Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
9. بَابُ: {لاَ تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اے ایمان والو! اپنے اوپر ان پاک چیزوں کو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں از خود حرام نہ کر لو“۔
حدیث نمبر: 4615
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كُنَّا نَغْزُو مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَيْسَ مَعَنَا نِسَاءٌ، فَقُلْنَا: أَلَا نَخْتَصِي، فَنَهَانَا عَنْ ذَلِكَ، فَرَخَّصَ لَنَا بَعْدَ ذَلِكَ أَنْ نَتَزَوَّجَ الْمَرْأَةَ بِالثَّوْبِ، ثُمَّ قَرَأَ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ سورة المائدة آية 87".
ہم سے عمرو بن عون نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن عبداللہ طحان نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے، ان سے قیس بن ابی حازم نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو کر جہاد کیا کرتے تھے اور ہمارے ساتھ ہماری بیویاں نہیں ہوتی تھیں۔ اس پر ہم نے عرض کیا کہ ہم اپنے آپ کو خصی کیوں نہ کر لیں۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے روک دیا اور اس کے بعد ہمیں اس کی اجازت دی کہ ہم کسی عورت سے کپڑے (یا کسی بھی چیز) کے بدلے میں نکاح کر سکتے ہیں۔ پھر عبداللہ رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی «يا أيها الذين آمنوا لا تحرموا طيبات ما أحل الله لكم» اے ایمان والو! اپنے اوپر ان پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ کرو جو اللہ نے تمہارے لیے جائز کی ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4615 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4615  
حدیث حاشیہ:
شروع اسلام میں متعہ جائز تھا اس کے بارے ميں یہ آیت اتری۔
بعد میں متعہ قیامت تک کے لیے حرام ہو گیا۔
متعہ اس عارضی نکاح کو کہتے تھے جو وقت مقررہ تک کے لیے کسی مقرر چیز کے بدلے کیا جاتا تھا۔
اب متعہ قیامت تک بالکل حرام ہے، جس کی حرمت پر اہل سنت کا پورا اتفاق ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4615   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4615  
فوائد و مسائل:
یہ حدیث درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:
[صحيح مسلم:1404,3410,3412]
[مسند الحميدي:100]
[مسند احمد:385/1، 390، 432،420،450]
[السنن الصغريٰ للنسائي:174/7، مختصراً]
[السنن الكبريٰ للنسائي:11150]
[مسند ابي يعليٰ:5382]
[شرح معاني الآثار للطحاوي:24/3]
[مصنف عبدالرزاق:506/7,ح14940، مختصراً]
[السنن الكبريٰ للبهيقي:201،200،79/7]
اس حدیث میں تین باتوں کا ذکر ہے:
➊ صحابہ کرام کا خصی ہونے کی اجازت مانگنا۔
➋ اس کام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کو منع کر دینا۔
➌ ایک کپڑے کے حق مہر کے ساتھ عورت سے نکاح کرنے کی اجازت۔
اس حدیث میں نکاح کی اجازت ہے اور اسے طیبات (پاک و حلال) میں سے قرار دیا گیا ہے۔ رہا متعتہ النکاح کا مسئلہ تو پہلے یہ جائز اور غیر حرام تھا، بعد میں اسے قیامت تک کے لیے حرام قرار دیا گیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«باب نهي رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نكاح المتعة آخرا»
باب نکاح متعہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آخر میں منع فرما دینا۔ [صحیح بخاری،کتاب النکاح، باب:32]
اس باب میں امام بخاری نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ سے منع فرما دیا تھا۔ [ح:5115]

معترض کا یہ کہنا کہ:
جس کا مطلب ہے کہ امام بخاری خود بھی متعہ کے حلال ہونے کے قائل تھے۔ (ص:28)
بالکل جھوٹ اور امام بخاری پر بہتان عظیم ہے۔ یاد رہے کہ «متعته النكاح» کا ترجمہ زنا کرنا غلط ہے۔
حنفیوں کے ایک امام محمد بن الحسن بن فرقد الشیبانی کی طرف منسوب کتاب الآثار میں لکھا ہوا ہے کہ ابوحنیفہ نے حماد سے، اس نے ابراہیم سے، انہوں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے معتہ النکاح کے بارے میں نقل کیا: اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف ایک جنگ میں متعہ کی اجازت دی گئی تھی . . . پھر نکاح، میراث اور مہر کی آیت نے اس کو منسوخ کر دیا۔ [اردو مترجم ص:198]

اس روایت اور دوسری روایات سے دو چیزیں ثابت ہیں:
➊ کچھ عرصے کے لئے متعہ جائز تھا۔
➋ بعد میں ہمیشہ کے لیے اسے منسوخ قرار دے کر حرام کر دیا گیا۔
لہٰذا قرآن و حدیث میں کوئی تعارض نہیں ہے۔
   توفيق الباري في تطبيق القرآن و صحيح بخاري، حدیث/صفحہ نمبر: 35   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4615  
حدیث حاشیہ:

ایک حدیث میں اس آیت کی شان نزول ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا:
اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میں جس وقت گوشت کھاتا ہوں تو مجھے عورتوں کی خواہش بے قرارکر دیتی ہے اس لیے میں نے گوشت کو اپنے پر حرام کر لیا ہے۔
اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔
(جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3054)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ بھی حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی طرح نکاح متعہ کے جائز ہونے کا اعتقاد رکھتے تھے ممکن ہے کہ انھیں پہلے اس کے نسخ کا علم نہ ہوا ہو لیکن جب اس کے منسوخ ہونے کا علم ہوا تو رجوع فرما لیا جیسا کہ حافظ ابن حجر ؒ نے علامہ اسماعیلی کے حوالے سے ایسی روایات کا ذکر کیا ہے جن میں ان کے رجوع کا ذکر ہے۔
(فتح الباري: 150/8)

یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے مذکورہ آیت اختصار کے لیے پڑھی ہو جس کا مطلب یہ ہے کہ خصیتین اللہ کی عظیم نعمت ہیں ان کے ذریعے سے حلال جماع کی لذت کا احساس ہوتا ہے اس طرح یہ طبیعات میں داخل ہیں خصی ہو کر تم اس لذت کو خود پر حرام نہ کرو۔
واللہ اعلم۔

بہر حال نکاح متعہ آغاز اسلام میں جائز تھا جسے غزوہ خیبر میں منسوخ کردیا گیا پھر غزوہ اوطاس میں محض تین دن کے لیے اجازت ہوئی پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسے ختم کردیا گیا کتاب و سنت سے اس کی حرمت ثابت ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4615   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5071  
´ایسے تنگ دست کی شادی کرانا جس کے پاس صرف قرآن مجید اور اسلام ہے`
«. . . عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كُنَّا نَغْزُو مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ لَنَا نِسَاءٌ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا نَسْتَخْصِي؟ فَنَهَانَا عَنْ ذَلِكَ . . .»
. . . ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کیا کرتے تھے اور ہمارے ساتھ بیویاں نہیں تھیں۔ اس لیے ہم نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہم اپنے آپ کو خصی کیوں نہ کر لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع فرمایا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ: 5071]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5071 کا باب: «بَابُ تَزْوِيجِ الْمُعْسِرِ الَّذِي مَعَهُ الْقُرْآنُ وَالإِسْلاَمُ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
بظاہر ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت مشکل ہے، کیونکہ باب میں تنگ دست کے نکا ح کا ذکر ہے، جبکہ حدیث میں تنگدستی کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے، چنانچہ ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت پر اگر غور کیا جائے تو مناسبت کے پہلو اجاگر ہوں گے، سب سے پہلی بات یہ ہے کہ روایت میں «ليس لنا نساء» یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں، لہٰذا ان لفظوں کا تعلق «تزويج المعسر» سے کس طرح ثابت کیا جائے؟ آگے چل کر امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسری روایت کا ذکر فرمایا ہے کہ اس میں یہ الفاظ وارد ہیں، «ليس لنا شيئي» کہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے، یعنی کوئی مال وغیرہ نہیں ہے اور نہ ہی عورتیں ہیں، الفاظ سے ترجمۃ الباب کا مقصد حل ہوتا نظر آتا ہے، جس کی طرف حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اشارہ فرمایا ہے۔

چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:
«والذي يظهر ان المراد البخارى المعسر من المال بدليل قول ابن المسعود وليس لنا شيء .» [فتح الباري لابن حجر: 100/9]
لہٰذا سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ تھا کہ ہمارے پاس نان و نفقہ کا چونکہ بندوبست نہیں تھا اور نہ ہی اس مقصد کے لئے بیویاں تھیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر ہمیں خصی ہونے کی اجازت مرحمت فرما دیتے تو ہم خصی ہو جاتے مگر آپ نے خصی ہونے کی اجازت مرحمت نہیں فرمائی۔ یاد رکھیں! قرآن و سنت اور اسلام کی دولت سے یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مالامال تھے، لیکن انہیں عورتیں میسر نہ تھی، جن کی انہیں سخت ضرورت تھی، لہٰذا یہی وجہ ہے کہ دلالۃ النص کے طور پر اس سے واضح یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قرآن کے بدلے نکاح کی اجازت مرحمت فرمائی۔

چنانچہ امام قسطلانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ:
«ومطابقة الحديث للترجمه كما قال ابن المنير انه عليه الصلاه والسلام نهاهم عن الاستخصاء ووكلهم الى النكا ح، فلو كان المعسر لا ينكح وهو ممنوع من الاستخصاء لكلف شططاً وكان كل منهم لا بد ان يحفظ شيئا من القران فتعين التزويج بما معهم، فحكم الترجمة من حديث سهل بالتنصيص ومن حديث ابن مسعود بالاستدلال.» [ارشاد الساري لشرح صحيح بخاري: 74/9]
ابن منیر رحمہ اللہ کی اس وضاحت سے واضح ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ ہے وسلم نے ان صحابہ کو جو تنگی میں تھے ہرگز خصی ہونے کی اجازت مرحمت نہیں فرمائی، بلکہ ان صحابہ میں انہیں جو کچھ بھی قرآن یاد تھا اس کے بدل نکاح کی ترغیب دی، جس سے صاف طور پر حدیث کی ترجمہ الباب سے مطابق ظاہر ہوئی ہے، حدیث اول جو سہل رضی اللہ عنہ سے ماخوذ تھی اسے نص بنایا اور جو حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے تھی، اس سے استدلال کو اخذ فرمایا ہے، لہٰذا اس باریک بینی سے امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمتہ الباب سے استدلال فرمایا۔
«قلت: والله در هذا الامام مأادق نظره، وأوسع فهمه رحمة الله عليه ورحمته واسعة .»
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 79   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5071  
5071. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ جہاد کیا کرتے تھے جبکہ ہمارے ساتھ بیویاں نہ تھیں، اس لیے ہم نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا ہم خود کو خصی نہ کرلیں؟ آپ نے ہمیں اس سے منع فرمادیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5071]
حدیث حاشیہ:
آج کل کی نس بندی بھی خصی ہونا ہی ہے جو مسلمان کے لئے ہر گز جائز نہیں ہے۔
حضرت امام بخاری نے اس سے باب کا مطلب اس طرح سے نکالا کہ جب خصی ہونے سے آپ نے منع فرمایا تو اب شہوت نکالنے کے لئے نکاح باقی رہ گیا پس معلوم ہوا کہ مفلس کو بھی نکاح کرنا درست ہے۔
سہل کی حدیث میں اس کی صراحت مذکور ہو چکی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5071   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5071  
5071. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ جہاد کیا کرتے تھے جبکہ ہمارے ساتھ بیویاں نہ تھیں، اس لیے ہم نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا ہم خود کو خصی نہ کرلیں؟ آپ نے ہمیں اس سے منع فرمادیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5071]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کے عنوان کے ساتھ اس طرح مناسبت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو خصی ہونے سے منع فرما دیا، حالانکہ وہ بیویوں کے محتاج تھے اور تنگ دست و مفلس بھی تھے۔
ان میں سے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ قرآن کریم بھی یاد تھا، گویا قرآن کے بدلے انھیں نکاح کرنے کی اجازت دی۔
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث تو اس کے متعلق واضح تھی اور اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان چھوٹا ہو یا بڑا اس کے لیے خصی ہونا حرام ہے کیونکہ اس میں قطع نسل، تکلیف اور اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو بدلنا ہے۔
یہی حکم ہر اس حیوان کے لیے ہے جس کا گوشت نہیں کھایا جاتا، لیکن جس کا گوشت کھایا جاتا ہے اسے بچپن میں خصی کرنا جائز ہے تا کہ اس کا گوشت عمدہ ہو جائے۔
(3)
واضح رہے کہ دور حاضر کی نسل بندی بھی خصی ہونے کے مترادف ہے جو کسی بھی مسلمان کے لیے کسی صورت میں جائز نہیں۔
والله اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5071   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5075  
5075. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ جہاد کرتے تھے اور ہمارے پاس کچھ نہ ہوتا تھا۔ ہم نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا ہم خصی نہ ہو جائیں؟ آپ نے ہمیں اس سے منع فرما دیا۔ پھر آپ نے ہمیں اس امر کی اجازت دی کہ ہم کسی عورت سے ایک کپڑے کے عوض (محدود مدت کے لیے) نکاح کر لیں، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ایمان والو! اللہ تعالٰی نے جو پاک چیزیں تمہارے لیے حلال کی ہیں، انہیں حرام قرار نہ دو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5075]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ آیت کریمہ تبتل اور خصی ہونے کے حرام ہونے پر دلالت کرتی ہے کیونکہ ان دونوں صورتوں میں پاکیزہ اور حلال چیزوں کو اپنے آپ پر حرام کرلینا ہے جس کی آیت میں ممانعت ہے۔
(2)
محدود مدت تک کے لیے نکاح کرنے کو متعہ کہا جاتا ہے۔
اسے ایک غزوے میں حلال کیا گیا تھا، آخر کار غزوۂ اوطاس کے بعد قطعی طور پر ہمیشہ کے لیے حرام کر دیا گیا۔
ایک روایت میں ہے:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایسا کیا، پھر انھوں نے اسے ترک کر دیا۔
بلکہ ایک روایت میں ہے کہ بعد میں نکاح متعہ کو حرام کر دیا گیا۔
(السنن الکبریٰ للبیهقي: 207/7، و فتح الباري: 150/9) (3)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت کریمہ کی شان نزول اس طرح مروی ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا:
اللہ کے رسول! جب میں گوشت کھاتا ہوں تو مجھے عورتوں کی خواہش پیدا ہوتی ہے، اس وجہ سے میں نے اپنے لیے گوشت حرام کرلیا ہے تو اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔
(جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3054، و عمدة القاري: 152/14)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5075