ابوالحکم کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مٹکے کی نبیذ کے متعلق سوال کیا، تو انہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے عنہ کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹکے، کدو کی تونبی، سبز رنگ کی روغنی ہنڈیا یا برتن سے منع فرمایا ہے۔
عبداللہ بن سرجس کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو بوسہ دے رہے ہیں اور اس سے مخاطب ہو کر فرما رہے ہیں، میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، لیکن میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے دیکھا ہے۔
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت ابا جمرة الضبعي يحدث، عن جويرية بن قدامة ، قال: حججت فاتيت المدينة العام الذي اصيب فيه عمر ، قال: فخطب، فقال:" إني رايت كان ديكا احمر نقرني نقرة او نقرتين" شعبة الشاك، فكان من امره انه طعن، فاذن للناس عليه، فكان اول من دخل عليه اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ثم اهل المدينة، ثم اهل الشام، ثم اذن لاهل العراق، فدخلت فيمن دخل، قال: فكان كلما دخل عليه قوم، اثنوا عليه وبكوا، قال: فلما دخلنا عليه، قال: وقد عصب بطنه بعمامة سوداء، والدم يسيل، قال: فقلنا: اوصنا، قال: وما ساله الوصية احد غيرنا، فقال:" عليكم بكتاب الله، فإنكم لن تضلوا ما اتبعتموه، فقلنا: اوصنا، فقال: اوصيكم بالمهاجرين، فإن الناس سيكثرون ويقلون، واوصيكم بالانصار، فإنهم شعب الإسلام الذي لجئ إليه، واوصيكم بالاعراب، فإنهم اصلكم ومادتكم، واوصيكم باهل ذمتكم، فإنهم عهد نبيكم ورزق عيالكم، قوموا عني"، قال: فما زادنا على هؤلاء الكلمات، قال محمد بن جعفر: قال شعبة: ثم سالته بعد ذلك، فقال في الاعراب: واوصيكم بالاعراب، فإنهم إخوانكم، وعدو عدوكم.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا جَمْرَةَ الضُّبَعِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ جُوَيْرِيَةَ بْنِ قُدَامَةَ ، قَالَ: حَجَجْتُ فَأَتَيْتُ الْمَدِينَةَ الْعَامَ الَّذِي أُصِيبَ فِيهِ عُمَرُ ، قَالَ: فَخَطَبَ، فَقَالَ:" إِنِّي رَأَيْتُ كَأَنَّ دِيكًا أَحْمَرَ نَقَرَنِي نَقْرَةً أَوْ نَقْرَتَيْنِ" شُعْبَةُ الشَّاكُّ، فَكَانَ مِنْ أَمْرِهِ أَنَّهُ طُعِنَ، فَأُذِنَ لِلنَّاسِ عَلَيْهِ، فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ دَخَلَ عَلَيْهِ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ أَهْلُ الْمَدِينَةِ، ثُمَّ أَهْلُ الشَّامِ، ثُمَّ أُذِنَ لِأَهْلِ الْعِرَاقِ، فَدَخَلْتُ فِيمَنْ دَخَلَ، قَالَ: فَكَانَ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهِ قَوْمٌ، أَثْنَوْا عَلَيْهِ وَبَكَوْا، قَالَ: فَلَمَّا دَخَلْنَا عَلَيْهِ، قَالَ: وَقَدْ عَصَبَ بَطْنَهُ بِعِمَامَةٍ سَوْدَاءَ، وَالدَّمُ يَسِيلُ، قَالَ: فَقُلْنَا: أَوْصِنَا، قَالَ: وَمَا سَأَلَهُ الْوَصِيَّةَ أَحَدٌ غَيْرُنَا، فَقَالَ:" عَلَيْكُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ، فَإِنَّكُمْ لَنْ تَضِلُّوا مَا اتَّبَعْتُمُوهُ، فَقُلْنَا: أَوْصِنَا، فَقَالَ: أُوصِيكُمْ بِالْمُهَاجِرِينَ، فَإِنَّ النَّاسَ سَيَكْثُرُونَ وَيَقِلُّونَ، وَأُوصِيكُمْ بِالْأَنْصَارِ، فَإِنَّهُمْ شَعْبُ الْإِسْلَامِ الَّذِي لَجِئَ إِلَيْهِ، وَأُوصِيكُمْ بِالْأَعْرَابِ، فَإِنَّهُمْ أَصْلُكُمْ وَمَادَّتُكُمْ، وَأُوصِيكُمْ بِأَهْلِ ذِمَّتِكُمْ، فَإِنَّهُمْ عَهْدُ نَبِيِّكُمْ وَرِزْقُ عِيَالِكُمْ، قُومُوا عَنِّي"، قَالَ: فَمَا زَادَنَا عَلَى هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ: قَالَ شُعْبَةُ: ثُمَّ سَأَلْتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَقَالَ فِي الْأَعْرَابِ: وَأُوصِيكُمْ بِالْأَعْرَابِ، فَإِنَّهُمْ إِخْوَانُكُمْ، وَعَدُوُّ عَدُوِّكُمْ.
جویریہ بن قدامہ کہتے ہیں کہ جس سال سیدنا عمر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے، مجھے اس سال حج کی سعادت نصیب ہوئی، میں مدینہ منورہ بھی حاضر ہوا، وہاں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک سرخ رنگ کا مرغا مجھے ایک یا دو مرتبہ ٹھونگ مارتا ہے اور ایسا ہی ہوا تھا کہ قاتلانہ حملے میں ان پر نیزے کے زخم آئے تھے۔ بہرحال! لوگوں کو ان کے پاس آنے کی اجازت دی گئی تو سب سے پہلے ان کے پاس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تشریف لائے، پھر عام اہل مدینہ، پھر اہل شام اور پھر اہل عراق، اہل عراق کے ساتھ داخل ہونے والوں میں میں بھی شامل تھا، جب بھی لوگوں کی کوئی جماعت ان کے پاس جاتی تو ان کی تعریف کرتی اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے۔ جب ہم ان کے کمرے میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ان کے پیٹ کو سفید عمامے سے باندھ دیا گیا ہے لیکن اس میں سے خون کا سیل رواں جاری ہے، ہم نے ان سے وصیت کی درخواست کی جو کہ اس سے قبل ہمارے علاوہ کسی اور نے نہ کی تھی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کتاب اللہ کو لازم پکڑو، کیونکہ جب تک تم اس کی اتباع کرتے رہو گے، ہرگز گمراہ نہ ہو گے، ہم نے مزید وصیت کی درخواست کی تو فرمایا: میں تمہیں مہاجرین کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ لوگ تو کم اور زیادہ ہوتے ہی رہتے ہیں، انصار کے ساتھ بھی حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ اسلام کا قلعہ ہیں جہاں اہل اسلام نے آکر پناہ لی تھی، نیز دیہاتیوں سے کیونکہ وہ تمہاری اصل اور تمہارا مادہ ہیں، نیز ذمیوں سے بھی حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں، کیونکہ وہ تمہارے نبی کی ذمہ داری میں ہیں (ان سے معاہدہ کر رکھا ہے) اور تمہارے اہل و عیال کا رزق ہیں۔ اب جاؤ، اس سے زائد بات انہوں نے کوئی ارشاد نہیں فرمائی، البتہ راوی نے ایک دوسرے موقع پر دیہاتیوں سے متعلق جملے میں اس بات کا بھی اضافہ کیا کہ وہ تمہارے بھائی اور تمہارے دشمن کے دشمن ہیں۔
حدثنا حجاج ، انبانا شعبة ، سمعت ابا جمرة الضبعي يحدث، عن جويرية بن قدامة ، قال: حججت، فاتيت المدينة العام الذي اصيب فيه عمر ، قال: فخطب، فقال:" إني رايت كان ديكا احمر نقرني نقرة او نقرتين" شعبة الشاك، قال: فما لبث إلا جمعة حتى طعن... فذكر مثله، إلا انه قال:" واوصيكم باهل ذمتكم، فإنهم ذمة نبيكم، قال شعبة: ثم سالته بعد ذلك، فقال في الاعراب: واوصيكم بالاعراب، فإنهم إخوانكم، وعدو عدوكم".حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ ، سَمِعْتُ أَبَا جَمْرَةَ الضُّبَعِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ جُوَيْرِيَةَ بْنِ قُدَامَةَ ، قَالَ: حَجَجْتُ، فَأَتَيْتُ الْمَدِينَةَ الْعَامَ الَّذِي أُصِيبَ فِيهِ عُمَرُ ، قَالَ: فَخَطَبَ، فَقَالَ:" إِنِّي رَأَيْتُ كَأَنَّ دِيكًا أَحْمَرَ نَقَرَنِي نَقْرَةً أَوْ نَقْرَتَيْنِ" شُعْبَةُ الشَّاكُّ، قَالَ: فَمَا لَبِثَ إِلَّا جُمُعَةً حَتَّى طُعِنَ... فَذَكَرَ مِثْلَهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ:" وَأُوصِيكُمْ بِأَهْلِ ذِمَّتِكُمْ، فَإِنَّهُمْ ذِمَّةُ نَبِيِّكُمْ، قَالَ شُعْبَةُ: ثُمَّ سَأَلْتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَقَالَ فِي الْأَعْرَابِ: وَأُوصِيكُمْ بِالْأَعْرَابِ، فَإِنَّهُمْ إِخْوَانُكُمْ، وَعَدُوُّ عَدُوِّكُمْ".
جویریہ بن قدامہ کہتے ہیں کہ جس سال سیدنا عمر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے، مجھے اس سال حج کی سعادت نصیب ہوئی، میں مدینہ منورہ بھی حاضر ہوا، وہاں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک سرخ رنگ کا مرغا مجھے ایک یا دو مرتبہ ٹھونگ مارتا ہے، چنانچہ ابھی ایک جمعہ ہی گزر ا تھا کہ ان پر حملہ ہو گیا، پھر راوی نے مکمل حدیث ذکر کی اور یہ کہ میں تمہیں ذمیوں سے بھی حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں، کیونکہ وہ تمہارے نبی کی ذمہ داری میں ہیں (ان سے معاہدہ کر رکھا ہے) اور دیہاتیوں کے حوالے سے فرمایا کہ میں تمہیں دیہاتیوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ تمہارے بھائی اور تمہارے دشمنوں کے دشمن ہیں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ مجھے ایسے لوگوں نے اس بات کی شہادت دی ہے جن کی بات قابل اعتماد ہوتی ہے، ان میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں جو میری نظروں میں ان سب سے زیادہ قابل اعتماد ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے اور عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک کوئی نفلی نماز نہ پڑھی جائے۔
سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ”جابیہ“ میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم پہننے سے (مرد کو) منع فرمایا ہے، سوائے دو تین یا چار انگلیوں کی مقدار کے اور یہ کہہ کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی ہتھیلی سے بھی اشارہ کیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وسماع محمد بن جعفر من سعيد بن أبى عروبة مختلف فيه : أقبل الاختلاط أم بعده؟ خ : 5828، م: 2069
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا كهمس ، عن ابن بريدة . ويزيد بن هارون ، قال: حدثنا كهمس ، عن ابن بريدة ، عن يحيى بن يعمر ، سمع ابن عمر ، قال: حدثني عمر بن الخطاب ، قال: بينما نحن ذات يوم عند نبي الله صلى الله عليه وسلم، إذ طلع علينا رجل شديد بياض الثياب، شديد سواد الشعر، لا يرى، قال يزيد: لا نرى عليه اثر السفر، ولا يعرفه منا احد، حتى جلس إلى نبي الله صلى الله عليه وسلم، فاسند ركبتيه إلى ركبتيه، ووضع كفيه على فخذيه، ثم قال: يا محمد، اخبرني عن الإسلام، ما الإسلام؟ فقال:" الإسلام: ان تشهد ان لا إله إلا الله، وان محمدا رسول الله، وتقيم الصلاة، وتؤتي الزكاة، وتصوم رمضان، وتحج البيت إن استطعت إليه سبيلا"، قال: صدقت، قال: فعجبنا له، يساله ويصدقه، قال: ثم قال: اخبرني عن الإيمان، قال:" الإيمان: ان تؤمن بالله، وملائكته، وكتبه، ورسله، واليوم الآخر، والقدر كله: خيره وشره"، قال: صدقت، قال: فاخبرني عن الإحسان، ما الإحسان؟ قال يزيد:" ان تعبد الله كانك تراه، فإن لم تكن تراه فإنه يراك"، قال: فاخبرني عن الساعة، قال:" ما المسئول عنها باعلم بها من السائل"، قال: فاخبرني عن اماراتها، قال:" ان تلد الامة ربتها، وان ترى الحفاة العراة رعاء الشاء يتطاولون في البناء"، قال: ثم انطلق، قال: فلبث مليا، قال يزيد: ثلاثا فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا عمر، اتدري من السائل؟" قال: قلت: الله ورسوله اعلم، قال:" فإنه جبريل، اتاكم يعلمكم دينكم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ . وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ ، سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ ذَاتَ يَوْمٍ عِنْدَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ، شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعَرِ، لَا يُرَى، قَالَ يَزِيدُ: لَا نَرَى عَلَيْهِ أَثَرَ السَّفَرِ، وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ، حَتَّى جَلَسَ إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْنَدَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ، وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ، ثُمّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِسْلَامِ، مَا الْإِسْلَامُ؟ فَقَالَ:" الْإِسْلَامُ: أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنْ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا"، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَعَجِبْنَا لَهُ، يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِيمَانِ، قَالَ:" الْإِيمَانُ: أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَالْقَدَرِ كُلِّهِ: خَيْرِهِ وَشَرِّهِ"، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِحْسَانِ، مَا الْإِحْسَانُ؟ قَالَ يَزِيدُ:" أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ"، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ، قَالَ:" مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ بِهَا مِنَ السَّائِلِ"، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَاتِهَا، قَالَ:" أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا، وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبِنَاءِ"، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ، قَالَ: فَلَبِثَ مَلِيًّا، قَالَ يَزِيدُ: ثَلَاثًا فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عُمَرُ، أَتَدْرِي مَنْ السَّائِلُ؟" قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ، أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک دن ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی چلتا ہوا آیا، وہ مضبوط، سفید کپڑوں میں ملبوس اور انتہائی سیاہ بالوں والا تھا، اس پر نہ سفر کے آثار نظر آ رہے تھے اور نہ ہی ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا تھا، وہ آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آ کر بیٹھ گیا۔ اور اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں سے اپنے گھٹنے ملا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رانوں پر ہاتھ رکھ لئے اور کہنے لگا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! مجھے اسلام کے بارے بتائیے کہ اسلام کیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود ہو ہی نہیں سکتا اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پیغمبر ہیں، نیز یہ کہ آپ نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں، رمضان کے روزے رکھیں اور حج بیت اللہ کریں۔“ اس نے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی) تصدیق کی تو ہمیں اس کے سوال اور تصدیق پر تعجب ہوا۔ اس نے اگلا سوال یہ پوچھا کہ ایمان کیا ہے؟ فرمایا: ”تم اللہ پر، اس کے فرشتوں، کتابوں، رسولوں، یوم آخرت اور ہر اچھی بری تقدیر پر یقین رکھو“، اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا، پھر پوچھا کہ احسان کیا ہے؟ فرمایا: ”تم اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کوئی عمل اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم یہ تصور نہیں کر سکتے تو پھر یہی تصور کر لو کہ وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے (اس لئے یہی تصور کر لیا کرو کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے)۔“ اس نے پھر پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟ فرمایا: ”جس سے سوال پوچھا جا رہا ہے، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا، (یعنی ہم دونوں ہی اس معاملے میں بےخبر ہیں)“، اس نے کہا کہ پھر اس کی کچھ علامات ہی بتا دیجئے؟ فرمایا: ”جب تم یہ دیکھو کہ جن کے جسم پر چیتھڑا اور پاؤں میں لیترا نہیں ہوتا تھا، غریب اور چرواہے تھے، آج وہ بڑی بڑی بلڈنگیں اور عمارتیں بنا کر ایک دوسرے پر فخر کرنے لگیں، لونڈیاں اپنی مالکن کو جنم دینے لگیں تو قیامت قریب آ گئی۔“ پھر وہ آدمی چلا گیا تو کچھ دیر بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”اے عمر! کیا تمہیں علم ہے کہ وہ سائل کون تھا؟“ انہوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، فرمایا: ”وہ جبرئیل علیہ السلام تھے جو تمہیں تمہارے دین کی اہم اہم باتیں سکھانے آئے تھے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا بهز . قال: وحدثنا عفان ، قالا: حدثنا همام ، حدثنا قتادة ، عن ابي نضرة ، قال: قلت لجابر بن عبد الله: إن ابن الزبير ينهى عن المتعة، وإن ابن عباس يامر بها، قال: فقال لي: على يدي جرى الحديث، تمتعنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال عفان: ومع ابي بكر، فلما ولي عمر ، خطب الناس، فقال:" إن القرآن هو القرآن، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم هو الرسول، وإنهما كانتا متعتان على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم: إحداهما متعة الحج، والاخرى متعة النساء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ . قَالَ: وَحَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، قَالَ: قُلْتُ لِجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ: إِنَّ ابْنَ الزُّبَيْرِ يَنْهَى عَنِ الْمُتْعَةِ، وَإِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ يَأْمُرُ بِهَا، قَالَ: فَقَالَ لِي: عَلَى يَدِي جَرَى الْحَدِيثُ، تَمَتَّعْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عَفَّانُ: وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ، فَلَمَّا وَلِيَ عُمَرُ ، خَطَبَ النَّاسَ، فَقَالَ:" إِنَّ الْقُرْآنَ هُوَ الْقُرْآنُ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ الرَّسُولُ، وَإِنَّهُمَا كَانَتَا مُتْعَتَانِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِحْدَاهُمَا مُتْعَةُ الْحَجِّ، وَالْأُخْرَى مُتْعَةُ النِّسَاءِ".
ابونضرہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ حج تمتع سے منع کرتے ہیں جبکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس کی اجازت دیتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے مجھ سے حدیث بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ایک روایت کے مطابق سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں تھی حج تمتع کیا ہے، لیکن جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو خلافت ملی تو انہوں نے خطبہ دیتے ہوئے لوگوں سے فرمایا کہ قرآن، قرآن ہے اور پیغمبر، پیغمبر ہے، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں دو طرح کا متعہ ہوتا تھا، ایک متعۃ الحج جسے حج تمتع کہتے ہیں اور ایک متعۃ النساء جو عورتوں کو طلاق دے کر رخصت کرتے وقت کپڑوں کی صورت میں دینا مستحب ہے۔