حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 14
´دوزخ کی آگ شدت میں دنیاوی آگ سے 70 گنا زیادہ ہے`
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری یہ آگ جو بنی آدم جلاتے ہیں (حرارت میں) جہنم کی آگ سے ستر (۷۰) حصوں میں سے ایک حصہ ہے“، لوگوں نے کہا: اللہ کی قسم یا رسول اللہ! ہم (گنہگاروں کے عذاب کے لیے تو) یہ (ہماری دنیا کی) آگ بھی بہت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جواباً) فرمایا: ”جہنم کی آگ اس (دنیا کی آگ سے) انہتر (۶۹) درجے زیادہ ہے اور ان میں سے ہر ہر درجہ حرارت میں اسی کے مثل ہے۔“ [صحيفه همام بن منبه/متفرق/حدیث: 14]
شرح الحدیث:
(جُزْءٌ مِّنْ سَبْعِيْنَ جُزْءًا مِّنْ حَرِّ جَهَنَّمَ)
حدیث کے اس جزء کا مفہوم یہ ہے کہ دنیا کی ساری آگ حرارت و تیزی میں جہنم کے ستر (70) حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ (ارشاد الساری: 289/5)
حافظ ابن حجر کہتے ہیں: "مسند أحمد کی روایت میں ((مِنْ مِائَةِ جُزْءٍ)) کے لفظ ہیں۔ یعنی دنیا کی آگ جہنم کے سو (100) حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ "
ان دونوں آیات میں بظاہر تو تعارض نظر آتا ہے، کیونکہ ایک روایت میں ستر کے لفظ ہیں، جبکہ دوسری میں سو کے۔ تو ان احادیث اور ان جیسی دوسری احادیث، جن میں کچھ اور تعداد منقول ہے، تطبیق اس طرح ہے کہ یہاں دوزخ کی آگ کی حرارت کی شدت بیان کرنا مقصود ہے، نہ کہ کوئی خاص تعداد۔ " (فتح الباری: 334/6)
اور عرب اپنے کلام میں کثرت کے بیان کے لیے ستر کا عدد بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ جیسا کہ الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو خطاب کیا گیا ہے:
اِسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ ۚ (التوبة: 80)
"آپ ان کے لیے مغفرت کی دعا کیجئے یا نہ کیجئے (برابر ہے) اگر آپ ان کے لیے ستر بار بھی مغفرت کی دعا کریں گے، تب بھی الله انہیں معاف نہیں کرے گا۔ "
الله نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو خبر دی ہے کہ منافقین الله کی مغفرت کے اہل نہیں ہیں۔ لہذا آپ چاہے ان کے لیے مغفرت طلب کریں یا نہ کریں برابر ہے۔ اور ستر کے عدد سے مقصود مبالغہ ہے، یہ نہیں کہ اگر نبی صلی الله علیہ وسلم ستر سے زائد بار مغفرت طلب کریں گے تو الله منافقوں کو معاف کر دے گا۔ بعینہ یہاں مذکورہ حدیث میں بھی جہنم کی آگ کی شدت حرارت اور سختی کی بیان کرنا مقصود ہے۔
امام غزالی کا کہنا ہے: کہ دنیا کی آگ اور جہنم کی آگ کا کوئی مقابلہ نہیں ہے (لیکن اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ) جب دنیا میں سخت ترین عذاب اسی دنیا کی آگ کا ہے تو پھر جہنم کی آگ کا عذاب کیسا ہوگا جو کہ دنیا کی آگ سے کہیں زیادہ ہے؟ (ارشاد الساری: 289/5)
سیدنا انس بن مالک رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
((إِنَّ نَارَكُمْ هَذِهِ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِينَ جُزْءًا مِنْ نَارِ جَهَنَّمَ , وَلَوْلَا أَنَّهَا أُطْفِئَتْ بِالْمَاءِ مَرَّتَيْنِ مَا انْتَفَعْتُمْ بِهَا)) (سنن ابن ماجه، باب صفة النار، رقم: 4318_ البانی رحمه الله نے اسے "صحیح" کہا ہے۔)
"یقیناً تمہاری دنیا کی آگ جہنم کی آگ کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے (یعنی دوزخ کی آگ حرارت میں ستر (70) درجہ یہاں کی آگ سے زیادہ ہے) اور اگر وہ دوبارہ پانی سے بجھائی نہ جاتی تو تم اس سے فائدہ نہ لے سکتے۔ "
قرآن مجید میں ہے:
قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا ۚ لَّوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ (التوبة: 81)
" (اے نبی!) کہہ دیجئے: جہنم کی آگ (اس دنیا کی آگ) سے کہیں زیادہ گرم ہے۔ "
جہنم کی ہولناکیاں:
اللہ تعالی نے اپنی کتاب عزیز میں ارشاد فرمایا:
كَلَّا ۖ إِنَّهَا لَظَىٰ * نَزَّاعَةً لِّلشَّوَىٰ (المعارج: 15-16)
"ایسا ہرگز نہیں وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہے، کھال ادھیڑ لینے والی۔ "
مزید ارشاد فرمایا:
يُصَبُّ مِن فَوْقِ رُءُوسِهِمُ الْحَمِيمُ * يُصْهَرُ بِهِ مَا فِي بُطُونِهِمْ وَالْجُلُودُ * وَلَهُم مَّقَامِعُ مِنْ حَدِيدٍ * كُلَّمَا أَرَادُوا أَن يَخْرُجُوا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ أُعِيدُوا فِيهَا وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ (الحج: 19-22)
"ان کے سروں کے اوپر سے سخت کھولتا ہوا پانی بہایا جائے گا. جس سے ان کے پیٹ کی سب چیزیں اور کھالیں گلا دی جائیں گی. اور ان کی سزا کے لئے لوہے کے ہتھوڑے ہیں. یہ جب بھی وہاں کے غم سے نکل بھاگنے کا اراده کریں گے وہیں لوٹا دیئے جائیں گے اور (کہا جائے گا) جلنے کا عذاب چکھو!"
اور سیدنا نعمان بن بشیر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"قیامت کے دن سب سے ہلکا عذاب اسے ہوگا جسے جہنم کی آگ کے دو جوتے اور دو تسمے پہنائے جائیں گے جن سے اس کا دماغ اس طرح کھولتا ہوگا جس طرح ہنڈیا کھولتی ہے، اس کے باوجود وہ سمجھے گا کہ دوزخیوں میں سے کسی کو اس سے زیادہ عذاب نہیں ہے حالانکہ اسے سب سے ہلکا عذاب ہوگا۔ "
(صحیح بخاری، کتاب الرقائق، رقم: 6561 - صحیح مسلم، کتاب الایمان، رقم: 364، 213)
((اِنْ کَانَتْ لَکَافِیَتَنَا)) کا مطلب ہے کفار اور گنہگاروں کے عذاب کے لیے تو دنیا کی یہی آگ کافی تھی۔
((فَاِنَّھَا فُضِّلَتْ عَلَیْھَا بِتِسْعَةٍ وَّسِتِّیْنَ جُزْءاً)) "پس یقیناً جہنم کی آگ دنیا کی آگ سے انہتر (69) درجے زیادہ ہے۔ " اس کا معنی یہ ہے کہ الله تعالىٰ کا آگ سے عذاب دینا مخلوق کے عذاب سے ممتاز ہوگا۔
تتمه: ....... اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ جہنم بن چکی ہے، اس لیے اس حدیث کو امام بخاری رحمة الله علیہ نے ((بَابُ صِفَةِ النَّارِ وَ أَنَّهَا مَخْلُوْقَةٌ)) "دوزخ کا بیان اور یہ بیان کہ دوزخ بن چکی ہے، وہ موجود ہے۔ " میں ذکر کیا ہے، جبکہ معتزلہ اور قدریہ اس کی نفی کرتے ہیں۔ گویا امام بخاری نے یہ باب خاص کر معتزلہ اور قدریہ کی تردید کے لیے قائم کیا ہے، پس صحیح بخاری جہاں، حدیث، فقہ اور اصول کی کتاب ہے، وہاں یہ عقیدہ کی بھی کتاب ہے جو کہ باطل فرقوں کا ٹھیک ٹھیک طریقہ سے رد بیان کرتی ہے۔
صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 14