مجھ سے عبداللہ بن محمد الجعفی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعامر عبدالملک نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم نے بیان کیا، (یہ طہمان کے بیٹے ہیں۔) ان سے ابوجمرہ نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد یعنی مسجد نبوی کے بعد سب سے پہلا جمعہ جواثی کی مسجد عبدالقیس میں قائم ہوا۔ جواثی بحرین کا ایک گاؤں تھا۔
Narrated Ibn `Abbas: The first Friday (i.e. Jumua) prayer offered after the Friday Prayer offered at the Mosque of Allah's Apostle was offered at the mosque of `Abdul Qais situated at Jawathi, that is a village at Al Bahrain .
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 657
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4371
حدیث حاشیہ: حضرت امام بخاری ؒ اس حدیث کو یہاں صرف وفد عبد القیس کے تعارف کے سلسلے میںلائے ہیں اور بتلایا ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے گاؤں جواثی نامی میں جمعہ قائم کیا تھا۔ یہ دوسرا جمعہ ہے جو مسجد نبوی کے بعد دنیائے اسلام میں قائم کیا گیا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ گاؤں میں بھی قیام جماعت کے ساتھ قیام جمعہ جائز ہے۔ مگر صدافسوس کہ غالی علماءاحناف نے اقامت جمعہ فی القری کی شدید مخالفت کی ہے۔ میرے سامنے تجلی بابت اپریل سنہ1957ء کا پرچہ رکھا ہو اہے جس کے ص19 پر حضرت مولانا سیف اللہ صاحب مبلغ کا ذکر خیر لکھا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ دیہات میں جو جمعہ پڑھتے ہیں مجھ سے لکھا لو وہ دوزخی ہیں۔ یہ حضرت مولانا سیف اللہ صاحب ہی کا خیا ل نہیں بلکہ بیشتر اکابر دیوبند ایساہی کہتے چلے آرہے ہیں۔ اس مسئلہ کے متعلق ہم کتاب الجمعہ میں کافی لکھ چکے ہیں۔ مزید ضرورت نہیں ہے۔ ہاں ایک بڑے زبر دست حنفی عالم مترجم وشارح بخاری شریف کی تقریر یہاں نقل کردیتے ہیں جس سے معلوم ہوگا کہ احناف کی عائد کردہ شرائط جمعہ کا وزن کیا ہے اور گاؤں میں جمعہ جائز ہے یا نا جائز۔ انصاف کے لیے یہ تقریر دل پذیر کافی وافی ہے۔ ایک معتبر حنفی عالم کی تقریر: جواثی بحرین کے متعلقات میں سے ایک گاؤں ہے۔ نماز جمعہ مثل اور فرض نمازوں کے ہے جو شروط اور نمازوں کے واسطے مثل طہارت بدن وجامہ اور سوائے اس کے مقرر ہیں وہی اس کے واسطے ہیں، سوائے مشروعیت دو خطبہ کے اور کوئی دلیل قابل استدلال ایسی ثابت نہیں ہوئی جس سے اور نمازوں سے اس کی مخالفت پائی جائے۔ پس اس سے معلوم ہوا کہ اس نماز کے واسطے شروط ثابت کرنے کے واسطے مثل امام اعظم اور مصر جامع اور عدد مخصوص کی سند صحیح پائی نہیں جاتی بلکہ ان سے ثابت بھی نہیں ہوتا اگر دو شخص نماز جمعہ کی بھی پڑھ لیں تو ان کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گی اور اکیلے آدمی کا جمعہ پڑھنا ابوداود کی اس روایت کے خلاف ہے۔ الجُمُعَةُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُسلِمٍ فِي جَمَاعَةٍ اور نہ آنحضرت ﷺ نے سوائے جماعت کے جمعہ پڑھا ہے اور عدد مخصوص کی بابت شوکانی نے نیل الاوطار میں لکھا ہے جیسا کہ ایک شخص کے اکیلا نماز پڑھنے کے واسطے کوئی دلیل نہیں پائی ہے۔ ایسا ہی اسّی یا تیس یا بیس یا نو یا سات آدمیوں کے واسطے بھی کوئی دلیل نہیں پائی گئی اور جس نے کم آدمیوں کی شرط قرار دی ہے دلیل اس کی یہ ہے، اجماع اور حدیث سے وجوب کا عدد ثابت ہے اور عدم ثبوت دلیل کا واسطے اشتراط عدد مخصوص کے اور صحت نماز دو آدمیوں کے باقی نمازوں میں اور عدم فرق درمیان جمعہ اور جماعت کے شیخ عبد الحق نے فرمایا ہے۔ عدد جمعہ کی بابت کوئی دلیل ثابت نہیں اور ایسا ہی سیوطی نے کہا ہے اور جو روایتیں جن سے عدد مخصوص ثابت ہوتا ہے وہ سب کی سب ضعیف ہیں قابل استدلال کے ان میں سے کوئی نہیں اور شرط امام اعظم یعنی سلطان کی جو فقط حضرت امام ابو حنیفہ ؒ سے مروی ہے دلیل ان کی یہ ہے أَرْبَعَةٌ إِلَى السُّلْطَانِ وفي روایة إلی الأئمةِ الجمعةُ الزَّكَاةُ وَالْحُدُودُ وَالْقَضَاءُ أخرجه ابن أبي شیبة۔ لیکن یہ روایت آنحضرت ﷺ سے ثابت نہیں بلکہ یہ چند تابعیوں کا قول ہے ان میں سے حسن بصری ہیں اور عبد اللہ بن محریز اور عمر بن عبد العزیز اور عطاء اور مسلم بن یسار، پس اس سے حجت خصم ثابت نہیں ہوسکتی اور یہ روایت جو بزار نے جابر ؓ سے۔ طبرانی نے ابو سعید ؓ سے اور بیہقی نے ابو ہریرہ ؓ سے ان لفظوں سے أَنَّ اللَّهَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَيْكُمُ الْجُمُعَةَ فِى شهرکم ھذا وَلَهُ إِمَامٌ عَادِلٌ أَوْ جَائِرٌ، الحدیث نکالی ہے اضعف ہے بلکہ موضوع ہے اور ابن ماجہ سے جو روایت میں ولہ امام عادل او جابر کا لفظ نہیں اور یہی محل حجت کے ہے۔ بزار کی روایت میں عبد اللہ بن محمد سہمی ہے، وکیع نے کہا ہے کہ وہ وضاع ہے اور بخاری نے کہا ہے کہ وہ منکر الحدیث ہے اور ابن حبان نے کہا ہے اس سے حجت پکڑنی درست نہیں اور بیہقی کی روایت زکریا سے ہے اس کو صالح اور ابن عدی اور مغنی نے کذب اور وضع سے مہتم کیا ہے۔ (فضل الباری ترجمہ صحیح بخاری ترجمہ مولانا فضل احمد شائع کردہ شرف الدین اور فخر الدین حنفی المذہب لاہور در سنہ1886عیسوی پارہ نمبر3، ص: 301)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4371
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4371
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو وفد عبدالقیس کے تعارف کے سلسلے میں بیان کیا ہے۔ بتایا ہے کہ جب یہ قبیلہ مسلمان ہوا تو نماز پنجگانہ کے بعد جمعہ کی ادائیگی کا فکر ہوا تو انھوں نے بحرین کے علاقے میں ایک جواثی نامی گاؤں کا انتخاب کیا۔ 2۔ یہ دوسرا مقام ہے جہاں مسجد نبوی کے بعد دنیائے اسلام میں جمعہ قائم کیا گیا واضح رہے کہ 8 ہجری تک مسجد نبوی کے علاوہ کسی دوسری جگہ پر جمعہ نہیں ہوتا تھا۔ 3۔ اس سے معلوم ہوا کہ دیہاتوں میں جمعہ کا اہتمام ہونا چاہیے جیسا کہ وفد عبدالقیس کے ذمہ داران حضرات نے اس کا اہتمام ایک بستی میں کیا تھا، چنانچہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر ان لفاظ میں عنوان قائم کیا ہے: (بابُ الجُمُعَةِ فِي القُرٰى وَالمُدُنِ) ”شہروں اور بستیوں میں جمعے کا اہتمام۔ “(صحیح البخاري، الجمعة، باب: 11) 4۔ بحرین، بحرعمان کے کنارے پر واقع ایک علاقے کا نام ہے اور جواثی بصرہ کے قریب ایک قلعہ ہے۔ (عمدة القاري: 337/12) قدیم تاریخی اصطلاح میں بحرین بصر ہ اور عمان کے درمیان ساحل خلیج کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ عہد نبوی میں سعودی عرب کا مشرقی ساحل بحرین کہلاتا تھا جس میں موجودہ جزائر بحرین اور قطر بھی شامل تھے۔ اس کا دارالحکومت ہجر تھا جواب ہفوف کہلاتا ہے۔ دارین بحرین کی بندرگاہ ہے جو موجودہ شہر قطیف کے مشرق میں جزئرہ نما تاروت پر واقع ہے موجودہ امارات بحرین جو خلیج فارس کے اندر ہے، سعودی عرب اور قطرکے مابین چند جزیروں کے مجموعے کا نام ہے جس کا دارالحکومت منامہ ہے۔ عہد نبوی کا بحرین اب سعودی عرب کا مشرقی علاقہ "الاحساء" کہلاتا ہے جو منطقہ شرقیہ کا حصہ ہے۔ (ائلس سیرت نبوی صلی اللہ علیه وسلم 30۔ طبع دارالسلام) بہر حال قبیلہ عبدالقیس بحرین کے علاقے میں آباد تھا۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4371
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1068
´دیہات (گاؤں) میں جمعہ پڑھنے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہتے ہیں اسلام میں مسجد نبوی میں جمعہ قائم کئے جانے کے بعد پہلا جمعہ قریہ جواثاء میں قائم کیا گیا، جو علاقہ بحرین ۱؎ کا ایک گاؤں ہے، عثمان کہتے ہیں: وہ قبیلہ عبدالقیس کا ایک گاؤں ہے ۲؎۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1068]
1068۔ اردو حاشیہ: ظاہر ہے کہ یہ عمل صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہی سے شروع کیا تھا، وہ لوگ عبادات کے معاملے میں بہت ہی محتاط ہوا کرتے تھے اور وہ زمانہ نزول وحی کا تھا۔ اگر یہ عمل ناجائز ہوتا تو یقیناًً وحی کے ذریعے سے کوئی ہدایت نازل کر دی جاتی۔ جواثاء کی مسجد کے آثار بھی موجود ہیں، چھوٹی سی جگہ میں ہے اور صرف دو صفوں کا دالان ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1068
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:892
892. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کی مسجد کے بعد پہلا جمعہ بنو عبدالقیس کی مسجد میں شروع ہوا جو ملک بحرین کے جواثیٰ مقام میں تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:892]
حدیث حاشیہ: (1) واضح رہے کہ "جواثی" بحرین کے دیہاتوں میں سے ایک دیہات تھا جیسا کہ دیگر روایات میں ہے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4371 وسنن أبي داود، حدیث: 1068) حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت ان لوگوں کی تردید کی ہے جو نماز جمعہ کو شہروں کے ساتھ خاص کر کے دیہاتوں میں اقامت جمعہ کا انکار کرتے ہیں جن میں سرفہرست احناف ہیں۔ جن کی دلیل ابن ابی شیبہ (535/2) میں منقول سیدنا علی ؓ کا موقوف اثر ہے۔ اس کے برعکس حضرت عمر ؓ کے متعلق ابن ابی شیبہ (537/2) میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ انہوں نے اہل بحرین کو لکھا تھا کہ تم جہاں کہیں بھی ہو اقامت جمعہ کا اہتمام کرو۔ یہ عموم شہروں اور دیہاتوں دونوں کو شامل ہے۔ اس کے علاوہ حضرت لیث بن سعد ؓ سے بھی مروی ہے کہ وہ ہر شہر اور دیہات جہاں اہل اسلام کے چند افراد ہوں اقامت جمعہ کے قائل تھے، چنانچہ اہل مصر اور اس کے آس پاس رہنے والے حضرت عمر اور حضرت عثمان ؓ کے حکم سے جمعہ ادا کرتے تھے اور وہاں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی ہوا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ مکہ اور مدینہ کے درمیان بسنے والے لوگوں کو جمعہ پڑھتے دیکھتے تو کوئی اعتراض نہ کرتے تھے۔ (فتح الباري: 489/2)(2) بعض مؤرخین نے "جواثی" کے متعلق لکھا ہے کہ یہ آبادی ایک شہر پر مشتمل تھی جبکہ امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح کے ایک دوسرے مقام پر اس کے دیہات ہونے کی صراحت کی ہے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4371) یہ بھی ممکن ہے کہ جب اس مقام پر جمعہ پڑھنے کا اہتمام ہوا تو یہ ایک گاؤں تھا پھر آبادی کے بڑھنے سے ایک شہر کی صورت اختیار کر گیا۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کی صراحت کی ہے۔ (فتح الباري: 489/2) واضح رہے کہ قبیلۂ عبدالقیس نے وہاں رسول اللہ ﷺ کے حکم ہی سے اقامت جمعہ کا اہتمام کیا تھا کیونکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اپنی طرف سے نزول وحی کے زمانے میں کسی شرعی کام کا اہتمام نہیں کرتے تھے۔ اگر یہ اقدام ناجائز ہوتا تو بذریعۂ وحی ضرور انہیں متنبہ کر دیا جاتا۔ اس کے علاوہ حضرت اسعد بن زرارہ ؓ نے (لفظ کی سمجھ نہیں آ رہی) کے علاقے میں بنو بیاضہ کی بستی (لفظ کی سمجھ نہیں آ رہی) میں جمعہ قائم کیا تھا۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 1069) یہ بستی مدینہ منورہ سے ایک میل کے فاصلے پر تھی۔ دیہاتوں میں جمعہ پڑھنے کی سب سے بڑی دلیل ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ﴾(الجمعة: 9: 62) ”اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف چلے آؤ اور خریدوفروخت کو ترک کر دو۔ “ یہ آیت کریمہ تمام اہل ایمان کے لیے عام ہے، خواہ وہ شہری ہوں یا دیہاتی۔ الغرض اسلام نے جمعہ کی ادائیگی کے لیے کسی خاص جگہ کی پابندی نہیں لگائی۔ اس کے متعلق جو شرائط بیان کی جاتی ہے وہ سب خود ساختہ ہیں۔ اقامت جمعہ کے متعلق شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ رحمانی ؒ نے بڑا جامع تبصرہ کیا ہے، فرماتے ہیں، اہل علم نے اقامت جمعہ کے محل کے متعلق اختلاف کیا ہے۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے متبعین کا خیال ہے کہ جمعہ صرف مصر جامع ہی میں صحیح ہے، جبکہ امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ شہروں اور دیہاتوں غرضیکہ ہر جگہ جائز اور صحیح ہے۔ امام ابو حنیفہ نے اس حدیث کو بطور دلیل پیش کیا ہے کہ جمعہ اور عید صرف مصر جامع میں صحیح ہے لیکن امام احمد بن حنبل ؒ نے اس روایت کے مرفوع ہونے کو ضعیف قرار دیا ہے۔ امام ابن حزم نے اس کا موقوف ہونا صحیح تسلیم کیا ہے، یعنی یہ حضرت علی ؓ کا قول ہے۔ چونکہ یہ موقوف ہے اور اس میں اجتہاد کی کافی گنجائش ہے، اس لیے اس روایت کو بطور دلیل پیش نہیں کیا جا سکتا، نیز اس روایت سے سورۂ جمعہ کی آیت جو مطلق ہے اس کا مقید ہونا لازم آتا ہے جو اصول کے اعتبار سے صحیح نہیں۔ (مرعاة المفاتیح: 288/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 892