صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: کھیتی باڑی اور بٹائی کا بیان
The Book of Cultivation and Agriculture
3. بَابُ اقْتِنَاءِ الْكَلْبِ لِلْحَرْثِ:
3. باب: کھیتی کے لیے کتا پالنا۔
(3) Chapter. Keeping a watch-dog for the farm.
حدیث نمبر: 2323
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن يزيد بن خصيفة، ان السائب بن يزيد حدثه، انه سمع سفيان بن ابي زهير رجلا من ازد شنوءة، وكان من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" من اقتنى كلبا لا يغني عنه زرعا ولا ضرعا، نقص كل يوم من عمله قيراط". قلت: انت سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: إي ورب هذا المسجد.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ، أَنَّ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ سُفْيَانَ بْنَ أَبِي زُهَيْرٍ رَجُلًا مِنْ أَزْدِ شَنُوءَةَ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنِ اقْتَنَى كَلْبًا لَا يُغْنِي عَنْهُ زَرْعًا وَلَا ضَرْعًا، نَقَصَ كُلَّ يَوْمٍ مِنْ عَمَلِهِ قِيرَاطٌ". قُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: إِي وَرَبِّ هَذَا الْمَسْجِدِ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں یزید بن خصیفہ نے، ان سے سائب بن یزید نے بیان کیا کہ سفیان بن زہیر نے ازدشنوہ قبیلے کے ایک بزرگ سے سنا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ جس نے کتا پالا، جو نہ کھیتی کے لیے ہے اور نہ مویشی کے لیے، تو اس کی نیکیوں سے روزانہ ایک قیراط کم ہو جاتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں ہاں! اس مسجد کے رب کی قسم! (میں نے ضرور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے)۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated As-Sa'ib bin Yazid: Abu Sufyan bin Abu Zuhair, a man from Azd Shanu'a and one of the companions of the Prophet said, "I heard Allah's Apostle saying, 'If one keeps a dog which is meant for guarding neither a farm nor cattle, one Qirat of the reward of his good deeds is deducted daily." I said, "Did you hear this from Allah's Apostle?" He said, "Yes, by the Lord of this Mosque."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 39, Number 516


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري3325سائب بن يزيدمن اقتنى كلبا لا يغني عنه زرعا ولا ضرعا نقص من عمله كل يوم قيراط
   صحيح البخاري2323سائب بن يزيدمن اقتنى كلبا لا يغني عنه زرعا ولا ضرعا نقص كل يوم من عمله قيراط
   صحيح مسلم4036سائب بن يزيدمن اقتنى كلبا لا يغني عنه زرعا ولا ضرعا نقص من عمله كل يوم قيراط
   سنن النسائى الصغرى4290سائب بن يزيدمن اقتنى كلبا لا يغني عنه زرعا ولا ضرعا نقص من عمله كل يوم قيراط
   سنن ابن ماجه3206سائب بن يزيدمن اقتنى كلبا لا يغني عنه زرعا ولا ضرعا نقص من عمله كل يوم قيراط

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2323 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2323  
حدیث حاشیہ:
قیراط یہاں عنداللہ ایک مقدار معلوم ہے۔
مراد یہ کہ بے حد نیکیاں کم ہوجاتی ہیں جس کی وجوہ بہت ہیں۔
ایک تو یہ کہ ایسے گھر میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے، دوسرے یہ کہ ایسا کتا گزرنے والوں اور آنے جانے والے مہمان پر حملہ کے لیے دوڑتا ہے جس کا گناہ کتا پالنے والے پر ہوتا ہے۔
تیسرے یہ کہ وہ گھر کے برتنوں کو منہ ڈال ڈال کر ناپاک کرتا رہتا ہے۔
چوتھے یہ کہ وہ نجاستیں کھا کھا کر گھر پر آتا ہے اور بدبو اور دیگر امراض اپنے ساتھ لاتا ہے اور بھی بہت سے وجوہ ہیں۔
اس لیے شریعت اسلامی نے گھر میں بے کار کتا رکھنے کی سختی کے ساتھ ممانعت کی ہے۔
شکاری کتے اور تربیت دیئے ہوئے دیگر محافظ کتے اس سے الگ ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2323   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2323  
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کتا رکھنے کے جواز سے کھیتی باڑی کے جواز کو ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
کتا رکھنا منع ہے، لہٰذا جب کھیتی باڑی کی وجہ سے اس کا پالنا اور رکھنا جائز ہے تو کم ازکم کھیتی باڑی مباح تو ضرور ہوگی۔
(2)
اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ کتا رکھنے والے کے اعمال کا ثواب کم ہوتا رہتا ہے، اس کمی کے کئی ایک اسباب ہیں، مثلاً:
٭ کتا رکھنے سے رحمت کے فرشتے گھر میں داخل نہیں ہوتے۔
٭ اس سے مسافروں کو تکلیف پہنچتی ہے۔
٭ کثرت نجاسات کھانے کی وجہ سے یہ بدبو کا باعث ہے۔
٭ بعض کتوں کو شیطان کہا گیا ہے۔
٭ اہل خانہ کی غفلت کی وجہ سے برتنوں کو سونگھتا پھرتا ہے اور انھیں پلید کردیتا ہے۔
لیکن وہ کتا مستثنیٰ ہے جس سے کوئی نفع ہو۔
مصلحت کو اس کے فساد پر ترجیح ہوگی۔
کھیتی، ریوڑ کی حفاظت اور شکار کے لیے کتے تو قدیم زمانے سے رکھے جاتے ہیں۔
دور حاضر میں تفتیشی کتے بھی رکھے جاتے ہیں، فوج میں سراغ رسانی کے لیے انھیں استعمال کیا جاتا ہے۔
ہمارے نزدیک شوقیہ اور فیشن کے طور پر جو کتے رکھے جاتے ہیں وہ مذکورہ وعید کی زد میں آتے ہیں۔
والله أعلم. قیراط سے کیا مراد ہے؟ اس کی صحیح مقدار تو اللہ ہی جانتا ہے، البتہ ایک تصور دلایا گیا ہے کہ ایسا کام کرنے سے ثواب میں اتنی کمی ہوجائے گی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2323   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3325  
3325. حضرت سفیان بن ابو زہیر شنوی ؓسے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: جس نے کوئی کتاپالا، جس سے نہ تو کسی کو فائدہ پہنچتا ہے اور نہ مویشیوں ہی کے کام آتا ہے تو اس کے اعمال میں سے ہر روز ایک قیراط کم ہوتا رہتا ہے۔ حضرت سائب بن یزید ؓنے پوچھا: کیا اس حدیث کو آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے؟ توانھوں نے کہا: جی ہاں، مجھے اس قبلے کے رب کی قسم ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3325]
حدیث حاشیہ:

جو کتے مویشیوں یا کھیتی کی حفاظت یا شکار کے لیے رکھے گئے ہوں وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔
ان کے علاوہ جو کتے شوقیہ طور پر رکھے جائیں۔
ان کے لیے مذکورہ وعید ہے۔

بعض روایات میں ہے کہ شوقیہ کتے رکھنے والے کے نیک اعمال سے روزانہ دوقیراط کم ہوتے رہیں گے۔
(صحیح البخاري، الذبائح والصید، حدیث: 5480)
ان دونوں روایات میں تضاد نہیں ہے کیونکہ جب لوگ اس سے باز نہ آئے تو بطور زجر و توبیخ دوقیراط فرمایا کتے کی اذیت کے پیش نظر فرمایا کہ جس کتے سے اذیت زیادہ ہواسے پالنے سے دوقیراط ثواب کم اور جس سے اذیت کم ہو، اس کے پالنے سے ایک قیراط ثواب کم ہوتارہتاہے یا یہ اختلاف جگہ کے اعتبار سے ہوگا کہ مدینہ طیبہ میں ایسے کتے پالنے سے دوقیراط اور دیگر مقامات پرایک قیراط اوردیگر مقامات پر ایک قیراط ثواب کم ہوتا رہے گا۔
قیراط کی مقدار اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔
(عمدة القاري: 671/10)

کتے کبھی نہ کبھی کسی کا ضرور نقصان کردیتے ہیں، اس نقصان کے عوض اس کے پالنے والے پرذمہ داری ہوگی۔
حفاظت یا شکار کے لیے جو کسی رکھے جائیں، ان پر مالک کا ضرور کنٹرول ہوتا ہے، اس لیے انھیں مستثنیٰ کردیا گیا ہے۔
یہ کتاب بدء الخلق کا آخری باب ہے، اس لیے ان احادیث کا ذکر ہوا جس میں کسی نہ کسی حوالے سے حیوانات کاتذکرہ ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3325   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.