صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: کھیتی باڑی اور بٹائی کا بیان
The Book of Cultivation and Agriculture
4. بَابُ اسْتِعْمَالِ الْبَقَرِ لِلْحِرَاثَةِ:
4. باب: کھیتی کے لیے بیل سے کام لینا۔
(4) Chapter. Employing oxen for ploughing.
حدیث نمبر: 2324
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن سعد بن إبراهيم، قال: سمعت ابا سلمة، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" بينما رجل راكب على بقرة التفتت إليه، فقالت: لم اخلق لهذا خلقت للحراثة، قال: آمنت به انا، وابو بكر، وعمر، واخذ الذئب شاة، فتبعها الراعي، فقال له الذئب: من لها يوم السبع، يوم لا راعي لها غيري، قال: آمنت به انا، وابو بكر، وعمر". قال ابو سلمة: وما هما يومئذ في القوم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" بَيْنَمَا رَجُلٌ رَاكِبٌ عَلَى بَقَرَةٍ الْتَفَتَتْ إِلَيْهِ، فَقَالَتْ: لَمْ أُخْلَقْ لِهَذَا خُلِقْتُ لِلْحِرَاثَةِ، قَالَ: آمَنْتُ بِهِ أَنَا، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَأَخَذَ الذِّئْبُ شَاةً، فَتَبِعَهَا الرَّاعِي، فَقَالَ لَهُ الذِّئْبُ: مَنْ لَهَا يَوْمَ السَّبُعِ، يَوْمَ لَا رَاعِيَ لَهَا غَيْرِي، قَالَ: آمَنْتُ بِهِ أَنَا، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ". قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: وَمَا هُمَا يَوْمَئِذٍ فِي الْقَوْمِ.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سعد بن ابراہیم نے انہوں نے ابوسلمہ سے سنا اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (بنی اسرائیل میں سے) ایک شخص بیل پر سوار ہو کر جا رہا تھا کہ اس بیل نے اس کی طرف دیکھا اور اس سوار سے کہا کہ میں اس کے لیے نہیں پیدا ہوا ہوں۔ میری پیدائش تو کھیت جوتنے کے لیے ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس پر ایمان لایا اور ابوبکر اور عمر بھی ایمان لائے۔ اور ایک دفعہ ایک بھیڑئیے نے ایک بکری پکڑ لی تھی تو گڈریے نے اس کا پیچھا کیا۔ بھیڑیا بولا! آج تو تو اسے بچاتا ہے۔ جس دن (مدینہ اجاڑ ہو گا) درندے ہی درندے رہ جائیں گے۔ اس دن میرے سوا کون بکریوں کا چرانے والا ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس پر ایمان لایا اور ابوبکر اور عمر بھی۔ ابوسلمہ نے کہا کہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما اس مجلس میں موجود نہیں تھے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "While a man was riding a cow, it turned towards him and said, 'I have not been created for this purpose (i.e. carrying), I have been created for sloughing." The Prophet added, "I, Abu Bakr and `Umar believe in the story." The Prophet went on, "A wolf caught a sheep, and when the shepherd chased it, the wolf said, 'Who will be its guard on the day of wild beasts, when there will be no shepherd for it except me?' "After narrating it, the Prophet said, "I, Abu Bakr and `Umar too believe it." Abu Salama (a sub-narrator) said, "Abu Bakr and `Umar were not present then."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 39, Number 517


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2324 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2324  
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ نے باب کے تحت اس حدیث کو درج فرمایا۔
جس میں ایک اسرائیلی مرد کا اور ایک بیل کا مکالمہ مذکور ہوا ہے۔
وہ اسرائیلی بیل کو سواری کے کام میں استعمال کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بیل کو انسانی زبان میں بولنے کی طاقت دی اور وہ کہنے لگا کہ میں کھیتی کے لیے پیدا ہوا ہوں، سواری کے لیے نہیں ہوا۔
چونکہ یہ بولنے کا واقعہ خرق عادت سے تعلق رکھتا ہے اور اللہ پاک اس پر قادر ہے کہ وہ بیل جیسے جانور کو انسانی زبان میں گفتگو کی طاقت بخش دے۔
اس لیے اللہ کے محبوب رسول ﷺ نے اس پر اظہار ایمان فرمایا۔
بلکہ ساتھ ہی حضرات شیخین کو بھی شامل فرما لیا کہ آپ کو ان پر اعتماد کامل تھا حالانکہ وہ ہر دو وہاں اس وقت موجود بھی نہ تھے۔
و إنما قال ذلك رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ثقة بهما لعلمه بصدق إیمانهما و قوة یقینهما و کمال معرفتهما بقدرة اللہ تعالیٰ (عینی)
یعنی آنحضرت ﷺ نے یہ اس لیے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان ہر دوپر اعتماد تھا۔
آپ ﷺ ان کے ایمان اور یقین کی صداقت اور قوت سے واقف تھے اور جانتے تھے کہ ان کو بھی قدرت الٰہی کی معرفت بدرجہ کمال حاصل ہے اس لیے آپ نے اس ایمان میں ان کو بھی شریک فرما لیا۔
رضي اللہ عنهما و أرضاهما۔
حدیث کا دوسرا حصہ بھیڑیے سے متعلق ہے جو ایک بکری کو پکڑ کر لے جارہا تھا کہ چرواہے نے اس کا پیچھا کیا اور اللہ نے بھیڑیے کو انسانی زبان میں بولنے کی طاقت عطا فرمائی اور اس نے چرواہے سے کہا کہ آج تو تم نے اس بکری کو مجھ سے چھڑا لیا۔
مگر اس دن ان بکریوں کو ہم سے کون چھڑائے گا جس دن مدینہ اجاڑ ہو جائے گا۔
اور بکریوں کا چرواہا ہمارے سوا کوئی نہ ہوگا۔
قال القرطبي کأنه یشیر إلی حدیث أبي هریرة المرفوع یترکون المدینة علی خبر ما کان لا یغشاها إلا العوافي یرید السباع و الطیر۔
قرطبی نے کہا کہ اس میں اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جو مرفوعاً حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ لوگ مدینہ کو خیریت کے ساتھ چھوڑ جائیں گے۔
واپسی پر دیکھیں گے کہ وہ سارا شہر درندوں، چرندوں اور پرندوں کا مسکن بنا ہوا ہے۔
اس بھیڑیے کی آواز پر بھی آنحضرت ﷺ نے اظہا رایمان فرماتے ہوئے حضرات صاحبین کو بھی شریک فرمایا۔
خلاصہ یہ کہ حضرت امام بخاری ؒ نے جو باب منعقد فرمایا تھا وہ حدیث بیل کے مکالمہ والے حصہ سے ثابت ہوتا ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان جب سے عالم شعور میں آکر زراعت کی طرف متوجہ ہوا تو زمین کو قابل کاشت بنانے کے لیے اس نے زیادہ تر بیل ہی کا استعمال کیا ہے۔
اگرچہ گدھے، گھوڑے، اونٹ، بھینسے بھی بعض بعض ملکوں میں ہلوں میں جوتے جاتے ہیں۔
مگر عموم کے لحاظ سے بیل ہی کو قدرت نے اس خدمت جلیلہ کا اہل بنایا ہے۔
آج اس مشینی دور میں بھی بیل کے بغیر چارہ نہیں جیسا کہ مشاہدہ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2324   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2324  
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ گائے بیل کو کھیتی باڑی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اگرچہ ان میں دیگر منافع اور فوائد بھی ہیں، مثلاً:
ان کا گوشت کھانا، دودھ حاصل کرنا وغیرہ، تاہم انھیں کھیتی باڑی کے لیے استعمال کرنا تو نص سے ثابت ہے۔
بیل کا یہ کہنا کہ میں کھیتی کےلیے پیدا کیا گیا ہوں، اس میں حصر نہیں بلکہ اس سے دیگر منافع بھی حاصل ہوسکتے ہیں جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔
ایک فائدے کے ذکر کرنے سے دوسرے کی نفی نہیں ہوتی۔
اگرچہ اس مشینی دور میں اس کے استعمال میں کچھ کمی آئی ہے، تاہم اب بھی پیشۂ زراعت اس کے بغیر ادھورا ہے۔
(2)
واضح رہے کہ اس حدیث میں کوئی بات خلاف عقل نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حیوانات کو بھی زبان دی ہے، وہ جب چاہے ان میں قوت گویائی پیدا کرسکتا ہے، ان کا بات کرنا کوئی دشوار معاملہ نہیں، البتہ خلاف عادت ضرور ہے۔
چونکہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اس کی خبر دی ہے، لہٰذا ہمیں اس پر ایمان اور یقین ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے شیخین (حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ)
کے متعلق جو فرمایا ہے وہ ان کےایمان پر پختہ اعتماد اور قوت یقین کا اظہار ہے۔
والله أعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2324   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.