سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابي داود تفصیلات

سنن ابي داود
کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wal-Hajj)
21. باب فِي وَقْتِ الإِحْرَامِ
21. باب: احرام کے وقت کا بیان۔
Chapter: The Time Of Ihram.
حدیث نمبر: 1770
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن منصور، حدثنا يعقوب يعني ابن إبراهيم، حدثنا ابي، عن ابن إسحاق، قال: حدثني خصيف بن عبد الرحمن الجزري،عن سعيد بن جبير، قال: قلت لعبد الله بن عباس: يا ابا العباس، عجبت لاختلاف اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم في إهلال رسول الله صلى الله عليه وسلم حين اوجب، فقال:" إني لاعلم الناس بذلك، إنها إنما كانت من رسول الله صلى الله عليه وسلم حجة واحدة فمن هناك اختلفو اخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم حاجا، فلما صلى في مسجده بذي الحليفة ركعتيه اوجب في مجلسه، فاهل بالحج حين فرغ من ركعتيه، فسمع ذلك منه اقوام فحفظته عنه، ثم ركب فلما استقلت به ناقته اهل، وادرك ذلك منه اقوام، وذلك ان الناس إنما كانوا ياتون ارسالا فسمعوه حين استقلت به ناقته يهل، فقالوا: إنما اهل رسول الله صلى الله عليه وسلم حين استقلت به ناقته، ثم مضى رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما علا على شرف البيداء اهل، وادرك ذلك منه اقوام، فقالوا: إنما اهل حين علا على شرف البيداء، وايم الله، لقد اوجب في مصلاه واهل حين استقلت به ناقته واهل حين علا على شرف البيداء". قال سعيد: فمن اخذ بقول عبد الله بن عباس اهل في مصلاه إذا فرغ من ركعتيه.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي خُصَيْفُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجَزَرِيُّ،عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ: يَا أَبَا الْعَبَّاسِ، عَجِبْتُ لِاخْتِلَافِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي إِهْلَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أَوْجَبَ، فَقَالَ:" إِنِّي لَأَعْلَمُ النَّاسِ بِذَلِكَ، إِنَّهَا إِنَّمَا كَانَتْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّةً وَاحِدَةً فَمِنْ هُنَاكَ اخْتَلَفُو اخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجًّا، فَلَمَّا صَلَّى فِي مَسْجِدِهِ بِذِي الْحُلَيْفَةِ رَكْعَتَيْهِ أَوْجَبَ فِي مَجْلِسِهِ، فَأَهَلَّ بِالْحَجِّ حِينَ فَرَغَ مِنْ رَكْعَتَيْهِ، فَسَمِعَ ذَلِكَ مِنْهُ أَقْوَامٌ فَحَفِظْتُهُ عَنْهُ، ثُمَّ رَكِبَ فَلَمَّا اسْتَقَلَّتْ بِهِ نَاقَتُهُ أَهَلَّ، وَأَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْهُ أَقْوَامٌ، وَذَلِكَ أَنَّ النَّاسَ إِنَّمَا كَانُوا يَأْتُونَ أَرْسَالًا فَسَمِعُوهُ حِينَ اسْتَقَلَّتْ بِهِ نَاقَتُهُ يُهِلُّ، فَقَالُوا: إِنَّمَا أَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ اسْتَقَلَّتْ بِهِ نَاقَتُهُ، ثُمَّ مَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا عَلَا عَلَى شَرَفِ الْبَيْدَاءِ أَهَلَّ، وَأَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْهُ أَقْوَامٌ، فَقَالُوا: إِنَّمَا أَهَلَّ حِينَ عَلَا عَلَى شَرَفِ الْبَيْدَاءِ، وَايْمُ اللَّهِ، لَقَدْ أَوْجَبَ فِي مُصَلَّاهُ وَأَهَلَّ حِينَ اسْتَقَلَّتْ بِهِ نَاقَتُهُ وَأَهَلَّ حِينَ عَلَا عَلَى شَرَفِ الْبَيْدَاءِ". قَالَ سَعِيدٌ: فَمَنْ أَخَذَ بِقَوْلِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ أَهَلَّ فِي مُصَلَّاهُ إِذَا فَرَغَ مِنْ رَكْعَتَيْهِ.
سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: ابوالعباس! مجھے تعجب ہے کہ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام باندھنے کے سلسلے میں اختلاف رکھتے ہیں کہ آپ نے احرام کب باندھا؟ تو انہوں نے کہا: اس بات کو لوگوں میں سب سے زیادہ میں جانتا ہوں، چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی حج کیا تھا اسی وجہ سے لوگوں نے اختلاف کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کی نیت کر کے مدینہ سے نکلے، جب ذی الحلیفہ کی اپنی مسجد میں آپ نے اپنی دو رکعتیں ادا کیں تو اسی مجلس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھا اور دو رکعتوں سے فارغ ہونے کے بعد حج کا تلبیہ پڑھا، لوگوں نے اس کو سنا اور میں نے اس کو یاد رکھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے جب آپ کی اونٹنی آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہو گئی تو آپ نے تلبیہ پڑھا، بعض لوگوں نے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلبیہ پڑھتے ہوئے پایا، اور یہ اس وجہ سے کہ لوگ الگ الگ ٹکڑیوں میں آپ کے پاس آتے تھے، تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی آپ کو لے کر اٹھی تو انہوں نے آپ کو تلبیہ پکارتے ہوئے سنا تو کہا: آپ نے تلبیہ اس وقت کہا ہے جب آپ کی اونٹنی آپ کو لے کر کھڑی ہوئی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے، جب مقام بیداء کی اونچائی پر چڑھے تو تلبیہ کہا تو بعض لوگوں نے اس وقت اسے سنا تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت تلبیہ کہا ہے جب آپ بیداء کی اونچائی پر چڑھے حالانکہ اللہ کی قسم آپ نے وہیں تلبیہ کہا تھا جہاں آپ نے نماز پڑھی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تلبیہ کہا جب اونٹنی آپ کو لے کر سیدھی ہوئی اور پھر آپ نے بیداء کی اونچائی چڑھتے وقت تلبیہ کہا۔ سعید کہتے ہیں: جس نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بات کو لیا تو اس نے اس جگہ پر جہاں اس نے نماز پڑھی اپنی دونوں رکعتوں سے فارغ ہونے کے بعد تلبیہ کہا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5503)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/260) (ضعیف الإسناد)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی خصیف کا حافظہ کمزور تھا، مگر حدیث میں مذکور تفصیل صحیح ہے)

Narrated Abdullah ibn Abbas: Saeed ibn Jubayr said: I said to Abdullah ibn Abbas: AbulAbbas, I am surprised to see the difference of opinion amongst the companions of the Messenger ﷺ about the wearing of ihram by the Messenger of Allah ﷺ when he made it obligatory. He replied: I am aware of it more than the people. The Messenger of Allah ﷺ performed only one hajj. Hence the people differed among themselves. The Messenger of Allah ﷺ came out (from Madina) with the intention of performing hajj. When he offered two rak'ahs of prayer in the mosque at Dhul-Hulayfah, he made it obligatory by wearing it. At the same meeting, he raised his voice in the talbiyah for hajj, when he finished his two rak'ahs. Some people heard it and I retained it from him. He then rode (on the she-camel), and when it (the she-camel) stood up, with him on its back, he raised his voice in the talbiyah and some people heard it at that moment. This is because the people were coming in groups, so they heard him raising his voice calling the talbiyah when his she-camel stood up with him on its back, and they thought that the Messenger of Allah ﷺ had raised his voice in the talbiyah when his she-camel stood up with him on its back. The Messenger of Allah ﷺ proceeded further; when he ascended the height of al-Bayda' he raised his voice in the talbiyah. Some people heard it at that moment. They thought that he had raised his voice in the talbiyah when he ascended the height of al-Bayda'. I swear by Allah, he raised his voice in the talbiyah at the place where he prayed, and he raised his voice in the talbiyah when his she-camel stood up with him on its back, and he raised his voice in the talbiyah when he ascended the height of al-Bayda'. Saeed (ibn Jubayr) said; He who follows the view of Ibn Abbas raises his voice in talbiyah (and ihram) at the place of is prayer after he finishes two rak'ahs of his prayer.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1766


قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
خصيف: ضعيف
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 70

   صحيح البخاري1545عبد الله بن عباسانطلق النبي من المدينة بعد ما ترجل وادهن ولبس إزاره ورداءه هو وأصحابه لم ينه عن شيء من الأردية والأزر تلبس إلا المزعفرة التي تردع على الجلد أصبح بذي الحليفة ركب راحلته حتى استوى على البيداء أهل هو وأصحابه وقلد بدنته وذلك لخمس بقين من
   صحيح مسلم3016عبد الله بن عباسصلى رسول الله الظهر بذي الحليفة دعا بناقته فأشعرها في صفحة سنامها الأيمن وسلت الدم وقلدها نعلين ركب راحلته لما استوت به على البيداء أهل بالحج
   جامع الترمذي906عبد الله بن عباسقلد نعلين وأشعر الهدي في الشق الأيمن بذي الحليفة وأماط عنه الدم
   سنن أبي داود1770عبد الله بن عباسصلى في مسجده بذي الحليفة ركعتيه أوجب في مجلسه فأهل بالحج حين فرغ من ركعتيه فسمع ذلك منه أقوام فحفظته عنه ركب فلما استقلت به ناقته أهل وأدرك ذلك منه أقوام وذلك أن الناس إنما كانوا يأتون أرسالا فسمعوه حين استقلت به ناقته يهل فقالوا إنما أهل رسول الله حين اس
   سنن أبي داود1752عبد الله بن عباسصلى الظهر بذي الحليفة ثم دعا ببدنة فأشعرها من صفحة سنامها الأيمن ثم سلت عنها الدم وقلدها بنعلين أتي براحلته فلما قعد عليها واستوت به على البيداء أهل بالحج
   سنن ابن ماجه3097عبد الله بن عباسأشعر الهدي في السنام الأيمن وأماط عنه الدم
   سنن النسائى الصغرى2775عبد الله بن عباسأشعر بدنه من الجانب الأيمن وسلت الدم عنها وأشعرها
   سنن النسائى الصغرى2776عبد الله بن عباسأشعر في سنامها من الشق الأيمن ثم سلت عنها وقلدها نعلين لما استوت به على البيداء أهل
   سنن النسائى الصغرى2784عبد الله بن عباسأشعر الهدي في جانب السنام الأيمن ثم أماط عنه الدم وقلده نعلين ركب ناقته فلما استوت به البيداء لبى أحرم عند الظهر وأهل بالحج
   سنن النسائى الصغرى2793عبد الله بن عباسأشعر الهدي من جانب السنام الأيمن ثم أماط عنه الدم ثم قلده نعلين ركب ناقته فلما استوت به البيداء أحرم بالحج أحرم عند الظهر وأهل بالحج

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1770 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1770  
1770. اردو حاشیہ: «اھل» ‏‏‏‏ کے معنی ہیں (اپنی آواز بلند کی) «لبیک اللهم لبیک» ‏‏‏‏ بآواز بلند پکارا_اوراحرام کےمعنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔خیال رہے یہ حدیث ضعیف ہے۔ شیخ البانی ﷫نے بھی اسے الضعیفہ میں درج کیاہے۔ لیکن علامہ احمد شاکرنےاس حدیث کوصحیح قراردیا ہے_
➋ اس روایت مین ذوالحلیفہ میں جو دورکعتیں پڑھنے کا ذکر ہے جس کے بعد آپ نے حج کے لیے تلبیہ پکارا اس سے مراد نماز ظہر کی دو رکعت (نماز قصر) ہے جیسا کہ صحیح مسلم (حدیث:1243،)اور سنن نسائی (حدیث:2756)میں صراحت ہے۔اس لیے اس کے آخر میں حضرت سعید بن جبیر کے قول سے احرام کے وقت دو رکعت پڑھنے کا اثبات مترشح ہو رہا ہے وہ صحیح نہیں۔ کیونکہ نبی ﷺ سے اس کا کوئی واضح ثبوت نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1770   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1752  
´اشعار کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی الحلیفہ میں ظہر پڑھی پھر آپ نے ہدی کا اونٹ منگایا اور اس کے کوہان کے داہنی جانب اشعار ۱؎ کیا، پھر اس سے خون صاف کیا اور اس کی گردن میں دو جوتیاں پہنا دیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری لائی گئی جب آپ اس پر بیٹھ گئے اور وہ مقام بیداء میں آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا تلبیہ پڑھا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1752]
1752. اردو حاشیہ:
➊ حرم کی طرف بھیجے جانے والے اونٹوں کے کوہانوں کی دائیں طرف معمولی سا چیر لگا کر اس کا خون اس پر چیڑ دنیا «اشعار» ‏‏‏‏ کہلاتا ہے۔اور یہ علامت ہوتی ہے کہ یہ جانور اللہ کے لیے ھدی ہے اور حرم کی طرف بھیجا جا رہا ہے۔یہ عمل سنت رسول ﷺ سے ثابت ہےمگر بکریوں کو «اشعار» ‏‏‏‏ نہیں کیا جاتا۔کچھ علماء گایوں میں بھی اشعار کے قائل ہیں۔ اس کے ساتھ قربانی کے جانوروں کے گلوں میں جوتوں کے ہار ڈالنا بھی مسنون عمل ہےاور اسے تقلید کہتے ہیں۔یہ اعمال قدیم زمانے سے چلے آرہے تھے جنہیں نبی ﷺ نے بحال رکھا۔
➋ بیداء ذوالحلیفہ کا وہ میدان ہے جو جانب جنوب میں تھا جس سے ہوکر مکہ کی راہ پر جاتے تھے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1752   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2776  
´قربانی کے اونٹوں سے اشعار کے بعد خون صاف کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ذوالحلیفہ میں تھے تو آپ نے اپنے (قربانی کے) اونٹ کے متعلق حکم دیا تو اس کے کوہان کے دائیں جانب اشعار کیا گیا پھر آپ نے اس کا خون صاف کیا اور اس کے گلے میں دو جوتیاں لٹکائیں تو جب بیداء میں آپ کو لے کر وہ پورے طور پر کھڑی ہو گئی تو آپ نے لبیک پکارا۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2776]
اردو حاشہ:
(1) خون پونچھنے کا مطلب یہ ہے کہ زخم سے نکلنے والا خون ہاتھ وغیرہ سے کوہان کی اشعار والی جانب پھیلا دیا جائے تاکہ دور سے نظر آئے۔ یہ مطلب نہیں کہ خون اس طرح صاف کیا جائے کہ نشان نہ رہے۔ اس طرح تو اشعار کا اصل مقصد فوت ہو جائے گا۔
(2) اپنی اونٹنی معلوم ہوا کہ نبیﷺ نے سب اونٹوں کو اشعار نہیں کیا، بعض کو کیا۔
(3) بیداء پر چڑھی بیداء ذوالحلیفہ سے بلندی پر تھا۔ اسے ٹیلہ یا پہاڑ بھی کہا گیا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2776   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2784  
´ہدی کو قلادۃ پہنانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ذوالحلیفہ آئے تو آپ نے ہدی کے دائیں کوہان کی جانب اشعار کیا پھر اس سے خون صاف کیا، اور اس کے گلے میں دو جوتیاں لٹکائیں، پھر آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے، اور جب وہ آپ کو کو لے کر سیدھی کھڑی ہو گئی تو آپ نے تلبیہ پکارا اور ظہر کے وقت احرام باندھا، اور حج کا تلبیہ پکارا۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2784]
اردو حاشہ:
تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: 2758۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2784   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2793  
´ہدی کے گلے میں دو جوتیاں لٹکانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ذوالحلیفہ پہنچے تو ہدی کے داہنی کوہان کی جانب اشعار کیا، پھر اس کا خون صاف کیا، پھر اس کے گلے میں دو جوتے ڈالے، پھر اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے تو جب وہ بیداء میں آپ لے کر پورے طور پر کھڑی ہو گئی تو آپ نے حج کا احرام باندھا اور ظہر کے وقت احرام باندھا، اور حج کا تلبیہ پکارا۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2793]
اردو حاشہ:
قلادے میں جوتوں کے علاوہ درخت کا چھلکا وغیرہ بھی ڈالا جا سکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2793   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3097  
´اونٹوں کے اشعار کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدی کے اونٹ کے داہنے کوہان میں اشعار کیا، اور اس سے خون صاف کیا، علی بن محمد نے اپنی روایت میں کہا کہ اشعار ذو الحلیفہ میں کیا، اور دو جوتیاں اس کے گلے میں لٹکائیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3097]
اردو حاشہ:
فوئاد و مسائل:
اشعار کا مطلب یہ ہے کہ اونٹ کی کوہان پر ایک طرف اتنا زخم کیا جائےکہ خون بہہ پڑے۔
یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ یہ ہدی کا جانور ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3097   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 906  
´اونٹوں کے اشعار کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذو الحلیفہ میں (ہدی کے جانور کو) دو جوتیوں کے ہار پہنائے اور ان کی کوہان کے دائیں طرف اشعار ۱؎ کیا اور اس سے خون صاف کیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 906]
اردو حاشہ:
1؎:
ہدی کے اونٹ کی کوہان پر داہنے جانب چیر کر خون نکالنے اور اس کے آس پاس مل دینے کا نام اشعار ہے،
یہ ہدی کے جانوروں کی علامت اور پہچان ہے۔
2 ؎:
وکیع کے اس قول سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جو آئمہ کے اقوال کو حدیث رسول کے مخالف پا کر بھی انہیں اقوال سے حجت پکڑتے ہیں اور حدیث رسول کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔
اس حدیث میں اندھی تقلید کا زبردست رد ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 906   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3016  
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز ذوالحلیفہ میں پڑھی، پھر اپنی اونٹنی کو منگوایا اور اس کی کوہان کے دائیں طرف زخم لگایا اور خون کو صاف کر دیا، اور اس کے گلے میں دو جوتیوں کا ہار ڈال دیا، پھر اپنی اونٹنی (سواری) پر سوار ہوئے، جب آپ صلی الله عليہ وسلم کی سواری بیداء پر سیدھی کھڑی ہوئی، تو آپ صلی الله عليہ وسلم نے حج کا تلبیہ کہا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3016]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
اَشْعَرَهَا:
اشعار سے ماخوذ ہے،
جس کا معنی ہے،
علامت ونشانی،
آگاہی واعلام،
اور یہاں مقصد ہے،
قربانی کے کوہان کے پاس علامت اور نشان کے طور پر،
زخم لگانا،
تا کہ لوگوں کو اس کے ہدی ہونے کا پتہ چل سکے۔
(2)
قَلَّدَهَا نَعْلَيْن:
گلے میں دو جوتیوں کا ہار ڈالنا۔
فوائد ومسائل:
اونٹ کے کوہان کی دائیں طرف چھری یا کسی اور دھار والا آلہ سے خون بہانا،
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے سوا تمام ائمہ کے نزدیک مستحب ہے۔
لیکن امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اونٹ کی کوہان کے بائیں جانب اشعار کرنے کے قائل ہیں،
متاخرین احناف نے امام صاحب کے قول (کہ اشعار بدعت ہے،
اشعار مثلہ ہے)

کی تاویل کی ہے،
کہ ان کا قول ان لوگوں کے اشعار کے بارے میں ہے،
جو انتہائی گہرا زخم لگاتے تھے،
جس کی وجہ سے اونٹ کی ہلاکت کا خدشہ ہوتا تھا،
وگرنہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اشعارکو کیسے مکروہ کہہ سکتے ہیں،
جبکہ بکثرت احادیث سے اشعار ثابت ہے،
(شرح صحیح مسلم ج3 ص 472 سعیدی فتح الملھم ج3 ص310)
اس طرح ہدی کی گردن میں (خواہ بکری ہو)
جوتیوں کا ہار ڈالا جائےگا،
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بکری کے گلے میں ہارڈالنے کے قائل نہیں ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3016   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1545  
1545. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کنگھی کرنے، تیل لگانے، تہبند پہننے اور چادر اوڑھنے کے بعد مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ اور آپ نے کسی قسم کی چادر اور تہبند پہننے سے منع نہیں فرمایا، البتہ زعفران سے رنگ ہوئے کپڑے جن سے بدن پر زعفران لگے ان سے منع فرمایا۔ الغرض صبح کے وقت آپ ذوالحلیفہ سے اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور جب مقام بیداء پر پہنچے تو آپ نے اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے لبیک کہااور آپ نے اپنی قربانیوں کے گلے میں قلادے ڈال دیے۔ اور یہ پچیس ذوالعقیدہ کاواقعہ ہے۔ پھر آپ چار ذوالحجہ کو مکہ مکرمہ پہنچے تو کعبہ کا طواف کیا اور صفا مروہ کے درمیان سعی فرمائی۔ چونکہ آپ قربانی کے اونٹ ساتھ لائے تھے اور انھیں قلادہ پہناچکے تھے۔ ا س لیے احرام نہ کھول سکے۔ پھر آپ مکہ کی بلندی پر مقام حجون کےپاس فروکش ہوئے۔ آپ حج کاحرام باندھے ہوئے تھے۔ اس بنا پر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1545]
حدیث حاشیہ:
نبی کریم ﷺ ہفتہ کے دن مدینہ منورہ سے بتاریخ 25 ذی قعدہ کو نکلے تھے۔
اگر مہینہ تیس دن کا ہوتا تو پانچ دن باقی رہے تھے۔
لیکن اتفاق سے مہینہ 29 دن کا ہوگیا اور ذی الحجہ کی پہلی تاریخ پنج شنبہ کو واقع ہوئی۔
کیونکہ دوسری روایتوں سے ثابت ہے کہ آپ عرفات میں جمعہ کے دن ٹھہرے تھے۔
ابن حزم نے جو کہا کہ آپ جمعرات کے دن مدینہ سے نکلے تھے یہ ذہن میں نہیں آتا۔
البتہ ممکن ہے کہ آپ جمعہ کو مدینہ سے نکلے ہوں۔
مگر صحیحین کی روایتوں میں ہے کہ آپ ﷺ نے اس دن ظہر کی نماز مدینہ میں چار رکعتیں پڑھیں اور عصر کی ذوالحلیفہ میں دو رکعتیں۔
ان روایتوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ جمعہ کا دن نہ تھا۔
حجون پہاڑ محصب کے قریب مسجد عقبہ کے برابر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1545   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1545  
1545. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کنگھی کرنے، تیل لگانے، تہبند پہننے اور چادر اوڑھنے کے بعد مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ اور آپ نے کسی قسم کی چادر اور تہبند پہننے سے منع نہیں فرمایا، البتہ زعفران سے رنگ ہوئے کپڑے جن سے بدن پر زعفران لگے ان سے منع فرمایا۔ الغرض صبح کے وقت آپ ذوالحلیفہ سے اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور جب مقام بیداء پر پہنچے تو آپ نے اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے لبیک کہااور آپ نے اپنی قربانیوں کے گلے میں قلادے ڈال دیے۔ اور یہ پچیس ذوالعقیدہ کاواقعہ ہے۔ پھر آپ چار ذوالحجہ کو مکہ مکرمہ پہنچے تو کعبہ کا طواف کیا اور صفا مروہ کے درمیان سعی فرمائی۔ چونکہ آپ قربانی کے اونٹ ساتھ لائے تھے اور انھیں قلادہ پہناچکے تھے۔ ا س لیے احرام نہ کھول سکے۔ پھر آپ مکہ کی بلندی پر مقام حجون کےپاس فروکش ہوئے۔ آپ حج کاحرام باندھے ہوئے تھے۔ اس بنا پر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1545]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے اپنا عنوان حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے درج ذیل ارشاد سے ثابت کیا ہے:
رسول اللہ ﷺ نے کسی قسم کی چادر اور تہبند سے منع نہیں فرمایا، البتہ زعفران سے رنگے ہوئے کپڑے جن سے بدن پر زعفران لگے ان سے منع فرمایا۔
یعنی احرام میں ورس اور زعفران سے رنگی چادریں استعمال کرنا ممنوع ہیں۔
اس کے علاوہ انسانی قد وقامت کے مطابق سلے ہوئے کپڑے بھی جائز نہیں ہیں، البتہ عورتوں پر سلے ہوئے کپڑے استعمال کرنے پر پابندی نہیں۔
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے متعدد مسائل اخذ کیے ہیں، جنہیں آئندہ جستہ جستہ ذکر کیا جائے گا۔
إن شاءاللہ
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1545   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.