28. باب: کافر اگر کفر کی حالت میں مسلمان کو مارے پھر مسلمان ہو جائے، اسلام پر مضبوط رہے اور اللہ کی راہ میں مارا جائے تو اس کی فضیلت کا بیان۔
(28) Chapter. (What about) a disbeliever who kills a Muslim and later on embraces Islam and starts doing good deeds and gets killed (in Allah’s Cause)?
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة رضي الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" يضحك الله إلى رجلين يقتل احدهما الآخر يدخلان الجنة، يقاتل هذا في سبيل الله فيقتل، ثم يتوب الله على القاتل فيستشهد".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يَضْحَكُ اللَّهُ إِلَى رَجُلَيْنِ يَقْتُلُ أَحَدُهُمَا الْآخَرَ يَدْخُلَانِ الْجَنَّةَ، يُقَاتِلُ هَذَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيُقْتَلُ، ثُمَّ يَتُوبُ اللَّهُ عَلَى الْقَاتِلِ فَيُسْتَشْهَدُ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ابوالزناد سے ‘ انہوں نے اعرج سے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”(قیامت کے دن) اللہ تعالیٰ ایسے دو آدمیوں پر ہنس دے گا کہ ان میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کیا تھا اور پھر بھی دونوں جنت میں داخل ہو گئے۔ پہلا وہ جس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا وہ شہید ہو گیا ‘ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قاتل کو توبہ کی توفیق دی اور وہ بھی اللہ کی راہ میں شہید ہوا۔ اس طرح دونوں قاتل و مقتول بالآخر جنت میں داخل ہو گئے۔“
Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "Allah welcomes two men with a smile; one of whom kills the other and both of them enter Paradise. One fights in Allah's Cause and gets killed. Later on Allah forgives the 'killer who also get martyred (In Allah's Cause)."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 80
يضحك الله لرجلين يقتل أحدهما الآخر كلاهما يدخل الجنة قالوا كيف يا رسول الله قال يقتل هذا فيلج الجنة ثم يتوب الله على الآخر فيهديه إلى الإسلام ثم يجاهد في سبيل الله فيستشهد
يضحك الله إلى رجلين يقتل أحدهما الآخر كلاهما يدخل الجنة فقالوا كيف يا رسول الله قال يقاتل هذا في سبيل الله فيستشهد ثم يتوب الله على القاتل فيسلم فيقاتل في سبيل الله فيستشهد
يضحك الله لرجلين يقتل أحدهما الآخر كلاهما يدخل الجنة قالوا وكيف يا رسول الله قال يقتل هذا فيلج الجنة ثم يتوب الله على الآخر فيهديه إلى الإسلام ثم يجاهد في سبيل الله فيستشهد
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2826
حدیث حاشیہ: : یعنی قاعدہ تو یہ ہے کہ قاتل اور مقتول ایک ساتھ جنت یا جہنم میں جمع نہ ہوں‘ اگر مقتول اور شہید (اللہ کے راستے کا) جنتی ہے تو یقیناً ایسے انسان کا قاتل جہنم میں جائے گا لیکن اللہ پاک خود اپنی قدرت کے عجائبات ملاحظہ فرماتا ہے تو اسے ہنسی آجاتی ہے کہ ایک شخص نے کافروں کی طرف سے لڑتے ہوئے ایک مسلمان مجاہد کو شہید کردیا پھر خدا کی قدرت کہ اسے بھی یہ ایمان کی حالت نصیب ہوئی اور اس کے بعد وہ مسلمانوں کی طرف سے لڑتے ہوئے شہید ہوگیا اور اس طرح قاتل اور مقتول دونوں جنت میں داخل ہوگئے۔ اللہ پاک جب اپنی قدرت کا یہ عجوبہ دیکھتا ہے تو ہنسی آجاتی ہے جیسے اللہ کی اور صفات حق ہیں اس طرح اس کا ہنسنا بھی حق ہے۔ جس کی کیفیت میں کرید کرنا بدعت ہے‘ سلف کا یہی مسلک ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام لانے سے اور جہاد کرنے سے کفر کے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں‘ امام احمد اور ہمام کی روایت سے یہ صراحت نکلتی ہے کہ ان دو شخصوں میں ایک مومن تھا ایک کافر۔ پس اگر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو عمداً یعنی جان بوجھ کر کسی شرعی وجہ کے بغیر قتل کرکے قاتل توبہ کرے اور اللہ کی راہ میں شہید ہو تو اس کا گناہ معاف نہ ہوگا۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا یہی قول ہے کہ قاتل مومن کی توبہ قبول نہیں اور جمہور علماء کہتے ہیں کہ اس کی توبہ صحیح ہے اور آیت ﴿وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا﴾(النساء: 94) برطریق غلیظ ہے کہ لوگ اس سے باز رہیں‘ خلود سے مراد بہت مدت تک رہنا ہے (خلاصہ وحیدی) آج عیدالاضحیٰ ۹۱ھ کو جبکہ جماعت کی دعوت پر بمبئی عیدالاضحیٰ پڑھانے آیا ہوا تھا‘ یہ تشریحی بیان حوالۂ قلم کیا گیا۔ اللہ پاک آج کے مبارک دن میں یہ دعا قبول کرے کہ اس مبارک کتاب کی تکمیل کا شرف حاصل ہو۔ آمین یا رب العالمین۔ قال ابن الجوزي أکثر السلف یمتنعون من تأویل مثل ھذا ویرونه کما جاء وینبغي أن یراعي مثل في مثل ھذا الإمرار اعتقاد أنه یشبه صفات اللہ صفات الخلق و معنی الإمرار عدم العلم بالمراد منه مع اعتقاد التنزیه (فتح الباري) یعنی ابن جوزی نے فرمایا کہ اکثر سلف صالحین اس قسم کی صفات الٰہی کی تاویل منع جانتے ہیں بلکہ جس طرح یہ وارد ہوتی ہیں اسی طرح تسلیم کرتے ہیں‘ اس اعتقاد کے ساتھ کہ اللہ کی صفات مخلوق کی صفات کے مشابہ نہیں ہیں۔ تسلیم کرنے کا مطلب یہ کہ ہم کو ان کے معانی معلوم ہیں‘ کیفیت معلوم نہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2826
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2826
حدیث حاشیہ: 1۔ قاعدہ تو یہ ہے کہ قاتل اور مقتول ایک ساتھ جنت یا جہنم میں جمع نہ ہوں۔ اگر مقتول جنتی ہے تو یقیناً ایسے انسان کا قاتل جہنم میں جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ جب اپنی قدرت سے قاتل و مقتول دونوں کو جنت میں داخل کرتا ہے تو ہنس دیتا ہے وہ اس طرح کہ ایک شخص نے کافروں کی طرف سے لڑتے ہوئے ایک مسلمان کو شہید کردیا پھر اللہ تعالیٰ نے قاتل کو توبہ کی توفیق دی وہ مسلمان ہوگیا اور مسلمانوں کی طرف سے لڑتے لڑتے اس نے بھی جام شہادت نوش کر لیا تو اس طرح قاتل اور مقتول دونوں جنت میں داخل ہو گئے۔ 2۔ اس حدیث میں اللہ کی ایک صفت ضحک یعنی ہنسنے کا ذکر ہے۔ اسے ہم مبنی بر حقیقت تسلیم کرتے ہیں اس کی تاویل کرنا سلف صالحین کے موقف کے خلاف ہے البتہ اس کی کیفیت معلوم نہیں اور نہ اس کی کوئی مخلوق اس کی کسی صفت میں اس سے مشابہت ہی رکھتی ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2826
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 7
´صفات الہٰی کا بیان` «. . . 348- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”يضحك الله إلى رجلين يقتل أحدهما الآخر كلاهما يدخل الجنة، يقاتل هذا فى سبيل الله فيقتل، ثم يتوب الله على القاتل فيقاتل فيستشهد“ . . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ دو آدمیوں پر ہنستا ہے (جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے) جن میں سے ایک دوسرے کو قتل کرتا ہے (اور) دونوں جنت میں داخل ہو جاتے ہیں۔ یہ شخص فی سبیل اللہ قتال کرتا ہے تو قتل ہو جاتا ہے پھر اللہ تعالیٰ قاتل کو توبہ (اسلام قبول کرنے) کی توفیق دیتا ہے پھر وہ قتال کرتا ہے تو شہید ہو جاتا ہے۔“ . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 7]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2826، من حديث مالك، ومسلم 1890، من حديث ابي الزناد به ورواه النسائي 6/38، 39 ح3168، من حديث عبدالرحمٰن بن القاسم به] تفقه: ➊ روایت مذکورہ میں قاتل کافر اور مقتول مسلمان ہے۔ مسلمان میدان جنگ میں کافر کے ہاتھوں شہید ہوا ہے۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے کافر کو مسلمان ہونے کی توفیق بخشی لہٰذا سابق کافر اور حال مسلمان نے اسلام قبول کرنے کے بعد کافروں سے جہاد کیا جس میں اسے بھی شہادت کا رتبہ مل گیا۔ اس لحاظ سے سابقہ قاتل وحال مقتول دونوں جنتی ہیں۔ ➋ اللہ تعالیٰ کا ہنسنا اور استہزاء فرمانا اس کی ایک صفت ہے۔ «كما يليق بجلاله عز وجل»، اسے مخلوق سے مشابہت دینا باطل ومردود ہے۔ ➌ اہلِ ایمان کو ہر وقت جہاد میں مستعد رہنا چاہئے۔ ➍ اللہ تعالیٰ نے مجاہدین و شہداء کے لئے جنت کے دروازے کھول رکھے ہیں۔ ➎ سچی توبہ کرنے سے سابقہ تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ ➏ ایمان قول وعمل اور دلی یقین کا نام ہے۔ ➐ حافظ ابن عبدالبر نے اللہ تعالیٰ کے ہنسنے سے اس کا رحم (اور فضل وکرم) مراد لیا ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 18/345] لیکن ابن الجوزی کے نزدیک اس عقیدے کے ساتھ اسے بیان کرنا چاہئے کہ یہ اللہ کی صفت ہے اور مخلوق سے مشابہ نہیں ہے۔ دیکھئے: [فتح الباري 6/40 ح2822] اور یہی راجح ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 348
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3168
´قاتل اور شہید دونوں کے جنت میں جانے کی تفسیر۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ دو آدمیوں کو دیکھ کر ہنستا ہے۔ (دونوں لڑتے ہیں) ایک دوسرے کو قتل کر دیتا ہے۔ لیکن دونوں جنت میں جاتے ہیں، ایک اللہ کے راستے میں جہاد کرتا ہے، تو وہ قتل ہو جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ مارنے والے کو توبہ کی توفیق دیتا ہے اور اس کی توبہ کو قبول کر لیتا ہے۔ پھر وہ اللہ کے راستے میں جہاد کرتا ہے اور شہادت پا جاتا ہے۔“(اس طرح دونوں جنت کے مستحق ہو ج [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3168]
اردو حاشہ: (1) مندرجہ بالا روایات میں تعجب کرنے‘ ہنسنے اور خوش ہونے کا ذکر ہے‘ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے بارے میں ان الفاظ کا استعمال بلاریب درست ہے۔ مراد جو بھی ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات کا مسئلہ ہماری عقل سے ماوراء ہے۔ اس کی بحث فضول ہے۔ قرآن وحدیث میں جو الفاظ وصفات اللہ تعا لیٰ کے لیے استعمال کیے گئے ہیں‘ ان کا استعمال جائز ہے کہ رسول اللہﷺ کو لقمے اور ہدایات دے کر فلاں لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا‘ فلاں کرنا چاہیے تھا۔ اللہ اور اس کے رسول سب سے بڑھ کر اور بخوبی علم رکھنے والے ہیں۔ (2) اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل عظیم اور رحمت کا واسعہ کا ذکر ہے کہ قاتل کی توبہ قول فرماکر اسے بھی جنت کا حق دار بنادیا۔ (3) اعمال کا دارومدار خاتمے اور انجام پر ہے۔ اگر خاتمہ بالخیر ہوا ہے تو پہلی زندگی کے گناہ کچھ نقصان نہیں دیں گے۔ اور اگر انجام براءی پر ہوا ہے تو پہلی زندگی کی نیکیاں کچھ کام نہیں آئیں گی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3168
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث191
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ان دو افراد کے حال پر ہنستا ہے جن میں سے ایک دوسرے کو قتل کرتا ہے، اور دونوں جنت میں داخل ہوتے ہیں، ایک اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتال کرتا ہے اور شہید کر دیا جاتا ہے، پھر اس کے قاتل کو اللہ تعالیٰ توبہ کی توفیق دیتا ہے، اور وہ اسلام قبول کر لیتا ہے، پھر اللہ کی راہ میں لڑائی کرتا ہے اور شہید کر دیا جاتا ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 191]
اردو حاشہ: (1) اس سے اللہ کی صفت ضحك (ہنسنا) کا ثبوت ملتا ہے لیکن اللہ کی صفات پر ایمان رکھنے کے باوجود انہیں مخلوق کی صفات سے تشبیہ دینا جائز نہیں۔
(2) اللہ کا ہنسنا اس کی رضا مندی اور خوشنودی کا اظہار ہے اور رضا (خوشنودی) بھی اللہ کی ایک صفت ہے۔
(3) انسانوں کے انجام کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے، بڑے سے بڑے مجرم کے بارے میں یہ امید کی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ہدایت سے نواز دے، اس لیے جب تک کسی شخص کی موت کفر پر نہیں ہوتی اس کے بارے میں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ اسے ہدایت نصیب نہیں ہو گی، لہذا اسے تبلیغ کرتے رہنا چاہیے۔
(4) اسلام قبول کرنے کی وجہ سے پہلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، اس لیے دوسرے آدمی کو ایک مومن کے قتل کے باوجود جہنم کی سزا نہیں ملی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 191
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1155
1155- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”اللہ تعالیٰ دو ایسے افراد پر ہنس دیتا ہے جن میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کیا ہوتا ہے لیکن وہ ایک ساتھ جنت میں داخل ہوں گے ان دونوں میں سے ایک کافر تھا، تواس نے دوسرے کوقتل کردیا، پھر وہ کافرمسلمان ہوکر وہ بھی شہید ہوجاتا ہے (تووہ بھی جنت میں جائے گا)“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1155]
فائدہ: اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ”ہنسنا“ ثابت ہوتی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ہنستے بھی ہیں لیکن اس کی مثال، کیفیت اور تشبیہ دینا منع ہے، بس ہم یہی کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہنستا ہے «كما يليق شانه» جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔ نیز اس حدیث میں شہادت کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زندگی میں بعض اچھے موڑ بھی آتے ہیں کہ جن پر انسان غور و فکر کر کے اپنے آپ کو راہ راست پر لاسکتا ہے، اس سے اس کا مقام و مرتبہ بہت اونچا ہو جاتا ہے، اس کی مثال بھی حدیث میں موجود ہے کہ جو کافر آج کسی مسلمان کو شہید کر دیتا ہے کل کو وہی کافر مسلمان ہوتا ہے اور خود میدان جہاد میں اترتا ہے، اور خود بھی کفار سے لڑتا ہوا شہید ہو جا تا ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1153
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4894
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ان دو آدمیوں کو دیکھ کر ہنستا ہے، جن میں سے ایک دوسرے کو قتل کرتا ہے، دونوں جنت میں داخل ہو جاتے“ صحابہ کرام نے دریافت کیا، کیسے ہو گا؟ اے اللہ کے رسولﷺ! آپﷺ نے فرمایا: ”ایک مقتول ہو کر جنت میں داخل ہو جاتا ہے، پھر دوسرے پر اللہ تعالیٰ نظر رحمت فرماتا ہے اور اسے اسلام کی ہدایت دیتا ہے، پھر وہ اللہ کی راہ میں لڑ کر شہادت پا لیتا ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4894]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اللہ تعالیٰ ہنستا ہے، لیکن اس کی ہنسی اسی کے شان کے لائق ہوتی ہے، اس کی حقیقت کو نہیں جانا جا سکتا اور نہ ہی اس کی کیفیت بیان کرنے کی ضرورت ہے، اس لیے تشبیہ و تمثیل کی طرح تاویل کی بھی ضرورت نہیں ہے۔