(مرفوع) حدثنا عاصم بن علي، حدثنا ابن ابي ذئب، عن المقبري، عن ابيه، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" يا نساء المسلمات، لا تحقرن جارة لجارتها ولو فرسن شاة".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يَا نِسَاءَ الْمُسْلِمَاتِ، لَا تَحْقِرَنَّ جَارَةٌ لِجَارَتِهَا وَلَوْ فِرْسِنَ شَاةٍ".
ہم سے عاصم بن علی ابوالحسین نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے سعید مقبری نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اے مسلمان عورتو! ہرگز کوئی پڑوسن اپنی دوسری پڑوسن کے لیے (معمولی ہدیہ کو بھی) حقیر نہ سمجھے، خواہ بکری کے کھر کا ہی کیوں نہ ہو۔“
Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "O Muslim women! None of you should look down upon the gift sent by her sheneighbor even if it were the trotters of the sheep (fleshless part of legs).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 47, Number 740
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2566
حدیث حاشیہ: جس پر بہت ہی ذرا سا گوشت ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اپنی ہمسائی کا ہدیہ خوشی سے قبول کرے، اس کے لینے سے ناک بھوں نہ چڑھائے۔ نہ زبان سے کوئی ایسی بات نکالے جس سے اس کی حقارت نکلے۔ کیوں کہ ایسا کرنے سے اس کے دل کو رنج ہوگا اور کسی مسلمان کا دل دکھانا بڑا گناہ ہے۔ حدیث سے باب کا مطلب یوں نکلا کہ اپنے پڑوس والوں کو تحفہ تحائف پیش کرنا سنت ہے گو وہ کم قیمت ہی کیوں نہ ہو۔ روایت میں بکری کے کھر کا ذکر ہے جو بیکار جان کر پھینک دیا جاتا ہے۔ اس کا ذکر ہدیہ کی کم قیمتی کے ظاہر کرنے کے لیے کیاگیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2566
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2566
حدیث حاشیہ: (1) مطلب یہ ہے کہ چھوٹے سے چھوٹا تحفہ، خواہ کتنا حقیر معلوم ہو اپنی پڑوسن کو بھیجنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ بسا اوقات تحفہ دینے کے لیے کوئی چیز موجود ہوتی ہے لیکن خیال آ جاتا ہے کہ یہ تو حقیر چیز ہے اسے دینے کا کیا فائدہ، یہ خیال غلط ہے۔ اسی طرح جس کے پاس چھوٹا سا تحفہ بھیجا جائے وہ خوش دلی سے قبول کرے کیونکہ تحائف کے تبادلے سے خوشگوار ماحول پیدا ہوتا ہے۔ (2) بکری کے کھر سے مراد کسی چیز کے معمولی ہونے میں مبالغہ ہے کیونکہ عادت کے طور پر کھر کا ہدیہ نہیں بھیجا جاتا۔ بہرحال جو بھی شے موجود ہو اپنی پڑوسن کو بھیجے اور قلیل ہونے کے باعث اس کو حقیر خیال نہ کرے کیونکہ سخاوت موجود چیز کی ہوتی ہے تھوڑی سی خیرات کرنا بالکل نہ کرنے سے بہتر ہے۔ (فتح الباري: 345/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2566
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2379
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے۔ ”اے مسلمان عورتو! پڑوسن پڑوسن کے لیے تحفہ حقیر نہ سمجھے اگرچہ وہ بکری کا کھر ہی ہو۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:2379]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (1) ایک دوسرے کے معمولی اور کم تحفہ کو حقیر خیال نہیں کرنا چاہیے کیونکہ مقصود تو دلی محبت و پیار اور تعلق کا اظہار ہے کہ معمولی چیز کے وقت بھی یاد رکھا بڑی چیز کی صورت کیونکر نظرانداز کرے گا۔ (2) کوفی نحویوں کے نزدیک نساء المسلمات میں نساء موصوف اور المسلمات صفت ہے اور موصوف کی صفت کی طرف اضافت جائز ہے۔ بصری نحویوں کے نزدیک یہاں موصوف محذوف ہے یعنی: (نساء النفس المسلمات يا إِيْجَاءَاتٌ المسلمات)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2379
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6017
6017. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ فرمایا کرتے تھے: ”اے مسلمان عورتو! کوئی پڑوسن اپنی پروسن کے لیے معمولی اور حقیر خیال نہ کرے اگرچہ بکری کی کھری کا ہدیہ ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6017]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث کے دومعنی ہیں: ٭کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کو ہدیہ دینے میں حقیر خیال نہ کرے اگرچہ وہ بکری کا پایہ ہو، اور اسے خوش رکھنے کی کوشش کرے۔ ٭کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن سے ہدیہ لینے میں حقیر نہ سمجھے اگرچہ وہ بکری کا پایہ ہو، اسے حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ مقصد یہ ہے کہ ہدیہ دینے لینے کا تبادلہ ہوتا رہنا چاہیے، اس سے محبت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں اور باہمی بغض وعداوت ختم ہوتی ہے۔ (2) عورتوں کو اس لیے تلقین کی گئی ہے کہ ان کےجذبات بہت جلد متأثر ہو جاتے ہیں اور ان کا آبگینۂ محبت بہت جلد چور چور ہوتا ہے۔ (فتح الباري: 547/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6017