عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامان کی نگہبانی پر کرکرہ نامی ایک شخص تھا، اس کا انتقال ہو گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جہنم میں ہے“، لوگ اس کا سامان دیکھنے لگے تو اس میں ایک کملی یا عباء ملی جو اس نے مال غنیمت میں سے چرا لی تھی۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 190 (3074)، (تحفة الأشراف: 8632)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/160) (صحیح)»
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2849
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مال غنیمت میں خیانت بہت بڑا جرم ہے۔
(2) چرائی ہوئی چیز معمولی ہو تو بھی جرم کی شناعت میں فرق نہیں پڑتا۔
(3) اس حدیث سے ان لوگوں کا بھی رد ہوتا ہے جو کہتے ہیں کہ مومن جہنم میں نہیں جا سکتا۔ کتاب وسنت کے دلائل پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑے گناہ کی وجہ سے ایک گناہ گار مومن شخص بھی جہنم کا مستحق ہو سکتا ہے، تاہم جہنم کا دائمی عذاب صرف کافروں اور مشرکوں کے لیے ہے۔ واللہ اعلم
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2849
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3074
3074. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کے سامان پر ایک شخص تعینات تھا جسے کرکره کہاجاتا تھا۔ جب وہ مرگیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”وہ تو جہنم میں گیا۔“ جب صحابہ ؓنے اس کا سامان وغیرہ دیکھنا شروع کیا تو اس میں ایک کوٹ ملا جسے خیانت کرکے اس نے چھپا لیا تھا۔ ابو عبداللہ(امام بخاری ؒ) کہتے ہیں کہ محمد بن سلام نے کرکرہ کو کاف کے فتحہ (زبر) سے بیان کیا ہے اور اسی طرح مضبوط ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3074]
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ مال غنیمت میں سے ذرا سی چیز کی چوری بھی حرام ہے جس کی سزا یقیناً دوزخ ہو گی۔ اس حدیث سے ان لوگوں کا رد ہوا جو کہتے ہیں کہ مومن گناہوں کی وجہ سے دوزخ نہیں جائے گا۔ قرآن پاک نے صاف اعلان کیا ہے۔ ﴿وَمَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ﴾(آل عمران: 161) خیانت کرنے والا خیانت کی چیز کو اپنے سر پر اٹھائے قیامت کے دن حاضر ہو گا۔ یہ وہ جرم ہے کہ اگر کسی مجاہد سے بھی سرزد ہو تو اس کا عمل جہاد اس سے باطل ہو جاتا ہے جیسا کہ حدیث ہذا سے ظاہر ہوا۔ وفي الحدیث تحریم قلیل الغلول وکثیرة وقوله هو في النار أي یعذب علی معصیة أو المراد هو في النار إن لم یعف اللہ عنه۔ (فتح)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3074
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3074
3074. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کے سامان پر ایک شخص تعینات تھا جسے کرکره کہاجاتا تھا۔ جب وہ مرگیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”وہ تو جہنم میں گیا۔“ جب صحابہ ؓنے اس کا سامان وغیرہ دیکھنا شروع کیا تو اس میں ایک کوٹ ملا جسے خیانت کرکے اس نے چھپا لیا تھا۔ ابو عبداللہ(امام بخاری ؒ) کہتے ہیں کہ محمد بن سلام نے کرکرہ کو کاف کے فتحہ (زبر) سے بیان کیا ہے اور اسی طرح مضبوط ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3074]
حدیث حاشیہ: 1۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مال غنیمت میں سے چوری کرنے والے کا سامان واسباب جلادینا چاہیے جیسا کہ ابوداؤد ؒ کی ایک روایت میں ہے۔ (سنن أبي داود، الجھاد، حدیث: 2713) لیکن امام بخاری ؒ کا موقف ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؒ نے اس سلسلے میں جو روایت رسول اللہ ﷺ سے نقل کی ہے اس میں سامان کو جلادینے کا ذکر نہیں ہے۔ اس بناپر صحیح تر یہی ہے کہ خیانت کرنے والے کا سامان جلانا جائز نہیں بلکہ اس روایت کے مطابق چوری کرنے والا خود آگ میں جلے گا۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مال غنیمت میں معمولی سی چوری بھی حرام ہے جس کی سزا یقیناً جہنم ہے۔ یہ وہ جرم ہے کہ اگر کسی مجاہد سے بھی سرزد ہوتو اس کا عمل جہاد باطل ہوجاتاہے۔ بہرحال خیانت تھوڑی ہو یا زیادہ جرم میں سب برابر ہیں۔ قیامت کے دن بھرے مجمع میں اس طرح کے خیانت پیشہ لوگوں کو برسرعام ذلیل وخوار کیاجائے گا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3074