(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا عبيد الله ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" إذا دخل مكة دخل من الثنية العليا، وإذا خرج خرج من الثنية السفلى".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِذَا دَخَلَ مَكَّةَ دَخَلَ مِنَ الثَّنِيَّةِ الْعُلْيَا، وَإِذَا خَرَجَ خَرَجَ مِنَ الثَّنِيَّةِ السُّفْلَى".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے تو ”ثنیہ علیا“ سے داخل ہوتے اور جب باہر جاتے تو ”ثنیہ سفلی“ سے باہر جاتے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں صحابہ کر ام رضی اللہ عنہم کی کثیر تعداد کے باوجود جب درجہ بندی کرتے تھے، تو ہم یوں شمار کرتے تھے سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہم یہاں پہنچ کر ہم خاموش ہو جاتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، حدثنا الحجاج بن ابي عثمان ، عن ابي الزبير ، عن عون بن عبد الله بن عتبة ، عن ابن عمر ، قال: بينا نحن نصلي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ قال رجل في القوم:" الله اكبر كبيرا، والحمد لله كثيرا، وسبحان الله بكرة واصيلا"، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من القائل كذا وكذا؟" فقال رجل من القوم: انا يا رسول الله، قال:" عجبت لها، فتحت لها ابواب السماء"، قال ابن عمر: فما تركتهن منذ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ذلك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ نُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ قَالَ رَجُلٌ فِي الْقَوْمِ:" اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا، وَسُبْحَانَ اللَّهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا"، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ الْقَائِلُ كَذَا وَكَذَا؟" فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" عَجِبْتُ لَهَا، فُتِحَتْ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ"، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَمَا تَرَكْتُهُنَّ مُنْذُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ ذَلِكَ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے اسی دوران ایک آدمی کہنے لگا «الله اكبر كبيرا، والحمدلله كثيرا، و سبحان الله بكرة واصيلا» نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعد پوچھا کہ یہ جملے کس نے کہے تھے؟ وہ آدمی بولا، یا رسول اللہ! میں نے کہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے ان جملوں پر بڑا تعجب ہوا کہ ان کے لئے آسمان کے سارے دروازے کھول دئیے گئے، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے جب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی یہ بات سنی ہے میں نے ان کلمات کو کبھی ترک نہیں کیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، عن ايوب ، عن نافع ، قال: كان ابن عمر " إذا دخل ادنى الحرم، امسك عن التلبية، فإذا انتهى إلى ذي طوى بات به حتى يصبح، ثم يصلي الغداة، ويغتسل، ويحدث ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يفعله، ثم يدخل مكة ضحى، فياتي البيت، فيستلم الحجر، ويقول: بسم الله، والله اكبر، ثم يرمل ثلاثة اطواف، يمشي ما بين الركنين، فإذا اتى على الحجر استلمه، وكبر اربعة اطواف مشيا، ثم ياتي المقام، فيصلي ركعتين، ثم يرجع إلى الحجر، فيستلمه، ثم يخرج إلى الصفا الباب الاعظم، فيقوم عليه، فيكبر سبع مرار، ثلاثا يكبر، ثم يقول: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد، وهو على كل شيء قدير".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ " إِذَا دَخَلَ أَدْنَى الْحَرَمِ، أَمْسَكَ عَنِ التَّلْبِيَةِ، فَإِذَا انْتَهَى إِلَى ذِي طُوًى بَاتَ بِهِ حَتَّى يُصْبِحَ، ثُمَّ يُصَلِّيَ الْغَدَاةَ، وَيَغْتَسِلَ، وَيُحَدِّثَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَفْعَلُهُ، ثُمَّ يَدْخُلُ مَكَّةَ ضُحًى، فَيَأْتِي الْبَيْتَ، فَيَسْتَلِمُ الْحَجَرَ، وَيَقُولُ: بِسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، ثُمَّ يَرْمُلُ ثَلَاثَةَ أَطْوَافٍ، يَمْشِي مَا بَيْنَ الرُّكْنَيْنِ، فَإِذَا أَتَى عَلَى الْحَجَر اسْتَلَمَهُ، وَكَبَّرَ أَرْبَعَةَ أَطْوَافٍ مَشْيًا، ثُمَّ يَأْتِي الْمَقَامَ، فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى الْحَجَرِ، فَيَسْتَلِمُهُ، ثُمَّ يَخْرُجُ إِلَى الصَّفَا الْبَابِ الْأَعْظَمِ، فَيَقُومُ عَلَيْهِ، فَيُكَبِّرُ سَبْعَ مِرَارٍ، ثَلَاثًا يُكَبِّرُ، ثُمَّ يَقُولُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ".
نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما جب حرم کے قریب حصے میں پہنچتے تو تلبیہ روک دیتے جب مقام ذی طوی پر پہنچتے تو وہاں رات گزارتے صبح ہونے کے بعد فجر کی نماز پڑھتے غسل کرتے اور بتاتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کیا کرتے تھے، پھر چاشت کے وقت مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے بیت اللہ کے قریب پہنچ کر حجر اسود کا استلام «بسم الله، والله اكبر» کہہ کر فرماتے، طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل کرتے، البتہ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان عام رفتار سے چلتے، جب حجر اسود پر پہنچتے تو اس کا استلام کرتے اور تکبیر کہتے، بقیہ چار چکر عام رفتار سے پورے کرتے، مقام ابراہیم پر چلے جاتے اور اس پر کھڑے ہو کر سات مرتبہ تکبیر کہتے اور پھر یوں کہتے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کی حکومت ہے اور اسی کی تعریفات ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، عن عبد الخالق ، قال: سالت سعيد بن المسيب عن النبيذ؟ فقال: سمعت عبد الله بن عمر ، يقول عند منبر رسول الله صلى الله عليه وسلم: هذا قدم وفد عبد القيس مع الاشج، فسالوا نبي الله صلى الله عليه وسلم عن الشراب، فقال:" لا تشربوا في حنتمة، ولا في دباء، ولا نقير"، فقلت له: يا ابا محمد، والمزفت؟ وظننت انه نسي، فقال: لم اسمعه يومئذ من عبد الله بن عمر، وقد كان يكرهه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ عَبْدِ الْخَالِقِ ، قَالَ: سَأَلْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ عَنْ النَّبِيذِ؟ فَقَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ عِنْدَ مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَذَا قَدِمَ وَفْدُ عَبْدِ الْقَيْسِ مَعَ الْأَشَجِّ، فَسَأَلُوا نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الشَّرَابِ، فَقَالَ:" لَا تَشْرَبُوا فِي حَنْتَمَةٍ، وَلَا فِي دُبَّاءٍ، وَلَا نَقِيرٍ"، فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَا مُحَمَّدٍ، وَالْمُزَفَّتُ؟ وَظَنَنْتُ أَنَّهُ نَسِيَ، فَقَالَ: لَمْ أَسْمَعْهُ يَوْمَئِذٍ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَقَدْ كَانَ يَكْرَهُهُ.
عبدالخالق کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے نبیذ کے متعلق سوال کیا، انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اس منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ ایک مرتبہ بنو عبدالقیس کا وفد اپنے سردار کے ساتھ آیا، ان لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشروبات کے متعلق پوچھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جواب دیا کہ حنتم، دبا، یا نقیر میں کچھ مت پیو،میں نے ان سے عرض کیا کہ اے ابومحمد! کیا اس ممانعت میں ”مزفت“ بھی شامل ہے؟ میرا خیال تھا کہ شاید وہ یہ لفظ بھول گئے ہیں، لیکن وہ کہنے لگے کہ میں نے اس دن سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو اس کا تذکر ہ کرتے ہوئے نہیں سنا تھا البتہ وہ اسے ناپسند ضرور کرتے تھے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سانڈ کو مادہ جانور سے جفتی کروانے کے لئے کسی کو دینے پر اجرت لینے سے منع فرمایا ہے (یا یہ کہ ایسی کمائی کو استعمال کرنے کی ممانعت فرمائی ہے)۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، ومحمد بن جعفر ، قالا: حدثنا معمر ، عن الزهري ، قال: ابن جعفر في حديثه: اخبرنا ابن شهاب ، عن سالم ، عن ابيه ، ان غيلان بن سلمة الثقفي اسلم وتحته عشر نسوة، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" اختر منهن اربعا"، فلما كان في عهد عمر طلق نساءه، وقسم ماله بين بنيه، فبلغ ذلك عمر، فقال: إني لاظن الشيطان فيما يسترق من السمع سمع بموتك، فقذفه في نفسك، ولعلك ان لا تمكث إلا قليلا، وايم الله، لتراجعن نساءك، ولترجعن في مالك، او لاورثهن منك، ولآمرن بقبرك فيرجم كما رجم قبر ابي رغال.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَال: ابْنُ جَعْفَرٍ فِي حَدِيثِهِ: أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ غَيْلَانَ بْنَ سَلَمَةَ الثَّقَفِيَّ أَسْلَمَ وَتَحْتَهُ عَشْرُ نِسْوَةٍ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اخْتَرْ مِنْهُنَّ أَرْبَعًا"، فَلَمَّا كَانَ فِي عَهْدِ عُمَرَ طَلَّقَ نِسَاءَهُ، وَقَسَمَ مَالَهُ بَيْنَ بَنِيهِ، فَبَلَغَ ذَلِكَ عُمَرَ، فَقَالَ: إِنِّي لَأَظُنُّ الشَّيْطَانَ فِيمَا يَسْتَرِقُ مِنَ السَّمْعِ سَمِعَ بِمَوْتِكَ، فَقَذَفَهُ فِي نَفْسِكَ، وَلَعَلَّكَ أَنْ لَا تَمْكُثَ إِلَّا قَلِيلًا، وَايْمُ اللَّهِ، لَتُرَاجِعَنَّ نِسَاءَكَ، وَلَتَرْجِعَنَّ فِي مَالِكَ، أَوْ لَأُوَرِّثُهُنَّ مِنْكَ، وَلَآمُرَنَّ بِقَبْرِكَ فَيُرْجَمُ كَمَا رُجِمَ قَبْرُ أَبِي رِغَالٍ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ غیلان بن سلمہ ثقفی نے جس وقت اسلام قبول کیا ان کے نکاح میں دس بیویاں تھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ان میں سے چار کو منتخب کر لو (باقی کو فارغ کر دو چنانچہ انہوں نے ایساہی کیا) اور جب عمر رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا تو انہوں نے اپنی باقی بیویوں کو بھی طلاق دے دی اور اپنا سارا مال اپنے بیٹوں میں تقسیم کر دیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ میرا خیال ہے شیطان کو چوری چھپے سننے کی وجہ سے تمہاری موت کی خبر معلوم ہو گئی اور وہ اس نے تمہارے دل میں ڈال دی ہے ہو سکتا ہے کہ اب تم تھوڑا عرصہ ہی زندہ رہو، اللہ کی قسم! یا تو تم اپنی بیویوں سے رجوع کر لو اور اپنی تقسیم وراثت سے بھی رجوع کر لو، ورنہ میں تمہاری طرف سے تمہاری بیویوں کو بھی وارث بناؤں گا (اور انہیں ان کا حصہ دلاؤں گا) اور تمہاری قبر پر پتھر مارنے کا حکم دے دوں گا اور جیسے ابو رغال کی قبر پر پتھر مارے جاتے ہیں، تمہاری قبر پر بھی مارے جائیں گے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، لكن المرفوع منه أخطأ فيه معمر، كما سلف برقم : 4609
(حديث مرفوع) حدثنا عباد بن العوام ، حدثنا سفيان بن حسين ، عن الزهري ، عن سالم ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كتب كتاب الصدقة، فلم يخرجه إلى عماله حتى قبض، فقرنه بسيفه، فلما قبض عمل به ابو بكر رضي الله عنه حتى قبض، ثم عمر حتى قبض، فكان فيه" في خمس من الإبل شاة، وفي عشر شاتان، وفي خمس عشرة ثلاث شياه، وفي عشرين اربع شياه، وفي خمس وعشرين ابنة مخاض". قال عبد الله بن احمد: قال ابي: ثم اصابتني علة في مجلس عباد بن العوام، فكتبت تمام الحديث، فاحسبني لم افهم بعضه، فشككت في بقية الحديث، فتركته.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ كِتَابَ الصَّدَقَةِ، فَلَمْ يُخْرِجْهُ إِلَى عُمَّالِهِ حَتَّى قُبِضَ، فَقَرَنَهُ بِسَيْفِهِ، فَلَمَّا قُبِضَ عَمِلَ بِهِ أَبُو بَكْر رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَتَّى قُبِضَ، ثُمَّ عُمَرُ حَتَّى قُبِضَ، فَكَانَ فِيهِ" فِي خَمْسٍ مِنَ الْإِبِلِ شَاةٌ، وَفِي عَشْرٍ شَاتَانِ، وَفِي خَمْسَ عَشْرَةَ ثَلَاثُ شِيَاهٍ، وَفِي عِشْرِينَ أَرْبَعُ شِيَاهٍ، وَفِي خَمْسٍ وَعِشْرِينَ ابْنَةُ مَخَاضٍ". قال عبد الله بن أحمد: قَالَ أَبِي: ثُمَّ أَصَابَتْنِي عِلَّةٌ فِي مَجْلِسِ عَبَّادِ بْنِ الْعَوَّامِ، فَكَتَبْتُ تَمَامَ الْحَدِيثِ، فَأَحْسَبُنِي لَمْ أَفْهَمْ بَعْضَهُ، فَشَكَكْتُ فِي بَقِيَّةِ الْحَدِيثِ، فَتَرَكْتُهُ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کی تفصیل سے متعلق ایک تحریر لکھوائی تھی لیکن اپنے گورنروں کو بھجوانے سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تحریر اپنی تلوار کے ساتھ (میان میں) رکھ چھوڑی تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اس پر عمل کرتے رہے یہاں تک کہ ان کا وصال ہو گیا پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی اس پر عمل کرتے رہے تاآنکہ وہ بھی فوت ہو گئے، اس تحریر میں یہ لکھا تھا کہ پانچ اونٹوں پر ایک بکر ی واجب ہو گی، دس میں میں دو بکریاں، پندرہ میں تین، بیس میں چار اور پچیس میں ایک بنت مخاض واجب ہو گی۔ عبداللہ بن احمد کہتے ہیں میرے والد صاحب نے فرمایا: یہاں تک پہنچ کر مجھے عباد بن عوام کی مجلس میں کوئی عذر پیش آ گیا،میں نے حدیث تو مکمل لکھ لی لیکن میرا خیال ہے کہ مجھے اس کا کچھ حصہ سمجھ میں نہیں آیا، اس لئے مجھے بقیہ حدیث میں شک ہو گیا جس کی بناء پر میں نے اسے ترک کر دیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعیف، سفیان بن حسین ضعيف في روايته عن الزهري، ثقة في غيره
حدثني ابي بهذا الحديث في المسند في حديث الزهري، عن سالم، لانه كان قد جمع حديث الزهري عن سالم فحدثنا به في حديث سالم، عن محمد بن يزيد بتمامه، وفي حديث عباد عن عباد بن العوام.حَدَّثَنِي أَبِي بِهَذَا الْحَدِيثِ فِي الْمُسْنَدِ فِي حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، لِأَنَّهُ كَانَ قَدْ جَمَعَ حَدِيثَ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ فَحَدَّثَنَا بِهِ فِي حَدِيثِ سَالِمٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَزِيدَ بِتَمَامِهِ، وَفِي حَدِيثِ عَبَّادٍ عَنْ عَبَّادِ بْنِ الْعَوَّامِ.
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن يزيد يعني الواسطي ، عن سفيان يعني ابن حسين ، عن الزهري ، عن سالم ، عن ابيه ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد كتب الصدقة ولم يخرجها إلى عماله حتى توفي، قال: فاخرجها ابو بكر من بعده، فعمل بها حتى توفي، ثم اخرجها عمر من بعده، فعمل بها، قال: فلقد هلك عمر يوم هلك وإن ذلك لمقرون بوصيته، فقال: كان فيها" في الإبل في كل خمس شاة، حتى تنتهي إلى اربع وعشرين، فإذا بلغت إلى خمس وعشرين، ففيها بنت مخاض، إلى خمس وثلاثين، فإن لم تكن ابنة مخاض، فابن لبون، فإذا زادت على خمس وثلاثين، ففيها ابنة لبون، إلى خمس واربعين، فإذا زادت واحدة، ففيها حقة، إلى ستين، فإذا زادت ففيها جذعة، إلى خمس وسبعين، فإذا زادت، ففيها ابنتا لبون، إلى تسعين، فإذا زادت، ففيها حقتان، إلى عشرين ومئة، فإذا كثرت الإبل، ففي كل خمسين حقة، وفي كل اربعين ابنة لبون، وفي الغنم من اربعين شاة إلى عشرين ومئة، فإذا زادت ففيها شاتان، إلى مئتين فإذا زادت ففيها ثلاث إلى ثلاث مئة، فإذا زادت بعد، فليس فيها شيء حتى تبلغ اربع مئة، فإذا كثرت الغنم، ففي كل مئة شاة" وكذلك لا يفرق بين مجتمع، ولا يجمع بين متفرق، مخافة الصدقة، وما كان من خليطين، فهما يتراجعان بالسوية، لا تؤخذ هرمة، ولا ذات عيب من الغنم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ يَعْنِي الْوَاسِطِيَّ ، عَنْ سُفْيَانَ يَعْنِي ابْنَ حُسَيْنٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَتَبَ الصَّدَقَةَ وَلَمْ يُخْرِجْهَا إِلَى عُمَّالِهِ حَتَّى تُوُفِّيَ، قَالَ: فَأَخْرَجَهَا أَبُو بَكْرٍ مِنْ بَعْدِهِ، فَعَمِلَ بِهَا حَتَّى تُوُفِّيَ، ثُمَّ أَخْرَجَهَا عُمَرُ مِنْ بَعْدِهِ، فَعَمِلَ بِهَا، قَالَ: فَلَقَدْ هَلَكَ عُمَرُ يَوْمَ هَلَكَ وَإِنَّ ذَلِكَ لَمَقْرُونٌ بِوَصِيَّتِهِ، فَقَالَ: كَانَ فِيهَا" فِي الْإِبِلِ فِي كُلِّ خَمْسٍ شَاةٌ، حَتَّى تَنْتَهِيَ إِلَى أَرْبَعٍ وَعِشْرِينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ إِلَى خَمْسٍ وَعِشْرِينَ، فَفِيهَا بِنْتُ مَخَاضٍ، إِلَى خَمْسٍ وَثَلَاثِينَ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ ابْنَةُ مَخَاضٍ، فَابْنُ لَبُونٍ، فَإِذَا زَادَتْ عَلَى خَمْسٍ وَثَلَاثِينَ، فَفِيهَا ابْنَةُ لَبُونٍ، إِلَى خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً، فَفِيهَا حِقَّةٌ، إِلَى سِتِّينَ، فَإِذَا زَادَتْ فَفِيهَا جَذَعَةٌ، إِلَى خَمْسٍ وَسَبْعِينَ، فَإِذَا زَادَتْ، فَفِيهَا ابْنَتَا لَبُونٍ، إِلَى تِسْعِينَ، فَإِذَا زَادَتْ، فَفِيهَا حِقَّتَانِ، إِلَى عِشْرِينَ وَمِئَةٍ، فَإِذَا كَثُرَتِ الْإِبِلُ، فَفِي كُلِّ خَمْسِينَ حِقَّةٌ، وَفِي كُلِّ أَرْبَعِينَ ابْنَةُ لَبُونٍ، وَفِي الْغَنَمِ مِنْ أَرْبَعِينَ شَاةٌ إِلَى عِشْرِينَ وَمِئَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ فَفِيهَا شَاتَانِ، إِلَى مِئَتَيْنِ فَإِذَا زَادَتْ فَفِيهَا ثَلَاثٌ إِلَى ثَلَاثِ مِئَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ بَعْدُ، فَلَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ حَتَّى تَبْلُغَ أَرْبَعَ مِئَةٍ، فَإِذَا كَثُرَتْ الْغَنَمُ، فَفِي كُلِّ مِئَةٍ شَاةٌ" وَكَذَلِكَ لَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ، وَلَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ، مَخَافَةَ الصَّدَقَةِ، وَمَا كَانَ مِنْ خَلِيطَيْنِ، فَهُمَا يَتَرَاجَعَانِ بِالسَّوِيَّةِ، لَا تُؤْخَذُ هَرِمَةٌ، وَلَا ذَاتُ عَيْبٍ مِنَ الْغَنَمِ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کی تفصیل سے متعلق ایک تحریر لکھوائی تھی لیکن اپنے گورنروں کو بھجوانے سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تحریر اپنی تلوار کے ساتھ (میان میں) رکھ چھوڑی تھی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اس پر عمل کرتے رہے یہاں تک کہ ان کا وصال ہو گیا، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی اس پر عمل کرتے رہے تاآنکہ وہ بھی فوت ہو گئے، اس تحریر میں یہ لکھا تھا کہ پانچ اونٹوں پر ایک بکری واجب ہو گی، دس میں دو بکریاں، پندرہ میں تین، بیس میں چار اور پچیس میں ایک بنت مخاض واجب ہو گی۔ اور یہی تعداد ٣٥ اونٹوں تک رہے گی، اگر کسی کے پاس بنت مخاض نہ ہو تو وہ ایک ابن لبون مذکر (جو تیسرے سال میں لگ گیا ہو) دے دے۔جب اونٹوں کی تعداد ٣٦ ہو جائے تو اس میں ٤٥ تک ایک بنت لبون واجب ہو گی جب اونٹوں کی تعداد ٤٦ ہو جائے تو اس میں ایک حقہ (چوتھے سال میں لگ جانے والی اونٹنی) کا وجوب ہو گا، جس کے پاس رات کو نر جانور آ سکے۔ یہ حکم ساٹھ تک رہے گا جب یہ تعداد ٦١ ہو جائے تو ٧٥ تک اس میں ایک جزعہ (جو پانچویں سال میں لگ جائے) واجب ہو گا، جب یہ تعداد ٧٦ ہو جائے تو ٩٠ تک اس میں دو بنت لبون واجب ہوں گی جب یہ تعداد ٩١ ہو جائے تو ١٢٠ تک اس میں دو حقے ہوں گے جن کے پاس نر جانور آ سکے، جب یہ تعداد ١٢٠ سے تجاوز کر جائے تو ہر چالیس میں ایک بنت لبون اور ہر پچاس میں ایک حقہ واجب ہو گا۔ سائمہ (خود چر کر اپنا پیٹ بھرنے والی) بکریوں میں زکوٰۃ کی تفصیل اس طرح ہے کہ جب بکریوں کی تعداد چالیس ہو جائے تو ١٢٠ تک ایک واجب ہو گی ٢٠٠ تک دو بکریاں اور تین سو تک تین بکریاں واجب ہوں گی، اس کے بعد چار سو تک کچھ اضافہ نہیں ہو گا، لیکن جب تعداد زیادہ ہو جائے گی تو اس کے بعد ہر سو میں ایک بکری دیناواجب ہو گی۔ نیز زکوٰۃ سے بچنے کے لئے متفرق جانوروں کو جمع اور اکٹھے جانوروں کو متفرق نہ کیا جائے اور یہ کہ اگر دو قسم کے جانور ہوں (مثلاً بکریاں بھی اور اونٹ بھی) تو ان دونوں کے درمیان برابری سے زکوٰۃ تقسیم ہو جائے گی اور زکوٰۃ میں انتہائی بوڑھی یا عیب دار بکری نہیں لی جائے گی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف سفيان بن حسين في روايته، عن الزهري