�
فوائد و مسائل: یہ حدیث درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:
[صحيح مسلم:1404,3410,3412] [مسند الحميدي:100] [مسند احمد:385/1، 390، 432،420،450] [السنن الصغريٰ للنسائي:174/7، مختصراً] [السنن الكبريٰ للنسائي:11150] [مسند ابي يعليٰ:5382] [شرح معاني الآثار للطحاوي:24/3] [مصنف عبدالرزاق:506/7,ح14940، مختصراً] [السنن الكبريٰ للبهيقي:201،200،79/7] اس حدیث میں تین باتوں کا ذکر ہے:
➊ صحابہ کرام کا خصی ہونے کی اجازت مانگنا۔
➋ اس کام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کو منع کر دینا۔
➌ ایک کپڑے کے حق مہر کے ساتھ عورت سے نکاح کرنے کی اجازت۔
اس حدیث میں نکاح کی اجازت ہے اور اسے طیبات
(پاک و حلال) میں سے قرار دیا گیا ہے۔ رہا متعتہ النکاح کا مسئلہ تو پہلے یہ جائز اور غیر حرام تھا، بعد میں اسے قیامت تک کے لیے حرام قرار دیا گیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«باب نهي رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نكاح المتعة آخرا» ”باب نکاح متعہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آخر میں منع فرما دینا۔
“ [صحیح بخاری،کتاب النکاح، باب:32] اس باب میں امام بخاری نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ سے منع فرما دیا تھا۔
[ح:5115] معترض کا یہ کہنا کہ:
”جس کا مطلب ہے کہ امام بخاری خود بھی متعہ کے حلال ہونے کے قائل تھے۔“ (ص:28)
بالکل جھوٹ اور امام بخاری پر بہتان عظیم ہے۔ یاد رہے کہ
«متعته النكاح» کا ترجمہ
”زنا کرنا
“ غلط ہے۔
حنفیوں کے ایک
”امام
“ محمد بن الحسن بن فرقد الشیبانی کی طرف منسوب کتاب الآثار میں لکھا ہوا ہے کہ ابوحنیفہ نے حماد سے، اس نے ابراہیم سے، انہوں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے معتہ النکاح کے بارے میں نقل کیا: اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف ایک جنگ میں متعہ کی اجازت دی گئی تھی . . . پھر نکاح، میراث اور مہر کی آیت نے اس کو منسوخ کر دیا۔
[اردو مترجم ص:198] اس روایت اور دوسری روایات سے دو چیزیں ثابت ہیں:
➊ کچھ عرصے کے لئے متعہ جائز تھا۔
➋ بعد میں ہمیشہ کے لیے اسے منسوخ قرار دے کر حرام کر دیا گیا۔
لہٰذا قرآن و حدیث میں کوئی تعارض نہیں ہے۔