صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
17. بَابُ غَزْوَةِ أُحُدٍ:
17. باب: غزوہ احد کا بیان۔
(17) Chapter. The Ghazwa of Uhud.
حدیث نمبر: Q4041
Save to word اعراب English
وقول الله تعالى: وإذ غدوت من اهلك تبوئ المؤمنين مقاعد للقتال والله سميع عليم سورة آل عمران آية 121 وقوله جل ذكره: ولا تهنوا ولا تحزنوا وانتم الاعلون إن كنتم مؤمنين {139} إن يمسسكم قرح فقد مس القوم قرح مثله وتلك الايام نداولها بين الناس وليعلم الله الذين آمنوا ويتخذ منكم شهداء والله لا يحب الظالمين {140} وليمحص الله الذين آمنوا ويمحق الكافرين {141} ام حسبتم ان تدخلوا الجنة ولما يعلم الله الذين جاهدوا منكم ويعلم الصابرين {142} ولقد كنتم تمنون الموت من قبل ان تلقوه فقد رايتموه وانتم تنظرون {143} سورة آل عمران آية 139-143 وقوله:ولقد صدقكم الله وعده إذ تحسونهم بإذنه حتى إذا فشلتم وتنازعتم في الامر وعصيتم من بعد ما اراكم ما تحبون منكم من يريد الدنيا ومنكم من يريد الآخرة ثم صرفكم عنهم ليبتليكم ولقد عفا عنكم والله ذو فضل على المؤمنين سورة آل عمران آية 152 , وقوله: ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله امواتا سورة آل عمران آية 169 الآية.وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: وَإِذْ غَدَوْتَ مِنْ أَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِينَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ سورة آل عمران آية 121 وَقَوْلِهِ جَلَّ ذِكْرُهُ: وَلا تَهِنُوا وَلا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ {139} إِنْ يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُهُ وَتِلْكَ الأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاءَ وَاللَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ {140} وَلِيُمَحِّصَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَمْحَقَ الْكَافِرِينَ {141} أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ {142} وَلَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ فَقَدْ رَأَيْتُمُوهُ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ {143} سورة آل عمران آية 139-143 وَقَوْلِهِ:وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللَّهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُمْ بِإِذْنِهِ حَتَّى إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الأَمْرِ وَعَصَيْتُمْ مِنْ بَعْدِ مَا أَرَاكُمْ مَا تُحِبُّونَ مِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الآخِرَةَ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ وَلَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سورة آل عمران آية 152 , وَقَوْلِهِ: وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا سورة آل عمران آية 169 الْآيَةَ.
‏‏‏‏ اور سورۃ آل عمران میں اللہ تعالیٰ کا فرمان اور وہ وقت یاد کیجئے، جب آپ صبح کو اپنے گھروں کے پاس سے نکلے، مسلمانوں کو لڑائی کے لیے مناسب ٹھکانوں پر لے جاتے ہوئے اور اللہ بڑا سننے والا ہے، بڑا جاننے والا ہے۔ اور اسی سورت میں اللہ عزوجل کا فرمان اور ہمت نہ ہارو اور غم نہ کرو، تمہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو گے۔ اگر تمہیں کوئی زخم پہنچ جائے تو ان لوگوں کو بھی ایسا ہی زخم پہنچ چکا ہے اور ہم ان دنوں کی الٹ پھیر تو لوگوں کے درمیان کرتے ہی رہتے ہیں، تاکہ اللہ ایمان لانے والوں کو جان لے اور تم میں سے کچھ کو شہید بنائے اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا اور تاکہ اللہ ایمان لانے والوں کو میل کچیل سے صاف کر دے اور کافروں کو مٹا دے۔ کیا تم اس گمان میں ہو کہ جنت میں داخل ہو جاؤ گے، حالانکہ ابھی اللہ نے تم میں سے ان لوگوں کو نہیں جانا جنہوں نے جہاد کیا اور نہ صبر کرنے والوں کو جانا اور تم تو موت کی تمنا کر رہے تھے اس سے پہلے کہ اس کے سامنے آؤ۔ سو اس کو اب تم نے خوب کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان اور یقیناً تم سے اللہ نے سچ کر دکھایا اپنا وعدہ، جب کہ تم انہیں اس کے حکم سے قتل کر رہے تھے، یہاں تک کہ جب تم خود ہی کمزور پڑ گئے اور آپس میں جھگڑنے لگے۔ حکم رسول کے بارے میں اور تم نے نافرمانی کی بعد اس کے کہ اللہ نے دکھا دیا تھا جو کچھ کہ تم چاہتے تھے بعض تم میں وہ تھے جو دنیا چاہتے تھے اور بعض تم میں ایسے تھے جو آخرت چاہتے تھے۔ پھر اللہ نے تم کو ان میں سے پھیر دیا تاکہ تمہاری پوری آزمائش کرے اور اللہ نے تم سے درگزر کی اور اللہ ایمان لانے والوں کے حق میں بڑا فضل والا ہے۔ (اور آیت) اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں انہیں ہرگز مردہ مت خیال کرو۔ آخر آیت تک۔

حدیث نمبر: 4041
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن موسى , اخبرنا عبد الوهاب , حدثنا خالد , عن عكرمة , عن ابن عباس رضي الله عنهما , قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم يوم احد:" هذا جبريل آخذ براس فرسه عليه اداة الحرب".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى , أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ , حَدَّثَنَا خَالِدٌ , عَنْ عِكْرِمَةَ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ:" هَذَا جِبْرِيلُ آخِذٌ بِرَأْسِ فَرَسِهِ عَلَيْهِ أَدَاةُ الْحَرْبِ".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، ہم کو عبدالوہاب نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ احد کے موقع پر فرمایا یہ جبرائیل علیہ السلام ہیں، ہتھیار بند، اپنے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے۔

Narrated Ibn `Abbas: On the day of Uhud. the Prophet said, "This is Gabriel holding the head of his horse and equipped with war material.'
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 373


   صحيح البخاري4041عبد الله بن عباسهذا جبريل آخذ برأس فرسه عليه أداة الحرب
   صحيح البخاري3995عبد الله بن عباسهذا جبريل آخذ برأس فرسه عليه أداة الحرب
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4041 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4041  
حدیث حاشیہ:

یہ حدیث پہلے بھی گزر چکی ہے وہاں غزوہ اُحد کے بجائے غزوہ بدر کے الفاظ ہیں۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 3995)
حافظ ابن حجر ؒ نے "تنبیہ" کا عنوان دے کر اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس حدیث میں غزوہ اُحد کے الفاظ وہم پر مبنی ہیں۔
(فتح الباري: 436/7)
لیکن اسے وہم قراردینا صحیح نہیں۔
ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دونوں مقامات پر یہ ا لفاظ استعمال فرمائے ہوں، پھر فرشتوں کا اترنا دونوں غزوات میں ثابت ہے جیسا کہ خود امام بخاری ؒ نے ایک حدیث پیش کی ہے۔

حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اُحد کی لڑائی میں رسول اللہ ﷺ کی معیت میں دوآدمیوں کو لڑتے ہوئے دیکھا جو سفید کپڑوں میں ملبوس تھے۔
میں نے اس سے پہلے اور اس کےبعد انھیں نہیں دیکھا۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4054)
صحیح مسلم میں یہ الفاظ ہیں:
اُحد کے دن میں نے رسول اللہ ﷺ کے دائیں بائیں دوآدمیوں کو لڑتے ہوئے دیکھا، جنھوں نے سفید کپڑے پہن رکھے تھے۔
میں نے اس سے پہلے اور اس کے بعد انھیں نہیں دیکھا۔
وہ حضرت جبرئیل ؑ اور میکائیل ؑ تھے۔
(صحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 6004(2306)
ان روایات سے معلوم ہواکہ فرشتوں کی حاضری یوم بدر کے ساتھ خاص نہیں ہے۔
احد میں ان کی حاضری بلکہ لڑنا بھی ثابت ہے، اس لیے اس روایت میں "یوم اُحد" کے الفاظ کو وہم قراردینا محل نظر ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4041   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3995  
3995. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے بدر کے دن فرمایا: یہ جبریل ؑ ہیں جو اپنے گھوڑے کا سر تھامے لڑائی کے لیے ہتھیار لگائے ہوئے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3995]
حدیث حاشیہ:
جن کو اللہ تعالی نے مسلمانوں کی مدد کے لیے اور بھی بہت سے فرشتوں کے ساتھ میدان جنگ میں بھیجا ہے۔
سعید بن منصور کی روایت میں ہے کہ حضرت جبرئیل ؑ سرخ گھوڑے پر سوار تھے۔
اس کی پیشانی کے بال گندھے ہوئے تھے۔
ابن اسحاق نے ابو واقد لیثی سے نکالا کہ میں بدر کے دن ایک کافر کو مارنے چلا مگر میرے پہنچنے سے پہلے ہی اس کا سر خود بخود تن سے جدا ہوکر گر پڑا۔
ابھی میری تلوار اس کے قریب پہنچی بھی نہ تھی۔
بیہقی نے نکا لا کہ بدر کے دن ایک سخت آندھی چلی پھر دوسری مرتبہ ایک سخت آندھی چلی۔
پہلی آندھی حضرت جبرئیل ؑ کی آمد تھی۔
دوسری حضرت میکائیل ؑ کی آمد پر تھی۔
اگرچہ اللہ کا ایک ہی فرشتہ دنیا کے سارے کافروں کو مارنے کے لیے کافی تھا مگر پرور دگارکو یہ منظور ہوا کہ فرشتوں کو بطور سپاہیوں کے بھیجے اور ان سے عادت اور قوت بشری کے موافق کام لے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3995   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3995  
3995. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے بدر کے دن فرمایا: یہ جبریل ؑ ہیں جو اپنے گھوڑے کا سر تھامے لڑائی کے لیے ہتھیار لگائے ہوئے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3995]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ حضرت جبرئیل ؑ سرخ گھوڑے پر سوار تھے جس کی پیشانی کے بال گندھے ہوئے تھے زرہ پہنے اور گردو غبار سے اٹے ہوئے وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی:
اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ !اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ سے جدا نہ ہوں حتی کہ آپ راضی ہو جائیں کیا آپ خوش ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ہاں میں راضی ہوں۔
ابن اسحاق سے روایت ہے کہ بدر کے دن رسول اللہ ﷺ کو اونگھ آئی پھر بیدار ہوئے تو فرمایا:
اے ابو بکر !تمھیں خوشبخری ہو کہ تمھارے پاس اللہ کی مدد آگئی ہے یہ جبرئیل ؑ اپنے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے ہیں۔
(السیرة التبوبة لابن هشام: 626/1 و فتح الباري: 390/7)

اس جنگ میں فرشتوں کے اترنے میں یہ حکمت تھی کہ مسلمانوں کے دلوں کو مضبوط کرنا مقصود تھا جیسا کہ قرآن کریم نے اس کی وضاحت کی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فرشتوں کی شمولیت اس لیے تھی کہ تم خوش ہو جاؤ اور تمھارے دل مطمئن ہو جائیں۔
(آل عمران: 126/3)
ویسے تو حضرت جبرئیل ؑ اپنے پرسے مشرکین کو تہس نہیں کر سکتے تھے لیکن ایسا کرنا عام عادت کے خلاف تھا۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3995   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.