2. باب: آیت کی تفسیر ”اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر کے پار کر دیا، پھر فرعون اور اس کے لشکر نے ظلم کرنے کے (ارادہ) سے ان کا پیچھا کیا۔ (وہ سب سمندر میں ڈوب گئے اور فرعون بھی ڈوبنے لگا تو وہ بولا) میں ایمان لاتا ہوں کہ کوئی خدا نہیں سوائے اس کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں بھی مسلمان ہوتا ہوں“۔
(2) Chapter. “And We took the Children of Israel across the sea, and Firaun (Pharaoh) and his hosts followed them in oppression and enmity, till when the drowning overtook him, he said, ’I believe that La ilaha illa (Huwa) (none has the right to be worshipped but) He (Allah), in Whom the Children of Israel believe, and I am one of the Muslims (those who submit to Allah’s Will).’ " (V.10:90)
وقال ابن عباس: {فاختلط} فنبت بالماء من كل لون. و{قالوا اتخذ الله ولدا سبحانه هو الغني}. وقال زيد بن اسلم: {ان لهم قدم صدق} محمد صلى الله عليه وسلم وقال مجاهد خير. يقال: {تلك آيات} يعني هذه اعلام القرآن ومثله. {حتى إذا كنتم في الفلك وجرين بهم} المعنى بكم. {دعواهم} دعاؤهم {احيط بهم} دنوا من الهلكة {احاطت به خطيئته} فاتبعهم واتبعهم واحد. {عدوا} من العدوان. وقال مجاهد: {يعجل الله للناس الشر استعجالهم بالخير} قول الإنسان لولده وماله إذا غضب اللهم لا تبارك فيه والعنه {لقضي إليهم اجلهم} لاهلك من دعي عليه ولاماته. {للذين احسنوا الحسنى} مثلها حسنى {وزيادة} مغفرة. {الكبرياء} الملك.وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: {فَاخْتَلَطَ} فَنَبَتَ بِالْمَاءِ مِنْ كُلِّ لَوْنٍ. وَ{قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا سُبْحَانَهُ هُوَ الْغَنِيُّ}. وَقَالَ زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ: {أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ} مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ مُجَاهِدٌ خَيْرٌ. يُقَالُ: {تِلْكَ آيَاتُ} يَعْنِي هَذِهِ أَعْلاَمُ الْقُرْآنِ وَمِثْلُهُ. {حَتَّى إِذَا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِمْ} الْمَعْنَى بِكُمْ. {دَعْوَاهُمْ} دُعَاؤُهُمْ {أُحِيطَ بِهِمْ} دَنَوْا مِنَ الْهَلَكَةِ {أَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ} فَاتَّبَعَهُمْ وَأَتْبَعَهُمْ وَاحِدٌ. {عَدْوًا} مِنَ الْعُدْوَانِ. وَقَالَ مُجَاهِدٌ: {يُعَجِّلُ اللَّهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُمْ بِالْخَيْرِ} قَوْلُ الإِنْسَانِ لِوَلَدِهِ وَمَالِهِ إِذَا غَضِبَ اللَّهُمَّ لاَ تُبَارِكْ فِيهِ وَالْعَنْهُ {لَقُضِيَ إِلَيْهِمْ أَجَلُهُمْ} لأُهْلِكُ مَنْ دُعِيَ عَلَيْهِ وَلأَمَاتَهُ. {لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى} مِثْلُهَا حُسْنَى {وَزِيَادَةٌ} مَغْفِرَةٌ. {الْكِبْرِيَاءُ} الْمُلْكُ.
اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ «فاختلط» کا معنی یہ ہے کہ پانی برسنے کی وجہ سے زمین سے ہر قسم کا سبزہ اگا۔ یعنی عیسائی کہتے ہیں کہ اللہ نے ایک بیٹا بنا رکھا ہے۔ سبحان اللہ، وہ بےنیاز ہے اور زید بن اسلم نے کہا کہ «أن لهم قدم صدق» سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں۔ اور مجاہد نے بیان کیا کہ اس سے بھلائی مراد ہے۔ «تلك آيات» میں «تلك» جو حاضر کے لیے ہے مراد اس سے غائب ہے۔ یعنی یہ قرآن کی نشانیاں ہیں، اسی طرح اس آیت۔ «حتى إذا كنتم في الفلك وجرين بهم» میں «بهم» سے «بكم.» مراد ہے یعنی غائب سے حاضر مراد ہے۔ «دعواهم» ای «دعاؤهم» ان کی دعا «أحيط بهم» یعنی ہلاکت و بربادی کے قریب آ گئے، جیسے «أحاطت به خطيئته» یعنی گناہوں نے اس کو سب طرف سے گھیر لیا۔ «فاتبعهم» اور «وأتبعهم» کے ایک معنی ہیں۔ «عدوا»، «عدوان.» سے نکلا ہے۔ آیت «يعجل الله للناس الشر استعجالهم بالخير» کے متعلق مجاہد نے کہا کہ اس سے مراد غصہ کے وقت آدمی کا اپنی اولاد اور اپنے مال کے متعلق یہ کہنا کہ اے اللہ! اس میں برکت نہ فرما اور اس کو اپنی رحمت سے دور کر دے تو (بعض اوقات ان کی یہ دعا نہیں لگتی) کیونکہ ان کی تقدیر کا فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہوتا ہے اور (بعض اوقات) جس پر بددعا کی جاتی ہے، وہ ہلاک و برباد ہو جاتے ہیں۔ «للذين أحسنوا الحسنى» میں مجاہد نے کہا «زيادة» سے مغفرت اور اللہ کی رضا مندی مراد ہے دوسرے لوگوں نے کہا «وزيادة» سے اللہ کا دیدار مراد ہے۔ «الكبرياء» سے سلطنت اور بادشاہی مراد ہے۔
ننجيك: نلقيك على نجوة من الارض وهو النشز المكان المرتفع.نُنَجِّيكَ: نُلْقِيكَ عَلَى نَجْوَةٍ مِنَ الْأَرْضِ وَهُوَ النَّشَزُ الْمَكَانُ الْمُرْتَفِعُ.
«ننجيك» بمعنی «نلقيك» ۔ «على نجوة من الأرض» میں «نجوة» بمعنی «وهو النشز المكان المرتفع» یعنی ہم تیری لاش کو «نجوة»(اونچی جگہ) پر ڈال دیں گے جس کو سب دیکھیں اور عبرت حاصل کریں۔
(مرفوع) حدثني محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن ابي بشر، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال: قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة، واليهود تصوم عاشوراء، فقالوا: هذا يوم ظهر فيه موسى على فرعون، فقال: النبي صلى الله عليه وسلم لاصحابه:" انتم احق بموسى منهم، فصوموا".(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، وَالْيَهُودُ تَصُومُ عَاشُورَاءَ، فَقَالُوا: هَذَا يَوْمٌ ظَهَرَ فِيهِ مُوسَى عَلَى فِرْعَوْنَ، فَقَالَ: النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ:" أَنْتُمْ أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْهُمْ، فَصُومُوا".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہود عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اسی دن موسیٰ علیہ السلام کو فرعون پر فتح ملی تھی۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام کے ہم ان سے بھی زیادہ مستحق ہیں اس لیے تم بھی روزہ رکھو۔
Narrated Ibn `Abbas: When the Prophet arrived at Medina, the Jews were observing the fast on 'Ashura' (10th of Muharram) and they said, "This is the day when Moses became victorious over Pharaoh," On that, the Prophet said to his companions, "You (Muslims) have more right to celebrate Moses' victory than they have, so observe the fast on this day."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 202
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4680
حدیث حاشیہ: بعد میں یہود کی مشابہت سے بچنے کےلئے اسکے ساتھ ایک روزہ اور رکھنے کا حکم فرمایا یعنی نویں یا گیارہویں تاریخ کا روزہ اور ملایا جائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4680
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4680
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث کی ایک دوسری سند میں ہے کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑ کو نجات دی تھی اور فرعون کو غرق کیا تھا تو موسیٰ ؑ نے اللہ کا شکر اداکرتے ہوئے اس دن کا روزہ رکھا۔ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3397) 2۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے بعد یہود کی مشابہت سے بچنے کے لیے یوم عاشوراء کے ساتھ ایک مزید روزہ رکھنے کا حکم فرمایا جس کی تفصیل پہلے گزرچکی ہے۔ رمضان المبارک کے بعد یوم عاشوراء کی فرضیت تو منسوخ ہوگئی، البتہ استحباب باقی ہے۔ واللہ اعلم۔ 3۔ چونکہ آیت میں فرعون کے غرق ہونے کا ذکر تھا اور حدیث میں اس کی مناسبت سے روزے کا بیان ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے آیت کے ذیل میں مذکور حدیث کوبیان کیا ہے۔ 4۔ واضح رہے کہ فرعون کی لاش نہ تو سمندر میں ڈوب کر معدوم ہوئی اور نہ ہی وہ مچھلیوں کی خوراک بنی بلکہ اس کے ڈوب جانے کے بعد سمندر میں ایک لہراٹھی جس نے اس کی لاش کو سمندر کے کنارے ایک اونچے ٹیلے پر پھینک دیا تاکہ باقی لوگ فرعون کا لاشہ دیکھ کر عبرت حاصل کریں جو باشادہ خود کو ﴿أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَى﴾ کہتا تھا، بالآخر اس کا انجام کیا ہوا۔ 5۔ جدید تحقیقات سے معلوم ہوا کہ اس کی لاش آج تک محفوظ ہے اور قاہرہ کے عجیب خانے میں پڑی ہے، جس پر سمندری نمک کی تہہ جمی ہوئی ہے جو اسے پُرانا ہونے اوگلنے سڑنے سے محفوظ رکھتی ہے، تاہم الفاظ قرآنی کی صحت اس امر پر موقوف نہیں کہ اس کی لاش قیامت تک محفوظ رہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4680
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1734
´یوم عاشوراء کا روزہ۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ آئے تو یہودیوں کو روزہ رکھتے ہوئے پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ کیا ہے“؟ انہوں نے کہا: یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی، اور فرعون کو پانی میں ڈبو دیا، تو موسیٰ علیہ السلام نے اس دن شکریہ میں روزہ رکھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تم سے زیادہ حق رکھتے ہیں ۱؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا، اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1734]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) ”حضرت موسی علیہ السلام پر ہمارا حق تم سے زیادہ ہے“ اس کا مطلب یہ ہے کہ مو سی علیہ السلام کو فرعون کی تباہی پر جو خوشی ہوئی اس میں ہم بھی شریک ہیں کیو نکہ یہ اللہ کی طرف سے شرک پر توحید کی فتح کا اظہار ہے اور صحیح توحید پر ہم مسلمان قا ئم ہیں نہ کہ تم یہودی، جو موسی علیہ السلام کی امت ہونے کا دعوی رکھتے ہیں کیونکہ تم نے تو اپنے مذہب میں اتنا شرک شامل کرلیا ہے کہ تم فرعو ن کے شرکیہ مذہب سے قریب تر ہو گے ہو (2) شکر کے طو ر پر عبادت کرنا پہلی امتو ں میں بھی مشروع تھا ہماری شریعت میں بھی سجدہ شکر یا نما ز شکرانہ یا شکر کے طور پر روزہ رکھنا یا صدقہ دینا مشروع ہے ہماری شریعت کی عبادات سابقہ شریعتوں کی عبادات سے ایک حد تک مشابہت رکھنے کے باوجود ان سے روزے کے متعدد مسا ئل میں یہ امتیاز ملحوظ ہے۔ عا شورا کے روزے میں یہ امتیاز اس طرح قا ئم کیا گیا ہے کہ وہ لو گ صرف دس محرم کا روزہ رکھتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے اس کے ساتھ ایک روزہ اور ملا لینے کا حکم فرمایا اس کے لئے دن کی تعیین کی با بت حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث یہود کی مخالفت کرو ان سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد روزہ رکھو تو ضعیف ہے تاہم حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے موقوفا مروی ہے۔ یہود کی مخالفت کرو نو، دس(10، 9) محرم کا روزہ رکھو۔ علمائے محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے لہٰذا بہتر اور راجع مو قف یہی کہ دس کے سا تھ نو کا روزہ رکھا جا ئے اگر نو کا روزہ نہ رکھ سکے تو مخالفت یہو د کے پیش نظر گیارہ کا روزہ بھی ان شاءاللہ مقبول ہو گا۔ واللہ اعلم۔ مزید دیکھیے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: 52/4)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1734
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 755
´عاشوراء کا دن کون سا ہے؟` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دسویں تاریخ کو عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 755]
اردو حاشہ: 1؎: اکثر علماء کی رائے بھی ہے کہ محرم کا دسواں دن ہی یوم عاشوراء ہے اور یہی قول راجح ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 755
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:525
525- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے، تو یہودی عاشورہ کے دن روزہ رکھتے تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: ”تم لوگ اس دن کیوں روزہ رکھتے ہو“؟ انہوں نے بتایا: یہ وہ عظیم دن ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو نجات عطا کی تھی اور فرعون کے لشکریوں کو اس دن ڈبو دیا تھا، سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے شکر کے طور پر اس دن روزہ رکھا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگوں کے مقابلے میں ہم سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ قریب ہیں۔“ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور آپ ص۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:525]
فائدہ: اس حدیث میں یوم عاشوراء کے روزے کا ذکر ہے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صوم عاشوراء کا آغاز موسیٰ علیہ السلام سے ہوا تھا، اللہ تعالیٰ نے انھیں اور ان کی قوم کو فرعون سے نجات عطا کی تھی تو انہوں نے شکرانے کے طور پر روزہ رکھا۔ سیدنا ابن عباس رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُمْا بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے، آپ نے یہود کو دیکھا کہ وہ یوم عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں، آپ نے ان سے معلوم کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ ایک اچھا دن ہے، اس دن اللہ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی تھی، اس لیے موسیٰ علیہ السلام نے (شکرانے کے طور پر) اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «انـا احـق بـموسى منكم فصامه و امر بصيامه»”موسیٰ کا میں تم سے زیادہ حق دار ہوں، لہٰذا آپ نے خوداس دن کا روزہ رکھا اور روزہ رکھنے کا حکم بھی دیا۔“[صحيح البخاري ح: 2004 صحيح مسلم ح: 1130] احادیث میں اس روزہ کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے، ارشاد نبوی ہے: «صيام يوم عاشوراء احتسب عـلـى الله ان يكفر السنة التى قبله»[صحيح مسلم ح: 1162] ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عاشوراء کے روزے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: «يـكـفـر السـنة الماضية»[صحيح مسلم ح: 1162]”یہ روزہ گزرے ہوۓ ایک سال کا کفارہ ہے۔“ اس کی وضاحت ایک دوسری حدیث میں اس طرح ہے۔ ابوموسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اہل خیبر (یہود) یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور اس دن کو عید کا دن بنا لیتے، اپنی عورتوں کو زیورات پہناتے اور انھیں سنوارتے اور سنگھارتے تھے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «فصوموه انتم»[صحيح بخاري ح: 2005 صـحـيـح مسلم ح: 1131]”تم لوگ اس دن کا روزہ (ہی) رکھو۔“ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نو محرم کا روزہ رکھنے کا بھی عزم ظاہر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «فاذا كان العام المقبل- ان شاء الله ـ صمنا اليوم التاسع»[صحيح مسلم ح 11134]”جب آئندہ سال آئے گا تو ہم ان شاء اللہ نو تاریخ کا (بھی) روزہ رکھیں گے۔“ مگر اگلا سال آنے سے پہلے ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی۔ ایک اور حدیث میں ہے: «لئن بقيت الي قابل لاصـو من التاسع»[صحيح مسلم ح: 1134]”اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو نو تاریخ کا ضرور روزہ رکھوں گا۔“ حکم بن اعرج کہتے ہیں: میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا تو آپ زمزم کے کنارے اپنی چادر کا تکیہ بنائے تشریف فرما تھے، میں نے آپ سے عاشوراء کے روزے کے بارے میں پوچھا: تو آپ نے فرمایا: جب ماہ محرم کا چاند دیکھو تو دن شمار کرتے رہو جب نویں تاریخ ہو تو روزہ رکھو۔ [مسلم ح: 1133 ابوداؤد ح: 2446 الله ترمذي ح: 754] ہمارے نزدیک یہی مؤقف راجح ہے کہ اب امت مسلمہ کو نو کا روزہ رکھنا چاہیے۔ دوسرا موقف جمہور کا ہے کہ نو اور دس کا روزہ مراد ہے۔ ① امام نووی رحمہ اللہ شرح مسلم (ح: 1133) میں لکھتے ہیں: مشاہیر علمائے سلف و خلف کا مؤقف یہ ہے کہ عاشوراء دسویں تاریخ ہے اور سعید بن مسیب، حسن بصری، امام أحمد اور اسحاق رحمہ اللہ علیہم کا یہی قول ہے، ظاہر احادیث سے اور مقتضائے لفظ سے یہی ثابت ہوتا ہے، اس لیے کہ عاشوراء عشر سے مشتق ہے اور عشر دس کو کہتے ہیں اور امام شافعی، ان کے اصحاب، امام أحمد، اسحاق رحمہ اللہ علیہم اور دوسرے علماء کا قول ہے کہ نویں اور دسویں دونوں کا روزہ مستحب ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دسویں کا روزہ رکھا تھا اور نو میں تاریخ کو روزہ رکھنے کی نیت کی تھی۔ اتنے میں آپ کی وفات ہوگئی اور حدیث مسلم میں گزرا ہے کہ افضل صیام بعد رمضان کے صیام (شہراللہ المحرم) ہے اور علماء نے کہا ہے کہ نویں تاریخ کا روزہ ملا لینے سے غرض یہ تھی کہ صرف دسویں کے روزے میں یہود کی مشابہت تھی۔ ② حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: بعض اہل علم کے بقول مسلم کی حد بیث (آئندہ سال اگر میں زندہ رہا تو، نو محرم کا ضرور روزہ رکھوں گا) کے دو مطلب ہو سکتے ہیں: دس محرم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نو تاریخ کا روزہ بھی مقرر کرنا چاہتے تھے مگر آپ کسی بھی صورت کو متعین کرنے سے پہلے وفات پا گئے۔ لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ نو اور دس دونوں دنوں کا روزہ رکھا جائے۔ (فتح الباري 4/ 773) جناب عطاء سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں: نویں اور دسویں کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو۔ [البيهقي 4/ 287]
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 525
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2656
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپﷺ نے یہودیوں کو عاشورہ کے دن کا روزہ رکھتے ہوئے پایا تو ان سے اس کے بارے میں پوچھا گیا؟ انھوں نے جواب دیا یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور بنو اسرائیل کو فرعون پر غلبہ عنایت فرمایا تھا تو ہم اس کے احترام و تعظیم کی خاطر روزہ رکھتے ہیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم تمھارے مقابلہ میں موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ قریب... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:2656]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ربیع الاول مدینہ تشریف لائے تھے اور 2 ہجری کے رمضان کی فرضیت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو محرم میں روزہ رکھتے ہوئے پایا تو آپ نے ان سے پوچھا اس طرح عاشورہ کے دن کی تاکیدی تلقین یا امر ایک ہی سال دیا گیا کیونکہ آپ کو اس کا پتہ مدینہ آنے کے بعد چلا، آپﷺ قریش کے روزہ رکھنے کی وجہ سےروزہ رکھتے تھے اور اگر یہ بات تسلیم کر لیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ آمد کے موقع پر یہودی قبائل شمسی سال کے اعتبار سے روزہ رکھے ہوئے تھے تو پھر آپ نے تو دس (10) محرم کا ہی روزہ رکھنے کا حکم دیا اور وہ رمضان کی فرضیت سے پہلے ایک ہی آیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2656
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2658
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو عاشورہ کا روزہ رکھتے پایا تو آپﷺ نے یہودیوں سے دریافت کیا۔ ”یہ دن جس کا تم روزہ رکھتے ہو اس کی کیا حقیقت و خصوصیت ہے؟“ انھوں نے کہا یہ بڑی عظمت والا دن ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کی نجات دی تھی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرقاب کیا تھا تو موسیٰ علیہ السلام نے شکرانے کے طور پر اس کا روزہ رکھا اس... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:2658]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے ساتھ عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے لیکن دوسروں کو اس کا حکم نہیں دیتے تھے مدینہ میں آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب معلوم ہوا کہ یہ وہ مبارک تاریخی دن ہے جس میں حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو اللہ تعالیٰ نے نجات عطا فرمائی تھی فرعون اور اس کے لشکریوں کو غرقاب کیا تھا اس لیے موسی علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے اس انعام اور احسان کے شکر میں اس دن کا روزہ رکھتے تھے تو آپﷺ نے بھی ان کی اقتدا میں عاشورہ کا روزہ خود بھی رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس کا ایسا تاکیدی حکم دیا جیسا کہ فرائض وواجبات کے لیے دیا جاتا ہے جس کی تفصیل آگے باب 21 میں آرہی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2658
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2004
2004. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: جب نبی کریم ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو عاشوراء کا روزے رکھتے دیکھا۔ آپ نے ان سے دریافت کیا: ”اس روزے کی حیثیت کیا ہے؟“ انھوں نے جواب دیا: یہ ایک اچھا دن ہے، اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اس کے دشمن سے نجات دی تھی تو موسیٰ ؑ نے روزہ رکھا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں تم سے زیادہ موسیٰ ؑ سے تعلق رکھتا ہوں۔“ چنانچہ آپ نے اس دن کاروزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2004]
حدیث حاشیہ: مسلم کی روایت میں اتنا زیادہ ہے اللہ کا شکر کرنے کے لیے ہم بھی روزہ رکھتے ہیں۔ ابوہریرہ ؓ کی روایت میں یوں ہے اسی دن حضرت نوح ؑ کی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہری تھی تو حضرت نوح ؑ نے اس کے شکریہ میں اس دن روزہ رکھا تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2004
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3397
3397. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو وہاں کے لوگوں کو عاشوراء کا روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ انھوں نے بتایا کہ یہ بڑی عظمت والا دن ہے۔ اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو نجات دی تھی اورآل فرعون کو غرق کیاتھا۔ اس بناء پر حضرت موسیٰ ؑ نے شکر ادا کرنے کے لیے اس دن کا روزہ رکھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہم ان کی نسبت موسیٰ ؑ سے زیادہ قرب رکھتے ہیں، چنانچہ آپ نے خود بھی روزہ رکھا اوردوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3397]
حدیث حاشیہ: ان جملہ مرویات میں حضرت موسیٰ ؑ کا ذکر خیر وارد ہوا ہے۔ احادیث اورباب میں یہی وجہ مناسبت ہے۔ دیگر امور مذکورہ ضمناً ذکر میں آگئے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3397
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4737
4737. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو یہودی عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے۔ آپ ﷺ نے ان سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ اس دن حضرت موسٰی ؑ نے فرعون پر غلبہ پایا تھا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”ہم ان کے مقابلے میں حضرت موسٰی ؑ کے زیادہ حق دار ہیں۔ مسلمانو! تم بھی اس دن کا روزہ رکھا کرو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4737]
حدیث حاشیہ: مگر اس کے ساتھ نویں یا گیارہویں کا ایک روزہ ملانا مناسب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4737
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3397
3397. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو وہاں کے لوگوں کو عاشوراء کا روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ انھوں نے بتایا کہ یہ بڑی عظمت والا دن ہے۔ اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو نجات دی تھی اورآل فرعون کو غرق کیاتھا۔ اس بناء پر حضرت موسیٰ ؑ نے شکر ادا کرنے کے لیے اس دن کا روزہ رکھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہم ان کی نسبت موسیٰ ؑ سے زیادہ قرب رکھتے ہیں، چنانچہ آپ نے خود بھی روزہ رکھا اوردوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3397]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث میں یوم عاشوراء کے حوالے سے حضرت موسیٰ ؑ کا ذکر خیرہوا ہے کہ انھوں نے اس دن بطورشکر روزہ رکھا تھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں فرعون اور آل فرعون سے نجات دی تھی۔ ویسے یہ دن بڑی تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔ حضرت نوح ؑ کی کشتی بھی اسی دن لنگر انداز ہوئی تھی۔ انھوں نے بھی اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ اہل مکہ بھی عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے اور اس دن کعبے کو غلاف پہناتے تھے۔ 2۔ رسول اللہ ﷺنے اس کے ساتھ نویں محرم کا روزہ رکھنے کا حکم دیا تاکہ یہودیوں سے مشابہت نہ رہے۔ عاشوراء کے متعلق دیگرمباحث کتاب الصوم میں گزر چکی ہیں۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3397
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3943
3943. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب نبی ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو یہودیوں کو عاشوراء کا روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ ان سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس دن اللہ تعالٰی نے موسٰی ؑ اور بنی اسرائیل کو فرعون پر فتح دی تھی، چنانچہ ہم اس دن کی تعظیم کے پیش نظر روزہ رکھتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہم تمہاری نسبت حضرت موسٰی ؑ کے زیادہ قریب ہیں۔“ پھر آپ نے اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3943]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس مقام پر ایک اشکا ل ہے کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ میں ربیع الاول کو آئے۔ اس وقت یہودیوں کا روزہ رکھنا کس طرح صحیح ہوسکتا ہے؟ اس کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو آئندہ سال محرم میں اس کا علم ہوا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہودی شمس سال کے اعتبار سے روزہ رکھتے ہوں او راس سال عاشوراء کا روزہ ماہ ربیع الاول میں آیا ہو۔ 2۔ بہرحال اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی مدینہ طیبہ تشریف آوری کا ذکر ہے۔ 3۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا تھا: ”اگر میں زندہ رہا تو آئندہ سال نویں محرم کا روزہ رکھوں گا۔ “ لیکن آئندہ سال آنے سے پہلے ہی آپ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3943
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4737
4737. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو یہودی عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے۔ آپ ﷺ نے ان سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ اس دن حضرت موسٰی ؑ نے فرعون پر غلبہ پایا تھا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”ہم ان کے مقابلے میں حضرت موسٰی ؑ کے زیادہ حق دار ہیں۔ مسلمانو! تم بھی اس دن کا روزہ رکھا کرو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4737]
حدیث حاشیہ: 1۔ بنی اسرائیل دوسری طرف دریا کے کنارے سخت دہشت زدہ حالت میں کھڑے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا تھا: ”تم نے دریا کو ساکن حالت میں چھوڑ کر چلے جانا ہے، بلاشبہ یہ لشکر غرق کردیا جائے گا۔ “(الدخان 44: 24) 2۔ جب فرعون اور اس کا لشکر عین وسط میں پہنچ گیا تو اللہ تعالیٰ نے پانی کو بہنے کا حکم دیا۔ پانی بڑے زور سے غراتا ہوا بہ نکلا، اس طرح فرعون اور اس کا بہت بڑا لشکر دریا کی تہ میں ڈوب گیا۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر بیک وقت تین احسان فرمائے:
۔ فرعونیوں سے نجات۔
۔ سرپرکھڑی موت کے بعد زندگی۔
۔ دشمن کی مکمل طور پر تباہی وہلاکت۔ 3۔ بنی اسرائیل دس محرم کو شکرانے کے طور پر روزہ رکھا کرتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی دس محرم کا روزہ رکھتے تھے، پھر جب یہود کی مخالفت کا حکم ہوا تو آپ نے نوکا روزہ بھی رکھنے کا ارادہ فرمایا لیکن محرم آنے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہوگئے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4737