صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
2. بَابُ: {وَلَمَّا جَاءَ مُوسَى لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَنْ تَرَانِي وَلَكِنِ انْظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَى صَعِقًا فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ} :
2. باب: آیت کی تفسیر ”اور جب موسیٰ ہمارے مقرر کردہ وقت پر (کوہ طور) پر آ گئے اور ان سے ان کے رب نے کلام کیا، موسیٰ بولے، اے میرے رب! مجھے تو اپنا دیدار کرا دے (کہ) میں تجھ کو ایک نظر دیکھ لوں (اللہ تعالیٰ نے فرمایا) تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے، البتہ تم (اس) پہاڑ کی طرف دیکھو، سو اگر یہ اپنی جگہ پر قائم رہا تو تم (مجھ کو بھی دیکھ سکو گے، پھر جب ان کے رب نے پہاڑ پر اپنی تجلی ڈالی تو (تجلی نے) پہاڑ کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور موسیٰ بیہوش ہو کر گر پڑے، پھر جب انہیں ہوش آیا تو بولے اے رب! تو پاک ہے، میں تجھ سے معافی طلب کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا ایمان لانے والا ہوں“۔
(2) Chapter. “And when Musa (Moses) came at the time and place appointed by Us, and his Lord (Allah) spoke to him, he said, ’O my Lord! Show me (Yourself) that I may look upon You.’ ” (V.7:143)
حدیث نمبر: Q4638
Save to word اعراب English
قال ابن عباس: ارني: اعطني.قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَرِنِي: أَعْطِنِي.
‏‏‏‏ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «أرني»، «أعطني» کے معنی میں ہے کہ دے تو مجھ کو، یعنی اپنا دیدار عطا کر۔

حدیث نمبر: 4638
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن عمرو بن يحيى المازني، عن ابيه، عن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه، قال: جاء رجل من اليهود إلى النبي صلى الله عليه وسلم قد لطم وجهه، وقال يا محمد: إن رجلا من اصحابك من الانصار لطم في وجهي، قال:" ادعوه"، فدعوه، قال:" لم لطمت وجهه؟" قال: يا رسول الله، إني مررت باليهود، فسمعته، يقول: والذي اصطفى موسى على البشر، فقلت: وعلى محمد، واخذتني غضبة، فلطمته، قال:" لا تخيروني من بين الانبياء، فإن الناس يصعقون يوم القيامة، فاكون اول من يفيق، فإذا انا بموسى آخذ بقائمة من قوائم العرش، فلا ادري افاق قبلي ام جزي بصعقة الطور"، المن والسلوى.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى الْمَازِنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ الْيَهُودِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ لُطِمَ وَجْهُهُ، وَقَالَ يَا مُحَمَّدُ: إِنَّ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِكَ مِنْ الْأَنْصَارِ لَطَمَ فِي وَجْهِي، قَالَ:" ادْعُوهُ"، فَدَعَوْهُ، قَالَ:" لِمَ لَطَمْتَ وَجْهَهُ؟" قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي مَرَرْتُ بِالْيَهُودِ، فَسَمِعْتُهُ، يَقُولُ: وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَى الْبَشَرِ، فَقُلْتُ: وَعَلَى مُحَمَّدٍ، وَأَخَذَتْنِي غَضْبَةٌ، فَلَطَمْتُهُ، قَالَ:" لَا تُخَيِّرُونِي مِنْ بَيْنِ الْأَنْبِيَاءِ، فَإِنَّ النَّاسَ يَصْعَقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُفِيقُ، فَإِذَا أَنَا بِمُوسَى آخِذٌ بِقَائِمَةٍ مِنْ قَوَائِمِ الْعَرْشِ، فَلَا أَدْرِي أَفَاقَ قَبْلِي أَمْ جُزِيَ بِصَعْقَةِ الطُّورِ"، الْمَنَّ وَالسَّلْوَى.
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عمرو بن یحییٰ مازنی نے، ان سے ان کے والد یحییٰ مازنی نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس کے منہ پر کسی نے طمانچہ مارا تھا۔ اس نے کہا: اے محمد! آپ کے انصاری صحابہ میں سے ایک شخص نے مجھے طمانچہ مارا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں بلاؤ۔ لوگوں نے انہیں بلایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا تم نے اسے طمانچہ کیوں مارا ہے؟ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں یہودیوں کی طرف سے گزرا تو میں نے سنا کہ یہ کہہ رہا تھا۔ اس ذات کی قسم! جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں پر فضیلت دی۔ میں نے کہا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی۔ مجھے اس کی بات پر غصہ آ گیا اور میں نے اسے طمانچہ مار دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ مجھے انبیاء پر فضیلت نہ دیا کرو۔ قیامت کے دن تمام لوگ بیہوش کر دیئے جائیں گے۔ سب سے پہلے میں ہوش میں آؤں گا لیکن میں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھوں گا کہ وہ عرش کا ایک پایہ پکڑے کھڑے ہوں گے اب مجھے نہیں معلوم کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آ گئے یا طور کی بے ہوشی کا انہیں بدلہ دیا گیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Sa`id Al-Khudri: A man from the Jews, having been slapped on his face, came to the Prophet and said, "O Muhammad! A man from your companions from the Ansar has slapped me on my face!" The Prophet said, "Call him." When they called him, the Prophet said, "Why did you slap him?" He said, "O Allah's Messenger ! While I was passing by the Jews, I heard him saying, 'By Him Who selected Moses above the human beings,' I said, 'Even above Muhammad?' I became furious and slapped him on the face." The Prophet said, "Do not give me superiority over the other prophets, for on the Day of Resurrection the people will become unconscious and I will be the first to regain consciousness. Then I will see Moses holding one of the legs of the Throne. I will not know whether he has come to his senses before me or that the shock he had received at the Mountain, (during his worldly life) was sufficient for him."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 162


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري4638سعد بن مالكلا تخيروني من بين الأنبياء فإن الناس يصعقون يوم القيامة أكون أول من يفيق فإذا أنا بموسى آخذ بقائمة من قوائم العرش فلا أدري أفاق قبلي أم جزي بصعقة الطور
   صحيح البخاري2412سعد بن مالكلا تخيروا بين الأنبياء الناس يصعقون يوم القيامة أكون أول من تنشق عنه الأرض فإذا أنا بموسى آخذ بقائمة من قوائم العرش فلا أدري أكان فيمن صعق أم حوسب بصعقة الأولى
   صحيح البخاري3398سعد بن مالكالناس يصعقون يوم القيامة أكون أول من يفيق فإذا أنا بموسى آخذ بقائمة من قوائم العرش فلا أدري أفاق قبلي أم جوزي بصعقة الطور
   صحيح البخاري6916سعد بن مالكلا تخيروا بين الأنبياء
   صحيح البخاري6917سعد بن مالكلا تخيروني من بين الأنبياء فإن الناس يصعقون يوم القيامة أكون أول من يفيق فإذا أنا بموسى آخذ بقائمة من قوائم العرش فلا أدري أفاق قبلي أم جوزي بصعقة الطور
   صحيح مسلم6156سعد بن مالكلا تخيروا بين الأنبياء
   سنن أبي داود4668سعد بن مالكلا تخيروا بين الأنبياء

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4638 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4638  
حدیث حاشیہ:
آیت میں طور پر حضرت موسیٰ ؑ اور اللہ تعالیٰ کی ہم کلامی کا بیان ہے جس میں حضرت موسیٰ ؑ کا تجلی کے اثر سے بے ہوش ہونا بھی مذکور ہے۔
آیت اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4638   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4638  
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں موسیٰ ؑ کا کوہ طور پر بے ہوش ہونے کا ذکر ہے۔
اس کی تفصیل آیت بالا میں بیان ہوچکی ہے۔
اس آیت سے معتزلہ استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار نہ دنیا میں ممکن ہے اور نہ آخرت ہی میں ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿لَن تَرَانِي﴾ "تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتا" اس میں ہمیشہ کی نفی ہے، لیکن معتزلہ کا یہ مؤقف صحیح احادیث کے خلاف ہے۔
متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ قیامت کے دن اہل ایمان اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے اورجنت میں بھی دیدارالٰہی ہوگا۔
اس نفی روئیت کا تعلق صرف دنیا سے ہے کہ دنیا میں کوئی آنکھ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے پر قادر نہیں ہے لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان آنکھوں میں اتنی قوت پیدا فرمادے گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے جلوے کو برداشت کرسکیں گی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اس روز بہت سے چہرے خوش وخرم ہوں گے اور اپنے رب سے محودیدار ہوں گے۔
" (القیامة: 22: 23: 75)

اللہ تعالیٰ کے موسیٰ ؑ سے محو کلام ہونے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ بغیر کسی واسطے کے سب زبانوں میں، ان کے لب ولہجے اور الفاظ وحروف میں کلام کرسکتا ہے جبکہ فرقہ جہمیہ اللہ تعالیٰ کے اس طرح کلام کرنے کے منکر ہیں اور اسے اللہ تعالیٰ کی تنزیہ کے خلاف خیال کرتے ہیں۔
ان کا یہ مؤقف قرآنی آیات اور صحیح احادیث کے خلاف ہے جس کی تفصیل ہم کتاب التوحید میں بیان کریں گے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4638   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4668  
´انبیاء و رسل علیہم السلام کو ایک دوسرے پر فضیلت دینا کیسا ہے؟`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نبیوں کو ایک دوسرے پر فضیلت نہ دو ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4668]
فوائد ومسائل:
بلا شبہ انبیا ورسل ؐ میں بعض پر فضیلت حاصل ہے اور قرآن مجید نے واضح طور بیان کیا ہے، مگر ان فضائل کا اس انداز سے تقابلی بیان کہ دوسروں کی تنقیص لازم آئے، حرام ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4668   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2412  
2412. حضرت ابو سعیدخدری ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ تشریف فرماتھے کہ ایک یہودی آیا اور کہنے لگا: ابو القاسم!آپ کے ایک صحابی نے میرے منہ پر تھپڑ مارا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کس نے؟ اس نے عرض کیا: وہ انصار کا ایک آدمی تھا۔ آپ نے فرمایا: اسے بلاؤ۔ آپ نے اس سے فرمایا: کیا تو نے اسے مارا ہے؟ وہ کہنے لگا: میں نے بازار میں اس کو قسم اٹھاتے ہوئے سناکہ قسم ہے اس ذات کی جس نے موسیٰ ؑ کولوگوں پر فضیلت دی ہے۔ تو میں نے کہا: اے خبیث! کیا محمد ﷺ پر بھی؟مجھے غصہ آگیا اور اس کے منہ پر تھپڑ رسید کردیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: انبیاء ؑ کو ایک دوسرے پر فضیلت نہ دیاکرو کیونکہ قیامت کے دن جب سب لوگ بے ہوش ہوجائیں گے تو سب سے پہلے جس کی قبر کھلے گی وہ میں ہوں گا۔ میں دیکھوں گا کہ موسیٰ ؑ عرش کاایک پایہ تھامے ہوئے ہیں۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ وہ بے ہوش ہونے والوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2412]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے ذیل میں علامہ قسطلانی فرماتے ہیں:
و مطابقة الحدیث للترجمة في قوله علیه الصلوة و السلام ادعوہ فإن المراد به إشخاصه بین یدیه صلی اللہ علیه وسلم یعنی باب اور حدیث میں مطابقت یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس شخص کو یہاں بلاؤ۔
گویا آنحضرت ﷺ کے سامنے اس کی حاضری ہی اس کے حق میں سزا تھی۔
اس حدیث کو اور بھی کئی مقامات پر امام بخاری ؒ نے نقل فرما کر اس سے بہت سے مسائل کا استخراج فرمایا ہے۔
ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ کی فضیلت جملہ انبیاءو رسل ؑ پر ایسی ہی ہے جیسی فضیلت چاند کو آسمان کے سارے ستاوں پر حاصل ہے۔
اس حقیقت کے باوجود آپ نے پسند نہیں فرمایا کہ لوگ آپ کی فضیلت بیان کرنے کے سلسلے میں کسی دوسرے نبی کی تنقیص شروع کر دیں۔
آپ نے خود حضرت موسیٰ ؑ کی فضیلت کا اعتراف فرمایا۔
بلکہ ذکر بھی فرمادیا کہ قیامت کے دن میرے ہوش میں آنے سے پہلے حضرت موسیٰ ؑ عرش کا پایہ پکڑے ہوئے نظر آئیں گے۔
نہ معلوم آپ ان میں سے ہیں جن کا اللہ نے استثناءفرمایا ہے جیسا کہ ارشاد ہے:
﴿فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَاءَ اللَّهُ﴾ (الزمر: 68)
یعنی قیامت کے دن سب لوگ بے ہوش ہو جائیں گے مگر جن کو اللہ چاہے گا بے ہوش نہ ہوں گے۔
یا پہلے طور پر جو بے ہوشی ان کو لاحق ہو چکی ہے وہ یہاں کام دے دی گی یا آپ ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کو اللہ پاک نے محاسبہ سے بری قرار دے دیا ہوگا۔
بہرحال آپ نے اس جزوی فضیلت کے بارے میں حضرت موسیٰ ؑ کی افضیلت کا اعتراف فرمایا۔
اگرچہ یہ سب کچھ محض بطور اظہار انکساری ہی ہے۔
اللہ پاک نے اپنے حبیب ﷺ کو خاتم النبیین کا درجہ بخشا ہے جملہ انبیاء ؑ پر آپ کی افضلیت کے لیے یہ عزت کم نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2412   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6916  
6916. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: انبیاء ؑ کے مابین ایک کو دوسرے پر فضیلت نہ دو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6916]
حدیث حاشیہ:
یعنی اس طرح سے کہ دوسرے پیغمبروں کی توہین یا تحقیر نکلے یا اس طرح سے کہ لوگوں میں جھگڑا فساد پیدا ہو حالانکہ اس روایت میں طمانچہ کا ذکر نہیں ہے مگر آگے کی روایت میں موجود ہے یہ روایت اس کی مختصر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6916   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6917  
6917. حضرت ابو سعید خدری ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک یہودی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا جبکہ اسے کسی نے طمانچہ لگایا تھا۔ اس نے کہا: یا محمد! تمہارے اصحاب میں سے ایک انصاری نے مجھ کو طمانچہ مارا ہے۔ آپ نے فرمایا: اسے بلاو لوگوں نے اس کو بلایا تو آپ نے فرمایا: تو نے اس کو چہرے پر طمانچہ مارا ہے؟ اس نے کہا: اللہ کے رسول! میں یہودیوں کے پاس سے گزرا تو میں نے سنا کہ یہ (یہودی) کہہ رہا تھا: مجھے اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ ؑ کو تمام انسانوں پر فضیلت دی ہے! میں نے کہا: وہ حضرت محمد ﷺ سے بھی افضل ہیں؟ مجھے اس وقت غصہ آیا تو میں نے اس کے منہ پر طمانچہ رسید کر دیا۔ آپ نے فرمایا: مجھے دوسرے انبیاء ؑ پر برتری نہ دیا کرو کیونکہ لوگ قیامت کے دن بے ہوش ہو جائیں گے، پھر مجھے سب سے پہلے ہوش آئے گا تو اچانک موسیٰ ؑ عرش کا پایہ پکڑے ہوں گے، نہ معلوم وہ مجھ سے پہلے ہوش۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6917]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کو کثرت سے احادیث یاد تھیں۔
ان کی مرویات کی تعداد 1170 ہے۔
آپ کی وفات جمعہ کے دن سنہ 74ھ میں ہوئی۔
جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6917   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2412  
2412. حضرت ابو سعیدخدری ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ تشریف فرماتھے کہ ایک یہودی آیا اور کہنے لگا: ابو القاسم!آپ کے ایک صحابی نے میرے منہ پر تھپڑ مارا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کس نے؟ اس نے عرض کیا: وہ انصار کا ایک آدمی تھا۔ آپ نے فرمایا: اسے بلاؤ۔ آپ نے اس سے فرمایا: کیا تو نے اسے مارا ہے؟ وہ کہنے لگا: میں نے بازار میں اس کو قسم اٹھاتے ہوئے سناکہ قسم ہے اس ذات کی جس نے موسیٰ ؑ کولوگوں پر فضیلت دی ہے۔ تو میں نے کہا: اے خبیث! کیا محمد ﷺ پر بھی؟مجھے غصہ آگیا اور اس کے منہ پر تھپڑ رسید کردیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: انبیاء ؑ کو ایک دوسرے پر فضیلت نہ دیاکرو کیونکہ قیامت کے دن جب سب لوگ بے ہوش ہوجائیں گے تو سب سے پہلے جس کی قبر کھلے گی وہ میں ہوں گا۔ میں دیکھوں گا کہ موسیٰ ؑ عرش کاایک پایہ تھامے ہوئے ہیں۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ وہ بے ہوش ہونے والوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2412]
حدیث حاشیہ:
(1)
مطلق فضیلت میں تمام انبیاء ؑ برابر درجہ رکھتے ہیں، البتہ خاص وجوہات اور خصوصیات کی وجہ سے ایک کو دوسرے پر برتری حاصل ہے، مثلاً:
رسول اللہ ﷺ خاتم الانبیاء ہیں۔
آپ سید ولدِ آدم ہیں۔
ایسی خصوصیات میں رسول اللہ ﷺ کو دوسرے انبیاء ؑ پر فضیلت دی جا سکتی ہے، البتہ مطلق فضیلت کا دعویٰ کسی کے لیے نہ کیا جائے، نیز کسی نبی کے لیے ایسی فضیلت نہ ثابت کی جائے جس سے دوسرے نبی کی تنقیص یا توہین ہوتی ہو یا ایسی فضیلت نہ ہو جو باعث فساد بن جائے۔
(2)
اس روایت سے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ ایک یہودی مسلمان کے خلاف اسلامی عدالت میں دعویٰ دائر کر سکتا ہے۔
ایسے حالات میں عدالت کو عدل و انصاف کا دامن تھامنا چاہیے۔
مسلمان کی بےجا حمایت سے اجتناب کرنا چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2412   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3398  
3398. حضرت ابو سعید خدری ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کر تے ہیں کہ آپ نے فرمایا: قیامت کے دن لوگ بے ہوش ہوں گے اور مجھے سب سے پہلے ہوش آئے گا تو میں حضرت موسیٰ ؑ کو دیکھوں گا کہ وہ عرش کے پائے کوپکڑے ہوں گے۔ نہ معلوم وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آجائیں گے یا انھیں کوہ طور کی بے ہوشی کابدلہ ملاہوگا؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3398]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں حضرت موسیٰ ؑ کے متعلق وضاحت ہے کہ وہ کوہ طور کے دامن میں بے ہوش ہوئے تھے۔
عنوان میں یہی واقعہ تفصیل سے بیان ہوا ہے۔

اس حدیث میں ایک جزوی فضیلت بیان ہوئی ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم ؑ کے متعلق حدیث میں ہے کہ انھیں سب سے پہلے لباس پہنایاجائے گا۔
اس قسم کی جزوی فضیلت سے کلی فضیلت پر فوقیت لازم نہیں آتی۔
بہرحال رسول اللہ ﷺ سب سے پہلے اپنی قبر مبارک سے اٹھیں گے اور اپنے رب کے حضور پیش ہوں گے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3398   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6917  
6917. حضرت ابو سعید خدری ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک یہودی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا جبکہ اسے کسی نے طمانچہ لگایا تھا۔ اس نے کہا: یا محمد! تمہارے اصحاب میں سے ایک انصاری نے مجھ کو طمانچہ مارا ہے۔ آپ نے فرمایا: اسے بلاو لوگوں نے اس کو بلایا تو آپ نے فرمایا: تو نے اس کو چہرے پر طمانچہ مارا ہے؟ اس نے کہا: اللہ کے رسول! میں یہودیوں کے پاس سے گزرا تو میں نے سنا کہ یہ (یہودی) کہہ رہا تھا: مجھے اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ ؑ کو تمام انسانوں پر فضیلت دی ہے! میں نے کہا: وہ حضرت محمد ﷺ سے بھی افضل ہیں؟ مجھے اس وقت غصہ آیا تو میں نے اس کے منہ پر طمانچہ رسید کر دیا۔ آپ نے فرمایا: مجھے دوسرے انبیاء ؑ پر برتری نہ دیا کرو کیونکہ لوگ قیامت کے دن بے ہوش ہو جائیں گے، پھر مجھے سب سے پہلے ہوش آئے گا تو اچانک موسیٰ ؑ عرش کا پایہ پکڑے ہوں گے، نہ معلوم وہ مجھ سے پہلے ہوش۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6917]
حدیث حاشیہ:
(1)
پہلی حدیث مختصر ہے کیونکہ اس میں طمانچہ رسید کرنے کا ذکر نہیں، البتہ دوسری حدیث میں تفصیل سے یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء علیہ السلام کے درمیان ایک کو دوسرے پر اس طرح فضیلت دینے سے منع فرمایا ہے۔
جس سے کسی پیغمبر کی توہین یا حقارت کا پہلو نمایاں ہوتا ہو۔
ویسے برتری کا انداز تو قرآن کریم سے ثابت ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یہ رسول، ہم نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت دی۔
(البقرة: 2: 253)
اللہ تعالیٰ نے از خود بعض رسولوں کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی ہے، تاہم ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے درجات متعین کرنا تمھارا کام نہیں، ان کے باہمی تقابل سے کسی نبی کی تحقیر کا امکان ہے۔
(3)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اگر آدمی کوئی ایسی بات کہے جس کا اسے علم نہیں تو اہل علم مسلمان کے لیے جائز ہے کہ اس اقدام پر اس کی گوشمالی کریں۔
واللہ أعلم. (فتح الباري: 329/12)
بہرحال ایک مسلمان کو کسی کافر یا ذمی کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6917   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.