صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: جہاد کا بیان
The Book of Jihad (Fighting For Allah’S Cause)
28. بَابُ الْكَافِرِ يَقْتُلُ الْمُسْلِمَ ثُمَّ يُسْلِمُ فَيُسَدِّدُ بَعْدُ وَيُقْتَلُ:
28. باب: کافر اگر کفر کی حالت میں مسلمان کو مارے پھر مسلمان ہو جائے، اسلام پر مضبوط رہے اور اللہ کی راہ میں مارا جائے تو اس کی فضیلت کا بیان۔
(28) Chapter. (What about) a disbeliever who kills a Muslim and later on embraces Islam and starts doing good deeds and gets killed (in Allah’s Cause)?
حدیث نمبر: 2827
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، حدثنا الزهري، قال: اخبرني عنبسة بن سعيد عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال:" اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو بخيبر بعد ما افتتحوها، فقلت: يا رسول الله، اسهم لي، فقال: بعض بني سعيد بن العاص لا تسهم له يا رسول الله، فقال ابو هريرة: هذا قاتل ابن قوقل، فقال ابن سعيد بن العاص: واعجبا لوبر تدلى علينا من قدوم ضان ينعى علي قتل رجل مسلم اكرمه الله على يدي، ولم يهني على يديه، قال: فلا ادري اسهم له ام لم يسهم له"، قال سفيان: وحدثنيه السعيدي، عن جده، عن ابي هريرة، قال ابو عبد الله:السعيدي هو عمرو بن يحيى بن سعيد بن عمرو بن سعيد بن العاص.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَنْبَسَةُ بنُ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِخَيْبَرَ بَعْدَ مَا افْتَتَحُوهَا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَسْهِمْ لِي، فَقَالَ: بَعْضُ بَنِي سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ لَا تُسْهِمْ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: هَذَا قَاتِلُ ابْنِ قَوْقَلٍ، فَقَالَ ابْنُ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ: وَاعَجَبًا لِوَبْرٍ تَدَلَّى عَلَيْنَا مِنْ قَدُومِ ضَأْنٍ يَنْعَى عَلَيَّ قَتْلَ رَجُلٍ مُسْلِمٍ أَكْرَمَهُ اللَّهُ عَلَى يَدَيَّ، وَلَمْ يُهِنِّي عَلَى يَدَيْهِ، قَالَ: فَلَا أَدْرِي أَسْهَمَ لَهُ أَمْ لَمْ يُسْهِمْ لَهُ"، قَالَ سُفْيَانُ: وَحَدَّثَنِيهِ السَّعِيدِيُّ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ:السَّعِيدِيُّ هُوَ عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ.
ہم سے حمیدی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہا ہم سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عنبسہ بن سعید نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر میں ٹھہرے ہوئے تھے اور خیبر فتح ہو چکا تھا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرا بھی (مال غنیمت میں) حصہ لگائیے۔ سعید بن العاص کے ایک لڑکے (ابان بن سعید رضی اللہ عنہ) نے کہا یا رسول اللہ! ان کا حصہ نہ لگائیے۔ اس پر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بولے کہ یہ شخص تو ابن قوتل (نعمان بن مالک رضی اللہ عنہ) کا قاتل ہے۔ ابان بن سعید رضی اللہ عنہ نے کہا کتنی عجیب بات ہے کہ یہ جانور (یعنی ابوہریرہ ابھی تو پہاڑ کی چوٹی سے بکریاں چراتے چراتے یہاں آ گیا ہے اور ایک مسلمان کے قتل کا مجھ پر الزام لگاتا ہے۔ اس کو یہ خبر نہیں کہ جسے اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھوں سے (شہادت) عزت دی اور مجھے اس کے ہاتھوں سے ذلیل ہونے سے بچا لیا (اگر اس وقت میں مارا جاتا) تو دوزخی ہوتا ‘ عنبسہ نے بیان کیا کہ اب مجھے یہ نہیں معلوم کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا بھی حصہ لگایا یا نہیں۔ سفیان نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے سعیدی نے اپنے دادا کے واسطے سے بیان کیا اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ سعیدی سے مراد عمرو بن یحییٰ بن سعید بن عمرو بن سعید بن عاص ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Huraira: I went to Allah's Apostle while he was at Khaibar after it had fallen in the Muslims' hands. I said, "O Allah's Apostle! Give me a share (from the land of Khaibar)." One of the sons of Sa'id bin Al-'As said, "O Allah's Apostle! Do not give him a share." I said, "This is the murderer of Ibn Qauqal." The son of Said bin Al-As said, "Strange! A Wabr (i.e. guinea pig) who has come down to us from the mountain of Qaduim (i.e. grazing place of sheep) blames me for killing a Muslim who was given superiority by Allah because of me, and Allah did not disgrace me at his hands (i.e. was not killed as an infidel)." (The sub-narrator said "I do not know whether the Prophet gave him a share or not.")
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 80


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري2827عبد الرحمن بن صخرواعجبا لوبر تدلى علينا من قدوم ضأن ينعى علي قتل رجل مسلم أكرمه الله على يدي ولم يهني على يديه
   صحيح البخاري4239عبد الرحمن بن صخرواعجبا لك وبر تدأدأ من قدوم ضأن ينعى علي امرأ أكرمه الله بيدي ومنعه أن يهينني بيده

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2827 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2827  
حدیث حاشیہ:
روایت میں ابن قوقل سے مراد نعمان بن مالک ابن ثعلبہ بن احرم بن فہر بن غنم صحابی ہیں‘ قوقل ان کے دادا ثعلبہ کا لقب تھا‘ وہ احد کے دن ابان کے ہاتھ سے شہید ہوئے تھے۔
کہتے ہیں انہوں نے اس دن یہ دعا کی تھی کہ یا اللہ! سورج ڈوبنے سے پہلے میں جنت کی سیر کروں‘ اللہ نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی اور وہ سورج غروب ہونے سے پہلے ہی شہید ہوگئے۔
وبر عرب میں بلی سے چھوٹا ایک جانور جس کی دم اور کان چھوٹے ہوتے ہیں۔
قدوم اور ضان جو لفظ آیا ہے بعضوں نے کہا یہ ایک پہاڑ کا نام ہے جو قبیلہ دوس کے قریب تھا حضرت ابوہریرہ ؓ ادھر ہی کے باشندے تھے گویا ابان بن سعید نے حضرت ابوہریرہ ؓ پر یہ طعن کیا‘ ان کے پستہ قد ہونے کو وبر سے تشبیہ دی اور بکریوں کا گڈریا قرار دیتے ہوئے اپنے جرم کا اقرار بھی کیا مگر یہ کہ اس وقت وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے بعد میں اللہ نے دولت اسلام سے سرفراز کردیا۔
حافظ صاحب ؒ فرماتے ہیں:
والمراد منه ھھنا قول أبان أکرمه اللہ علی یدي ولم بھنی علی یدیه و أراد بذالك أن النعمان استشھد بیر ابان فأکرمه اللہ بالشھادة ولم یقتل أبان علی کفرہ فیدخل النار وھو المراد بالإھانة بل عاش أبان حتی تاب و أسلم وکان إسلامه قبل خیبر بعد الحدبیة وقال ذالك الکلام بحضرة النبي صلی اللہ علیه وسلم وأقرہ علیه وموافق لما تضنمة للعرجمة (فتح الباري)
قول ابان سے یہاں مراد یہ کہ اللہ نے میرے ہاتھ پر ان کو عزت شہادت دی اور ان کے ہاتھوں سے قتل کرا کر مجھ کو ذلیل نہیں کیا‘ جس سے مراد لیا کہ نعمانؓ ابانؓ کے ہاتھ سے شہید ہوئے پس اللہ نے ان کا اکرام فرمایا اور ابان کفر پر نہیں مرا ورنہ دوزخ میں جاتا۔
اللہ نے ان کو حدیبیہ کے بعد اسلام نصیب فرمایا۔
ابان نے یہ باتیں آنحضرتﷺ کے سامنے بیان کیں آپؐ خاموش رہے‘ اس سے ترجمہ باب ثابت ہوا۔
آپؐ نے حضرت ابوہریرہ ؓ کا حصہ نہیں لگایا۔
اس پر حافظ صاحب ؒ فرماتے ہیں واحتج به من قال إن من حضر بعد فراغ الوقعة ولو کان خرج مددا لھم أن لا بشارك من حضرھا وھو قول الجمھور (فتح الباري)
یعنی اس سے دلیل لی اس نے جس نے کہا کہ جو شخص جنگ ہونے کے بعد حاضر ہو اگرچہ وہ مدد کرنے کے ہی لئے آیا ہو‘ اس کو حاضر ہونے والوں کے ساتھ حصوں میں شریک نہیں کیا جائے گا۔
جمہور کا یہی قول ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2827   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2827  
حدیث حاشیہ:

ابن قوتل کا نام نعمان بن مالک ہے۔
وہ میدان اُحد میں ابان بن سعید کے ہاتھوں شہید ہوئے تھےانھوں نےمیدان اُحد میں دعا کی تھی اےاللہ! غروب آفتاب سے پہلے جنت کی سیر کرنا چاہتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو شرف قبولیت سے نوازا اور سورج غروب ہونے پہلے ہی شہید ہو گئے ابان بن سعید اس وقت کافر تھے پھر غزوہ احد کے بعد حدیبیہ سے پہلے مسلمان ہو گئے۔

امام بخاری ؒنے اس سے ثابت کیا ہے کہ قاتل اور مقتول دونوں جنت کے حقدار ہو سکتے ہیں جیسا کہ مذکورہ واقعے سے ظاہر ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر گناہ سے کوئی انسان توبہ کرلے تو پہلے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
پھر اسے اس گناہ کے باعث شرمندہ کرنا درست نہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2827   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4239  
4239. حضرت ابان بن سعید ؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی ﷺ کے پاس آئے اور سلام عرض کیا تو حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! یہ تو ابن قوقل کا قاتل ہے۔ حضرت ابان ؓ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہا: تجھ پر حیرت ہے، اے وبر! تو ضان پہاڑ سے اتر کر مجھے اس شخص کی موت کا طعنہ دیتا ہے جس کو اللہ تعالٰی نے میرے ہاتھوں عزت دی اور اس کو اپنے ہاتھوں میری توہین سے روک دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4239]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابان بن سعیدؓ کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میں نے ابن قوقل ؓ کو اگر شہید کیا تو وہ میرے کفر کا زمانہ تھا اور شہادت سے اللہ کی بارگاہ میں عزت حاصل ہوتی ہے جو میرے ہاتھوں انہیں حاصل ہوئی۔
دوسری طرف اللہ تعالی کا یہ بھی فضل ہوا کہ کفر کی حالت میں ان کے ہاتھ سے مجھے قتل نہیں کروایا جو میری اخروی ذلت کا سبب بنتا اور اب میں مسلمان ہوں اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہوں۔
لہذا اب ایسی باتوں کا ذ کر نہ کرنا بہتر ہے۔
آنحضرت ﷺ حضرت ابان ؓ کے اس بیان کو سن کر خاموش ہو گئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4239   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4239  
4239. حضرت ابان بن سعید ؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی ﷺ کے پاس آئے اور سلام عرض کیا تو حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! یہ تو ابن قوقل کا قاتل ہے۔ حضرت ابان ؓ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہا: تجھ پر حیرت ہے، اے وبر! تو ضان پہاڑ سے اتر کر مجھے اس شخص کی موت کا طعنہ دیتا ہے جس کو اللہ تعالٰی نے میرے ہاتھوں عزت دی اور اس کو اپنے ہاتھوں میری توہین سے روک دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4239]
حدیث حاشیہ:
ابان بن سعید ؓ نے مکہ مکرمہ میں حضرت عثمان ؓ کو اپنے ہاں پناہ دی تھی جب وہ (حضرت عثمان ؓ)
صلح حدیبیہ کے وقت مکہ مکرمہ میں رسول اللہ ﷺ کے نمائندے بن کر تشریف لائےتھے۔
ابان اس وقت کافر تھے اور صلح حدیبیہ کے بعد مسلمان ہوئے ہیں۔
سعید بن عاص بیان کرتے ہیں کہ بدر میں میرا والد قتل ہوگیا تو میرے چچا ابان نے میری پرورش کی اور یہ رسول اللہ ﷺ کا سخت ترین دشمن تھا اور آپ کو گالیاں دیتا تھا۔
میرا چچا شام کے علاقے میں گیا، واپس آیا توآپ ﷺ کو گالیاں دینے سے رک گیا۔
اس کا سبب دریافت کیا گیا تو اس نے کہا کہ وہ شام میں ایک راہب سے ملا تھا اور اس نے رسول اللہ ﷺ کی صفات سے مجھے آگاہ کیا، اس وقت سے ان کی صداقت ان کے دل میں بیٹھ گئی، چنانچہ تھوڑی یر بعد وہ مدینہ طیبہ آکر مسلمان ہوگئے۔
انھوں نے غزوہ اُحد میں نعمان بن قوقل کو شہید کیا تھا۔
اس حدیث میں حضرت ابان ؓ کے کلام کا حاصل یہ ہے کہ اس ن ابن قوقل کو قتل کیا جبکہ وہ اس وقت کافر تھا اور حضرت نعمان بن قوقل مسلمان تھے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں میرے ہاتھوں مقام شہادت عطا فرمایا اور اگرنعمان ؓ اس وقت مجھے قتل کردیتے تو میں دونوں جہانوں میں ذلیل ورسوا ہوجاتا اور ہمیشہ جہنم کا ایندھن بن جاتا۔
دراصل حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت ابان ؓ دونوں نے ایک دوسرے پر اعتراض کیا اور رسول اللہ ﷺ سے کہا:
اسے مال غنیمت سے حصہ نہ دیا جائے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ کا موقف تھا کہ یہ ابن قوقل کا قاتل ہے، اس بنا پر اسے قطعاً مال غنیمت سے کوئی حصہ نہ دیا جائے جبکہ ابان ؓ کہتے تھے کہ ضان پہاڑی سے اتر کر ہماری تقسیم میں خلل انداز ہونے کی تمھیں کیاضرورت ہے۔
بہرحاہل رسول اللہ ﷺ نے مجاہدین سے مشورے کے بعد حضرت ابوہریرہ ؓ کو اموال خیبر سے حصہ دیا لیکن ابان اوراس کے ساتھیوں کو کچھ نہ دیا۔
(فتح الباري: 615/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4239   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.