1. باب: آیت کی تفسیر ”خبردار ہو، وہ لوگ جو اپنے سینوں کو دہرا کئے دیتے ہیں، تاکہ اپنی باتیں اللہ سے چھپا سکیں وہ غلطی پر ہیں، اللہ سینے کے بھیدوں سے واقف ہے۔ خبردار رہو! وہ لوگ جس وقت چھپنے کے لیے اپنے کپڑے لپیٹتے ہیں (اس وقت بھی) وہ جانتا ہے جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں، بیشک وہ (ان کے) دلوں کے اندر (کی باتوں) سے خوب خبردار ہے“۔
(1) Chapter. “No doubt! They did fold up their breasts, that they may from Him. Surely, even when they cover themselves with their garments, He knows what they conceal and what they reveal. Verily, He is the All- Knower of the (innermost secrets) of the breasts." (V.11:5)
وقال ابو ميسرة الاواه الرحيم: بالحبشية، وقال ابن عباس: بادئ الراي: ما ظهر لنا، وقال مجاهد: الجودي: جبل بالجزيرة، وقال الحسن: إنك لانت الحليم، يستهزئون به، وقال ابن عباس: اقلعي: امسكي، عصيب: شديد، لا جرم: بلى، وفار التنور: نبع الماء، وقال عكرمة: وجه الارض.وَقَالَ أَبُو مَيْسَرَةَ الْأَوَّاهُ الرَّحِيمُ: بِالْحَبَشِيَّةِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: بَادِئَ الرَّأْيِ: مَا ظَهَرَ لَنَا، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: الْجُودِيُّ: جَبَلٌ بِالْجَزِيرَةِ، وَقَالَ الْحَسَنُ: إِنَّكَ لَأَنْتَ الْحَلِيمُ، يَسْتَهْزِئُونَ بِهِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَقْلِعِي: أَمْسِكِي، عَصِيبٌ: شَدِيدٌ، لَا جَرَمَ: بَلَى، وَفَارَ التَّنُّورُ: نَبَعَ الْمَاءُ، وَقَالَ عِكْرِمَةُ: وَجْهُ الْأَرْضِ.
ابومیسرہ (عمرو بن شرحبیل) نے کہا «الأواه» حبشی زبان میں مہربان، رحم دل کو کہتے ہیں۔ اور ابن عباس نے کہا «بادئ الرأي» کا معنی جو ہم کو ظاہر ہوا۔ اور مجاہد نے کہا «جودي» ایک پہاڑ ہے اس جزیرے میں جو دجلہ اور فرات کے بیچ میں موصل کے قریب ہے۔ اور امام حسن بصری نے کہا۔ «إنك لأنت الحليم» یہ کافروں نے شعیب کو ٹھٹھے کی راہ سے کہا تھا۔ اور ابن عباس نے کہا «أقلعي» کے معنی تھم جا۔ «عصيب» کے معنی سخت۔ «لا جرم» کا معنی کیوں نہیں (یعنی ضروری ہے)۔ «وفار التنور» کا معنی پانی پھوٹ نکلا۔ عکرمہ نے کہا «تنور» سطح زمین کو کہتے ہیں۔
وقال غيره: {وحاق} نزل، يحيق ينزل. يئوس فعول من يئست. وقال مجاهد: {تبتئس} تحزن. {يثنون صدورهم} شك وامتراء في الحق. {ليستخفوا منه} من الله إن استطاعوا.وَقَالَ غَيْرُهُ: {وَحَاقَ} نَزَلَ، يَحِيقُ يَنْزِلُ. يَئُوسٌ فَعُولٌ مِنْ يَئِسْتُ. وَقَالَ مُجَاهِدٌ: {تَبْتَئِسْ} تَحْزَنْ. {يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ} شَكٌّ وَامْتِرَاءٌ فِي الْحَقِّ. {لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ} مِنَ اللَّهِ إِنِ اسْتَطَاعُوا.
عکرمہ کے سوا اور لوگوں نے کہا کہ «حاق» کا معنی اتر پڑا اسی سے ہے «يحيق ينزل» اترتا ہے۔ «انه ليوس كفور» میں «يوس» کا معنی ناامید ہونا۔ جو بروزن «فعول» ہے۔ یہ «يئست» سے نکلا ہے اور مجاہد نے کہا «لا تبتئس» کا معنی غم نہ کھا «يثنون صدورهم» کا مطلب یہ ہے کہ حق بات میں شک و شبہ کرتے ہیں۔ «ليستخفوا منه» یعنی اگر ہو سکے تو اللہ سے چھپا لیں۔
(موقوف) حدثنا الحسن بن محمد بن صباح، حدثنا حجاج، قال: قال ابن جريج: اخبرني محمد بن عباد بن جعفر، انه سمع ابن عباس يقرا: 0 الا إنهم تثنوني صدورهم 0، قال:" سالته عنها"، فقال:" اناس كانوا يستحيون ان يتخلوا، فيفضوا إلى السماء وان يجامعوا نساءهم، فيفضوا إلى السماء فنزل ذلك فيهم".(موقوف) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ صَبَّاحٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادِ بْنِ جَعْفَرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقْرَأُ: 0 أَلَا إِنَّهُمْ تَثْنَوْنِي صُدُورُهُمْ 0، قَالَ:" سَأَلْتُهُ عَنْهَا"، فَقَالَ:" أُنَاسٌ كَانُوا يَسْتَحْيُونَ أَنْ يَتَخَلَّوْا، فَيُفْضُوا إِلَى السَّمَاءِ وَأَنْ يُجَامِعُوا نِسَاءَهُمْ، فَيُفْضُوا إِلَى السَّمَاءِ فَنَزَلَ ذَلِكَ فِيهِمْ".
ہم سے حسن بن محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے حجاج بن محمد اعور نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، کہا کہ مجھ کو محمد بن عباد بن جعفر نے خبر دی اور انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ آپ آیت کی قرآت اس طرح کرتے تھے «ألا إنهم تثنوني صدورهم» میں نے ان سے آیت کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ اس میں حیاء کرتے تھے کہ کھلی ہوئی جگہ میں حاجت کے لیے بیٹھنے میں، آسمان کی طرف ستر کھولنے میں، اس طرح صحبت کرتے وقت آسمان کی طرف کھولنے میں پروردگار سے شرماتے۔
Narrated Muhammad bin `Abbas bin Ja`far: That he heard Ibn `Abbas reciting: "No doubt! They fold up their breasts." (11.5) and asked him about its explanation. He said, "Some people used to hide themselves while answering the call of nature in an open space lest they be exposed to the sky, and also when they had sexual relation with their wives in an open space lest they be exposed to the sky, so the above revelation was sent down regarding them."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 203