وقول الله تعالى: افرايتم ما تحرثون {63} اانتم تزرعونه ام نحن الزارعون {64} لو نشاء لجعلناه حطاما سورة الواقعة آية 62-64.وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَحْرُثُونَ {63} أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ {64} لَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَاهُ حُطَامًا سورة الواقعة آية 62-64.
اور (سورۃ الواقعہ میں) اللہ تعالیٰ کا فرمان «أفرأيتم ما تحرثون * أأنتم تزرعونه أم نحن الزارعون * لو نشاء لجعلناه حطاما»”یہ تو بتاؤ جو تم بوتے ہو کیا اسے تم اگاتے ہو، یا اس کے اگانے والے ہم ہیں، اگر ہم چاہیں تو اسے چورا چورا بنا دیں۔“
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، (دوسری سند) اور مجھ سے عبدالرحمٰن بن مبارک نے بیان کیا ان سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کوئی بھی مسلمان جو ایک درخت کا پودا لگائے یا کھیتی میں بیج بوئے، پھر اس میں سے پرند یا انسان یا جانور جو بھی کھاتے ہیں وہ اس کی طرف سے صدقہ ہے مسلم نے بیان کیا کہ ہم سے ابان نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے۔
Narrated Anas bin Malik: Allah's Apostle said, "There is none amongst the Muslims who plants a tree or sows seeds, and then a bird, or a person or an animal eats from it, but is regarded as a charitable gift for him."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 39, Number 513
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2320
حدیث حاشیہ: اس حدیث کا شان ورود امام مسلم نے یوں بیان کیا کہ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى أُمِّ مُبَشِّرٍ الْأَنْصَارِيَّةِ فِي نَخْلٍ لَهَا، فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ غَرَسَ هَذَا النَّخْلَ؟ أَمُسْلِمٌ أَمْ كَافِرٌ؟» فَقَالَتْ: بَلْ مُسْلِمٌ، فَقَالَ: «لَا يَغْرِسُ مُسْلِمٌ غَرْسًا، وَلَا يَزْرَعُ زَرْعًا، فَيَأْكُلَ مِنْهُ إِنْسَانٌ، وَلَا دَابَّةٌ، وَلَا شَيْءٌ، إِلَّا كَانَتْ لَهُ صَدَقَةً» یعنی رسول اللہ ﷺ نے ایک انصاری عورت ام مبشر نامی کا لگایا ہوا کھجور کا درخت دیکھا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو مسلمان کوئی درخت لگائے پھر اس سے آدمی یا پرندے یا جانور کھائیں تو یہ سب کچھ اس کی طرف سے صدقہ میں لکھا جاتا ہے۔ حدیث انس روایت کردہ امام بخاری میں مزید وسعت کے ساتھ لفظ او یزرع زرعا بھی موجود ہے یعنی باغ لگائے یا کھیتی کرے۔ تو اس سے جو بھی آدمی، جانور، فائدہ اٹھائیں اس کے مالک کے ثواب میں بطور صدقہ لکھا جاتا ہے۔ حافظ ؒفرماتے ہیں: و في الحدیث فضل الغرس و الزرع و الحض علی عمارة الأرض۔ یعنی اس حدیث میں باغبانی اور زراعت اور زمین کو آباد کرنے کی فضیلت مذکور ہے۔ فی الواقع کھیتی کی بڑی اہمیت ہے کہ انسان کی شکم پری کا بڑا ذریعہ کھیتی ہی ہے۔ اگرکھیتی نہ کی جائے تو غلہ کی پیداوار نہ ہو سکے اسی لیے قرآن و حدیث میں اس فن کا ذکر بھی آیا ہے۔ مگر جو کاروبار یاد خدا اور فرائض اسلام کی ادائیگی میں حارج ہو، وہ الٹا وبال بھی بن جاتا ہے۔ کھیتی کا بھی یہی حال ہے کہ بیشتر کھیتی باڑی کرنے والے یاد الٰہی سے غافل اور فرائض اسلام میں سست ہوجاتے ہیں۔ اس حالت میں کھیتی اور اس کے آلات کی مذمت بھی وارد ہے۔ بہرحال مسلمان کو دنیاوی کاروبارکے ساتھ ہر حال میں اللہ کو یاد رکھنا اور فرائض اسلام کو ادا کرنا ضروری ہے۔ واللہ هو الموفق الحمد للہ حدیث بالا کے پیش نظر میں نے بھی اپنے کھیتوں واقع موضع رہپوہ میں کئی درخت لگوائے ہیں جو جلد ہی سایہ دینے کے قابل ہونے والے ہیں۔ امسال عزیز نذیر احمد رازی نے ایک بڑکا پودا نصب کیا ہے جسے وہ دہلی سے لے گئے تھے۔ اللہ کرے کہ وہ پروان چڑھ کر صدہا سالوں کے لیے ذخیرہ حسنات بن جائے اور عزیزان خلیل احمد و نذیر احمد کو توفیق دے کہ وہ کھیتی کا کام ان ہی احادیث کی روشنی میں کریں جس سے ان کو برکات دارین حاصل ہوں گی۔ آج یوم عاشورہ محرم 1390ھ کو کعبہ شریف میں یہ درخواست رب کعبہ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ آمین یارب العالمین
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2320
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2320
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے باغبانی، زراعت اور زمین آباد کرنے کی فضیلت ثابت کی ہے۔ مسلمان کی تخصیص اس لیے ہے کہ کافر کو آخرت میں ثواب نہیں ملے گا، البتہ دنیا میں اسے اچھے کام کا اچھا بدلہ مل سکتا ہے۔ مسلمان کے لیے یہ ثواب قیامت تک کے لیے ہے۔ (فتح الباري: 6/5) (2) بعض علماء کہتے ہیں: کھیتی باڑی دیگر کاموں سے افضل ہے جبکہ بعض حضرات صنعت وحرفت کی فضیلت کے قائل ہیں۔ کچھ اہل علم تجارت کو افضل کہتے ہیں، لیکن اکثر احادیث میں دستکاری کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ دراصل افضلیت لوگوں کے احوال کے اعتبار سے ہے جہاں لوگ خوراک کے زیادہ محتاج ہوں وہاں زراعت افضل ہے تاکہ وہ قحط زدہ نہ ہوں اور جہاں کاروبار کی زیادہ ضرورت ہو وہاں تجارت افضل ہے اور جہاں دستکاری کی ضرورت ہووہاں صنعت وحرفت افضل ہے۔ دور حاضر میں حالات کا تقاضا یہ ہے کہ سب اپنی اپنی جگہ فضیلت رکھتی ہیں۔ والله أعلم (عمدةالقاري: 9/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2320
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6012
6012. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جو مسلمان کوئی پھلدار درخت لگاتا ہے پھر اس سے انسان اور حیوانات کھاتے ہیں تو لگانے والے کے لیے وہ صدقہ بن جاتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6012]
حدیث حاشیہ: اس میں زراعت کرنے والوں کے لیے بہت ہی بڑی بشارت ہے نیز باغبانوں کے لیے بھی خوشخبری ہے دعا ہے کہ اللہ پاک اس بشارت کا حق دار ہم سب کو بنائے۔ آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6012
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6012
6012. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جو مسلمان کوئی پھلدار درخت لگاتا ہے پھر اس سے انسان اور حیوانات کھاتے ہیں تو لگانے والے کے لیے وہ صدقہ بن جاتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6012]
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں انسانوں اور حیوانوں پر شفقت ومہربانی کا بیان ہے کہ ان پر نرمی کرنے سے انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں اجروثواب کا حق دار بن جاتا ہے، نیز اس میں مومن کی بلندئ شان کا ذکر ہے کہ وہ اجروثواب کا حقدار بن جاتا ہے، اگرچہ اس نے کسی متعین کام کی نیت نہ کی ہو۔ زراعت پیشہ اور باغبانی کرنے والوں کو بھی بشارت ہے۔ یہ کام بہت ہی مبارک ہیں اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان بشارات کا حق دار بنائے۔ آمین
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6012