(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، قال: حدثني سعيد بن ابي سعيد، انه سمع ابا هريرة رضي الله عنه، قال: بعث النبي صلى الله عليه وسلم خيلا قبل نجد فجاءت برجل من بني حنيفة، يقال له: ثمامة بن اثال، فربطوه بسارية من سواري المسجد، فخرج إليه النبي صلى الله عليه وسلم فقال:" ما عندك يا ثمامة؟" فقال: عندي خير يا محمد، إن تقتلني تقتل ذا دم، وإن تنعم تنعم على شاكر، وإن كنت تريد المال، فسل منه ما شئت، فترك حتى كان الغد، ثم قال له:" ما عندك يا ثمامة؟" قال: ما قلت لك: إن تنعم تنعم على شاكر، فتركه حتى كان بعد الغد، فقال:" ما عندك يا ثمامة؟" فقال: عندي ما قلت لك، فقال:" اطلقوا ثمامة"، فانطلق إلى نجل قريب من المسجد فاغتسل، ثم دخل المسجد، فقال: اشهد ان لا إله إلا الله، واشهد ان محمدا رسول الله، يا محمد والله ما كان على الارض وجه ابغض إلي من وجهك، فقد اصبح وجهك احب الوجوه إلي، والله ما كان من دين ابغض إلي من دينك، فاصبح دينك احب الدين إلي، والله ما كان من بلد ابغض إلي من بلدك، فاصبح بلدك احب البلاد إلي، وإن خيلك اخذتني وانا اريد العمرة، فماذا ترى؟ فبشره رسول الله صلى الله عليه وسلم وامره ان يعتمر، فلما قدم مكة، قال له قائل: صبوت، قال: لا، ولكن اسلمت مع محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا والله لا ياتيكم من اليمامة حبة حنطة حتى ياذن فيها النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْلًا قِبَلَ نَجْدٍ فَجَاءَتْ بِرَجُلٍ مِنْ بَنِي حَنِيفَةَ، يُقَالُ لَهُ: ثُمَامَةُ بْنُ أُثَالٍ، فَرَبَطُوهُ بِسَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ؟" فَقَالَ: عِنْدِي خَيْرٌ يَا مُحَمَّدُ، إِنْ تَقْتُلْنِي تَقْتُلْ ذَا دَمٍ، وَإِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ، وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ الْمَالَ، فَسَلْ مِنْهُ مَا شِئْتَ، فَتُرِكَ حَتَّى كَانَ الْغَدُ، ثُمَّ قَالَ لَهُ:" مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ؟" قَالَ: مَا قُلْتُ لَكَ: إِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ، فَتَرَكَهُ حَتَّى كَانَ بَعْدَ الْغَدِ، فَقَالَ:" مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ؟" فَقَالَ: عِنْدِي مَا قُلْتُ لَكَ، فَقَالَ:" أَطْلِقُوا ثُمَامَةَ"، فَانْطَلَقَ إِلَى نَجْلٍ قَرِيبٍ مِنَ الْمَسْجِدِ فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، يَا مُحَمَّدُ وَاللَّهِ مَا كَانَ عَلَى الْأَرْضِ وَجْهٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ وَجْهِكَ، فَقَدْ أَصْبَحَ وَجْهُكَ أَحَبَّ الْوُجُوهِ إِلَيَّ، وَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ دِينٍ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ دِينِكَ، فَأَصْبَحَ دِينُكَ أَحَبَّ الدِّينِ إِلَيَّ، وَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ بَلَدٍ أَبْغَضُ إِلَيَّ مِنْ بَلَدِكَ، فَأَصْبَحَ بَلَدُكَ أَحَبَّ الْبِلَادِ إِلَيَّ، وَإِنَّ خَيْلَكَ أَخَذَتْنِي وَأَنَا أُرِيدُ الْعُمْرَةَ، فَمَاذَا تَرَى؟ فَبَشَّرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمَرَهُ أَنْ يَعْتَمِرَ، فَلَمَّا قَدِمَ مَكَّةَ، قَالَ لَهُ قَائِلٌ: صَبَوْتَ، قَالَ: لَا، وَلَكِنْ أَسْلَمْتُ مَعَ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا وَاللَّهِ لَا يَأْتِيكُمْ مِنْ الْيَمَامَةِ حَبَّةُ حِنْطَةٍ حَتَّى يَأْذَنَ فِيهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف کچھ سوار بھیجے وہ قبیلہ بنو حنیفہ کے (سرداروں میں سے) ایک شخص ثمامہ بن اثال نامی کو پکڑ کر لائے اور مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور پوچھا ثمامہ تو کیا سمجھتا ہے؟ (میں تیرے ساتھ کیا کروں گا؟) انہوں نے کہا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! میرے پاس خیر ہے (اس کے باوجود) اگر آپ مجھے قتل کر دیں تو آپ ایک شخص کو قتل کریں گے جو خونی ہے، اس نے جنگ میں مسلمانوں کو مارا اور اگر آپ مجھ پر احسان کریں گے تو ایک ایسے شخص پر احسان کریں گے جو (احسان کرنے والے کا) شکر ادا کرتا ہے لیکن اگر آپ کو مال مطلوب ہے تو جتنا چاہیں مجھ سے مال طلب کر سکتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چلے آئے، دوسرے دن آپ نے پھر پوچھا: ثمامہ اب تو کیا سمجھتا ہے؟ انہوں نے کہا، وہی جو میں پہلے کہہ چکا ہوں، کہ اگر آپ نے احسان کیا تو ایک ایسے شخص پر احسان کریں گے جو شکر ادا کرتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر چلے گئے، تیسرے دن پھر آپ نے ان سے پوچھا: اب تو کیا سمجھتا ہے ثمامہ؟ انہوں نے کہا کہ وہی جو میں آپ سے پہلے کہہ چکا ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ ثمامہ کو چھوڑ دو (رسی کھول دی گئی) تو وہ مسجد نبوی سے قریب ایک باغ میں گئے اور غسل کر کے مسجد نبوی میں حاضر ہوئے اور پڑھا «أشهد أن لا إله إلا الله، وأشهد أن محمدا رسول الله» اور کہا اے محمد! اللہ کی قسم روئے زمین پر کوئی چہرہ آپ کے چہرے سے زیادہ میرے لیے برا نہیں تھا لیکن آج آپ کے چہرے سے زیادہ کوئی چہرہ میرے لیے محبوب نہیں ہے۔ اللہ کی قسم کوئی دین آپ کے دین سے زیادہ مجھے برا نہیں لگتا تھا لیکن آج آپ کا دین مجھے سب سے زیادہ پسندیدہ اور عزیز ہے۔ اللہ کی قسم! کوئی شہر آپ کے شہر سے زیادہ برا مجھے نہیں لگتا تھا لیکن آج آپ کا شہر میرا سب سے زیادہ محبوب شہر ہے۔ آپ کے سواروں نے مجھے پکڑا تو میں عمرہ کا ارادہ کر چکا تھا۔ اب آپ کا کیا حکم ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بشارت دی اور عمرہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ جب وہ مکہ پہنچے تو کسی نے کہا کہ تم بےدین ہو گئے ہو۔ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایمان لے آیا ہوں اور اللہ کی قسم! اب تمہارے یہاں یمامہ سے گیہوں کا ایک دانہ بھی اس وقت تک نہیں آئے گا جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اجازت نہ دے دیں۔
Narrated Abu Huraira: The Prophet sent some cavalry towards Najd and they brought a man from the tribe of Banu Hanifa who was called Thumama bin Uthal. They fastened him to one of the pillars of the Mosque. The Prophet went to him and said, "What have you got, O Thumama?" He replied," I have got a good thought, O Muhammad! If you should kill me, you would kill a person who has already killed somebody, and if you should set me free, you would do a favor to one who is grateful, and if you want property, then ask me whatever wealth you want." He was left till the next day when the Prophet said to him, "What have you got, Thumama? He said, "What I told you, i.e. if you set me free, you would do a favor to one who is grateful." The Prophet left him till the day after, when he said, "What have you got, O Thumama?" He said, "I have got what I told you. "On that the Prophet said, "Release Thumama." So he (i.e. Thumama) went to a garden of date-palm trees near to the Mosque, took a bath and then entered the Mosque and said, "I testify that None has the right to be worshipped except Allah, and also testify that Muhammad is His Apostle! By Allah, O Muhammad! There was no face on the surface of the earth most disliked by me than yours, but now your face has become the most beloved face to me. By Allah, there was no religion most disliked by me than yours, but now it is the most beloved religion to me. By Allah, there was no town most disliked by me than your town, but now it is the most beloved town to me. Your cavalry arrested me (at the time) when I was intending to perform the `Umra. And now what do you think?" The Prophet gave him good tidings (congratulated him) and ordered him to perform the `Umra. So when he came to Mecca, someone said to him, "You have become a Sabian?" Thumama replied, "No! By Allah, I have embraced Islam with Muhammad, Apostle of Allah. No, by Allah! Not a single grain of wheat will come to you from Jamaica unless the Prophet gives his permission."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 658
ما عندك يا ثمامة فقال عندي خير يا محمد إن تقتلني تقتل ذا دم وإن تنعم تنعم على شاكر وإن كنت تريد المال فسل منه ما شئت فترك حتى كان الغد ثم قال له ما عندك يا ثمامة قال ما قلت لك إن تنعم تنعم على شاكر فتركه حتى كان بعد الغد فقال ما عندك يا ثمامة ف
بعث رسول الله خيلا قبل نجد فجاءت برجل من بني حنيفة يقال له ثمامة بن أثال سيد أهل اليمامة فربطوه بسارية من سواري المسجد فخرج إليه رسول الله قال ما عندك يا ثمامة قال عندي يا محمد خير فذكر الحديث قال أطلقوا ثمامة
ماذا عندك يا ثمامة فقال عندي يا محمد خير إن تقتل تقتل ذا دم وإن تنعم تنعم على شاكر وإن كنت تريد المال فسل تعط منه ما شئت فتركه رسول الله حتى كان بعد الغد فقال ما عندك يا ثمامة قال ما قلت لك إن تنعم تنعم على شاكر وإن تقتل تقتل ذا
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4372
حدیث حاشیہ: مکہ کے کافروں نے ثمامہ سے پوچھا تو نے اپنا دین بدل دیا؟ تو ثمامہ نے یہ جواب دیا، میں نے دین نہیں بدلا بلکہ اللہ کا تابعدار بن گیا ہوں۔ کہتے ہیں ثمامہ نے یمامہ جا کر یہ حکم دیا کہ مکہ کے کافروں کو غلہ نہ بھیجا جائے۔ آخر مکہ والوں نے مجبور ہوکر آنحضرت ﷺ کو لکھا کہ آپ اقرباء کی پرورش کرتے ہیں، صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں، ثمامہ نے ہماراغلہ کیوں روک دیا ہے۔ اسی وقت آپ نے ثمامہ کو اجازت دی کہ مکہ غلہ بھیجنا ہو تو ضرور بھیجو۔ إِنْ تَقْتُلْنِي تَقْتُلْ ذَا دَمٍ کا بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے اگر آپ مجھ کو مار ڈالیں گے تو ایک ایسے شخص کو مار دیں گے جس کا خون بے کار نہ جائے گا۔ یعنی میری قوم والے میرا بدلہ لے لیں گے۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں: وَفِي قِصَّةِ ثُمَامَةَ مِنَ الْفَوَائِدِ رَبْطُ الْكَافِرِ فِي الْمَسْجِدِ وَالْمَنُّ عَلَى الْأَسِيرِ الْكَافِرِ وَتَعْظِيمُ أَمْرِ الْعَفْوِ عَنِ الْمُسِيءِ لِأَنَّ ثُمَامَةَ أَقْسَمَ أَنَّ بُغْضَهُ انْقَلَبَ حُبًّا فِي سَاعَةٍ وَاحِدَةٍ لِمَا أَسَدَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِ مِنَ الْعَفْوِ وَالْمَنِّ بِغَيْرِ مُقَابِلٍ وَفِيهِ الِاغْتِسَالُ عِنْدَ الْإِسْلَامِ وَأَنَّ الْإِحْسَانَ يُزِيلُ الْبُغْضَ وَيُثَبِّتُ الْحُبَّ وَأَنَّ الْكَافِرَ إِذَا أَرَادَ عَمَلَ خَيْرٍ ثُمَّ أَسْلَمَ شَرَعَ لَهُ أَنْ يَسْتَمِرَّ فِي عَمَلِ ذَلِكَ الْخَيْرِ وَفِيهِ الْمُلَاطَفَةُ بِمَنْ يُرْجَى إِسْلَامُهُ مِنَ الْأُسَارَى إِذَا كَانَ فِي ذَلِكَ مَصْلَحَةٌ لِلْإِسْلَامِ وَلَا سِيَّمَا مَنْ يَتْبَعُهُ عَلَى إِسْلَامِهِ الْعَدَدُ الْكَثِيرُ مِنْ قَوْمِهِ وَفِيهِ بَعْثُ السَّرَايَا إِلَى بِلَادِ الْكُفَّارِ وَأَسْرُ مَنْ وُجِدَ مِنْهُمْ وَالتَّخْيِيرُ بَعْدَ ذَلِكَ فِي قَتْلِهِ أَوِ الْإِبْقَاءِ عَلَيْهِ (فتح الباری) یعنی ثمامہ کے قصے میں بہت سے فوائد ہیں اس سے کافر کا مسجد میں قید کر نا بھی ثابت ہوا (تاکہ وہ مسلمانوں کی نماز و غیرہ دیکھ کر اسلام کی رغبت کر سکے) اور کافر قیدی پر احسان کرنا بھی ثابت ہوا اور برائی کرنے والے کے ساتھ بھلائی کرنا ایک بڑی نیکی کے طور پر ثابت ہوا۔ اس لیے کہ ثمامہ نے نبی کریم ﷺ کے احسان وکرم کو دیکھ کر کہا تھا کہ ایک ہی گھڑی میں اس کے دل کا بغض جو آنحضرت ﷺ کی طرف سے اس کے دل میں تھا، وہ محبت سے بدل گیا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کافر اگر کوئی نیک کا م کرتا ہوا مسلمان ہوجائے تو اسلام قبول کرنے کے بعد بھی اسے وہ نیک عمل جاری رکھنا چاہئیے اور اس سے یہ بھی ثابت ہواکہ جس قیدی سے اسلام لانے کی امید ہو اس کے ساتھ ہر ممکن نرمی برتنا ضروری ہے۔ جیسا ثمامہ ؓ کے ساتھ کیا گیا اور اس سے بلاد کفار کی طرف بوقت ضرورت لشکر بھیجنا بھی ثابت ہو اور یہ بھی کہ جوان میں پائے جائیں وہ قید کرلیے جائیں بعد میں حسب مصلحت اس کے ساتھ معاملہ کیا جائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4372
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4372
حدیث حاشیہ: 1۔ صحابہ کرام ؓ جب ثمامہ بن اثال کو قید کر کے مسجد میں لائے تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے اہل خانہ کا تمام کھانا اسے دیا تو اس نے سب کچھ کھا لیا، پھر بھی سیر نہ ہوا لیکن جب وہ مسلمان ہوا تو تھوڑا سا کھانا اس کے لیے کافی ہو گیا۔ صحابہ کرام ؓ نے اس پر اظہار تعجب کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کافر اپنی سات انتڑیاں بھر کر سیراب ہوتا ہے جبکہ مومن صرف ایک انتڑی بھر کر سیر ہو جاتا۔ '“(سیرة ابن ہشام: 238/2۔ وفتح الباري: 110/8) حضرت ثمامہ بن اثال ؓ جب عمرہ کر کے واپس آئے اور یمامہ پہنچ کر اہل یمامہ کو حکم نامہ جاری کردیا کہ اہل مکہ کو غلہ نہ بھیجا جائے تو انھوں نے غلہ روک لیا، آخر اہل مکہ نے تنگ آکر رسول اللہ ﷺ کو خط لکھا کہ آپ تو قرابت داری کا حکم دیتے ہیں اور ہم آپ سے صلہ رحمی کے امیدوار ہیں۔ ہمارے ساتھ یہ سلوک کیوں روا رکھا جا رہا ہے؟ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ثمامہ کو لکھا کہ وہ دوسرے لوگوں کو مکہ میں غلہ بھیجنے سے منع نہ کرے، چنانچہ اس نے اپنے دوسرے حکم نامے کے ذریعے سے اس پابندی کو ختم کردیا۔ (فتح الباری: 111/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4372
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 99
´اسلام لانے کے بعد غسل کرنا` «. . . وعن ابي هريرة رضي الله عنه- فى قصة ثمامة بن اثال عندما اسلم- وامره النبى صلى الله عليه وآله وسلم ان يغتسل . . .» ”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے واقعہ کے متعلق مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے غسل کرنے کا حکم ارشاد فرمایا . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة/باب الغسل وحكم الجنب: 99]
� فوائد و مسائل: ➊ کافر جب اسلام کے لیے آمادہ ہو تو پہلے اسے غسل کرنا چاہیے۔ ➋ یہ غسل واجب ہے یا مسنون و مستحب، اس میں بھی علماء کے مابین اختلاف ہے۔ امام مالک اور امام احمد رحمہما اللہ کے نزدیک واجب ہے۔ امام شافعی اور امام ابوحنیفہ رحمہما اللہ اسے مستحب سمجھتے ہیں۔
راوئ حدیث: سیدنا ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ دونوں لفظوں کے پہلے حرف پر ضمہ ہے اور دوسرا حرف تخفیف کے ساتھ ہے۔ یمامہ کے قبیلے بنو حنیفہ کے فرد تھے اور سرداری کے منصب پر فائز تھے۔ عمرہ ادا کرنے نکلے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شاہ سواروں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔ وہ انہیں مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں لائے اور انہیں مسجد نبوی کے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا۔ تین دن بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور احسان انہیں آزاد کر دیا۔ اس کے بعد یہ مسلمان ہو گئے اور اسلام کا بہت عمدہ ثبوت دیا۔ جن دنوں لوگ مرتد ہو رہے تھے یہ بڑی مضبوطی اور ثابت قدمی سے اسلام پر ڈٹے رہے۔ جب ان کی قوم کے لوگ مسلیمہ کذاب کے فتنے کا شکار ہو گئے تو یہ ان کے خلاف بڑے حوصلے اور عزم و ہمت سے ثابت قدم رہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 99
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 713
´قیدی کو مسجد کے کھمبے سے باندھنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ سواروں کو قبیلہ نجد کی جانب بھیجا، تو وہ قبیلہ بنی حنیفہ کے ثمامہ بن اثال نامی ایک شخص کو (گرفتار کر کے) لائے، جو اہل یمامہ کا سردار تھا، اسے مسجد کے کھمبے سے باندھ دیا گیا، یہ ایک لمبی حدیث کا اختصار ہے۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 713]
713 ۔ اردو حاشیہ: ➊ آپ کے دور میں کوئی جیل تو تھی نہیں اور اس کی ضرورت بھی نہ تھی۔ کبھی کبھار کوئی قیدی آتا تھا، اس لیے انہیں مسجد کے ستون سے باندھ دیا گیا۔ اس میں ایک اور مقصد بھی تھا کہ وہ مسلمانوں کو عبادت کرتے، چلتے پھرتے اور ایک دوسرے سے ملتے جلتے دیکھ کر متاثر ہوں اور مسلمان ہو جائیں اور ایسے ہی ہوا۔ وہ مسجد، وہاں اعمال صالحہ کی برکت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن خلق سے متاثر ہو کر مسلمان ہوئے۔ ➋ قصۂ ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کی یہ روایت تو مختصر ہے لیکن صحیحین میں اس واقعے کی تفصیلی روایت موجود ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4372، و صحیح مسلم، الجھاد، حدیث: 1764]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 713
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4589
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑ سوار دستہ نجد کی طرف بھیجا تو وہ دستہ بنو حنیفہ کے ثمامہ بن اثال نامی آدمی کو پکڑ لایا جو اہل یمامہ کا سردار تھا تو اسے مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور پوچھا: ”تیرا کیا خیال ہے، اے ثمامہ!“ تو اس نے کہا، اے محمد! میرا خیال اچھا ہے، (کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے ساتھ برا سلوک نہیں کرتے)۔... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4589]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) ماذاعندك؟ياثمامه: اے ثمامہ، تیرے خیال میں ہم تیرے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ (2) إِنْ تقتُل، تَقتُل ذَا دم: اگر قتل کرو گے تو ایک قدروقیمت اور صاحب حیثیت کا خون بہاؤ گے، جس کے خون کا بدلہ لیا جائے اور اس کا خون، اس کے دشمن کے لیے تشفی بخش ہے یا وہ اپنے فعل و حرکت کی بنا پر قتل کا مستحق ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم قتل کر کے کسی جرم کے مرتکب نہیں ہوں گے۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے، قیدی کو مسجد میں باندھنا اور قید کرنا جائز ہے اور ضرورت یا کسی مقصد کے تحت کسی کافر کو مسجد میں لایا جا سکتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کافر کو تین دن تک مسجد میں باندھے رکھا تاکہ وہ مسلمانوں کی سیرت و کردار اور ان کے پیغام سے آگاہ ہو اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام لانے کے لیے غسل کی ضرورت ہو، امام مالک، امام احمد کے نزدیک، یہ فرض ہے احناف کے نزدیک مستحب ہے اور شوافع کے نزدیک اگر کافر جنبی ہوا ہو تو واجب ہے، وگرنہ لازم نہیں ہے، مستحب ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4589
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2422
2422. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے نجد کی طرف ایک دستہ روانہ کیا تو وہ لوگ قبیلہ بنی حنیفہ کا ایک آدمی پکڑ لائے۔ وہ اہل یمامہ کا سردار ثمامہ بن اثال تھا۔ انھوں نے اسے مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ رسول اللہ ﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے اور پوچھا: ”اے ثمامہ! اب تمہارے مزاج کا کیا حال ہے؟“ اس نے کہا: اے محمد ﷺ! میرے پاس تو اب خیر ہی خیر ہے۔ اس کے بعد پوری حدیث کا ذکر ہوا آپ ﷺ نے فرمایا: ”ثمامہ کو آزاد کردو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2422]
حدیث حاشیہ: کئی دفعہ کی گفتگو میں ثمامہ اخلاق نبوی سے حد درجہ متاثر ہو چکا تھا۔ اس نے آپ سے ہر بار کہا تھا کہ آپ اگر میرے ساتھ اچھا برتاؤ کریں تو میں اس کی ناقدری نہیں کروں گا چنانچہ یہی ہوا۔ آپ نے اسے بخوشی اعزاز و اکرام کے ساتھ آزاد فرما دیا۔ وہ فوراً ہی ایک کنویں پر گیا اور غسل کرکے آیا اور دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا۔ پس ترجمۃ الباب ثابت ہوا کہ بعض حالات میں کسی انسان کا کچھ وقت کے لیے مقید کرنا ضروری ہو جاتا ہے اور ایسی حالت میں یہ گناہ نہیں ہے بلکہ نتیجہ کے لحاظ سے مفید ثابت ہوتا ہے۔ عہد نبوی انسانی تمدن کا ابتدائی دور تھا، کوئی جیل خانہ الگ نہ تھا۔ لہٰذا مسجد ہی سے یہ کام بھی لیا گیا۔ اور اس لیے بھی کہ ثمامہ کو مسلمانوں کو دیکھنے کا بہت ہی قریب سے موقع دیا جائے اور وہ اسلام کی خوبیوں اور مسلمانوں کے اوصاف حسنہ کو بغور معائنہ کرسکے۔ خصوصاً اخلاق محمدی نے اسے بہت ہی زیادہ متاثر کیا۔ سچ ہے: آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری ترجمۃ الباب الفاظ فربطوہ بساریة من سواري المسجد سے نکلتا ہے۔ قاضی شریح جب کسی پر کچھ حکم کرتے اور اس کے بھاگ جانے کا ڈر ہوتا تو مسجد میں اس کو حراست میں رکھنے کا حکم دیتے۔ جب مجلس برخاست کرتے، اگر وہ اپنے ذمے کا حق ادا کردیتا تو اس کو چھوڑ دیتے ورنہ قید خانے میں بھجوا دیتے۔ دوسری روایت میں یوں ہے کہ آپ ہر صبح کو ثمامہ کے پاس تشریف لے جاتے اور اس کا مزاج اور حالات دریافت فرماتے۔ وہ کہتا کہ اگر آپ مجھ کو قتل کرادیں گے تو میرا بدلہ لینے والے لوگ بہت ہیں۔ اور اگر آپ مجھ کو چھور دیں گے تو میں آپ کا بہت بہت احسان مند رہوں گا۔ اور اگر آپ میری آزادی کے عوض روپیہ چاہتے ہیں تو جس قدر آپ فرمائیں گے آپ کو روپیہ دوں گا۔ کئی روز تک معاملہ ایسے ہی چلتا رہا۔ آخر ایک روز رحمۃ للعالمین ﷺ نے ثمامہ کو بلا شرط آزاد کرا دیا۔ جب وہ چلنے لگا تو صحابہ کو خیال ہوا کہ شاید یہ فرار اختیار کر رہا ہے۔ مگر ثمامہ ایک درخت کے نیچے گیا، جہاں پانی موجود تھا۔ وہاں اس نے غسل کیا اور پاک صاف ہو کر دربار رسالت میں حاضر ہوا۔ اور کہا کہ حضور اب میں اسلام قبول کرتا ہوں۔ فوراً ہی اس نے کلمہ شہادت أشهد أن لا إله إلا اللہ و أشهد أن محمداً رسول اللہ پڑھا اور صدق دل سے مسلمان ہو گیا۔ رضي اللہ عنه أرضاہ
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2422
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2423
2423. حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے نجد کی طرف ایک فوجی دستہ روانہ کیا۔ وہ لوگ بنوحنیفہ قبیلے کا ایک آدمی پکڑ لائے جس کا نام ثمامہ بن اُثال تھا اور انھوں نے اسے مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2423]
حدیث حاشیہ: مدینہ بھی حرم ہے تو حرم میں قید کرنے کا جواز ثابت ہوا۔ یہ باب لا کر امام بخاری ؒنے رد کیا ہے جو ابن ابی شیبہ نے طاؤس سے روایت کیا کہ وہ مکہ میں کسی کو قید کرنا برا جانتے تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2423
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:469
469. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے چند سواروں کو نجد کی طرف روانہ فرمایا، وہ لوگ بنوحنیفہ کے ایک شخص ثمامہ بن اُثال کو پکڑ لائے اور مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:469]
حدیث حاشیہ: 1۔ یہ حدیث پہلے (462) گزر چکی ہے۔ امام بخاری ؒ اس سے مشرک کے مسجد میں داخل ہونے کا جواز ثابت کر رہے ہیں کہ ثمامہ بن اثال ؓ کو بحالت شرک مسجد میں ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا اور تین دن تک وہ مسجد میں محبوس رہے۔ اس سے مسجد میں مشرک کا قیام ثابت ہوا جس میں دخول کا جواز بدرجہ اولیٰ ثابت ہوا۔ بعض اہل علم نے کہا کہ یہ عنوان مکرر ہے، کیونکہ اس سے پہلے قیدی کو مسجد میں باندھنے کا مسئلہ آیا تھا جو دخول کو لازم ہے، لیکن حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ مذکورہ عنوان میں عمومیت ہے، یعنی اس میں مطلق داخل ہونے کا بیان ہے قطع نظر اس کے کہ اسے باندھا جائے یا آزاد چھوڑا جائے۔ نیز باب سابق میں قیدی کے متعلق عموم ہے کہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم۔ (فتح الباري: 724/1) بہر حال امام بخاری ؒ کا مقصد ہے کہ بوقت ضرورت کفار و مشرکین کو بھی آداب مساجد کی شرائط کے ساتھ مسجدوں میں داخلے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ واللہ أعلم۔ 2۔ ابن بطال ؒ نے لکھا ہے کہ جب مشرکین مکہ غزوہ بدر کے قیدیوں کوچھڑانے کے لیے مدینہ منورہ آئے تو انھوں نے مسجد نبوی ہی میں قیام کیا، کیونکہ ان میں جبیر بن مطعم بھی تھے جو رسول اللہ ﷺ کی دوران جماعت میں سنی ہوئی، قراءت کو بعد میں بیان کرتے تھے کہ آپ نے مغرب کی نماز سورہ الطور پڑھی تھی اور حضرت جبیر بن مطعم ؓ اس وقت مشرک تھے، لہٰذا مشرک کسی ضرورت کے پیش نظر مسجد میں داخل ہو سکتا ہے۔ (شرح ابن بطال: 118/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 469
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2422
2422. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے نجد کی طرف ایک دستہ روانہ کیا تو وہ لوگ قبیلہ بنی حنیفہ کا ایک آدمی پکڑ لائے۔ وہ اہل یمامہ کا سردار ثمامہ بن اثال تھا۔ انھوں نے اسے مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ رسول اللہ ﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے اور پوچھا: ”اے ثمامہ! اب تمہارے مزاج کا کیا حال ہے؟“ اس نے کہا: اے محمد ﷺ! میرے پاس تو اب خیر ہی خیر ہے۔ اس کے بعد پوری حدیث کا ذکر ہوا آپ ﷺ نے فرمایا: ”ثمامہ کو آزاد کردو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2422]
حدیث حاشیہ: (1) اگر کسی کی طرف سے تخریب کاری کا اندیشہ ہو تو اس کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جا سکتی ہے۔ اسے قید بھی کیا جا سکتا ہے۔ معاشرے کو پرامن رکھنے کے لیے جس شخص سے جرم ثابت ہو جائے، اسے قانون کے مطابق سزا دی جاتی ہے اور جس شخص کی طرف سے اندیشہ ہو کہ وہ امن عامہ تباہ کر سکتا ہے تو حفاظت عامہ کی خاطر اسے بھی قید کیا جا سکتا ہے۔ اسے دور حاضر کی اصطلاح میں پبلک سیفٹی کہتے ہیں جسے آج کل حکومتیں اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ (2) عہد نبوی میں کوئی الگ جیل خانہ نہ تھا، مسجد ہی سے کام لیا گیا، یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ ثمامہ کو اسلام اور اہل اسلام کو دیکھنے کا بہت قریب سے موقع دیا جائے تاکہ وہ اسلام کی خوبیوں اور اہل اسلام کے اوصاف حسنہ کا بغور مطالعہ کر سکے۔ بالآخر وہ رسول اللہ ﷺ کے خلق عظیم سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گیا۔ امام بخاری ؒ نے اس واقعے سے یہ ثابت کیا ہے کہ بعض اوقات کسی انسان کو وقتی طور پر قید کرنا ضروری ہوتا ہے اور ایسا کرنا گناہ نہیں بلکہ نتیجے اور انجام کے لحاظ سے مفید ثابت ہوتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2422
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2423
2423. حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے نجد کی طرف ایک فوجی دستہ روانہ کیا۔ وہ لوگ بنوحنیفہ قبیلے کا ایک آدمی پکڑ لائے جس کا نام ثمامہ بن اُثال تھا اور انھوں نے اسے مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2423]
حدیث حاشیہ: (1) حضرت طاؤس حرم میں کسی کو قید کرنا مکروہ خیال کرتے تھے کہ اللہ کے گھر جس میں ہر وقت اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے وہاں کسی کو سزا دی جائے یا سزا کے طور پر اسے قید کیا جائے مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ امام بخاری ؒ نے اس موقف کی تردید میں مذکورہ عنوان قائم کیا ہے اور حدیث سے ثابت کیا ہے کہ مسجد نبوی کے ستونوں سے یہ کام لیا گیا ہے۔ اس لیے حرم میں قید کرنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ (2) دراصل عباسیوں کے دور تک قید خانہ کے سسٹم نے کوئی ترقی نہیں کی تھی، قیدیوں کے کھانے پینے کا کوئی انتظام نہیں تھا، شام کے وقت انہیں چھوڑ دیا جاتا تاکہ وہ اپنے کھانے پینے کا بندوبست کر لیں۔ بڑے شریف قسم کے قیدی تھے، کھا پی کر قید خانے میں واپس آ جاتے تھے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2423