ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا ‘ ان سے سعید نے بیان کیا ‘ ان سے قتادہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کسی قوم پر فتح حاصل ہوتی، تو میدان جنگ میں تین رات قیام فرماتے۔ روح بن عبادہ کے ساتھ اس حدیث کو معاذ اور عبدالاعلیٰ نے بھی روایت کیا۔ دونوں نے کہا ہم سے سعید نے بیان کیا انہوں نے قتادہ سے ‘ انہوں نے انس سے ‘ انہوں نے ابوطلحہ سے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3065
حدیث حاشیہ: 1۔ وہاں تین دن قیام اس صورت میں ہوتا جب دشمن سے بالکل کسی قسم کا خطرہ نہ ہوتا۔ اس قیام کا مقصد یہ ہوتا کہ اس علاقے کی فلاح وبہبود کے لیے مفید اصلاحات نافذ کی جائیں،نیز اسلام کی شان وشوکت کا اظہار بھی مقصود ہوتا۔ بہرحال مفتوحہ علاقوں میں تین دن قیام کرنے کی اجازت ہے تاکہ غلبے کی خوب شہرت ہوجائے اور وہاں اسلام کی قوت نظر آنے لگے۔ واللہ أعلم۔ 2۔ آج کل توایٹمی دور میں ایسے خود کارمیزائل ایجاد ہوچکے ہیں کہ سینکڑوں میل دور اس کا ہدف مقرر کردیا جاتا ہے وہ خود بخود راستے میں بچتابچاتا اپنے نشانے پر جالگتا ہے۔ اب تو کسی علاقے میں تین دن ٹھہرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ میدانی جنگ ناپید ہوچکی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3065
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2695
´دشمن پر غلبہ پانے کے بعد امام کا میدان جنگ میں ٹھہرنا۔` ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی قوم پر غالب آتے تو میدان جنگ میں تین رات قیام کرتے۔ ابن مثنیٰ کا بیان ہے: جب کسی قوم پر غالب آتے تو میدان جنگ میں جو ان کی سر زمین میں پڑتا تین رات قیام کرنا پسند فرماتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: کہ یحییٰ بن سعید اس حدیث میں طعن کرتے تھے کیونکہ یہ سعید (سعید ابن ابی عروبہ) کی پہلے کی حدیثوں میں سے نہیں ہے، اس لیے کہ ۱۴۵ ہجری میں ان کے حافظہ میں تغیر پیدا ہو گیا تھا، اور یہ حدیث بھی آخری عمر کی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: کہا جاتا ہے کہ وکیع نے ان سے ان کے زمانہ تغیر میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2695]
فوائد ومسائل: حدیث صحیح ہے۔ اور یہ صحیح بخاری میں بھی ہے۔ (2530) یہی وجہ ہے کہ امام ابودائود کا یہ قول جو بریکٹوں کے درمیان ہے۔ ابو دائود کے بعض نسخوں میں نہیں ہے۔ اور اس کا نہ ہونا ہی زیادہ مناسب ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2695