(حديث مرفوع) حدثنا اسود بن عامر ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن محمد بن إسحاق ، عن يزيد بن عبد الله بن قسيط ، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن بن عوف ، عن عبد الرحمن بن عوف ،" ان قوما من العرب اتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة، فاسلموا واصابهم وباء المدينة حماها، فاركسوا فخرجوا من المدينة , فاستقبلهم نفر من اصحابه يعني: اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، فقالوا لهم: ما لكم رجعتم؟ قالوا: اصابنا وباء المدينة، فاجتوينا المدينة، فقالوا: اما لكم في رسول الله اسوة؟ فقال بعضهم: نافقوا، وقال بعضهم: لم ينافقوا , هم مسلمون، فانزل الله عز وجل فما لكم في المنافقين فئتين والله اركسهم بما كسبوا سورة النساء آية 88.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ،" أَنَّ قَوْمًا مِنَ الْعَرَبِ أَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، فَأَسْلَمُوا وَأَصَابَهُمْ وَبَاءُ الْمَدِينَةِ حُمَّاهَا، فَأُرْكِسُوا فَخَرَجُوا مِنَ الْمَدِينَةِ , فَاسْتَقْبَلَهُمْ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِهِ يَعْنِي: أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا لَهُمْ: مَا لَكُمْ رَجَعْتُمْ؟ قَالُوا: أَصَابَنَا وَبَاءُ الْمَدِينَةِ، فَاجْتَوَيْنَا الْمَدِينَةَ، فَقَالُوا: أَمَا لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ؟ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: نَافَقُوا، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَمْ يُنَافِقُوا , هُمْ مُسْلِمُونَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ وَاللَّهُ أَرْكَسَهُمْ بِمَا كَسَبُوا سورة النساء آية 88.
سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عرب کی ایک قوم مدینہ منورہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، ان لوگوں نے اسلام قبول کر لیا، لیکن انہیں مدینہ منورہ کی آب و ہوا موافق نہ آئی اس لئے وہ شدید بخار میں مبتلا ہو گئے اور ان پر یہ مصیبت آ پڑی، چنانچہ وہ لوگ مدینہ منورہ سے نکل گئے، راستے میں ان کا آمنا سامنا کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ہو گیا، انہوں نے ان سے پوچھا کہ تم لوگ کیوں واپس جا رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں وہاں کی آب و ہوا موافق نہیں آئی اور ہمیں پیٹ کی بیماریاں لاحق ہو گئی ہیں، انہوں نے کہا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں تمہارے لئے نمونہ موجود نہیں ہے؟ اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں دو گروہ ہو گئے، بعض نے انہیں منافق قرار دیا اور بعض کہنے لگے کہ یہ منافق نہیں ہیں بلکہ مسلمان ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «﴿فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ وَاللّٰهُ أَرْكَسَهُم بِمَا كَسَبُوا﴾ [النساء: 88] »”تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ منافقین کے بارے دو گروہوں میں بٹ گئے، حالانکہ اللہ نے انہیں ان کی حرکتوں کی وجہ سے اس مصیبت میں مبتلا کیا۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن اسحاق مدلس وقد عنعن وأبو سلمة لم يسمع من أبيه.
(حديث مرفوع) حدثنا هاشم بن القاسم ، حدثنا شريك ، عن عاصم بن عبيد الله ، عن عبد الله بن عامر بن ربيعة ، قال:" سمع عمر بن الخطاب رضي الله عنه صوت ابن المغترف، او ابن الغرف الحادي في جوف الليل، ونحن منطلقون إلى مكة، فاوضع عمر راحلته حتى دخل مع القوم، فإذا هو مع عبد الرحمن ، فلما طلع الفجر، قال عمر: هيء الآن، اسكت الآن، قد طلع الفجر , اذكروا الله، قال: ثم ابصر على عبد الرحمن خفين، قال: وخفان؟ فقال: قد لبستهما مع من هو خير منك، او مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال عمر: عزمت عليك إلا نزعتهما، فإني اخاف، ان ينظر الناس إليك، فيقتدون بك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ ، قَالَ:" سَمِعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ صَوْتَ ابْنِ الْمُغْتَرِفِ، أَوْ ابْنِ الْغَرِفِ الْحَادِي فِي جَوْفِ اللَّيْلِ، وَنَحْنُ مُنْطَلِقُونَ إِلَى مَكَّةَ، فَأَوْضَعَ عُمَرُ رَاحِلَتَهُ حَتَّى دَخَلَ مَعَ الْقَوْمِ، فَإِذَا هُوَ مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، فَلَمَّا طَلَعَ الْفَجْرُ، قَالَ عُمَرُ: هَيْءَ الْآنَ، اسْكُتْ الْآنَ، قَدْ طَلَعَ الْفَجْرُ , اذْكُرُوا اللَّهَ، قَالَ: ثُمَّ أَبْصَرَ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ خُفَّيْنِ، قَالَ: وَخُفَّانِ؟ فَقَالَ: قَدْ لَبِسْتُهُمَا مَعَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْكَ، أَوْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عُمَرُ: عَزَمْتُ عَلَيْكَ إِلَّا نَزَعْتَهُمَا، فَإِنِّي أَخَافُ، أَنْ يَنْظُرَ النَّاسُ إِلَيْكَ، فَيَقْتَدُونَ بِكَ".
عبداللہ بن عامر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ مکہ مکرمہ جا رہے تھے، آدھی رات کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے کانوں میں ابن مطرف - جو اونٹوں کا حدی خوان تھا - کی آواز پڑی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی سواری کو بٹھایا اور لوگوں میں داخل ہو گئے، وہاں سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، جب طلوع فجر ہو گئی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا: اب بس کرو، اب خاموش ہو جاؤ کیونکہ طلوع فجر ہو چکی، اب اللہ کا ذکر کرو۔ پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نگاہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے موزوں پر پڑی تو فرمایا کہ آپ نے موزے پہن رکھے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہ تو میں نے اس ہستی کی موجودگی میں بھی پہنے ہیں جو آپ سے بہتر تھی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ ان موزوں کو اتار دیجئے، اس لئے کہ مجھے خطرہ ہے کہ اگر لوگوں نے آپ کو دیکھ لیا تو وہ آپ کی پیروی کرنے لگیں گے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، شريك بن عبدالله ضعيف، سوء حفظه وعاصم بن عبيدالله ضعيف.
قال: وحدثناه إسحاق بن عيسى ، حدثنا شريك ، فذكره بإسناده، وقال: لبستهما مع رسول الله صلى الله عليه وسلم.قَالَ: وحَدَّثَنَاه إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، فَذَكَرَهُ بِإِسْنَادِهِ، وَقَالَ: لَبِسْتُهُمَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، حدثنا هشام بن عروة ، عن عروة , ان عبد الرحمن بن عوف ، قال:" اقطعني رسول الله صلى الله عليه وسلم، وعمر بن الخطاب ارض كذا وكذا"، فذهب الزبير إلى آل عمر، فاشترى نصيبه منهم، فاتى عثمان بن عفان، فقال: إن عبد الرحمن بن عوف زعم، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اقطعه، وعمر بن الخطاب ارض كذا وكذا، وإني اشتريت نصيب آل عمر، فقال عثمان: عبد الرحمن جائز الشهادة له وعليه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ عُرْوَةَ , أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ ، قَال:" أَقْطَعَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَرْضَ كَذَا وَكَذَا"، فَذَهَبَ الزُّبَيْرُ إِلَى آلِ عُمَرَ، فَاشْتَرَى نَصِيبَهُ مِنْهُمْ، فَأَتَى عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ، فَقَالَ: إِنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ زَعَمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْطَعَهُ، وَعُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَرْضَ كَذَا وَكَذَا، وَإِنِّي اشْتَرَيْتُ نَصِيبَ آلِ عُمَرَ، فَقَالَ عُثْمَانُ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ جَائِزُ الشَّهَادَةِ لَهُ وَعَلَيْهِ.
سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو زمین کا فلاں فلاں ٹکڑا عنایت کیا تھا، سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے آل عمر کے پاس جا کر ان سے ان کا حصہ خرید لیا اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آکر کہنے لگے کہ عبدالرحمن کا یہ خیال تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو زمین کا فلاں ٹکڑا عنایت فرمایا تھا اور میں نے آل عمر کا حصہ خرید لیا ہے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ عبدالرحمن کی شہادت قابل اعتبار ہے۔
حكم دارالسلام: رجاله ثقات إلا أن في سماع عروة من عبدالرحمن بن عوف وقفة.
ابن سعدی کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”ہجرت اس وقت تک ختم نہیں ہوتی جب تک دشمن قتال نہ کرے۔“ سیدنا امیر معاویہ، سیدنا عبدالرحمن بن عوف اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ہجرت کی دو قسمیں ہیں، ایک تو گناہوں سے ہجرت ہے اور دوسری اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت ہے، اور ہجرت اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک توبہ قبول ہوتی رہے گی، اور توبہ اس وقت تک قبول ہوتی رہے گی جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو جائے، اور جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو ہر دل پر مہر لگا دی جائے گی اور عمل سے لوگوں کی کفایت کر لی جائے گی (یعنی اس وقت کوئی عمل کام نہ آئے گا اور نہ اس کی ضرورت رہے گی)۔“
سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک مجوسی آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے نکلا، میں نے اس سے اس مجلس کی تفصیلات معلوم کیں، تو اس نے مجھے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ٹیکس اور قتل میں سے کوئی ایک صورت قبول کر لینے کا اختیار دیا تھا جس میں سے اس نے ٹیکس والی صورت کو اختیار کر لیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، سعيد بن عبدالعزيز اختلط بأخرة وسليمان بن موسى لم يدرك عبدالرحمن بن عوف.
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سلمة يوسف بن يعقوب الماجشون ، عن صالح بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف ، عن ابيه ، عن جده عبد الرحمن بن عوف ، انه قال: إني لواقف يوم بدر في الصف , نظرت عن يميني وعن شمالي، فإذا انا بين غلامين من الانصار، حديثة اسنانهما، تمنيت لو كنت بين اضلع منهما، فغمزني احدهما، فقال: يا عم، هل تعرف ابا جهل؟ قال: قلت: نعم، وما حاجتك يا ابن اخي، قال: بلغني انه سب رسول الله صلى الله عليه وسلم والذي نفسي بيده، لو رايته لم يفارق سوادي سواده حتى يموت الاعجل منا، قال: فغمزني الآخر، فقال لي مثلها، قال: فتعجبت لذلك، قال: فلم انشب ان نظرت إلى ابي جهل يزل جول في الناس، فقلت لهما: الا تريان؟ هذا صاحبكما الذي تسالان عنه، فابتدراه، فاستقبلهما، فضرباه حتى قتلاه، ثم انصرفا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخبراه، فقال:" ايكما قتله؟" فقال كل واحد منهما: انا قتلته، قال:" هل مسحتما سيفيكما؟"، قالا: لا، فنظر رسول الله صلى الله عليه وسلم في السيفين، فقال:" كلاكما قتله" , وقضى بسلبه لمعاذ بن عمرو بن الجموح، وهما معاذ بن عمرو بن الجموح، ومعاذ ابن عفراء.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ الْمَاجِشُونُ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، أَنَّهُ قَالَ: إِنِّي لَوَاقِفٌ يَوْمَ بَدْرٍ فِي الصَّفِّ , نَظَرْتُ عَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي، فَإِذَا أَنَا بَيْنَ غُلَامَيْنِ مِنَ الْأَنْصَارِ، حَدِيثَةٍ أَسْنَانُهُمَا، تَمَنَّيْتُ لَوْ كُنْتُ بَيْنَ أَضْلَعَ مِنْهُمَا، فَغَمَزَنِي أَحَدُهُمَا، فَقَالَ: يَا عَمِّ، هَلْ تَعْرِفُ أَبَا جَهْلٍ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، وَمَا حَاجَتُكَ يَا ابْنَ أَخِي، قَالَ: بَلَغَنِي أَنَّهُ سَبَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ رَأَيْتُهُ لَمْ يُفَارِقْ سَوَادِي سَوَادَهُ حَتَّى يَمُوتَ الْأَعْجَلُ مِنَّا، قَالَ: فَغَمَزَنِي الْآخَرُ، فَقَالَ لِي مِثْلَهَا، قَالَ: فَتَعَجَّبْتُ لِذَلِكَ، قَالَ: فَلَمْ أَنْشَبْ أَنْ نَظَرْتُ إِلَى أَبِي جَهْلٍ يَزُلْ جُولُ فِي النَّاسِ، فَقُلْتُ لَهُمَا: أَلَا تَرَيَانِ؟ هَذَا صَاحِبُكُمَا الَّذِي تَسْأَلَانِ عَنْهُ، فَابْتَدَرَاهُ، فَاسْتَقْبَلَهُمَا، فَضَرَبَاهُ حَتَّى قَتَلَاهُ، ثُمَّ انْصَرَفَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَاهُ، فَقَالَ:" أَيُّكُمَا قَتَلَهُ؟" فَقَالَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا: أَنَا قَتَلْتُهُ، قَالَ:" هَلْ مَسَحْتُمَا سَيْفَيْكُمَا؟"، قَالَا: لَا، فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السَّيْفَيْنِ، فَقَالَ:" كِلَاكُمَا قَتَلَهُ" , وَقَضَى بِسَلَبِهِ لِمُعَاذِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ، وَهُمَا مُعَاذُ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ، وَمُعَاذُ ابْنُ عَفْرَاءَ.
سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے دن میں مجاہدین کی صف میں کھڑا ہوا تھا، میں نے دائیں بائیں دیکھا تو دو نوعمر نوجوان میرے دائیں بائیں کھڑے تھے، میں نے دل میں سوچا کہ اگر میں دو بہادر آدمیوں کے درمیان ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا؟ اتنی دیر میں ان میں سے ایک نے مجھے چٹکی بھری اور کہنے لگا: چچاجان! کیا آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں؟ میں نے کہا: ہاں! لیکن بھتیجے! تمہیں اس سے کیا کام ہے؟ اس نے کہا: مجھے پتہ چلا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتا ہے، اللہ کی قسم! اگر میں نے اسے دیکھ لیا تو میں اس وقت تک اس سے جدا نہیں ہوں گا جب تک کہ ہم میں سے کسی کو موت نہ آجائے۔ مجھے اس کی بات پر تعجب ہوا، اور ابھی میں اس پر تعجب کر ہی رہا تھا کہ دوسرے نے مجھے چٹکی بھری اور اس نے بھی مجھ سے یہی بات کہی، تھوڑی دیر بعد مجھے ابوجہل لوگوں میں گھومتا ہوا نظر آگیا، میں نے ان دونوں سے کہا: یہی ہے وہ آدمی جس کا تم مجھ سے پوچھ رہے تھے، یہ سنتے ہی وہ دونوں اس پر اپنی تلواریں لے کر ٹوٹ پڑے یہاں تک کہ اسے قتل کر کے ہی دم لیا، اور واپس آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ ”تم میں سے کس نے اسے قتل کیا ہے؟“ دونوں میں سے ہر ایک نے کہا کہ میں نے اسے قتل کیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے اپنی تلواریں صاف کر لیں ہیں؟“ انہوں نے کہا: نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھ کر فرمایا کہ ”تم دونوں نے اسے قتل کیا ہے“، اور اس کے ساز و سامان کا فیصلہ معاذ بن عمرو بن الجموح کے حق میں کر دیا، ان دونوں بچوں کے نام معاذ بن عمرو بن الجموح اور معاذ بن عفراء تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا ابو عوانة ، عن عمر بن ابي سلمة ، عن ابيه ، قال: حدثني قاص اهل فلسطين ، قال: سمعت عبد الرحمن بن عوف ، يقول: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" ثلاث والذي نفس محمد بيده، إن كنت لحالفا عليهن لا ينقص مال من صدقة، فتصدقوا، ولا يعفو عبد عن مظلمة يبتغي بها وجه الله إلا رفعه الله بها عزا" , وقال ابو سعيد مولى بني هاشم: إلا زاده الله بها عزا يوم القيامة ولا يفتح عبد باب مسالة إلا فتح الله عليه باب فقر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي قَاصُّ أَهْلِ فِلَسْطِينَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ ، يَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" ثَلَاثٌ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، إِنْ كُنْتُ لَحَالِفًا عَلَيْهِنَّ لَا يَنْقُصُ مَالٌ مِنْ صَدَقَةٍ، فَتَصَدَّقُوا، وَلَا يَعْفُو عَبْدٌ عَنْ مَظْلَمَةٍ يَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ بِهَا عِزَّاً" , وقَالَ أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ: إِلَّا زَادَهُ اللَّهُ بِهَا عِزًّا يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يَفْتَحُ عَبْدٌ بَابَ مَسْأَلَةٍ إِلَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ بَابَ فَقْرٍ".
سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! تین چیزیں ایسی ہیں جن پر میں قسم کھا سکتا ہوں، ایک تو یہ کہ صدقہ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا اس لئے صدقہ دیا کرو، دوسری یہ کہ جو شخص کسی ظلم پر ظالم کو صرف رضاء الٰہی کے لئے معاف کر دے اللہ تعالیٰ اس کی عزت میں اضافہ فرمائے گا، اور تیسری یہ کہ جو شخص ایک مرتبہ مانگنے کا دروازہ کھول لیتا ہے اللہ اس پر تنگدستی کا دروازہ کھول دیتا ہے۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة قاص أهل فلسطين ولضعف عمر بن أبى سلمة.
(حديث مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا عبد العزيز بن محمد الدراوردي ، عن عبد الرحمن بن حميد ، عن ابيه ، عن عبد الرحمن بن عوف ، ان النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" ابو بكر في الجنة، وعمر في الجنة، وعلي في الجنة، وعثمان في الجنة، وطلحة في الجنة، والزبير في الجنة، وعبد الرحمن بن عوف في الجنة، وسعد بن ابي وقاص في الجنة، وسعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل في الجنة، وابو عبيدة بن الجراح في الجنة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ الدَّرَاوَرْدِيُّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حُمَيْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" أَبُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَلِيٌّ فِي الْجَنَّةِ، وَعُثْمَانُ فِي الْجَنَّةِ، وَطَلْحَةُ فِي الْجَنَّةِ، وَالزُّبَيْرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فِي الْجَنَّةِ، وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ فِي الْجَنَّةِ، وَسَعِيدُ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ فِي الْجَنَّةِ، وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ فِي الْجَنَّةِ".
سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر جنت میں ہوں گے، عمر، علی، عثمان، طلحہ، زبیر، عبدالرحمن بن عوف، سعد بن مالک، سعید بن زید اور ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہم اجمعین بھی جنت میں ہوں گے۔“
سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں اپنے چچاؤں کے ساتھ - جبکہ ابھی میں نوعمر تھا - حلف المطیبین - جسے حلف الفضول بھی کہا جاتا ہے - میں شریک ہوا تھا، مجھے یہ پسند نہیں کہ میں اس معاہدے کو توڑ ڈالوں اگرچہ مجھے اس کے بدلے میں سرخ اونٹ بھی دیئے جائیں۔“