(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد , حدثنا سفيان , عن عمرو , سمع جابر بن عبد الله رضي الله عنهما , قال: قال رجل للنبي صلى الله عليه وسلم يوم احد: ارايت إن قتلت فاين انا؟ قال:" في الجنة" , فالقى تمرات في يده , ثم قاتل حتى قتل.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ عَمْرٍو , سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ: أَرَأَيْتَ إِنْ قُتِلْتُ فَأَيْنَ أَنَا؟ قَالَ:" فِي الْجَنَّةِ" , فَأَلْقَى تَمَرَاتٍ فِي يَدِهِ , ثُمَّ قَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ.
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، انہوں نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ایک صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے غزوہ احد کے موقع پر پوچھا: یا رسول اللہ! اگر میں قتل کر دیا گیا تو میں کہاں جاؤں گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں۔ انہوں نے کھجور پھینک دی جو ان کے ہاتھ میں تھی اور لڑنے لگے یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔
Narrated Jabir bin `Abdullah: On the day of the battle of Uhud, a man came to the Prophet and said, "Can you tell me where I will be if I should get martyred?" The Prophet replied, "In Paradise." The man threw away some dates he was carrying in his hand, and fought till he was martyred .
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 377
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4046
حدیث حاشیہ: 1۔ غزوہ بدر میں حضرت عمیر بن حمام ؓ کے متعلق بھی روایات میں ہے کہ انھوں نے ہاتھ میں کھجوریں لیں اور انھیں کھانا شروع کیا، پھر کہا: اگر ان کھجوروں کے کھانے تک میں زندہ رہا تو میری یہ زندگی بہت طویل شمار ہوگی، پھر جنگ میں کود پڑےاور شہادت کا مرتبہ پایا۔ 2۔ ان احادیث سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دین اسلام سے سچی اور لازوال محبت کا پتہ چلتا ہے۔ وہ اللہ کی جنت لینے کے لیے اپنی جان پر کھیل جاتے اور اللہ کی خاطر شہادت کے لیے بہت بے قرار رہتے تھے۔ (فتح الباري: 443/7)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4046
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3156
´اللہ عزوجل کے راستے میں شہید ہونے والے کے ثواب کا بیان۔` جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جنگ احد کے دن ایک شخص نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) سے کہا: آپ بتائیں اگر میں اللہ کے راستے میں شہید ہو گیا تو میں کہاں ہوں گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں ہو گے“، (یہ سنتے ہی) اس نے اپنے ہاتھ میں لی ہوئی کھجوریں پھینک دیں، (میدان جنگ میں اتر گیا) جنگ کی اور شہید ہو گیا۔ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3156]
اردو حاشہ: اس روایت میں اللہ کے راستے سے مراد جہاد ہے اگرچہ کسی نیک کام میں موت‘ شہادت ہی کی موت ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3156
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1286
1286- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: غزوہ احد کے دن ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حا ضر ہوا اس نے عرض کی: یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا رائے ہے؟ اگر میں اللہ کی راہ میں قتل کرتے ہوئے مارا جاتا ہوں، تو میں کہاں جاؤں گا؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں۔“ راوی کہتے ہیں: اس شخص نے اپنے ہاتھ میں موجود کھجوریں ایک طرف رکھیں اور پھر جنگ میں حصہ لیا یہاں تک کہ شہید ہوگیا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1286]
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شہید کا بدلہ جنت ہے، اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو زیادہ سے زیادہ جنت کی حرص وطمع ہوتی تھی، اللہ تعالیٰ ہمیں شہادت کی موت نصیب فرمائے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1284
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4913
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، کہ ایک آدمی نے پوچھا، میں کہاں ہوں گا؟ اے اللہ کے رسول! اگر میں قتل کر دیا جاؤں؟ آپﷺ نے فرمایا: ”جنت میں۔“ تو اس کے ہاتھ میں جو کھجوریں تھیں، وہ اس نے پھینک دیں، پھر جنگ لڑی حتیٰ کہ وہ شہید ہو گیا، سوید کی روایت میں ہے، ایک آدمی نے غزوہ احد کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4913]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے جو انسان خلوص نیت سے دنیوی لذتوں کو ترک جنت کے لیے تیزی دکھاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے خلوص کی قدر دانی فرماتے ہوئے اس کے لیے جنت میں جانے کا انتظام فرما دیتا ہے، یہ کون تھا؟ بقول امام خطیب بغدادی، یہ عمیر بن حمام انصاری تھا، جبکہ بقول حافظ ابن حجر اس کا واقعہ جنگ بدر سے تعلق رکھتا ہے، جبکہ اس حدیث میں جنگ اُحد کا ذکر ہے۔ اس لیے یہ عمیر نہیں ہو سکتا اور عمیر کا تذکرہ آگے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں آ رہا ہے۔