(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد ، حدثنا إسماعيل ، عن قيس ، عن عبد الله ، قال: كنا نغزو مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، وليس لنا نساء، فقلنا: يا رسول الله، الا نستخصي؟" فنهانا عنه، ثم رخص لنا بعد في ان نتزوج المراة بالثوب إلى اجل"، ثم قرا عبد الله: يايها الذين آمنوا لا تحرموا طيبات ما احل الله لكم ولا تعتدوا إن الله لا يحب المعتدين سورة المائدة آية 87".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ قَيْسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنَّا نَغْزُو مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَيْسَ لَنَا نِسَاءٌ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا نَسْتَخْصِي؟" فَنَهَانَا عَنْهُ، ثُمَّ رُخِّصَ لَنَا بَعْدُ فِي أَنْ نَتَزَوَّجَ الْمَرْأَةَ بِالثَّوْبِ إِلَى أَجَلٍ"، ثُمَّ قَرَأَ عَبْدُ اللَّهِ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ وَلا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ سورة المائدة آية 87".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں شرکت کرتے تھے، ہمارے ساتھ عورتیں نہیں ہوتی تھیں، ایک مرتبہ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم خصی نہ ہو جائیں؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع فرما دیا، بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک مخصوص وقت کے لئے کپڑوں کے عوض بھی عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت دے دی تھی، پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت فرمائی: «﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ﴾»[المائدة: 87]”اے اہل ایمان! اللہ نے تمہارے لئے جو پاکیزہ چیزیں حلال کر رکھی ہیں تم انہیں حرام نہ کرو، اور حد سے تجاوز نہ کرو، کیونکہ اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا حدثنا عبد الصمد ، حدثنا هشام ، عن قتادة ، عن الحسن ، عن عمران بن حصين ، عن عبد الله بن مسعود ، انه قال: تحدثنا ليلة عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، حتى اكرينا الحديث، ثم رجعنا إلى اهلنا، فلما اصبحنا، غدونا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" عرضت علي الانبياء باممها، واتباعها من اممها، فجعل النبي يمر ومعه الثلاثة من امته، والنبي معه العصابة من امته، والنبي معه النفر من امته، والنبي معه الرجل من امته، والنبي ما معه احد، حتى مر علي موسى بن عمران صلى الله عليه وسلم في كبكبة من بني إسرائيل، فلما رايتهم اعجبوني، قلت: يا رب، من هؤلاء؟ فقال: هذا اخوك موسى بن عمران ومن معه من بني إسرائيل، قلت: يا رب، فاين امتي؟ قال: انظر عن يمينك، فإذا الظراب ظراب مكة، قد سد بوجوه الرجال، قلت: من هؤلاء يا رب؟ قال: امتك، قلت: رضيت رب، قال: ارضيت؟ قلت: نعم، قال: انظر عن يسارك، قال: فنظرت، فإذا الافق قد سد بوجوه الرجال، فقال: رضيت؟ قلت: رضيت، قيل: فإن مع هؤلاء سبعين الفا يدخلون الجنة، لا حساب عليهم"، فانشا عكاشة بن محصن، احد بني اسد بن خزيمة، فقال: يا نبي الله، ادع الله ان يجعلني منهم، فقال:" اللهم اجعله منهم"، ثم انشا رجل آخر، فقال: يا رسول الله، ادع الله ان يجعلني منهم، قال:" سبقك بها عكاشة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّهُ قَالَ: تَحَدَّثْنَا لَيْلَةً عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى أَكْرَيْنَا الْحَدِيثَ، ثُمَّ رَجَعْنَا إِلَى أَهْلِنَا، فَلَمَّا أَصْبَحْنَا، غَدَوْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" عُرِضَتْ عَلَيَّ الْأَنْبِيَاءُ بِأُمَمِهَا، وَأَتْبَاعُهَا مِنْ أُمَمِهَا، فَجَعَلَ النَّبِيُّ يَمُرُّ وَمَعَهُ الثَّلَاثَةُ مِنْ أُمَّتِهِ، وَالنَّبِيُّ مَعَهُ الْعِصَابَةُ مِنْ أُمَّتِهِ، وَالنَّبِيُّ مَعَهُ النَّفَرُ مِنْ أُمَّتِهِ، وَالنَّبِيُّ مَعَهُ الرَّجُلُ مِنْ أُمَّتِهِ، وَالنَّبِيُّ مَا مَعَهُ أَحَدٌ، حَتَّى مَرَّ عَلَيَّ مُوسَى بْنُ عِمْرَانَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي كَبْكَبَةٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَلَمَّا رَأَيْتُهُمْ أَعْجَبُونِي، قُلْتُ: يَا رَبِّ، مَنْ هَؤُلَاءِ؟ فَقَالَ: هَذَا أَخُوكَ مُوسَى بْنُ عِمْرَانَ وَمَنْ مَعَهُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، قُلْتُ: يَا رَبِّ، فَأَيْنَ أُمَّتِي؟ قَالَ: انْظُرْ عَنْ يَمِينِكَ، فَإِذَا الظِّرَابُ ظِرَابُ مَكَّةَ، قَدْ سُدَّ بِوُجُوهِ الرِّجَالِ، قُلْتُ: مَنْ هَؤُلَاءِ يَا رَبِّ؟ قَالَ: أُمَّتُكَ، قُلْتُ: رَضِيتُ رَبِّ، قَالَ: أَرَضِيتَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: انْظُرْ عَنْ يَسَارِكَ، قَالَ: فَنَظَرْتُ، فَإِذَا الْأُفُقُ قَدْ سُدَّ بِوُجُوهِ الرِّجَالِ، فَقَالَ: رَضِيتَ؟ قُلْتُ: رَضِيتُ، قِيلَ: فَإِنَّ مَعَ هَؤُلَاءِ سَبْعِينَ أَلْفًا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ، لَا حِسَابَ عَلَيهُمْ"، فَأَنْشَأَ عُكَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ، أَحَدُ بَنِي أَسَدِ بْنِ خُزَيْمَةَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ مِنْهُمْ"، ثُمَّ أَنْشَأُ رَجُلٌ آخَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ:" سَبَقَكَ بِهَا عُكَّاشَةُ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رات کے وقت ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں دیر تک باتیں کرتے رہے، جب صبح کو حاضر ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج رات میرے سامنے مختلف انبیاء کرام علیہم السلام کو ان کی امتوں کے ساتھ پیش کیا گیا، چنانچہ ایک نبی گزرے تو ان کے ساتھ صرف تین آدمی تھے، ایک نبی گزرے تو ان کے ساتھ ایک چھوٹی سی جماعت تھی، ایک نبی گزرے تو ان کے ساتھ ایک گروہ تھا، اور کسی نبی کے ساتھ کوئی بھی نہیں تھا، حتی کہ میرے پاس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا گزر ہوا جن کے ساتھ بنی اسرائیل کی بہت بڑی تعداد تھی، جسے دیکھ کر مجھے تعجب ہوا اور میں نے پوچھا: ”یہ کون لوگ ہیں؟“ مجھے بتایا گیا کہ یہ آپ کے بھائی موسیٰ ہیں اور ان کے ساتھ بنی اسرائیل کے لوگ ہیں، میں نے پوچھا کہ ”پھر میری امت کہاں ہے؟“ مجھ سے کہا گیا کہ اپنی دائیں جانب دیکھئے، میں نے دائیں جانب دیکھا تو ایک ٹیلہ لوگوں کے چہروں سے بھرا ہوا نظر آیا، پھر مجھ سے کہا گیا کہ اپنی بائیں جانب دیکھئے، میں نے بائیں جانب دیکھا تو افق لوگوں کے چہروں سے بھرا ہوا نظر آیا، پھر مجھ سے کہا گیا: کیا آپ راضی ہیں؟ میں نے کہا: ”پروردگار! میں راضی ہوں، میں خوش ہوں“، پھر مجھ سے کہا گیا کہ ان لوگوں کے ساتھ ستر ہزار ایسے بھی ہوں گے جو بلا حساب کتاب جنت میں داخل ہوں گے۔“ یہ سن کر سیدنا عکاشہ بن محصن اسدی رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر کہنے لگے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ سے دعا کر دیجئے کہ وہ مجھے بھی ان میں شامل کر دے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! اسے بھی ان میں شامل فرما“، پھر ایک اور آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ سے دعا کر دیجئے کہ وہ مجھے بھی ان میں شال کر دے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عکاشہ تم پر سبقت لے گئے۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف، علته عنعنة الحسن البصري، فإنه لم يسمع من عمران بن حصين.
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، وحسن بن موسى ، قالا: حدثنا حماد ، عن عاصم ، عن زر بن حبيش ، عن ابن مسعود ، انه كان يجتني سواكا من الاراك وكان دقيق الساقين، فجعلت الريح تكفؤه، فضحك القوم منه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" مم تضحكون؟" قالوا: يا نبي الله، من دقة ساقيه، فقال:" والذي نفسي بيده، لهما اثقل في الميزان من احد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، وَحَسَنُ بْنُ مُوسَى ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّهُ كَانَ يَجْتَنِي سِوَاكًا مِنَ الْأَرَاكِ وَكَانَ دَقِيقَ السَّاقَيْنِ، فَجَعَلَتْ الرِّيحُ تَكْفَؤُهُ، فَضَحِكَ الْقَوْمُ مِنْهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مِمَّ تَضْحَكُونَ؟" قَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، مِنْ دِقَّةِ سَاقَيْهِ، فَقَالَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَهُمَا أَثْقَلُ فِي الْمِيزَانِ مِنْ أُحُدٍ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ پیلو کی مسواک چن رہے تھے، ان کی پنڈلیاں پتلی تھیں، جب ہوا چلتی تو وہ لڑکھڑانے لگتے تھے، لوگ یہ دیکھ کر ہنسنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ ”تم کیوں ہنس رہے ہو؟“ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان کی پتلی پتلی پنڈلیاں دیکھ کر، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، یہ دونوں پنڈلیاں میزان عمل میں احد پہاڑ سے بھی زیادہ وزنی ہیں۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن، وله شاهد من حديث على برقم: 920 بإسناد حسن.
حدثنا حدثنا عبد الصمد ، وعفان ، المعنى، قالا: حدثنا حماد ، قال عفان: اخبرنا عاصم ، عن زر ، عن ابن مسعود ، قال: اقراني رسول الله صلى الله عليه وسلم سورة الاحقاف، واقراها رجلا آخر فخالفني في آية، فقلت له: من اقراكها؟ فقال: رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاتيته وهو في نفر، فقلت: يا رسول الله، الم تقرئني آية كذا وكذا؟ فقال:" بلى"، قال: قلت: فإن هذا يزعم انك اقراتها إياه كذا وكذا؟ فتغير وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال الرجل الذي عنده: ليقرا كل رجل منكم كما سمع،" فإنما هلك من كان قبلكم بالاختلاف"، قال: فوالله ما ادري ارسول الله صلى الله عليه وسلم امره بذلك ام هو قاله؟حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، وَعَفَّانُ ، المعنى، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، قَالَ عَفَّانُ: أَخْبَرَنَا عَاصِمٌ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: أَقْرَأَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُورَةَ الْأَحْقَافِ، وَأَقْرَأَهَا رَجُلًا آخَرَ فَخَالَفَنِي فِي آيَةٍ، فَقُلْتُ لَهُ: مَنْ أَقْرَأَكَهَا؟ فَقَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْتُهُ وَهُوَ فِي نَفَرٍ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَمْ تُقْرِئْنِي آيَةَ كَذَا وَكَذَا؟ فَقَالَ:" بَلَى"، قَالَ: قُلْتُ: فَإِنَّ هَذَا يَزْعُمُ أَنَّكَ أَقْرَأْتَهَا إِيَّاهُ كَذَا وَكَذَا؟ فَتَغَيَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ الرَّجُلُ الَّذِي عِنْدَهُ: لِيَقْرَأْ كُلُّ رَجُلٍ مِنْكُمْ كَمَا سَمِعَ،" فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِالِاخْتِلَافِ"، قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا أَدْرِي أَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ بِذَلِكَ أَمْ هُوَ قَالَهُ؟
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک آدمی کو سورہ احقاف کی تلاوت کرتے ہوئے سنا، وہ ایک مختلف طریقے سے قرأت کر رہا تھا، دوسرا آدمی دوسرے طریقے سے اسے پڑھ رہا تھا جو اس کے ساتھی سے مختلف تھا، اور میں اسے تیسرے طریقے سے پڑھ رہا تھا جس پر وہ دونوں پڑھ رہے تھے، ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور انہیں اس کی اطلاع دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آیا، چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا اور فرمایا: ”اختلاف نہ کرو، کیونکہ تم سے پہلے لوگ اختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوگئے تھے۔“ زر کہتے ہیں کہ ان کے پاس ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا، وہ کہنے لگا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم میں سے ہر شخص قرآن کی تلاوت اسی طرح کیا کرے جیسے اسے پڑھایا گیا ہے، کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو اختلاف ہی نے ہلاک کیا تھا، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے معلوم نہیں کہ یہ چیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصیت کے ساتھ ان ہی سے بیان فرمائی تھی یا یہ ان کی اپنی رائے ہے۔
حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا ابو بكر ، عن عاصم ، عن زر ، عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم... معناه، وقال: فغضب وتمعر وجهه، وقال:" إنما اهلك من كان قبلكم الاختلاف".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْر ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ... مَعْنَاهُ، وَقَالَ: فَغَضِبَ وَتَمَعَّرَ وَجْهُهُ، وَقَالَ:" إِنَّمَا أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ الِاخْتِلَافُ".
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، وعفان ، قالا: حدثنا حماد ، عن عاصم ، عن زر ، عن ابن مسعود ، ان رجلا من اهل الصفة مات، فوجدوا في بردته دينارين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كيتان".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، وَعَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الصُّفَّةِ مَاتَ، فَوَجَدُوا فِي بُرْدَتِهِ دِينَارَيْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَيَّتَانِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اہل صفہ میں سے ایک صاحب کا انتقال ہو گیا، لوگوں کو ان کی چادر میں دو دینار ملے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ جہنم کے دو انگارے ہیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، حدثنا حماد ، حدثنا عاصم ، عن ابي وائل ، عن ابن مسعود ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خطب النساء، فقال لهن:" ما منكن امراة يموت لها ثلاثة، إلا ادخلها الله عز وجل الجنة"، فقالت اجلهن امراة: يا رسول الله، وصاحبة الاثنين في الجنة؟ قال:" وصاحبة الاثنين في الجنة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ النِّسَاءَ، فَقَالَ لَهُنَّ:" مَا مِنْكُنَّ امْرَأَةٌ يَمُوتُ لَهَا ثَلَاثَةٌ، إِلَّا أَدْخَلَهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْجَنَّةَ"، فَقَالَتْ أَجَلُّهُنَّ امْرَأَةً: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَصَاحِبَةُ الِاثْنَيْنِ فِي الْجَنَّةِ؟ قَالَ:" وَصَاحِبَةُ الِاثْنَيْنِ فِي الْجَنَّةِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ”تم میں سے جس عورت کے تین بچے فوت ہوئے ہیں، اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا“، ان میں سب سے بڑی عورت بولی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا دو بچے بھیجنے والی بھی جنت میں جائے گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو والی بھی جنت میں جائے گی۔“
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد حسن، وله شاهد عند البخاري: 101، ومسلم: 2933.