سیدنا قبید بن مطرف غفاری سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال پوچھا کہ اگر کوئی شخص میرے ساتھ ظلم و زیادتی کرنا چاہے تو میں کیا کر وں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے تین مرتبہ سمجھاؤ اس سے منع کر و سائل نے پوچھا کہ اگر وہ پھر بھی باز نہ آئے تو فرمایا: پھر اس سے قتال کر و سائل نے پوچھا کہ اس صورت میں ہمارا حکم کیا ہو گا فرمایا: اگر اس نے تمہیں قتل کر دیا تو تم جنت میں جاؤ گے اگر تم نے اسے قتل کر دیا تو وہ جہنم میں جائے گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد محتمل للتحسين
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا عبد العزيز بن المطلب المخزومي ، عن اخيه الحكم بن المطلب ، عن ابيه ، عن قهيد الغفاري , قال: سال سائل رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال: إن عدا علي عاد؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ذكره , وامره بتذكيره ثلاث مرات، فإن ابى فقاتله، فإن قتلك فإنك في الجنة، وإن قتلته فإنه في النار".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُطَّلِبِ الْمَخْزُومِيُّ ، عَنْ أَخِيهِ الْحَكَمِ بْنِ الْمُطَّلِبِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ قُهَيْدٍ الْغِفَارِيِّ , قَالَ: سَأَلَ سَائِلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: إِنْ عَدَا عَلَيَّ عَادٍ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ذَكِّرْهُ , وَأَمَرَهُ بِتَذْكِيرِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَإِنْ أَبَى فَقَاتِلْهُ، فَإِنْ قَتَلَكَ فَإِنَّكَ فِي الْجَنَّةِ، وَإِنْ قَتَلْتَهُ فَإِنَّهُ فِي النَّارِ".
سیدنا قبید بن مطرف غفاری سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال پوچھا کہ اگر کوئی شخص میرے ساتھ ظلم و زیادتی کرنا چاہے تو میں کیا کر وں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے تین مرتبہ سمجھاؤ اس سے منع کر و سائل نے پوچھا کہ اگر وہ پھر بھی باز نہ آئے تو فرمایا: پھر اس سے قتال کر و سائل نے پوچھا کہ اس صورت میں ہمارا حکم کیا ہو گا فرمایا: اگر اس نے تمہیں قتل کر دیا تو تم جنت میں جاؤ گے اگر تم نے اسے قتل کر دیا تو وہ جہنم میں جائے گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو عامر ، حدثنا عبد الملك يعني ابن حسن الحارثي , حدثنا عبد الرحمن بن ابي سعيد ، قال: سمعت عمارة بن حارثة الضمري يحدث , عن عمرو بن يثربي الضمري ، قال: شهدت خطبة رسول الله صلى الله عليه وسلم بمنى، فكان فيما خطب به , ان قال:" ولا يحل لامرئ من مال اخيه، إلا ما طابت به نفسه" , قال: فلما سمعت ذلك , قلت: يا رسول الله، ارايت لو لقيت غنم ابن عمي، فاخذت منها شاة، فاحترزتها، هل علي في ذلك شيء؟ قال:" إن لقيتها نعجة تحمل شفرة وزنادا , فلا تمسها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ يَعْنِي ابْنَ حَسَنٍ الْحَارِثِيَّ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَارَةَ بْنَ حَارِثَةَ الضَّمْرِيَّ يُحَدِّثُ , عَنْ عَمْرِو بْنِ يَثْرِبِيٍّ الضَّمْرِيِّ ، قَالَ: شَهِدْتُ خُطْبَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًى، فَكَانَ فِيمَا خَطَبَ بِهِ , أَنْ قَالَ:" وَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ مِنْ مال أَخِيهِ، إِلَّا مَا طَابَتْ بِهِ نَفْسُهُ" , قَالَ: فَلَمَّا سَمِعْتُ ذَلِكَ , قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ لَوْ لَقِيتُ غَنَمَ ابْنِ عَمِّي، فَأَخَذْتُ مِنْهَا شَاةً، فَاحْتَرَزْتُهَا، هَلْ عَلَيَّ فِي ذَلِكَ شَيْءٌ؟ قَالَ:" إِنْ لَقِيتَهَا نَعْجَةً تَحْمِلُ شَفْرَةً وَزِنَادًا , فَلَا تَمَسَّهَا".
سیدنا عمر بن یثربی ضمری سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس خطبے میں شریک تھا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان منیٰ میں دیا تھا آپ نے منجملہ دیگر باتوں کے اس خطبے میں یہ ارشاد فرمایا: تھا کہ کسی شخص کے لئے اپنے بھائی کا مال اس وقت تک حلال نہیں ہے جب تک وہ اپنے دل کی خوشی سے اس کی اجازت نہ دیدے میں نے یہ سن کر بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ بتائیے کہ اگر مجھے اپنے چچازاد بھائی کی بکریوں کی ریوڑ ملے میں اس میں سے ایک بکری لے کر چلاجاؤں تو کیا اس میں مجھے گناہ ہو گا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہیں ایسی بھیڑملے جو چھری اور چقمقاق کا تحمل کر سکتی ہو تو اسے ہاتھ بھی نہ لگانا۔
(حديث مرفوع) حدثنا إبراهيم بن إسحاق ، حدثنا حاتم بن إسماعيل المدني ، قال: حدثنا عبد الله بن محمد بن ابي يحيى ، عن ابيه ، عن ابن ابي حدرد الاسلمي ، انه كان ليهودي عليه اربعة دراهم، فاستعدى عليه , فقال: يا محمد، إن لي على هذا اربعة دراهم، وقد غلبني عليها، فقال:" اعطه حقه" , قال: والذي بعثك بالحق ما اقدر عليها، قال:" اعطه حقه" , قال: والذي نفسي بيده , ما اقدر عليها، قد اخبرته انك تبعثنا إلى خيبر، فارجو ان تغنمنا شيئا، فارجع فاقضيه، قال:" اعطه حقه" , قال: وكان النبي صلى الله عليه وسلم إذا قال ثلاثا لم يراجع، فخرج به ابن ابي حدرد إلى السوق وعلى راسه عصابة، وهو متزر ببرد، فنزع العمامة عن راسه، فاتزر بها، ونزع البردة، فقال: اشتر مني هذه البردة، فباعها منه باربعة الدراهم، فمرت عجوز , فقالت: ما لك يا صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فاخبرها، فقالت: ها دونك هذا ببرد عليها طرحته عليه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْمَدَنِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي يَحْيَى ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ أَبِي حَدْرَدٍ الْأَسْلَمِيِّ ، أَنَّهُ كَانَ لِيَهُودِيٍّ عَلَيْهِ أَرْبَعَةُ دَرَاهِمَ، فَاسْتَعْدَى عَلَيْهِ , فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِنَّ لِي عَلَى هَذَا أَرْبَعَةَ دَرَاهِمَ، وَقَدْ غَلَبَنِي عَلَيْهَا، فَقَالَ:" أَعْطِهِ حَقَّهُ" , قَالَ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أَقْدِرُ عَلَيْهَا، قَالَ:" أَعْطِهِ حَقَّهُ" , قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ , مَا أَقْدِرُ عَلَيْهَا، قَدْ أَخْبَرْتُهُ أَنَّكَ تَبْعَثُنَا إِلَى خَيْبَرَ، فَأَرْجُو أَنْ تُغْنِمَنَا شَيْئًا، فَأَرْجِعُ فَأَقْضِيهِ، قَالَ:" أَعْطِهِ حَقَّهُ" , قَالَ: وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَالَ ثَلَاثًا لَمْ يُرَاجَعْ، فَخَرَجَ بِهِ ابْنُ أَبِي حَدْرَدٍ إِلَى السُّوقِ وَعَلَى رَأْسِهِ عِصَابَةٌ، وَهُوَ مُتَّزِرٌ بِبُرْدٍ، فَنَزَعَ الْعِمَامَةَ عَنْ رَأْسِهِ، فَاتَّزَرَ بِهَا، وَنَزَعَ الْبُرْدَةَ، فَقَالَ: اشْتَرِ مِنِّي هَذِهِ الْبُرْدَةَ، فَبَاعَهَا مِنْهُ بِأَرْبَعَةِ الدَّرَاهِمِ، فَمَرَّتْ عَجُوزٌ , فَقَالَتْ: مَا لَكَ يَا صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَأَخْبَرَهَا، فَقَالَتْ: هَا دُونَكَ هَذَا بِبُرْدٍ عَلَيْهَا طَرَحَتْهُ عَلَيْهِ.
سیدنا ابن ابی حدرد سے مروی ہے کہ ایک یہو دی کے ان پر چار درہم قرض تھے وہ ان کے ساتھ ظلم و زیادتی سے پیش آنے لگا اور ایک مرتبہ بارگاہ نبوت میں بھی کہہ دیا کہ اے محمد اس شخص نے میرے چار درہم ادا کرنے ہیں لیکن یہ ادا نہیں کرتا اور مجھ پر غالب آگیا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ اس کا حق ادا کر و میں نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے مجھے ادائیگی کی قدرت نہیں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا حق ادا کر و میں نے کہا قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اس پر قدرت نہیں رکھتا البتہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ ہمیں خیبر کی طرف بھیجنے والے ہیں امید ہے کہ ہمیں وہاں سے مال غنیمت حاصل ہو گا تو واپس آ کر قرض اتاردوں گا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ اس کا حق ادا کر و نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ جب تین مرتبہ کسی کام کے لئے کہہ دیتے تو پھر اصرار نہ فرماتے تھے۔ یہ دیکھ کر میں اسے بازار کی طرف نکلا میرے سر پر عمامہ اور جسم پر ایک تہنبد تھا میں نے سر سے عمامہ اتارا اور اسے تہبند کی جگہ باندھ لیا اور تہنبد اتار کر اس سے کہا یہ چادر مجھ سے خرید لو اس نے وہ چادر درہم میں خرید لی اسی اثناء میں وہاں سے ایک بوڑھی عورت کا گزر ہوا اور کہنے لگی کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تمہیں کیا ہوا میں نے اسے ساراواقعہ سنایا اس پر وہ کہنے لگی کہ یہ چادر لے لو یہ کہہ کر اس نے اپنے جسم سے ایک زائد چادر اتار کر مجھ پر ڈال دی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، والد عبدالله بن محمد لم يدرك ابن أبى حدرد
(حديث مرفوع) حدثنا ابو النضر ، حدثنا شيبان ، عن عاصم ، عن ابي رزين ، عن عمرو بن ام مكتوم , قال: جئت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقلت: يا رسول الله، كنت ضريرا شاسع الدار، ولي قائد لا يلائمني، فهل تجد لي رخصة ان اصلي في بيتي؟ قال:" اتسمع النداء" , قال: قلت: نعم , قال:" ما اجد لك رخصة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِي رَزِينٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ , قَالَ: جِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كُنْتُ ضَرِيرًا شَاسِعَ الدَّارِ، وَلِي قَائِدٌ لَا يُلَائِمُنِي، فَهَلْ تَجِدُ لِي رُخْصَةً أَنْ أُصَلِّيَ فِي بَيْتِي؟ قَالَ:" أَتَسْمَعُ النِّدَاءَ" , قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ , قَالَ:" مَا أَجِدُ لَكَ رُخْصَةً".
سیدنا عمرو بن ام مکتوم سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور فرمایا کہ یا رسول اللہ! میرا گھر دور ہے مجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا مجھے ایک آدمی لابھی سکتا ہے اور وہ اس پر ناگواری کا اظہار بھی نہیں کرتا لیکن کیا آپ میرے لئے کوئی ایسی گنجائش دیکھتے ہیں کہ میں اپنے گھر میں ہی نماز پڑھ لیا کر وں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اذان کی آواز سنتے ہو میں نے کہا جی ہان نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر میں تمہارے لئے کوئی گنجائش نہیں پاتا۔
حكم دارالسلام: صحيح الغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، أبو رزين لم يسمع من ابن أم مكتوم
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، حدثنا عبد العزيز يعني ابن مسلم ، حدثنا الحصين ، عن عبد الله بن شداد بن الهاد ، عن ابن ام مكتوم ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتى المسجد، فراى في القوم رقة، فقال:" إني لاهم ان اجعل للناس إماما، ثم اخرج فلا اقدر على إنسان يتخلف عن الصلاة في بيته، إلا احرقته عليه" , فقال ابن ام مكتوم: يا رسول الله، إن بيني وبين المسجد نخلا وشجرا، ولا اقدر على قائد كل ساعة، ايسعني ان اصلي في بيتي؟ قال:" اتسمع الإقامة" , قال: نعم، قال:" فاتها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا الْحُصَيْنُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ ، عَنِ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى الْمَسْجِدَ، فَرَأَى فِي الْقَوْمِ رِقَّةً، فَقَالَ:" إِنِّي لَأَهُمُّ أَنْ أَجْعَلَ لِلنَّاسِ إِمَامًا، ثُمَّ أَخْرُجُ فَلَا أَقْدِرُ عَلَى إِنْسَانٍ يَتَخَلَّفُ عَنِ الصَّلَاةِ فِي بَيْتِهِ، إِلَّا أَحْرَقْتُهُ عَلَيْهِ" , فَقَالَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ بَيْنِي وَبَيْنَ الْمَسْجِدِ نَخْلًا وَشَجَرًا، وَلَا أَقْدِرُ عَلَى قَائِدٍ كُلَّ سَاعَةٍ، أَيَسَعُنِي أَنْ أُصَلِّيَ فِي بَيْتِي؟ قَالَ:" أَتَسْمَعُ الْإِقَامَةَ" , قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" فَأْتِهَا".
سیدنا ابن ام مکتوم سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں تشریف لائے تو لوگوں کی تعداد کم تھی اس پر آپ نے ارشاد فرمایا: میرادل چاہتا ہے کہ ایک آدمی کو لوگوں کا امام بناؤ اور خود باہر نکل جاؤ جس شخص کو دیکھو کہ وہ گھر میں نماز پڑھ رہا ہے اسے آگ لگادوں یہ سن کر سیدنا ابن ام مکتوم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے گھر اور مسجد نبوی کے درمیان باغ اور درخت آتے ہیں اور مجھے ہر لمحے کے لیے کوئی رہبر بھی میسر نہیں ہوتا کیا مجھے اپنے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت دیتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اذان کی آواز سنتے ہوانہوں نے عرض کیا: جی ہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر تم نماز کے لئے آیا کر و۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد صحيح إن كان عبدالله بن شداد سمعه من ابن ام مكتوم
(حديث مرفوع) حدثنا مروان بن معاوية الفزاري ، حدثنا عبد الواحد بن ايمن المكي ، عن عبيد الله بن عبد الله الزرقي ، عن ابيه ، وقال الفزاري مرة: عن ابن رفاعة الزرقي، عن ابيه، وقال غير الفزاري: عبيد بن رفاعة الزرقي , قال: لما كان يوم احد، وانكفا المشركون، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" استووا حتى اثني على ربي" , فصاروا خلفه صفوفا، فقال:" اللهم لك الحمد كله، اللهم لا قابض لما بسطت، ولا باسط لما قبضت، ولا هادي لما اضللت، ولا مضل لمن هديت، ولا معطي لما منعت، ولا مانع لما اعطيت، ولا مقرب لما باعدت، ولا مباعد لما قربت، اللهم ابسط علينا من بركاتك، ورحمتك، وفضلك، ورزقك اللهم إني اسالك النعيم المقيم الذي لا يحول ولا يزول، اللهم إني اسالك النعيم يوم العيلة، والامن يوم الخوف، اللهم إني عائذ بك من شر ما اعطيتنا، وشر ما منعت، اللهم حبب إلينا الإيمان وزينه في قلوبنا، وكره إلينا الكفر والفسوق والعصيان، واجعلنا من الراشدين، اللهم توفنا مسلمين، واحينا مسلمين، والحقنا بالصالحين غير خزايا ولا مفتونين، اللهم قاتل الكفرة الذين يكذبون رسلك، ويصدون عن سبيلك، واجعل عليهم رجزك وعذابك، اللهم قاتل الكفرة الذين اوتوا الكتاب إله الحق".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ أَيْمَنَ الْمَكِّيُّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الزُّرَقِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، وَقَالَ الْفَزَارِيُّ مَرَّةً: عَنِ ابْنِ رِفَاعَةَ الزُّرَقِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، وَقَالَ غَيْرُ الْفَزَارِيِّ: عُبَيْدِ بْنِ رِفَاعَةَ الزُّرَقِيّ , قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ، وَانْكَفَأَ الْمُشْرِكُونَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اسْتَوُوا حَتَّى أُثْنِيَ عَلَى رَبِّي" , فَصَارُوا خَلْفَهُ صُفُوفًا، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ كُلُّهُ، اللَّهُمَّ لَا قَابِضَ لِمَا بَسَطْتَ، وَلَا بَاسِطَ لِمَا قَبَضْتَ، وَلَا هَادِيَ لِمَا أَضْلَلْت، وَلَا مُضِلَّ لِمَنْ هَدَيْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا مُقَرِّبَ لِمَا بَاعَدْتَ، وَلَا مُبَاعِدَ لِمَا قَرَّبْتَ، اللَّهُمَّ ابْسُطْ عَلَيْنَا مِنْ بَرَكَاتِكَ، وَرَحْمَتِكَ، وَفَضْلِكَ، وَرِزْقِكَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ النَّعِيمَ الْمُقِيمَ الَّذِي لَا يَحُولُ وَلَا يَزُولُ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ النَّعِيمَ يَوْمَ الْعَيْلَةِ، وَالْأَمْنَ يَوْمَ الْخَوْفِ، اللَّهُمَّ إِنِّي عَائِذٌ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا أَعْطَيْتَنَا، وَشَرِّ مَا مَنَعْتَ، اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْإِيمَانَ وَزَيِّنْهُ فِي قُلُوبِنَا، وَكَرِّهْ إِلَيْنَا الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ، وَاجْعَلْنَا مِنَ الرَّاشِدِينَ، اللَّهُمَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ، وَأَحْيِنَا مُسْلِمِينَ، وَأَلْحِقْنَا بِالصَّالِحِينَ غَيْرَ خَزَايَا وَلَا مَفْتُونِينَ، اللَّهُمَّ قَاتِلْ الْكَفَرَةَ الَّذِينَ يُكَذِّبُونَ رُسُلَكَ، وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِكَ، وَاجْعَلْ عَلَيْهِمْ رِجْزَكَ وَعَذَابَكَ، اللَّهُمَّ قَاتِلْ الْكَفَرَةَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَهَ الْحَقِّ".
سیدنا عبداللہ زرقی سے مروی ہے کہ جب غزوہ احد کے دن مشرکین شکست خوردہ ہو کر بھاگے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا: سیدھے ہو جاؤ تاکہ میں اپنے رب کی ثناء بیان کر و چنانچہ وہ سب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف بستہ ہو گئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ تمام تعریفیں آپ ہی کے لئے ہیں آپ جسے کشادہ کر دیں اسے کوئی تنگ نہیں کر سکتا اور جسے آپ تنگ کر دیں اسے کوئی کشادہ نہیں کر سکتا جسے آپ گمراہ کر دیں اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا اور جسے آپ ہدایت دیدیں اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا جس سے آپ کچھ روک لیں اسے کوئی دے نہیں سکتا اور جسے آپ کچھ نہ دیں اس کو کوئی دے نہیں سکتا جسے آپ دور کر دیں اسے کوئی قریب نہیں کر سکتا جسے آپ قریب کر لیں اس کوئی دور نہیں کر سکتا ہم پر اپنی رحمتوں، برکتوں فضل و کر م اور رزق کشادہ عطا فرما۔ اے اللہ میں آپ سے ان دائمی نعمتوں کا سوال کرتا ہوں جو پھریں اور نہ زائل ہوں اسے اللہ میں آپ سے تنگدستی کے دن نعمتوں کا اور خوف کے دن امن کا سوال کرتا ہوں اے اللہ میں اس چیز کے شر سے آپ کی پناہ میں آتاہوں جو آپ نے ہمیں عطا فرمائی یا ہم سے روک لی اے اللہ ایمان کو ہماری نگاہوں میں محبوب کر اور ہمارے دلوں میں مزین فرما اور کفروفسق اور نافرمانی سے ہمیں کراہت عطا فرما اور ہمیں ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کر اے اللہ ہمیں حالت اسلام میں موت عطا فرما حالت اسلام میں زندہ رکھ اور نیک لوگوں میں اس طریقے شامل فرما کہ ہم رسواہوں اور نہ ہی کسی فتنے کا شکارہوں اے اللہ ان کافروں کو کیفر کر دار تک خود ہی پہنچا جو آپ کے پیغمبروں کی تکذیب کرتے ہیں اور آپ کے راستے میں مزاحم ہوتے ہیں اور ان پر اپنا عذاب مسلط فرما اے اللہ اسے سچے معبود ان کافروں کو کیفر کر دار تک پہنچا جنہیں پہلے کتاب دی گئی تھی۔
حكم دارالسلام: رجاله ثقات، وهم مروان بن معاوية فى اسم عبيدالله، صوابه: عبيد بن رفاعة، وثقة بعض الناس
(حديث مرفوع) حدثنا حسن بن موسى ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا الحارث بن يزيد ، عن ابي مصعب , قال: قدم رجل من اهل المدينة شيخ، فراوه موثرا في جهازه، فسالوه، فاخبرهم انه يريد المغرب، وقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" سيخرج ناس إلى المغرب ياتون يوم القيامة، وجوههم على ضوء الشمس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي مُصْعَبٍ , قَالَ: قَدِمَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ شَيْخٌ، فَرَأَوْهُ مُوَثِّرًا فِي جَهَازِهِ، فَسَأَلُوهُ، فَأَخْبَرَهُمْ أَنَّهُ يُرِيدُ الْمَغْرِبَ، وَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" سَيَخْرُجُ نَاسٌ إِلَى الْمَغْرِبِ يَأْتُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وُجُوهُهُمْ عَلَى ضَوْءِ الشَّمْسِ".
ابومصعب کہتے ہیں کہ مدینہ منورہ سے ایک مرتبہ ایک بزرگ تشریف لائے لوگوں نے دیکھا کہ وہ اپنا سامان سفر تیار کر رہے ہیں لوگوں نے ان سے پوچھا: تو انہوں نے بتایا کہ وہ مغرب کی طرف جارہے ہیں اور کہنے لگے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے عنقریب کچھ لوگ مغرب کی طرف نکل جائیں گے وہ قیامت کے دن اس حال میں آئیں گے کہ ان کے چہرے سورج کی طرح روشن ہوں گے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف ابن لهيعة، ولم يوجد ترجمة أبى مصعب
(حديث مرفوع) حدثنا إبراهيم بن ابي العباس ، قال: حدثنا بقية ، قال: حدثني عثمان بن زفر الجهني ، قال: حدثني ابو الاشد السلمي ، عن ابيه ، عن جده , قال: كنت سابع سبعة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: فامرنا نجمع لكل رجل منا درهما، فاشترينا اضحية بسبع الدراهم، فقلنا: يا رسول الله , لقد اغلينا بها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن افضل الضحايا اغلاها واسمنها" , وامر رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخذ رجل برجل، ورجل برجل، ورجل بيد، ورجل بيد، ورجل بقرن، ورجل بقرن، وذبحها السابع، وكبرنا عليها جميعا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْعَبَّاسِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ زُفَرَ الْجُهَنِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الْأَشَدِّ السُّلَمِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ , قَالَ: كُنْتُ سَابِعَ سَبْعَةٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَأَمَرَنَا نَجْمَعُ لِكُلِّ رَجُلٍ مِنَّا دِرْهَمًا، فَاشْتَرَيْنَا أُضْحِيَّةً بِسَبْعِ الدَّرَاهِمِ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , لَقَدْ أَغْلَيْنَا بِهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أَفْضَلَ الضَّحَايَا أَغْلَاهَا وَأَسْمَنُهَا" , وَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ رَجُلٌ بِرِجْلٍ، وَرَجُلٌ بِرِجْلٍ، وَرَجُلٌ بِيَدٍ، وَرَجُلٌ بِيَدٍ، وَرَجُلٌ بِقَرْنٍ، وَرَجُلٌ بِقَرْنٍ، وَذَبَحَهَا السَّابِعُ، وَكَبَّرْنَا عَلَيْهَا جَمِيعًا.
ابواشدد کے دادا کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات میں سے سا تو اں فرد تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ اور ہم میں سے ہر آدمی نے ایک ایک درہم جمع کیا سات درہم کے عوض میں ہم نے قربانی کا ایک جانور خریدا پھر ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ تو ہمیں مہنگا ملا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے افضل قربانی وہی ہے جو زیادہ مہنگی ہواور جانور زیادہ صحت مند ہو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر چار آدمیوں نے اس کی ایک ایک ٹانگ اور دو نے اس کا ایک ایک سینگ پکڑا اور ساتوں نے اسے ذبح کیا اور ہم سب نے اس پر تکبیر کہی۔
(حديث مرفوع) حدثنا إبراهيم بن ابي العباس ، حدثنا بقية ، حدثنا بحير بن سعد ، عن خالد بن معدان ، عن بعض اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" راى رجلا يصلي، وفي ظهر قدمه لمعة قدر الدرهم، لم يصبها الماء، فامره رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يعيد الوضوء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْعَبَّاسِ ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ ، حَدَّثَنَا بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" رَأَى رَجُلًا يُصَلِّي، وَفِي ظَهْرِ قَدَمِهِ لُمْعَةٌ قَدْرُ الدِّرْهَمِ، لَمْ يُصِبْهَا الْمَاءُ، فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعِيدَ الْوُضُوءَ".
ایک صحابی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ نماز پڑھ رہا ہے اور اس کے پاؤں کی پشت پر ایک درہم کے برابر کی جگہ ایسی بھی ہے کہ جس تک پانی پہنچاہی نہیں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وضولوٹانے کا حکم دیا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف من أجل بقية ، وهو يدلس تدليس التسوية