(مرفوع) حدثنا إسماعيل بن ابي اويس، قال: حدثني مالك، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" ناركم جزء من سبعين جزءا من نار جهنم، قيل: يا رسول الله، إن كانت لكافية، قال: فضلت عليهن بتسعة وستين جزءا كلهن مثل حرها".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" نَارُكُمْ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِينَ جُزْءًا مِنْ نَارِ جَهَنَّمَ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ كَانَتْ لَكَافِيَةً، قَالَ: فُضِّلَتْ عَلَيْهِنَّ بِتِسْعَةٍ وَسِتِّينَ جُزْءًا كُلُّهُنَّ مِثْلُ حَرِّهَا".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تمہاری (دنیا کی) آگ جہنم کی آگ کے مقابلے میں (اپنی گرمی اور ہلاکت خیزی میں) سترواں حصہ ہے۔“ کسی نے پوچھا، یا رسول اللہ! (کفار اور گنہگاروں کے عذاب کے لیے) یہ ہماری دنیا کی آگ بھی بہت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”دنیا کی آگ کے مقابلے میں جہنم کی آگ انہتر گنا بڑھ کر ہے۔“
Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "Your (ordinary) fire is one of 70 parts of the (Hell) Fire." Someone asked, "O Allah's Apostle This (ordinary) fire would have been sufficient (to torture the unbelievers)," Allah's Apostle said, "The (Hell) Fire has 69 parts more than the ordinary (worldly) fire, each part is as hot as this (worldly) fire."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 54, Number 487
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3265
حدیث حاشیہ: 1۔ دنیا کی آگ دوزخ کی آگ کا سترواں حصہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ساری دنیا کی آگ جسے لوگ جلاتے ہیں اگر اسے جمع کیا جائے تو یہ دوزخ کی آگ کا ایک حصہ ہوتی ہے اور دوزخ کی آگ اس آگ سے ستر گنا زیادہ گرم ہے بلکہ مسند احمد کی روایت کے مطابق دوزخ کی آگ دنیا کی آگ کے مقابلے میں سو درجے زیادہ اپنے اندر جلانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ (مسند أحمد: 379/2) 2۔ واضح رہے کہ دنیوی آگ کی بعض اقسام ایسی ہیں کہ چند منٹوں میں لوہےکو پانی بنا کر پگھلا دیتی ہیں أعاذنا اللہ منها مسند حمد کی مرفوع روایت میں ہے۔ اگر اس آگ کو پانی میں دوبارہ ٹھنڈا نہ کیا جاتا تو تم اس سے فائدہ نہ اٹھا سکتے۔ (مسند أحمد: 244/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3265
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 24
´جہنم کا بیان` «. . . 374- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”نار بني آدم التى توقدون جزء من سبعين جزءا من نار جهنم“، فقالوا: يا رسول الله، إن كانت لكافية، قال: ”فإنها فضلت عليها بتسعة وستين جزءا“ . . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنی آدم کی آگ جو تم جلاتے ہو جہنم کی آگ کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔“ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہی آگ کافی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہنم کی آگ اس پر انہتر (۶۹) درجے زیادہ ہے۔“ . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 24]
تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 3265 من حديث مالك، ومسلم 2843 من حديث ابي الزناد به]
تفقه: ➊ جہنم کی آگ دنیا کی آگ سے بہت زیادہ گرم ہے لہٰذا کفار و منافقین اور کتاب وسنت کے مخالفین اپنا آخری انجام سوچ لیں۔ ➋ قیامت اور مرنے کے بعد زندگی برحق ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 374
حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 14
´دوزخ کی آگ شدت میں دنیاوی آگ سے 70 گنا زیادہ ہے` اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری یہ آگ جو بنی آدم جلاتے ہیں (حرارت میں) جہنم کی آگ سے ستر (۷۰) حصوں میں سے ایک حصہ ہے“، لوگوں نے کہا: اللہ کی قسم یا رسول اللہ! ہم (گنہگاروں کے عذاب کے لیے تو) یہ (ہماری دنیا کی) آگ بھی بہت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جواباً) فرمایا: ”جہنم کی آگ اس (دنیا کی آگ سے) انہتر (۶۹) درجے زیادہ ہے اور ان میں سے ہر ہر درجہ حرارت میں اسی کے مثل ہے۔“[صحيفه همام بن منبه/متفرق/حدیث: 14]
شرح الحدیث: (جُزْءٌ مِّنْ سَبْعِيْنَ جُزْءًا مِّنْ حَرِّ جَهَنَّمَ) حدیث کے اس جزء کا مفہوم یہ ہے کہ دنیا کی ساری آگ حرارت و تیزی میں جہنم کے ستر (70) حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ (ارشاد الساری: 289/5) حافظ ابن حجر کہتے ہیں: "مسند أحمد کی روایت میں ((مِنْ مِائَةِ جُزْءٍ)) کے لفظ ہیں۔ یعنی دنیا کی آگ جہنم کے سو (100) حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ " ان دونوں آیات میں بظاہر تو تعارض نظر آتا ہے، کیونکہ ایک روایت میں ستر کے لفظ ہیں، جبکہ دوسری میں سو کے۔ تو ان احادیث اور ان جیسی دوسری احادیث، جن میں کچھ اور تعداد منقول ہے، تطبیق اس طرح ہے کہ یہاں دوزخ کی آگ کی حرارت کی شدت بیان کرنا مقصود ہے، نہ کہ کوئی خاص تعداد۔ " (فتح الباری: 334/6) اور عرب اپنے کلام میں کثرت کے بیان کے لیے ستر کا عدد بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ جیسا کہ الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو خطاب کیا گیا ہے: اِسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ ۚ (التوبة: 80) "آپ ان کے لیے مغفرت کی دعا کیجئے یا نہ کیجئے (برابر ہے) اگر آپ ان کے لیے ستر بار بھی مغفرت کی دعا کریں گے، تب بھی الله انہیں معاف نہیں کرے گا۔ " الله نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو خبر دی ہے کہ منافقین الله کی مغفرت کے اہل نہیں ہیں۔ لہذا آپ چاہے ان کے لیے مغفرت طلب کریں یا نہ کریں برابر ہے۔ اور ستر کے عدد سے مقصود مبالغہ ہے، یہ نہیں کہ اگر نبی صلی الله علیہ وسلم ستر سے زائد بار مغفرت طلب کریں گے تو الله منافقوں کو معاف کر دے گا۔ بعینہ یہاں مذکورہ حدیث میں بھی جہنم کی آگ کی شدت حرارت اور سختی کی بیان کرنا مقصود ہے۔ امام غزالی کا کہنا ہے: کہ دنیا کی آگ اور جہنم کی آگ کا کوئی مقابلہ نہیں ہے (لیکن اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ) جب دنیا میں سخت ترین عذاب اسی دنیا کی آگ کا ہے تو پھر جہنم کی آگ کا عذاب کیسا ہوگا جو کہ دنیا کی آگ سے کہیں زیادہ ہے؟ (ارشاد الساری: 289/5) سیدنا انس بن مالک رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّ نَارَكُمْ هَذِهِ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِينَ جُزْءًا مِنْ نَارِ جَهَنَّمَ , وَلَوْلَا أَنَّهَا أُطْفِئَتْ بِالْمَاءِ مَرَّتَيْنِ مَا انْتَفَعْتُمْ بِهَا))(سنن ابن ماجه، باب صفة النار، رقم: 4318_ البانی رحمه الله نے اسے "صحیح" کہا ہے۔) "یقیناً تمہاری دنیا کی آگ جہنم کی آگ کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے (یعنی دوزخ کی آگ حرارت میں ستر (70) درجہ یہاں کی آگ سے زیادہ ہے) اور اگر وہ دوبارہ پانی سے بجھائی نہ جاتی تو تم اس سے فائدہ نہ لے سکتے۔ " قرآن مجید میں ہے: قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا ۚ لَّوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ (التوبة: 81) " (اے نبی!) کہہ دیجئے: جہنم کی آگ (اس دنیا کی آگ) سے کہیں زیادہ گرم ہے۔ "
جہنم کی ہولناکیاں: اللہ تعالی نے اپنی کتاب عزیز میں ارشاد فرمایا: كَلَّا ۖ إِنَّهَا لَظَىٰ * نَزَّاعَةً لِّلشَّوَىٰ (المعارج: 15-16) "ایسا ہرگز نہیں وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہے، کھال ادھیڑ لینے والی۔ " مزید ارشاد فرمایا: يُصَبُّ مِن فَوْقِ رُءُوسِهِمُ الْحَمِيمُ * يُصْهَرُ بِهِ مَا فِي بُطُونِهِمْ وَالْجُلُودُ * وَلَهُم مَّقَامِعُ مِنْ حَدِيدٍ * كُلَّمَا أَرَادُوا أَن يَخْرُجُوا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ أُعِيدُوا فِيهَا وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ (الحج: 19-22) "ان کے سروں کے اوپر سے سخت کھولتا ہوا پانی بہایا جائے گا. جس سے ان کے پیٹ کی سب چیزیں اور کھالیں گلا دی جائیں گی. اور ان کی سزا کے لئے لوہے کے ہتھوڑے ہیں. یہ جب بھی وہاں کے غم سے نکل بھاگنے کا اراده کریں گے وہیں لوٹا دیئے جائیں گے اور (کہا جائے گا) جلنے کا عذاب چکھو!" اور سیدنا نعمان بن بشیر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "قیامت کے دن سب سے ہلکا عذاب اسے ہوگا جسے جہنم کی آگ کے دو جوتے اور دو تسمے پہنائے جائیں گے جن سے اس کا دماغ اس طرح کھولتا ہوگا جس طرح ہنڈیا کھولتی ہے، اس کے باوجود وہ سمجھے گا کہ دوزخیوں میں سے کسی کو اس سے زیادہ عذاب نہیں ہے حالانکہ اسے سب سے ہلکا عذاب ہوگا۔ " (صحیح بخاری، کتاب الرقائق، رقم: 6561 - صحیح مسلم، کتاب الایمان، رقم: 364، 213)
((اِنْ کَانَتْ لَکَافِیَتَنَا)) کا مطلب ہے کفار اور گنہگاروں کے عذاب کے لیے تو دنیا کی یہی آگ کافی تھی۔
((فَاِنَّھَا فُضِّلَتْ عَلَیْھَا بِتِسْعَةٍ وَّسِتِّیْنَ جُزْءاً)) "پس یقیناً جہنم کی آگ دنیا کی آگ سے انہتر (69) درجے زیادہ ہے۔ " اس کا معنی یہ ہے کہ الله تعالىٰ کا آگ سے عذاب دینا مخلوق کے عذاب سے ممتاز ہوگا۔
تتمه: ....... اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ جہنم بن چکی ہے، اس لیے اس حدیث کو امام بخاری رحمة الله علیہ نے ((بَابُ صِفَةِ النَّارِ وَ أَنَّهَا مَخْلُوْقَةٌ)) "دوزخ کا بیان اور یہ بیان کہ دوزخ بن چکی ہے، وہ موجود ہے۔ " میں ذکر کیا ہے، جبکہ معتزلہ اور قدریہ اس کی نفی کرتے ہیں۔ گویا امام بخاری نے یہ باب خاص کر معتزلہ اور قدریہ کی تردید کے لیے قائم کیا ہے، پس صحیح بخاری جہاں، حدیث، فقہ اور اصول کی کتاب ہے، وہاں یہ عقیدہ کی بھی کتاب ہے جو کہ باطل فرقوں کا ٹھیک ٹھیک طریقہ سے رد بیان کرتی ہے۔
صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 14
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7165
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تمھاری دنیا کی یہ آگ جسے آدم کا بیٹا(انسان)جلاتا ہے جہنم کی گرمی کے ستر حصوں سے ایک حصہ ہے۔"صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا، واللہ! یہ کافی تھی، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!آپ نے فرمایا:"دوزخ کی آگ دنیا کی آگ پر انہتر درجہ بڑھادی گئی ہے اور ہر درجہ کی حرارت دنیا کی آگ کی حرارت کے برابر ہے۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:7165]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس دنیا کی آگ کی قسموں میں بھی درجہ حرارت میں بہت تفاوت و فرق ہے، گھاس پھوس کی آگ، لکڑی کی آگ، پتھر کے کوئلوں کی آگ، بموں اور ایٹم بم کی آگ، اس طرح آخرت میں دوزخ کی آگ کا درجہ حرارت عام آگ کے مقابلہ میں انہتر درجہ زیادہ ہوگا اور اس کی حکمت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ اس نے اس کی حرارت میں اتنا اضافہ کیوں فرمایاہے، ہمیں تو اللہ کے قہرو جلال سے ڈرنا اور دوزخ کی آگ سے بچنے کی فکر کرنی چاہیے، اعاذنا الله منها بكرمه وفضله