Narrated Al-Bara: We faced the pagans on that day (of the battle of Uhud) and the Prophet placed a batch of archers (at a special place) and appointed `Abdullah (bin Jubair) as their commander and said, "Do not leave this place; and if you should see us conquering the enemy, do not leave this place, and if you should see them conquering us, do not (come to) help us," So, when we faced the enemy, they took to their heel till I saw their women running towards the mountain, lifting up their clothes from their legs, revealing their leg-bangles. The Muslims started saying, "The booty, the booty!" `Abdullah bin Jubair said, "The Prophet had taken a firm promise from me not to leave this place." But his companions refused (to stay). So when they refused (to stay there), (Allah) confused them so that they could not know where to go, and they suffered seventy casualties. Abu Sufyan ascended a high place and said, "Is Muhammad present amongst the people?" The Prophet said, "Do not answer him." Abu Sufyan said, "Is the son of Abu Quhafa present among the people?" The Prophet said, "Do not answer him." `Abd Sufyan said, "Is the son of Al-Khattab amongst the people?" He then added, "All these people have been killed, for, were they alive, they would have replied." On that, `Umar could not help saying, "You are a liar, O enemy of Allah! Allah has kept what will make you unhappy." Abu Safyan said, "Superior may be Hubal!" On that the Prophet said (to his companions), "Reply to him." They asked, "What may we say?" He said, "Say: Allah is More Elevated and More Majestic!" Abu Sufyan said, "We have (the idol) Al-`Uzza, whereas you have no `Uzza!" The Prophet said (to his companions), "Reply to him." They said, "What may we say?" The Prophet said, "Say: Allah is our Helper and you have no helper." Abu Sufyan said, "(This) day compensates for our loss at Badr and (in) the battle (the victory) is always undecided and shared in turns by the belligerents. You will see some of your dead men mutilated, but neither did I urge this action, nor am I sorry for it."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 375
● صحيح البخاري | 4561 | براء بن عازب | جعل النبي على الرجالة يوم أحد عبد الله بن جبير وأقبلوا منهزمين فذاك إذ يدعوهم الرسول في أخراهم ولم يبق مع النبي غير اثني عشر رجلا |
● صحيح البخاري | 4043 | براء بن عازب | اعل هبل فقال النبي أجيبوه قالوا ما نقول قال قولوا الله أعلى وأجل قال أبو سفيان لنا العزى ولا عزى لكم فقال النبي أجيبوه قالوا ما نقول قال قولوا الله مولانا ولا مولى لكم قال أبو سفيان يوم بيوم بدر والحرب سجال |
● صحيح البخاري | 4067 | براء بن عازب | جعل النبي على الرجالة يوم أحد عبد الله بن جبير وأقبلوا منهزمين فذاك إذ يدعوهم الرسول في أخراهم |
● صحيح البخاري | 3039 | براء بن عازب | إن رأيتمونا تخطفنا الطير فلا تبرحوا مكانكم هذا حتى أرسل إليكم وإن رأيتمونا هزمنا القوم وأوطأناهم فلا تبرحوا حتى أرسل إليكم فهزموهم قال فأنا والله رأيت النساء يشتددن قد بدت خلاخلهن وأسوقهن رافعات ثيابهن فقال أصحاب عبد الله بن جبير الغنيمة أي قوم الغنيمة ظه |
● صحيح البخاري | 3986 | براء بن عازب | جعل النبي على الرماة يوم أحد عبد الله بن جبير فأصابوا منا سبعين وكان النبي وأصحابه أصابوا من المشركين يوم بدر أربعين ومائة سبعين أسيرا وسبعين قتيلا قال أبو سفيان يوم بيوم بدر والحرب سجال |
● سنن أبي داود | 2662 | براء بن عازب | إن رأيتمونا تخطفنا الطير فلا تبرحوا من مكانكم هذا حتى أرسل إليكم وإن رأيتمونا هزمنا القوم وأوطأناهم فلا تبرحوا حتى أرسل إليكم قال فهزمهم الله قال فأنا والله رأيت النساء يشتددن على الجبل فقال أصحاب عبد الله بن جبير الغنيمة أي قوم الغنيمة ظهر أصحابكم فما تن |
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4043
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺ نے ابو سفیان کی باتوں کا جواب دینے سے منع فرمایا تاکہ اس کے دل کا راز معلوم ہو جائے کہ وہ کس مقصد کے لیے پوچھ رہا ہے، نیز خاموشی اختیار کرنے میں دشمن کو بظاہر خوشی ہوگی لیکن جب آپ ﷺ کا اور حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کا زندہ ہونا معلوم ہوگا تو زیادہ رنج میں مبتلا ہوں گے۔
یہ بھی ایک قسم کا جہاد ہے۔
2۔
حضرت عمر ؓ نے قرینے سے معلوم کر لیا تھا رسول اللہ ﷺ کا مقصد یہ ہے کہ ابو سفیان جب تک بولتا رہے اس کا جواب نہ دیا جائے لیکن اس کے خاموش ہو جانے کے بعد ممانعت نہیں اس لیے حضرت عمر ؓ کا جواب دینا نافرمانی اور حکم عددلی نہیں۔
اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہ ﷺ جواب دینے پر عتاب فرماتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
3۔
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ کفر کی آنکھ میں رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ تینوں بزرگ کاٹنے کی طرح کھٹکتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ ابو سفیان نے صرف ان تینوں حضرات کے متعلق سوال کیا۔
4۔
آج بھی کچھ لوگ حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ سے پرخاش رکھتے ہیں اور ان پر سب وشتم روا سمجھتے ہیں۔
جبکہ اسلام میں ان دونوں بزرگوں کا مقام بہت اونچا ہے اور اس مقام اور اہمیت کو روز اول کے کفر نے بھی محسوس کیا تھا۔
حافظ ابن حجر ؒ نے بھی ان حضرات کی قدر و منزلت کو خوب اجاگر کیا ہے۔
(فتح الباری: 440/7)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4043
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2662
´کمین (گھات) میں بیٹھنے والوں کا بیان۔`
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احد میں عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو تیر اندازوں کا امیر بنایا ان کی تعداد پچاس تھی اور فرمایا: ”اگر تم دیکھو کہ ہم کو پرندے اچک رہے ہیں پھر بھی اپنی اس جگہ سے نہ ہٹنا یہاں تک کہ میں تمہیں بلاؤں اور اگر تم دیکھو کہ ہم نے کافروں کو شکست دے دی ہے، انہیں روند ڈالا ہے، پھر بھی اس جگہ سے نہ ہٹنا، یہاں تک کہ میں تمہیں بلاؤں“، پھر اللہ تعالیٰ نے کافروں کو شکست دی اور اللہ کی قسم میں نے مشرکین کی عورتوں کو دیکھا کہ بھاگ کر پہاڑوں پر چڑھنے لگیں، عبداللہ بن جبیر کے ساتھی کہنے لگے: لوگ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2662]
فوائد ومسائل:
1۔
دشمن پر حملہ کرنے یا اپنے دفاع کےلئے مجاہدین کوکمین گاہ میں چھپنا یا چھپانا جائز اور نظم جہاد کا ایک اہم حصہ ہوتاہے۔
2۔
رسول اللہ ﷺ کے حکم کی پرواہ نہ کرنے اور مال کی حرص کا نتیجہ شکست کی صورت میں سامنے آیا۔
جو اگرچہ عارضی تھی۔
اس لئے واجب ہے کہ انسان فرامین رسول ﷺ کو ہرحال میں اولیت اور اولیت دے تاکہ دنیا اور آخرت کی ہزیمت سے محفوظ رہے۔
3۔
شرعی امیر کی اطاعت بھی واجب ہے۔
اور سپہ سالار کی منصوبہ بندی کے احکام بلا چون وچرا ماننے چاہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2662
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3986
3986. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے اُحد کے دن تیراندازوں پر حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ کو امیر مقرر کیا تو مشرکین نے اس جنگ میں ہمارے ستر ساتھیوں کو شہید کر دیا جبکہ نبی ﷺ اور آپ کے اصحاب نے بدر کے دن ایک سو چالیس مشرکین کو نقصان پہنچایا تھا۔ ان میں سے ستر قیدی تھے اور ستر قتل ہوئے تھے۔ ابوسفیان نے کہا: آج کا دن بدر کے دن کا بدلہ ہے اور لڑائی تو ڈول کی طرح ہوتی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3986]
حدیث حاشیہ:
جنگ احد میں آنحضرت ا نے عبدا للہ بن جبیر ؓ کو پچاس تیر اندازوں کے ساتھ احد پہاڑ کے ایک نا کے پر اس شرط کے ساتھ مقرر فرمایا کہ ہم ہا ریں یا جیتیں ہمارے حکم کے بغیر یہ نا کہ ہر گز نہ چھوڑنا شروع میں جب مسلمانوں کی فتح ہونے لگی تو عبد اللہ بن جبیر ؓ کے ساتھیوں نے وہ ناکہ چھوڑ دیا جس کا نتیجہ جنگ احد کی شکست کی صورت میں سامنے آیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3986
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4067
4067. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ غزوہ اُحد کے دن نبی ﷺ نے پیدل تیرانداز دستے پر حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ کو سالار مقرر فرمایا لیکن وہ شکست خوردہ ہو کر مدینہ کی طرف جا رہے تھے۔ یہ ہزیمت اس وقت پیش آئی جبکہ رسول اللہ ﷺ انہیں پیچھے سے پکار رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4067]
حدیث حاشیہ:
بعض مواقع قوموں کی تاریخ میں ایسے آجاتے ہیں کہ چند افراد کی غلطی سے پوری قوم تباہ ہوجاتی ہے اور بعض دفعہ چند افراد کی مساعی سے پوری قوم کامیاب ہو جا تی ہے۔
جنگ احد میں بھی ایسا ہی ہوا کہ چندافراد کی غلطی کا خمیازہ سارے مسلمانوں کو بھگتنا پڑا۔
اہل اسلام کی آزمائش کے لیے ایسا ہونا بھی ضروری تھا تاکہ آئندہ وہ ہوشیار رہیں اور دوبارہ ایسی غلطی نہ کریں۔
جبل احد کا متعینہ درہ چھوڑدینا ان کی سخت غلطی تھی حالانکہ آنحضرت ﷺ نے سخت تاکید فرمائی تھی کہ وہ ہمارے حکم کے بغیر کسی حال میں یہ درہ نہ چھوڑیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4067
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3039
3039. حضرت براء بن عازب ؓسے روایت ہے، انھوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے غزوہ احد میں حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ کو پچاس تیر اندازوں پر امیر مقرر کیا اور (ان سے) فرمایا: ”اگر تم دیکھو کہ پرندے ہمیں نوچ رہے ہیں، تب بھی اپنی جگہ سے مت ہٹنا یہاں تک کہ میں تمھیں پیغام بھیجوں۔ اور اگر تم دیکھو کہ ہم نے کفار کو شکست دے دی ہے اور انھیں اپنے پاؤں تلے روند ڈالا ہے، تب بھی اپنی جگہ پر قائم رہنا حتیٰ کہ میں تمھیں پیغام بھیجوں۔“ چنانچہ مسلمانوں نے کفار کو شکست سے دوچار کردیا۔ حضرت براء بن عازب ؓ کابیان ہے کہ اللہ کی قسم! میں نے مشرکین کی عورتوں کو دوڑتے ہوئے دیکھا جن کی پنڈلیاں اور پازیب کھل گئے تھے جو اپنے کپڑے اٹھائے ہوئے بھاگ رہیں تھیں۔ یہ دیکھ کر حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ کے ساتھیوں نے کہا: قوم کے لوگو! غنیمت جمع کرو، غنیمت اکھٹی کرو، تمہارے ساتھی غالب آچکے ہیں، اب کس کا انتظار کرتے ہو؟ حضرت عبداللہ بن جبیر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3039]
حدیث حاشیہ:
جنگ احد اسلامی تاریخ کا ایک بڑا حادثہ ہے جس میں مسلمانوں کو جانی اور مالی کافی نقصان برداشت کرنا پڑا۔
رسول کریمﷺ نے حضرت عبداللہ بن جبیرؓ کے ساتھیوں کو سخت تاکید کی تھی کہ ہم بھاگ جائیں یا مارے جائیں اور پرندے ہمارا گوشت اچک اچک کر کھا رہے ہوں‘ تم لوگ یہ درہ ہمارا حکم آئے بغیر ہرگز نہ چھوڑنا‘ یہ درہ بہت ہی نازک مقام تھا۔
وہاں سے مسلمانوں پر عقب سے حملہ ہوسکتا تھا‘ اگر حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ کے ساتھیوں نے جب میدان مسلمانوں کے ہاتھ دیکھا تو وہ اموال غنیمت لوٹنے کے خیال سے درہ چھوڑ کر بھاگ نکلے‘ اور فرمان رسول اللہﷺ اپنی رائے قیاس کے آگے انہوں نے بالکل فراموش کردیا‘ نتیجہ یہ کہ کافروں کے اس اچانک حملہ سے مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے‘ اور بیشتر مسلمان مجاہدین نے راہ فرار اختیار کی‘ رسول کریمﷺ کے ساتھ صرف ابوبکر صدیق‘ عمر فاروق‘ علی مرتضیٰ ‘ عبدالرحمن بن عوف‘ سعد بن ابی وقاص‘ طلحہ بن عبید اللہ‘ زبیر بن عوام‘ ابوعبیدہ بن جراح‘ خباب بن منذر‘ سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر ؓ باقی تھے۔
ستر اکابر صحابہ شہید ہوگئے۔
جن میں حضرت امیر حمزہؓ کو سید الشہداء کہا جاتا ہے۔
حضرت ابوسفیانؓ جو اس وقت کفار قریش کے لشکر کی کمان کر رہے تھے‘ جنگ کے خاتمہ پر انہوں نے فخریہ مسلمانوں کو للکارا اور یہ بھی کہا کہ مسلمانو! تمہارے کچھ شہداء مثلہ کئے ملیں گے‘ یعنی ان کے ناک کان کاٹ کر ان کی صورتوں کو مسخ کردیا گیا ہے۔
میں نے ایسا حکم نہیں دیا‘ مگر میں اسے برا بھی نہیں سمجھتا۔
مشرکوں نے سب سے زیادہ گستاخی حضرت امیر حمزہ ؓ کے ساتھ کی تھی۔
وحشی نامی ایک غلام نے ان پر چھپ کر وار کیا‘ وہ گر گئے۔
ابوسفیان کی بیوی ہندہ نے اپنے باپ اور بھائی کا مارا جانا یاد کرکے ان کی نعش کا مثلہ کردیا اور ان کا کلیجہ نکال کر چبایا اور ان کی نعش پر کھڑی ہوئی اور فخریہ شعر پڑھے۔
ہبل ایک بت کا نام تھا جو کعبہ کے بتوں میں بڑا مانا جاتا تھا۔
گویا ابوسفیان نے فتح جنگ پر ہبل کی جے کا نعرہ بلند کیا کہ آج تیرا غلبہ ہوا اور اللہ والے مغلوب ہوئے۔
اس کے جواب میں آنحضرتﷺ نے حقیقت افروز نعرہ أعلی و أجل کے لفظوں میں بلند فرمایا‘ جو اس لئے بلند اور برتر ثابت ہوا کہ بعد میں ہبل اور تمام بتوں کا کعبہ سے خاتمہ ہوگیا اور اللہ عزوجل کا نام وہاں ہمیشہ کے لئے بلند ہو رہا ہے۔
اس حدیث سے حضرت امام بخاریؒ نے باب کا مطلب یوں ثابت کیا کہ عبداللہ بن جبیر ؓ کے ساتھ والوں نے اپنے سردار سے اختلاف کیا اور ان کا کہا نہ مانا‘ مورچہ سے ہٹ گئے‘ اس لئے سزا پائی‘ شکست اٹھائی۔
یہیں سے نص صریح کے سامنے رائے قیاس کرنے کی انتہائی مذمت ثابت ہوئی مگر صد افسوس کہ امت کے ایک کثیر طبقہ کو اس رائے و قیاس نے تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے‘ نیز افتراق امت کا اہم سبب تقلید جامد ہے جس نے مسلمانوں کو مختلف فرقوں میں تقسیم کردیا۔
دین حق را چار مذہب ساختند رخنہ در دین نبی انداختند
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3039
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4561
4561. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے غزوہ اُحد میں حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ کو (تیر اندازوں کے) پیدل دستے پر امیر مقرر فرمایا۔ اس دن بہت سے مسلمان شکست خوردہ ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ یہ آیت کریمہ اسی کے متعلق نازل ہوئی: جبکہ رسول تمہیں تمہارے پیچھے سے بلا رہا تھا۔۔ اس وقت نبی ﷺ کے ہمراہ صرف بارہ صحابہ کرام ؓ باقی رہ گئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4561]
حدیث حاشیہ:
یہ جنگ احد کا واقعہ ہے۔
ان تیر اندازوں کی نافرمانی کی پاداش میں سارے مسلمانوں کو نقصان عظیم اٹھانا پڑا کہ ستر صحابہ ؓ شہید ہوئے۔
ان تیر اندازوں نے نص کے مقابلہ پر رائے قیاس سے کام لیا تھا، اس لیے قرآن و حدیث کے ہوتے ہوئے رائے قیاس پر چلنا اللہ و رسولﷺ کے ساتھ غداری کرنا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4561
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3039
3039. حضرت براء بن عازب ؓسے روایت ہے، انھوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے غزوہ احد میں حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ کو پچاس تیر اندازوں پر امیر مقرر کیا اور (ان سے) فرمایا: ”اگر تم دیکھو کہ پرندے ہمیں نوچ رہے ہیں، تب بھی اپنی جگہ سے مت ہٹنا یہاں تک کہ میں تمھیں پیغام بھیجوں۔ اور اگر تم دیکھو کہ ہم نے کفار کو شکست دے دی ہے اور انھیں اپنے پاؤں تلے روند ڈالا ہے، تب بھی اپنی جگہ پر قائم رہنا حتیٰ کہ میں تمھیں پیغام بھیجوں۔“ چنانچہ مسلمانوں نے کفار کو شکست سے دوچار کردیا۔ حضرت براء بن عازب ؓ کابیان ہے کہ اللہ کی قسم! میں نے مشرکین کی عورتوں کو دوڑتے ہوئے دیکھا جن کی پنڈلیاں اور پازیب کھل گئے تھے جو اپنے کپڑے اٹھائے ہوئے بھاگ رہیں تھیں۔ یہ دیکھ کر حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ کے ساتھیوں نے کہا: قوم کے لوگو! غنیمت جمع کرو، غنیمت اکھٹی کرو، تمہارے ساتھی غالب آچکے ہیں، اب کس کا انتظار کرتے ہو؟ حضرت عبداللہ بن جبیر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3039]
حدیث حاشیہ:
1۔
ھبل ایک بت کا نام ہے جوکعبے کے بتوں میں بڑا مانا جاتاتھا، گویا ابوسفیان نے بزعم خویش فتح پرہبل کی جے کا نعرہ بلند کیا کہ آج تیرا غلبہ ہے اور اللہ والے مغلوب ہوگئے ہیں۔
اس کے جواب میں رسول اللہ ﷺنے حقیقت افروز نعرہ بلند کیا کہ (الله أعلى وأجل)
جو اس ليے بلند وبرتر ثابت ہواکہ بعد میں ہبل اور دیگر تمام بتوں کاکعبے سے خاتمہ ہوگیا اور اللہ تعالیٰ کا نام وہاں ہمیشہ سے بلند ہورہا ہے۔
2۔
امام بخاری ؒنے اپنا مدعا یوں ثابت کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن جبیر ؓسے ان کے ساتھیوں نے اختلاف کیا اور مورچے سے ہٹ گئے،نتیجے کے طور پر سزاپائی اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جسے قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیاہے:
﴿وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللَّـهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُم بِإِذْنِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَعَصَيْتُم مِّن بَعْدِ مَا أَرَاكُم مَّا تُحِبُّونَ ۚ مِنكُم مَّن يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنكُم مَّن يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۚ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ ۖ وَلَقَدْ عَفَا عَنكُمْ ۗ وَاللَّـهُ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ ﴿١٥٢﴾ إِذْ تُصْعِدُونَ وَلَا تَلْوُونَ عَلَىٰ أَحَدٍ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ فَأَثَابَكُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِّكَيْلَا تَحْزَنُوا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَا أَصَابَكُمْ ۗ وَاللَّـهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ﴾ ”اللہ تعالیٰ نے تم سے اپنا وعده سچا کر دکھایا جبکہ تم اس کے حکم سے انہیں کاٹ رہے تھے۔
یہاں تک کہ جب تم نے پست ہمتی اختیار کی اور کام میں جھگڑنے لگے اور نافرمانی کی، اس کے بعد کہ اس نے تمہاری چاہت کی چیز تمہیں دکھا دی، تم میں سے بعض دنیا چاہتے تھے اور بعض کا اراده آخرت کا تھا تو پھر اس نے تمہیں ان سے پھیر دیا تاکہ تم کو آزمائے اور یقیناً اس نے تمہاری لغزش سے درگزر فرما دیا اور ایمان والوں پر اللہ تعالیٰ بڑے فضل والاہے۔
(152)
جب کہ تم چڑھے چلے جا رہے تھے اور کسی طرف توجہ تک نہیں کرتے تھے اور اللہ کے رسول تمہیں تمہارے پیچھے سے آوازیں دے رہے تھے، بس تمہیں غم پر غم پہنچا تاکہ تم فوت شده چیز پر غمگین نہ ہو اور نہ پہنچنے والی (تکلیف)
پر اداس ہو، اللہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال سے خبردار ہے۔
“ (آل عمران: 152، 153)
3۔
اللہ تعالیٰ نے اس حادثے میں مسلمانوں کو کئی ایک پریشانیوں سے دوچار کیا:
ایک منافقین کے واپس لوٹ جانے کی،دوسری شکست کی،تیسری اپنے شہداء کی،چوتھی اپنے زخمیوں کی،پانچویں رسول اللہ ﷺ کی شہادت کے متعلق جو افواہ پھیلی اورچھٹی اس جنگ کے انجام کی۔
بہرحال نتیجہ یہ ہے کہ اختلاف کرنے سے جنگی طاقت تباہ ہونے کے بعد واقعی دشمن غالب آجاتا ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3039
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3986
3986. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے اُحد کے دن تیراندازوں پر حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ کو امیر مقرر کیا تو مشرکین نے اس جنگ میں ہمارے ستر ساتھیوں کو شہید کر دیا جبکہ نبی ﷺ اور آپ کے اصحاب نے بدر کے دن ایک سو چالیس مشرکین کو نقصان پہنچایا تھا۔ ان میں سے ستر قیدی تھے اور ستر قتل ہوئے تھے۔ ابوسفیان نے کہا: آج کا دن بدر کے دن کا بدلہ ہے اور لڑائی تو ڈول کی طرح ہوتی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3986]
حدیث حاشیہ:
غزوہ احد میں پیش آنے والا ایک واقعہ انتہائی اختصار کے ساتھ اس حدیث میں بیان ہوا ہے۔
دراصل فوج کے کمانڈر کا دوران جنگ میں اہل کام اپنی فوج کی ترتیب اور ان کی مورچہ بندی ہوتا ہے رسول اللہ ﷺ نے جبل اُحد کو اپنی پشت پر رکھا تاکہ یہ طرف محفوظ ہو جائے البتہ اس کا ایک درہ غیر محفوظ تھا وہاں آپ نے حضرت عبد اللہ بن جبیر ؓ کی سر براہی میں پچاس تیرانداز مقرر کیے تاکہ دشمن اس طرف سے مسلمانوں پر حملہ آورنہ ہو، اور انھیں تاکید کردی کہ ہمیں فتح ہو یا شکست تم نے اس مقام کو نہیں چھوڑنا۔
جب مسلمانوں نے کفار پر حملہ کیا تو وہ اس کی تاب نہ لا کر بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔
مسلمانوں نے جب اس صورت حال کو دیکھا تو کفارکا مال واسباب جمع کرنا شروع کردیا فوج کا جو دستہ پہاڑی پر تعنیات تھا وہ بھی اتر کر اچانک غنیمت جمع کرنے میں مصروف ہوگیا۔
خالد بن ولید نے جب دیکھا کہ درہ بالکل خالی ہے تو پیچھے سے مسلمانوں پر حملہ کردیا۔
اچانک حملہ دیکھ کر مسلمانوں کے اوسان خطا ہوگئے تو کچھ مسلمان مدینے کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے۔
ایک گروہ رسول اللہ ﷺ کی طرف پلٹ آیا جبکہ تیسرا گروه میدان چھوڑ کر کنارے پر بیٹھ گیا۔
اس دوران میں مسلمانوں کے ستر آدمی شہید ہو گئے خود رسول اللہ ﷺ کو زخم آئے شہدائے احد کی تعداد ستر ہے۔
اس کا قرینہ درج ذیل آیت کریمہ میں ہےارشاد باری تعالیٰ ہے:
”اور جب تم پر مصیبت آئی تو اس سے دو گنا صدمہ تم کفار کو پہلے پہنچاچکے تھے۔
“ (آل عمران: 165/3)
اس آیت میں خطاب اہل اُحد سے ہے کہ تم نے اس نقصان سے پہلے دو گنا نقصان غزوہ بدر میں کفار کو پہنچایا تھا اور اس پر اتفاق ہے کہ غزوہ بدر میں ستر کفار کو قتل کیا اور ستر ہی قیدی بنائے گئے تھے کفار کا یہ نقصان احد کے وقت مسلمانوں کے نقصان سے دوگنا ہے۔
اس سے واضح ہوا کہ غزوہ احد میں ستر مسلمان شہید ہوئے تھے اور جن مؤرخین نے ان کی تعداد ستر سے کم و بیش بتائی ہے وہ حقیقت پر مبنی نہیں۔
(فتح الباري: 384/7)
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3986
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4067
4067. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ غزوہ اُحد کے دن نبی ﷺ نے پیدل تیرانداز دستے پر حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ کو سالار مقرر فرمایا لیکن وہ شکست خوردہ ہو کر مدینہ کی طرف جا رہے تھے۔ یہ ہزیمت اس وقت پیش آئی جبکہ رسول اللہ ﷺ انہیں پیچھے سے پکار رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4067]
حدیث حاشیہ: 1۔
اقوام کی تاریخ میں بعض مواقع ایسے بھی ہیں کہ چند افراد کی غلطی کی سزا پوری قوم کو بھگتنی پڑتی ہے۔
اور بعض دفعہ چند افراد کی کوشش سے پوری قوم کامیابی سے ہمکنار ہو جاتی ہے غزوہ احد میں بھی ایسا ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے درے پر تعینات صحابہ کرام ؓ کو سخت تاکید فرمائی تھی کہ ہمارے حکم کے بغیر کسی حالت میں اس درے کو نہ چھوڑنا لیکن ان کی غلطی سے تمام قوم کو آزمائش سے دو چار ہونا پڑا۔
اہل اسلام کی آزمائش کے لیے ایسا ضروری تھا تاکہ وہ آئندہ ہو شیار رہیں اور اس قسم کی غلطی دوبارہ نہ کریں۔
2۔
واضح رہے کہ مسلمانوں نے رسول اللہ ﷺ کی نا فرمانی کر کے انھیں رنج پہنچا یا تو اس کے بدلے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو شکست سے دو چار کر کے انھیں رنج پہنچایا۔
اس کے علاوہ مسلمانوں کو کئی قسم کے رنج پہنچائے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
منافقین کے واپس لوٹ جانے کا۔
ہزیمت سے دوچار ہونے کا۔
قرابت داروں کے شہید ہونے کا۔
رسول اللہ ﷺ کی شہادت کی خبرکا۔
زخموں سے چور ہونے کا۔
اس جنگ کے انجام کا۔
3۔
اس میں یہ سبق بھی تھا کہ مومن نہ تو مصیبت کے وقت ڈگمگاتا اور آس توڑ بیٹھتا ہے اور نہ خوشی کے وقت حد سے زیادہ اترانے لگتا ہے بلکہ وہ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنے والا اور معتدل مزاج رکھنے والا ہوتا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ میدان احد میں صرف رہ گئے تھے۔
(آل عمران: 154/3) هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4067
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4561
4561. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے غزوہ اُحد میں حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ کو (تیر اندازوں کے) پیدل دستے پر امیر مقرر فرمایا۔ اس دن بہت سے مسلمان شکست خوردہ ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ یہ آیت کریمہ اسی کے متعلق نازل ہوئی: جبکہ رسول تمہیں تمہارے پیچھے سے بلا رہا تھا۔۔ اس وقت نبی ﷺ کے ہمراہ صرف بارہ صحابہ کرام ؓ باقی رہ گئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4561]
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں تفصیل ہے کہ رسول ﷺ نے پچاس افراد کے پیدل دستے کا افسر حضرت عبداللہ بن جبیرؓ کو مقرر کیا اور تاکید کی کہ تم نے اپنی جگہ سے نہیں ہٹنا، خواہ تم دیکھو کہ پرندے ہمیں اچک کرلے جارہے ہیں جب تک میں تمہاری طرف کوئی دوسرا پیغام نہ بھیجوں اور اگرتم دیکھو کہ ہم نے دشمن کو شکست دے کر اسے کچل دیا ہے تب بھی یہاں سے مت ہٹنا، جب تک میں تمھیں بلا نہ بھیجوں۔
ابتدا میں مسلمانوں نے کفار کو ماربھگایا۔
میں نے خود مشرک عورتوں کو دیکھا کہ وہ اپنے کپڑے اٹھائے اور پنڈلیاں کھولے بھاگی جارہی تھیں۔
یہ صورت حال دیکھ کر حضرت عبداللہ بن جبیرؓ کے دستے نے کہا:
اب غنیمت کا مال اکٹھا کرو تمہارے ساتھی تو غالب آچکے ہیں، اب تم کیا دیکھ رہے ہو؟ حضرت عبداللہ بن جبیرؓ نے کہا:
کیا تم وہ بات بھول گئے جو تمھیں رسول اللہ ﷺ نے کہی تھی؟ وہ کہنے لگے:
واللہ! ہم تو لوگوں کے پاس جا کر غنیمت کا مال لوٹیں گے۔
جب وہ درہ چھوڑ کر لوگوں کے پاس آگئے تو کافروں نے مسلمانوں پر حملہ کرکے ان کے منہ پھیر دیے اور وہ شکست کھا کربھاگنے لگے۔
ادھراللہ کے رسولﷺ انھیں بلارہے تھے، اس وقت آپ کے ساتھ صرف بارہ آدمی ر ہ گئے تھے۔
کافروں نے مسلمانوں کے ستر آدمی شہید کیے جبکہ بدر کے دن مسلمانوں نے ایک سوچالیس کافروں کا نقصان کیا تھا، سترکوقید اورستر کو قتل کیا تھا۔
(صحیح مسلم، الجھاد والسیر، حدیث: 3039)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4561