ جو کچھ اس نے کمایا وہ کام آیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بطحاء کی طرف تشریف لے گئے اور پہاڑی پر چڑھ کر پکارا۔ یا صباحاہ! قریش اس آواز پر آپ کے پاس جمع ہو گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: تمہارا کیا خیال ہے اگر میں تمہیں بتاؤں کہ دشمن تم پر صبح کے وقت یا شام کے وقت حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری تصدیق نہیں کرو گے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ضرور آپ کی تصدیق کریں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو میں تمہیں سخت عذاب سے ڈراتا ہوں جو تمہارے سامنے آ رہا ہے۔ ابولہب بولا تم تباہ ہو جاؤ۔ کیا تم نے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «تبت يدا أبي لهب‏» آخر تک۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn `Abbas: The Prophet went out towards Al-Batha' and ascended the mountain and shouted, "O Sabahah!" So the Quraish people gathered around him. He said, "Do you see? If I tell you that an enemy is going to attack you in the morning or in the evening, will you believe me?" They replied, "Yes." He said, "Then I am a plain warner to you of a coming severe punishment." Abu Lahab said, "Is it for this reason that you have gathered us? May you perish ! " Then Allah revealed: 'Perish the hands of Abu Lahab!'
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 496


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري4770عبد الله بن عباسأرأيتكم لو أخبرتكم أن خيلا بالوادي تريد أن تغير عليكم أكنتم مصدقي قالوا نعم ما جربنا عليك إلا صدقا قال فإني نذير لكم بين يدي عذاب شديد فقال أبو لهب تبا لك سائر اليوم ألهذا جمعتنا نزلت تبت يدا أبي لهب وتب ما أغنى عنه ماله وما كسب
   صحيح البخاري4801عبد الله بن عباسأرأيتم لو أخبرتكم أن العدو يصبحكم أو يمسيكم أما كنتم تصدقوني قالوا بلى قال فإني نذير لكم بين يدي عذاب شديد فقال أبو لهب تبا لك ألهذا جمعتنا فأنزل الله تبت يدا أبي لهب
   صحيح البخاري4971عبد الله بن عباسأرأيتم إن أخبرتكم أن خيلا تخرج من سفح هذا الجبل أكنتم مصدقي قالوا ما جربنا عليك كذبا قال فإني نذير لكم بين يدي عذاب شديد
   صحيح البخاري4972عبد الله بن عباسأرأيتم إن حدثتكم أن العدو مصبحكم أو ممسيكم أكنتم تصدقوني قالوا نعم قال فإني نذير لكم بين يدي عذاب شديد
   جامع الترمذي3363عبد الله بن عباسإني نذير لكم بين يدي عذاب شديد أرأيتم لو أني أخبرتكم أن العدو ممسيكم أو مصبحكم أكنتم تصدقوني فقال أبو لهب ألهذا جمعتنا تبا لك أنزل الله تبت يدا أبي لهب وتب

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4972 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4972  
حدیث حاشیہ:

ابولہب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی چچا تھا۔
آپ کے والد توآپ کی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہوگئے تھے تو اسے باپ کی جگہ اپنے بھتیجے کی کفالت کرنا چاہیے تھی، لیکن یہ انتہائی بخیل تھا۔
جب آپ کے داداعبدالمطلب فوت ہونے لگے تو انھوں نے آپ کی کفالت ابولہب کے بجائے ابوطالب کے سپرد کی جو مالی لحاظ سے ابولہب کی نسبت بہت کمزور تھا۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے پیغام کا برسرعام اعلان کیا تو ابولہب یکدم بھڑک اٹھا اور اس نے جو کہنا تھا وہ کہا جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا ہے۔

اگرچہ ابولہب کی اس بدتمیزی سے یہ اجتماع کچھ نتیجہ خیز ثابت نہ ہوا، تاہم اس کایہ فائدہ ضرور ہوا کہ آپ نے حسب ارشاد الٰہی اپنے پورے قبیلے کو اپنی دعوت سے آگاہ کر دیا، البتہ ابولہب کی گستاخی اور بدتمیزی کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے پوری سورت نازل فرمائی۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کے دشمنوں میں سے صرف ابولہب کا نام لے کر اس کی مذمت کی ہے کیونکہ وہ آپ سے دشمنی اور بغض وعناد میں بہت آگے نکل چکا تھا۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4972   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4971  
´اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرانا`
«. . . عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214، وَرَهْطَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى صَعِدَ الصَّفَا فَهَتَفَ يَا صَبَاحَاهْ . . .»
. . . ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ` جب یہ آیت نازل ہوئی «وأنذر عشيرتك الأقربين‏» آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے اور اپنے گروہ کے ان لوگوں کو ڈرائیے جو مخلصین ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور پکارا: یاصباحاہ! قریش نے کہا یہ کون ہے، پھر وہاں سب آ کر جمع ہو گئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/بَابٌ: 4971]
تخريج الحديث:
[124۔ البخاري فى: 65 كتاب التفسير: 1 باب حدثنا يوسف 4971، مسلم 208]
لغوی توضیح:
«الصَّفَا» مکہ میں ایک مقام کا نام۔
«يَا صَبَاحَاه» یہ وہ کلمہ ہے جو فریاد کرنے والا پکارتا ہے یا لوگوں کو کسی اہم کام کے لیے جمع کرنے کی غرض سے پکارا جاتا ہے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 124   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3363  
´سورۃ «تبت یدا» سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا (پہاڑ) پر چڑھ گئے، وہاں سے یا «صباحاه» ۱؎ آواز لگائی تو قریش آپ کے پاس اکٹھا ہو گئے۔ آپ نے فرمایا: میں تمہیں سخت عذاب سے ڈرانے والا (بنا کر بھیجا گیا) ہوں، بھلا بتاؤ تو اگر میں تمہیں خبر دوں کہ (پہاڑ کے پیچھے سے) دشمن شام یا صبح تک تم پر چڑھائی کرنے والا ہے تو کیا تم لوگ مجھے سچا جانو گے؟ ابولہب نے کہا کیا: تم نے ہمیں اسی لیے اکٹھا کیا تھا؟ تمہارا ستیاناس ہو ۲؎، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت «تبت يدا أبي لهب وتب» ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3363]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ آواز عرب اس وقت لگایا کرتے تھے جب قبیلہ حملہ والوں کو کسی خاص اوراہم معاملہ کے لیے جمع کرنا ہوتا تھا۔

2؎:
دیگر روایات میں آتا ہے کہ لوگوں کے جمع ہو جانے پر پہلے آپﷺ نے ان سے تصدیق چاہی کہ اگر میں ایسا کہوں تو کیا تم میری بات کی تصدیق کرو گے،
یا نہیں؟ اس پر انھوں نے کہا،
کیوں نہیں کریں گے،
آپﷺ ہمارے درمیان امین اور صادق مسلم ہیں،
اس پر آپ ﷺنے توحید کی دعوت پیش کی اس دلیل سے کہ تب میری اس بات پر بھی تصدیق کرو اس پر ابولہب نے مذکورہ بات کہی۔

3؎:
ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ہو گیا (تبت: 1)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3363   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4801  
4801. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ ایک دن صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور فرمایا: یا صباحاہ، یعنی صبح کے وقت تم پر دشمن حملہ آور ہونے والا ہے۔ یہ سن کر قریش جمع ہو گئے اور آپ سے کہا: تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ آپ نے فرمایا: مجھے بتاؤ اگر میں تمہیں بتاؤں کہ دشمن تم پر صبح یا شام کے وقت حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا خٰيال کرو گے؟ انہوں نے جواب دیا: کیوں نہیں۔ آپ نے فرمایا: تو پھر سن لو کہ میں شدید عذاب آنے سے پہلے پہلے تمہیں ڈرانے والا ہوں۔ یہ سن کر ابولہب (تنک کر) بولا: تیرے لیے ہلاکت ہو! کیا تو نے اسی لیے ہمیں یہاں جمع کیا تھا؟ اللہ تعالٰی نے اس کے جواب میں سورہ لہب نازل فرمائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4801]
حدیث حاشیہ:
ابو لہب کی بد دعا الٹی اسی کے اوپر پڑی۔
اللہ نے اسے بڑی ذلت کی موت مارا۔
اس کا مال اس کا خاندان کوئی چیز اس کے کام نہیں آئی۔
اللہ والوں کے ستانے والوں کا آخری انجام ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ تاریخ کا مطالعہ کرنے والوں پر مخفی نہیں ہے۔
الحمد اللہ کہ اللہ کی مدد اور شائقین کرام کی پر خلوص دعاؤں سے یہ پارہ 19ختم ہوا اپنی ہر امکانی کوشش اسے بہتر سے بہتر بنانے اور ترجمہ اور تشریحات لکھنے میں صرف کی گئی ہے اور سفر و حضر شب و روز میں اس کے متن و ترجمہ و تشریحات کا بار بار مطالعہ کیا گیا ہے پھر بھی انسان سے خطا و نسیان کا ہر وقت امکان ہے۔
اللہ پاک ہر لغزش کو معاف فرمائے اور مخلصین ماہرین علم حدیث بھی چشم عفو سے کام لیتے ہوئے امکانی لغزشوں پر مطلع فرما کر مشکور کریں تا کہ طبع ثانی میں اصلاح کر دی جائے۔
دعا ہے کہ اللہ پاک احادیث نبوی کے اس پاکیزہ ذخیرہ سے مطالعہ فرمانے والے مسلمان بھائیوں بہنوں کو رشد و ہدایت سے مالا مال فرمائے اور اس پارے کے بعد والے پاروں کو بھی تکمیل تک پہنچانے میں مجھ ناچیز خادم کی مدد کرے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4801   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4971  
4971. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی اور آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں۔ اور ان لوگوں کو بھی خبردار کریں جو آپ کے گروہ میں مخلص ہیں، تو رسول اللہ ﷺ صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور بآواز بلند کہا: یا صباحاہ! قریش نے کہا: یہ کون ہے؟ پھر وہاں سب آ کر جمع ہو گئے تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے اگر میں تمہیں بتاؤں کہ ایک لشکر اس پہاڑ کے پیچھے سے آنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا خیال کرو گے؟ تمام نے بیک زبان جواب دیا: ہمیں کبھی جھوٹ کا آپ سے تجربہ نہیں ہوا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر میں تمہیں اس عذاب سے ڈراتا ہوں جو تمہارے سامنے آ رہا ہے۔ اس وقت ابولہب نے کہا: تیری تباہی ہو، کیا تو نے ہمیں یہاں اس لیے جمع کیا تھا؟ پھر آپ ﷺ وہاں سے روانہ ہوئے تو یہ سورت نازل ہوئی: ﴿تَبَّتْ يَدَآ أَبِى لَهَبٍ وَتَبَّ﴾ اعمش نے اس آیت کو یوں پڑھا ہے: وقد تب۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4971]
حدیث حاشیہ:
دشمن کے حملہ کے خطرہ کے وقت اپنی قوم کو تنبیہ کرنے کے لئے اہل عرب لفظ یا صباحاہ کے ساتھ پکارا کرتے تھے۔
آنحضرت کو بھی ان کے کفر و شرک اور جہالت کے خلاف انہیں تنبیہ کرنا اور ڈرانا تھا۔
اس لئے آپ نے انہیں اس طرح پکارا جس طرح دشمن کے خطرہ کے وقت پکارا جاتا تھا۔
حضرت ابن عباس نے آیت ﴿و أَنذِر عَشیرَتك﴾ والی کے ساتھ لفظ ﴿و رھطكَ منھُمُ المُخلصِینَ﴾ بھی زیادہ کئے ہیں لیکن جمہور نے اس آیت کو نہیں پڑھا۔
اسی لئے یہ مصحف عثمانی میں بھی نہیں لکھی گئی۔
شاید اس کی تلاوت منسوخ ہو گئی جس کا علم حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو نہ ہو سکا ہو۔
قد کا لفظ قرآن شریف میں نہیں ہے۔
اعمش نے یہ اپنے طور پر کہا کہ اللہ نے جو خبر دی تھی وہ پوری ہو گئی وقد تب کا یہی معنی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4971   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4770  
4770. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی: اپنے قریب ترین رشتے داروں کو ڈرائیں۔ تو نبی ﷺ کوہ صفا پر تشریف لے گئے اور آواز دینے لگے: اے بنو فہر! اے بنو عدی! اور دیگر قبائل قریش کو پکارنے لگے حتی کہ وہ سب جمع ہو گے۔ اگر کوئی خود نہیں آ سکتا تھا تو اس نے اپنا نمائندہ بھیج دیا تا کہ وہ معلوم کرے کہ کیا بات ہے؟ ابولہب خود آیا اور قریش کے دوسرے لوگ بھی آئے، پھر آپ نے فرمایا: تم لوگوں کا کیا خیال ہے اگر میں تمہیں خبردار کروں کہ اس گھاٹی میں ایک لشکر ہے اور وہ تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم میری بات کی تصدیق کرو گے؟ انہوں نے کہا: ہاں، ہم نے آپ کو ہمیشہ سچ پایا ہے۔ آپ نے فرمایا: ‘پھر سنو! میں تمہیں اس سکت عذاب سے ڈراتا ہوں جو تمہارے سامنے ہے۔ یہ سن کر ابولہب بولا: تجھ پر سارا دن تباہی نازل ہو، کیا تو نے ہمیں اس لیے جمع کیا تھا؟ اس پر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4770]
حدیث حاشیہ:
یہی ابو لہب ہے جو بعد میں عذاب الٰہی میں گرفتار ہوا اور صرف ایک زہریلی پھنسی نکلنے سے اس کا سارا جسم زہر آلود ہو گیا۔
آخر جب سارا جسم گل سڑ گیا تب جا کر موت نے خاتمہ کیا۔
مرنے کے بعد کئی دنوں تک لاش سڑتی رہی، آخر متعلقین نے لکڑیوں سے نعش کو ڈھکیل کر ایک گڑھے میں ڈالا۔
اس طرح عذاب الٰہی کا وعدہ پورا ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4770   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4801  
4801. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ ایک دن صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور فرمایا: یا صباحاہ، یعنی صبح کے وقت تم پر دشمن حملہ آور ہونے والا ہے۔ یہ سن کر قریش جمع ہو گئے اور آپ سے کہا: تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ آپ نے فرمایا: مجھے بتاؤ اگر میں تمہیں بتاؤں کہ دشمن تم پر صبح یا شام کے وقت حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا خٰيال کرو گے؟ انہوں نے جواب دیا: کیوں نہیں۔ آپ نے فرمایا: تو پھر سن لو کہ میں شدید عذاب آنے سے پہلے پہلے تمہیں ڈرانے والا ہوں۔ یہ سن کر ابولہب (تنک کر) بولا: تیرے لیے ہلاکت ہو! کیا تو نے اسی لیے ہمیں یہاں جمع کیا تھا؟ اللہ تعالٰی نے اس کے جواب میں سورہ لہب نازل فرمائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4801]
حدیث حاشیہ:
قریش مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیوانہ کہتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تمہارے خیال کے مطابق میں اس لیے دیوانہ ہوں کہ میں تمھیں اس بات سے آگاہ کر رہا ہوں کہ جو طریق زندگی تم نے اختیار کیا ہے۔
وہ سراسر غلط اور بے بنیاد ہے اور اس کے برے انجام سے میں تمھیں ڈرا رہا ہوں اور اگر میں اس کے برعکس یہ کہہ دیتا کہ تم لوگ بہت ٹھیک جا رہے ہوتب تم مجھے فرزانہ قرار دیتے اور اگر میں تمھیں چند ٹھوس حقائق کی اطلاع دیتا ہوں تو تم مجھے دیوانہ کہنے لگےہو۔
خدارا! کچھ غور و فکر اورعقل کے ناخن لو۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4801   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4971  
4971. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی اور آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں۔ اور ان لوگوں کو بھی خبردار کریں جو آپ کے گروہ میں مخلص ہیں، تو رسول اللہ ﷺ صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور بآواز بلند کہا: یا صباحاہ! قریش نے کہا: یہ کون ہے؟ پھر وہاں سب آ کر جمع ہو گئے تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے اگر میں تمہیں بتاؤں کہ ایک لشکر اس پہاڑ کے پیچھے سے آنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا خیال کرو گے؟ تمام نے بیک زبان جواب دیا: ہمیں کبھی جھوٹ کا آپ سے تجربہ نہیں ہوا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر میں تمہیں اس عذاب سے ڈراتا ہوں جو تمہارے سامنے آ رہا ہے۔ اس وقت ابولہب نے کہا: تیری تباہی ہو، کیا تو نے ہمیں یہاں اس لیے جمع کیا تھا؟ پھر آپ ﷺ وہاں سے روانہ ہوئے تو یہ سورت نازل ہوئی: ﴿تَبَّتْ يَدَآ أَبِى لَهَبٍ وَتَبَّ﴾ اعمش نے اس آیت کو یوں پڑھا ہے: وقد تب۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4971]
حدیث حاشیہ:
ابولہب کا نام عبدالعزی بن عبدالمطلب تھا۔
ابولہب اس کی کنیت تھی۔
چونکہ یہ گورا اور خوبصورت تھا، اس لیے قریش نے اسے ابولہب کا لقب دیا تھا جو بعد اسلام دشمنی کی وجہ سے اس کے، شعلے مارنے والی دوزخ کی آگ میں جانے کے لیے ایک دستاویز کی صورت اختیار کر گیا۔
قرآن کریم نے اس کا اصل نام چھوڑ کر ابولہب کا ذکر کیا ہے، کیونکہ ابو لہب کنیت میں جہنم سے ایک مناسبت تھی۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4971   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.