ولبست عائشة رضي الله عنها الثياب المعصفرة , وهي محرمة , وقالت: لا تلثم , ولا تتبرقع , ولا تلبس ثوبا بورس ولا زعفران , وقال جابر: لا ارى المعصفر طيبا ولم تر عائشة باسا بالحلي , والثوب الاسود , والمورد , والخف للمراة , وقال إبراهيم لا باس ان يبدل ثيابه.وَلَبِسَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا الثِّيَابَ الْمُعَصْفَرَةَ , وَهِيَ مُحْرِمَةٌ , وَقَالَتْ: لَا تَلَثَّمْ , وَلَا تَتَبَرْقَعْ , وَلَا تَلْبَسْ ثَوْبًا بِوَرْسٍ وَلَا زَعْفَرَانٍ , وَقَالَ جَابِرٌ: لَا أَرَى الْمُعَصْفَرَ طِيبًا وَلَمْ تَرَ عَائِشَةُ بَأْسًا بِالْحُلِيِّ , وَالثَّوْبِ الْأَسْوَدِ , وَالْمُوَرَّدِ , وَالْخُفِّ لِلْمَرْأَةِ , وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ لَا بَأْسَ أَنْ يُبْدِلَ ثِيَابَهُ.
اور عائشہ رضی اللہ عنہا محرم تھیں لیکن کسم (کیسو کے پھول) میں رنگے ہوئے کپڑے پہنے ہوئی تھیں۔ آپ نے فرمایا کہ عورتیں احرام کی حالت میں اپنے ہونٹ نہ چھپائیں نہ منہ پر نقاب ڈالیں اور نہ ورس یا زعفران کا رنگا ہوا کپڑا پہنیں اور جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں کسم کو خوشبو نہیں سمجھتا اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے عورتوں کے لیے زیور سیاہ گلابی کپڑے اور موزوں کے پہننے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا اور ابراہیم نخعی نے کہا کہ عورتوں کو احرام کی حالت میں کپڑے بدل لینے میں کوئی حرج نہیں۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن ابي بكر المقدمي، حدثنا فضيل بن سليمان، قال: حدثني موسى بن عقبة، قال: اخبرني كريب، عن عبد الله بن عباس رضي الله عنهما، قال:" انطلق النبي صلى الله عليه وسلم من المدينة بعد ما ترجل وادهن , ولبس إزاره , ورداءه هو , واصحابه، فلم ينه عن شيء من الاردية , والازر تلبس إلا المزعفرة التي تردع على الجلد، فاصبح بذي الحليفة ركب راحلته حتى استوى على البيداء اهل هو واصحابه، وقلد بدنته وذلك لخمس بقين من ذي القعدة , فقدم مكة لاربع ليال خلون من ذي الحجة، فطاف بالبيت وسعى بين الصفا والمروة ولم يحل من اجل بدنه لانه قلدها، ثم نزل باعلى مكة عند الحجون وهو مهل بالحج ولم يقرب الكعبة بعد طوافه بها حتى رجع من عرفة، وامر اصحابه ان يطوفوا بالبيت وبين الصفا والمروة، ثم يقصروا من رءوسهم، ثم يحلوا وذلك لمن لم يكن معه بدنة قلدها، ومن كانت معه امراته فهي له حلال والطيب والثياب".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ، حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي كُرَيْبٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" انْطَلَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْمَدِينَةِ بَعْدَ مَا تَرَجَّلَ وَادَّهَنَ , وَلَبِسَ إِزَارَهُ , وَرِدَاءَهُ هُوَ , وَأَصْحَابُهُ، فَلَمْ يَنْهَ عَنْ شَيْءٍ مِنَ الْأَرْدِيَةِ , وَالْأُزُرِ تُلْبَسُ إِلَّا الْمُزَعْفَرَةَ الَّتِي تَرْدَعُ عَلَى الْجِلْدِ، فَأَصْبَحَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ رَكِبَ رَاحِلَتَهُ حَتَّى اسْتَوَى عَلَى الْبَيْدَاءِ أَهَلَّ هُوَ وَأَصْحَابُهُ، وَقَلَّدَ بَدَنَتَهُ وَذَلِكَ لِخَمْسٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْقَعْدَةِ , فَقَدِمَ مَكَّةَ لِأَرْبَعِ لَيَالٍ خَلَوْنَ مِنْ ذِي الْحَجَّةِ، فَطَافَ بِالْبَيْتِ وَسَعَى بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَلَمْ يَحِلَّ مِنْ أَجْلِ بُدْنِهِ لِأَنَّهُ قَلَّدَهَا، ثُمَّ نَزَلَ بِأَعْلَى مَكَّةَ عِنْدَ الْحَجُونِ وَهُوَ مُهِلٌّ بِالْحَجِّ وَلَمْ يَقْرَبْ الْكَعْبَةَ بَعْدَ طَوَافِهِ بِهَا حَتَّى رَجَعَ مِنْ عَرَفَةَ، وَأَمَرَ أَصْحَابَهُ أَنْ يَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ يُقَصِّرُوا مِنْ رُءُوسِهِمْ، ثُمَّ يَحِلُّوا وَذَلِكَ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ بَدَنَةٌ قَلَّدَهَا، وَمَنْ كَانَتْ مَعَهُ امْرَأَتُهُ فَهِيَ لَهُ حَلَالٌ وَالطِّيبُ وَالثِّيَابُ".
ہم سے محمد بن ابی بکر مقدمی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے کریب نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ حجتہ الوداع میں ظہر اور عصر کے درمیان ہفتہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کنگھا کرنے اور تیل لگانے اور ازار اور رداء پہننے کے بعد اپنے صحابہ کے ساتھ مدینہ سے نکلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت زعفران میں رنگے ہوئے ایسے کپڑے کے سوا جس کا رنگ بدن پر لگتا ہو کسی قسم کی چادر یا تہبند پہننے سے منع نہیں کیا۔ دن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ پہنچ گئے (اور رات وہیں گزاری) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور بیداء سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے لبیک کہا اور احرام باندھا اور اپنے اونٹوں کو ہار پہنایا۔ ذی قعدہ کے مہینے میں اب پانچ دن رہ گئے تھے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ پہنچے تو ذی الحجہ کے چار دن گزر چکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا اور مروہ کی سعی کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی حلال نہیں ہوئے کیونکہ قربانی کے جانور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی گردن میں ہار ڈال دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجون پہاڑ کے نزدیک مکہ کے بالائی حصہ میں اترے۔ حج کا احرام اب بھی باقی تھا۔ بیت اللہ کے طواف کے بعد پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں اس وقت تک تشریف نہیں لے گئے جب تک میدان عرفات سے واپس نہ ہو لیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا تھا کہ وہ بیت اللہ کا طواف کریں اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کریں، پھر اپنے سروں کے بال ترشوا کر حلال ہو جائیں۔ یہ فرمان ان لوگوں کے لیے تھا جن کے ساتھ قربانی کے جانور نہیں تھے۔ اگر کسی کے ساتھ اس کی بیوی تھی تو وہ اس سے ہمبستر ہو سکتا تھا۔ اسی طرح خوشبودار اور (سلے ہوئے) کپڑے کا استعمال بھی اس کے لیے جائز تھا۔
Narrated `Abdullah bin `Abbas: The Prophet with his companions started from Medina after combing and oiling his hair and putting on two sheets of lhram (upper body cover and waist cover). He did not forbid anyone to wear any kind of sheets except the ones colored with saffron because they may leave the scent on the skin. And so in the early morning, the Prophet mounted his Mount while in Dhul-Hulaifa and set out till they reached Baida', where he and his companions recited Talbiya, and then they did the ceremony of Taqlid (which means to put the colored garlands around the necks of the Budn (camels for sacrifice). And all that happened on the 25th of Dhul-Qa'da. And when he reached Mecca on the 4th of Dhul-Hijja he performed the Tawaf round the Ka`ba and performed the Tawaf between Safa and Marwa. And as he had a Badana and had garlanded it, he did not finish his Ihram. He proceeded towards the highest places of Mecca near Al-Hujun and he was assuming the Ihram for Hajj and did not go near the Ka`ba after he performed Tawaf (round it) till he returned from `Arafat. Then he ordered his companions to perform the Tawaf round the Ka`ba and then the Tawaf of Safa and Marwa, and to cut short the hair of their heads and to finish their Ihram. And that was only for those people who had not garlanded Budn. Those who had their wives with them were permitted to contact them (have sexual intercourse), and similarly perfume and (ordinary) clothes were permissible for them.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 617
انطلق النبي من المدينة بعد ما ترجل وادهن ولبس إزاره ورداءه هو وأصحابه لم ينه عن شيء من الأردية والأزر تلبس إلا المزعفرة التي تردع على الجلد أصبح بذي الحليفة ركب راحلته حتى استوى على البيداء أهل هو وأصحابه وقلد بدنته وذلك لخمس بقين من
صلى في مسجده بذي الحليفة ركعتيه أوجب في مجلسه فأهل بالحج حين فرغ من ركعتيه فسمع ذلك منه أقوام فحفظته عنه ركب فلما استقلت به ناقته أهل وأدرك ذلك منه أقوام وذلك أن الناس إنما كانوا يأتون أرسالا فسمعوه حين استقلت به ناقته يهل فقالوا إنما أهل رسول الله حين اس
صلى الظهر بذي الحليفة ثم دعا ببدنة فأشعرها من صفحة سنامها الأيمن ثم سلت عنها الدم وقلدها بنعلين أتي براحلته فلما قعد عليها واستوت به على البيداء أهل بالحج
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1545
حدیث حاشیہ: نبی کریم ﷺ ہفتہ کے دن مدینہ منورہ سے بتاریخ 25 ذی قعدہ کو نکلے تھے۔ اگر مہینہ تیس دن کا ہوتا تو پانچ دن باقی رہے تھے۔ لیکن اتفاق سے مہینہ 29 دن کا ہوگیا اور ذی الحجہ کی پہلی تاریخ پنج شنبہ کو واقع ہوئی۔ کیونکہ دوسری روایتوں سے ثابت ہے کہ آپ عرفات میں جمعہ کے دن ٹھہرے تھے۔ ابن حزم نے جو کہا کہ آپ جمعرات کے دن مدینہ سے نکلے تھے یہ ذہن میں نہیں آتا۔ البتہ ممکن ہے کہ آپ جمعہ کو مدینہ سے نکلے ہوں۔ مگر صحیحین کی روایتوں میں ہے کہ آپ ﷺ نے اس دن ظہر کی نماز مدینہ میں چار رکعتیں پڑھیں اور عصر کی ذوالحلیفہ میں دو رکعتیں۔ ان روایتوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ جمعہ کا دن نہ تھا۔ حجون پہاڑ محصب کے قریب مسجد عقبہ کے برابر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1545
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1545
حدیث حاشیہ: امام بخاری ؒ نے اپنا عنوان حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے درج ذیل ارشاد سے ثابت کیا ہے: ”رسول اللہ ﷺ نے کسی قسم کی چادر اور تہبند سے منع نہیں فرمایا، البتہ زعفران سے رنگے ہوئے کپڑے جن سے بدن پر زعفران لگے ان سے منع فرمایا۔ “ یعنی احرام میں ورس اور زعفران سے رنگی چادریں استعمال کرنا ممنوع ہیں۔ اس کے علاوہ انسانی قد وقامت کے مطابق سلے ہوئے کپڑے بھی جائز نہیں ہیں، البتہ عورتوں پر سلے ہوئے کپڑے استعمال کرنے پر پابندی نہیں۔ اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے متعدد مسائل اخذ کیے ہیں، جنہیں آئندہ جستہ جستہ ذکر کیا جائے گا۔ إن شاءاللہ
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1545
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1752
´اشعار کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی الحلیفہ میں ظہر پڑھی پھر آپ نے ہدی کا اونٹ منگایا اور اس کے کوہان کے داہنی جانب اشعار ۱؎ کیا، پھر اس سے خون صاف کیا اور اس کی گردن میں دو جوتیاں پہنا دیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری لائی گئی جب آپ اس پر بیٹھ گئے اور وہ مقام بیداء میں آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا تلبیہ پڑھا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1752]
1752. اردو حاشیہ: ➊ حرم کی طرف بھیجے جانے والے اونٹوں کے کوہانوں کی دائیں طرف معمولی سا چیر لگا کر اس کا خون اس پر چیڑ دنیا «اشعار» کہلاتا ہے۔اور یہ علامت ہوتی ہے کہ یہ جانور اللہ کے لیے ھدی ہے اور حرم کی طرف بھیجا جا رہا ہے۔یہ عمل سنت رسول ﷺ سے ثابت ہےمگر بکریوں کو «اشعار» نہیں کیا جاتا۔کچھ علماء گایوں میں بھی اشعار کے قائل ہیں۔ اس کے ساتھ قربانی کے جانوروں کے گلوں میں جوتوں کے ہار ڈالنا بھی مسنون عمل ہےاور اسے تقلید کہتے ہیں۔یہ اعمال قدیم زمانے سے چلے آرہے تھے جنہیں نبی ﷺ نے بحال رکھا۔ ➋ بیداء ذوالحلیفہ کا وہ میدان ہے جو جانب جنوب میں تھا جس سے ہوکر مکہ کی راہ پر جاتے تھے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1752
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1770
´احرام کے وقت کا بیان۔` سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: ابوالعباس! مجھے تعجب ہے کہ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام باندھنے کے سلسلے میں اختلاف رکھتے ہیں کہ آپ نے احرام کب باندھا؟ تو انہوں نے کہا: اس بات کو لوگوں میں سب سے زیادہ میں جانتا ہوں، چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی حج کیا تھا اسی وجہ سے لوگوں نے اختلاف کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کی نیت کر کے مدینہ سے نکلے، جب ذی الحلیفہ کی اپنی مسجد میں آپ نے اپنی دو رکعتیں ادا کیں تو اسی مجلس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھا اور دو رکعتوں سے فارغ ہونے کے بعد حج کا تلبیہ پڑھا، لوگوں نے اس کو سنا اور میں نے اس کو یاد رکھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے جب آپ کی اونٹنی آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہو گئی تو آپ نے تلبیہ پڑھا، بعض لوگوں نے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلبیہ پڑھتے ہوئے پایا، اور یہ اس وجہ سے کہ لوگ الگ الگ ٹکڑیوں میں آپ کے پاس آتے تھے، تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی آپ کو لے کر اٹھی تو انہوں نے آپ کو تلبیہ پکارتے ہوئے سنا تو کہا: آپ نے تلبیہ اس وقت کہا ہے جب آپ کی اونٹنی آپ کو لے کر کھڑی ہوئی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے، جب مقام بیداء کی اونچائی پر چڑھے تو تلبیہ کہا تو بعض لوگوں نے اس وقت اسے سنا تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت تلبیہ کہا ہے جب آپ بیداء کی اونچائی پر چڑھے حالانکہ اللہ کی قسم آپ نے وہیں تلبیہ کہا تھا جہاں آپ نے نماز پڑھی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تلبیہ کہا جب اونٹنی آپ کو لے کر سیدھی ہوئی اور پھر آپ نے بیداء کی اونچائی چڑھتے وقت تلبیہ کہا۔ سعید کہتے ہیں: جس نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بات کو لیا تو اس نے اس جگہ پر جہاں اس نے نماز پڑھی اپنی دونوں رکعتوں سے فارغ ہونے کے بعد تلبیہ کہا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1770]
1770. اردو حاشیہ: «اھل» کے معنی ہیں (اپنی آواز بلند کی) «لبیک اللهم لبیک» بآواز بلند پکارا_اوراحرام کےمعنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔خیال رہے یہ حدیث ضعیف ہے۔ شیخ البانی نے بھی اسے الضعیفہ میں درج کیاہے۔ لیکن علامہ احمد شاکرنےاس حدیث کوصحیح قراردیا ہے_ ➋ اس روایت مین ذوالحلیفہ میں جو دورکعتیں پڑھنے کا ذکر ہے جس کے بعد آپ نے حج کے لیے تلبیہ پکارا اس سے مراد نماز ظہر کی دو رکعت (نماز قصر) ہے جیسا کہ صحیح مسلم (حدیث:1243،)اور سنن نسائی (حدیث:2756)میں صراحت ہے۔اس لیے اس کے آخر میں حضرت سعید بن جبیر کے قول سے احرام کے وقت دو رکعت پڑھنے کا اثبات مترشح ہو رہا ہے وہ صحیح نہیں۔ کیونکہ نبی ﷺ سے اس کا کوئی واضح ثبوت نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1770
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2776
´قربانی کے اونٹوں سے اشعار کے بعد خون صاف کرنے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ذوالحلیفہ میں تھے تو آپ نے اپنے (قربانی کے) اونٹ کے متعلق حکم دیا تو اس کے کوہان کے دائیں جانب اشعار کیا گیا پھر آپ نے اس کا خون صاف کیا اور اس کے گلے میں دو جوتیاں لٹکائیں تو جب بیداء میں آپ کو لے کر وہ پورے طور پر کھڑی ہو گئی تو آپ نے لبیک پکارا۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2776]
اردو حاشہ: (1) خون پونچھنے کا مطلب یہ ہے کہ زخم سے نکلنے والا خون ہاتھ وغیرہ سے کوہان کی اشعار والی جانب پھیلا دیا جائے تاکہ دور سے نظر آئے۔ یہ مطلب نہیں کہ خون اس طرح صاف کیا جائے کہ نشان نہ رہے۔ اس طرح تو اشعار کا اصل مقصد فوت ہو جائے گا۔ (2)”اپنی اونٹنی“ معلوم ہوا کہ نبیﷺ نے سب اونٹوں کو اشعار نہیں کیا، بعض کو کیا۔ (3)”بیداء پر چڑھی“ بیداء ذوالحلیفہ سے بلندی پر تھا۔ اسے ٹیلہ یا پہاڑ بھی کہا گیا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2776
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2784
´ہدی کو قلادۃ پہنانے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ذوالحلیفہ آئے تو آپ نے ہدی کے دائیں کوہان کی جانب اشعار کیا پھر اس سے خون صاف کیا، اور اس کے گلے میں دو جوتیاں لٹکائیں، پھر آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے، اور جب وہ آپ کو کو لے کر سیدھی کھڑی ہو گئی تو آپ نے تلبیہ پکارا اور ظہر کے وقت احرام باندھا، اور حج کا تلبیہ پکارا۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2784]
اردو حاشہ: تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: 2758۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2784
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2793
´ہدی کے گلے میں دو جوتیاں لٹکانے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ذوالحلیفہ پہنچے تو ہدی کے داہنی کوہان کی جانب اشعار کیا، پھر اس کا خون صاف کیا، پھر اس کے گلے میں دو جوتے ڈالے، پھر اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے تو جب وہ بیداء میں آپ لے کر پورے طور پر کھڑی ہو گئی تو آپ نے حج کا احرام باندھا اور ظہر کے وقت احرام باندھا، اور حج کا تلبیہ پکارا۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2793]
اردو حاشہ: قلادے میں جوتوں کے علاوہ درخت کا چھلکا وغیرہ بھی ڈالا جا سکتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2793
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3097
´اونٹوں کے اشعار کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدی کے اونٹ کے داہنے کوہان میں اشعار کیا، اور اس سے خون صاف کیا، علی بن محمد نے اپنی روایت میں کہا کہ اشعار ذو الحلیفہ میں کیا، اور دو جوتیاں اس کے گلے میں لٹکائیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3097]
اردو حاشہ: فوئاد و مسائل: اشعار کا مطلب یہ ہے کہ اونٹ کی کوہان پر ایک طرف اتنا زخم کیا جائےکہ خون بہہ پڑے۔ یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ یہ ہدی کا جانور ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3097
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 906
´اونٹوں کے اشعار کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذو الحلیفہ میں (ہدی کے جانور کو) دو جوتیوں کے ہار پہنائے اور ان کی کوہان کے دائیں طرف اشعار ۱؎ کیا اور اس سے خون صاف کیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 906]
اردو حاشہ: 1؎: ہدی کے اونٹ کی کوہان پر داہنے جانب چیر کر خون نکالنے اور اس کے آس پاس مل دینے کا نام اشعار ہے، یہ ہدی کے جانوروں کی علامت اور پہچان ہے۔ 2 ؎: وکیع کے اس قول سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جو آئمہ کے اقوال کو حدیث رسول کے مخالف پا کر بھی انہیں اقوال سے حجت پکڑتے ہیں اور حدیث رسول کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ اس حدیث میں اندھی تقلید کا زبردست رد ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 906
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3016
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز ذوالحلیفہ میں پڑھی، پھر اپنی اونٹنی کو منگوایا اور اس کی کوہان کے دائیں طرف زخم لگایا اور خون کو صاف کر دیا، اور اس کے گلے میں دو جوتیوں کا ہار ڈال دیا، پھر اپنی اونٹنی (سواری) پر سوار ہوئے، جب آپ صلی الله عليہ وسلم کی سواری بیداء پر سیدھی کھڑی ہوئی، تو آپ صلی الله عليہ وسلم نے حج کا تلبیہ کہا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3016]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) اَشْعَرَهَا: اشعار سے ماخوذ ہے، جس کا معنی ہے، علامت ونشانی، آگاہی واعلام، اور یہاں مقصد ہے، قربانی کے کوہان کے پاس علامت اور نشان کے طور پر، زخم لگانا، تا کہ لوگوں کو اس کے ہدی ہونے کا پتہ چل سکے۔ (2) قَلَّدَهَا نَعْلَيْن: گلے میں دو جوتیوں کا ہار ڈالنا۔ فوائد ومسائل: اونٹ کے کوہان کی دائیں طرف چھری یا کسی اور دھار والا آلہ سے خون بہانا، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے سوا تمام ائمہ کے نزدیک مستحب ہے۔ لیکن امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اونٹ کی کوہان کے بائیں جانب اشعار کرنے کے قائل ہیں، متاخرین احناف نے امام صاحب کے قول (کہ اشعار بدعت ہے، اشعار مثلہ ہے) کی تاویل کی ہے، کہ ان کا قول ان لوگوں کے اشعار کے بارے میں ہے، جو انتہائی گہرا زخم لگاتے تھے، جس کی وجہ سے اونٹ کی ہلاکت کا خدشہ ہوتا تھا، وگرنہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اشعارکو کیسے مکروہ کہہ سکتے ہیں، جبکہ بکثرت احادیث سے اشعار ثابت ہے، (شرح صحیح مسلم ج3 ص 472 سعیدی فتح الملھم ج3 ص310) اس طرح ہدی کی گردن میں (خواہ بکری ہو) جوتیوں کا ہار ڈالا جائےگا، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بکری کے گلے میں ہارڈالنے کے قائل نہیں ہیں۔