صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
2. بَابُ: {وَلَمَّا جَاءَ مُوسَى لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَنْ تَرَانِي وَلَكِنِ انْظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَى صَعِقًا فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اور جب موسیٰ ہمارے مقرر کردہ وقت پر (کوہ طور) پر آ گئے اور ان سے ان کے رب نے کلام کیا، موسیٰ بولے، اے میرے رب! مجھے تو اپنا دیدار کرا دے (کہ) میں تجھ کو ایک نظر دیکھ لوں (اللہ تعالیٰ نے فرمایا) تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے، البتہ تم (اس) پہاڑ کی طرف دیکھو، سو اگر یہ اپنی جگہ پر قائم رہا تو تم (مجھ کو بھی دیکھ سکو گے، پھر جب ان کے رب نے پہاڑ پر اپنی تجلی ڈالی تو (تجلی نے) پہاڑ کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور موسیٰ بیہوش ہو کر گر پڑے، پھر جب انہیں ہوش آیا تو بولے اے رب! تو پاک ہے، میں تجھ سے معافی طلب کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا ایمان لانے والا ہوں“۔
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَرِنِي: أَعْطِنِي.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «أرني»، «أعطني» کے معنی میں ہے کہ دے تو مجھ کو، یعنی اپنا دیدار عطا کر۔