(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن ابي يعفور العبدي ، قال: سمعت شيخا بمكة في إمارة الحجاج يحدث، عن عمر بن الخطاب ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال له:" يا عمر، إنك رجل قوي، لا تزاحم على الحجر فتؤذي الضعيف، إن وجدت خلوة فاستلمه، وإلا فاستقبله، فهلل وكبر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ الْعَبْدِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ شَيْخًا بِمَكَّةَ فِي إِمَارَةِ الْحَجَّاجِ يُحَدِّثُ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ:" يَا عُمَرُ، إِنَّكَ رَجُلٌ قَوِيٌّ، لَا تُزَاحِمْ عَلَى الْحَجَرِ فَتُؤْذِيَ الضَّعِيفَ، إِنْ وَجَدْتَ خَلْوَةً فَاسْتَلِمْهُ، وَإِلَّا فَاسْتَقْبِلْهُ، فَهَلِّلْ وَكَبِّرْ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”عمر! تم طاقتور آدمی ہو، حجر اسود کو بوسہ دینے میں مزاحمت نہ کرنا، کہیں کمزور آدمی کو تکلیف نہ پہنچے، اگر خالی جگہ مل جائے تو استلام کر لینا، ورنہ محض استقبال کر کے تہلیل و تکبیر پر ہی اکتفاء کر لینا۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن، الشيخ الذى روى عنه أبو يعفور مجهول، وسماه سفيان ابن عيينة : عبدالرحمن بن نافع بن عبدالحارث، والحديث مرسل
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا كهمس ، عن ابن بريدة ، عن يحيى بن يعمر ، عن ابن عمر ، عن عمر : ان جبريل عليه السلام، قال للنبي صلى الله عليه وسلم:" ما الإيمان؟ قال: ان تؤمن بالله وملائكته، وكتبه، ورسله، واليوم الآخر، وبالقدر خيره وشره، فقال له جبريل عليه السلام: صدقت، قال: فتعجبنا منه يساله ويصدقه، قال: فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ذاك جبريل، اتاكم يعلمكم معالم دينكم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عن عمر : أَنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام، قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا الْإِيمَانُ؟ قَالَ: أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَبِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ، فَقَالَ لَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام: صَدَقْتَ، قَالَ: فَتَعَجَّبْنَا مِنْهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ، قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ذَاكَ جِبْرِيلُ، أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ مَعَالِمَ دِينِكُمْ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جبرئیل علیہ السلام نے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ایمان کیا ہے؟ فرمایا: ”ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں، کتابوں، پیغمبروں، یوم آخرت اور اچھی بری تقدیر پر یقین رکھو“، جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: آپ نے سچ کہا، ہمیں تعجب ہوا کہ سوال بھی کر رہے ہیں اور تصدیق بھی کر رہے ہیں، بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ یہ جبریل تھے جو تمہیں تمہارے دین کی اہم باتیں سکھانے آئے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عاصم بن عمر ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا اقبل الليل، وقال مرة: جاء الليل من ههنا، وذهب النهار من ههنا، فقد افطر الصائم" يعني المشرق والمغرب.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ، وَقَالَ مَرَّةً: جَاءَ اللَّيْلُ مِنْ هَهُنَا، وَذَهَبَ النَّهَارُ مِنْ هَهُنَا، فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ" يَعْنِي الْمَشْرِقَ وَالْمَغْرِبَ.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب رات یہاں سے آ جائے اور دن وہاں سے چلا جائے تو روزہ دار کو روزہ افطار کر لینا چاہیے، مشرق اور مغرب مراد ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، انبانا إسرائيل بن يونس ، عن عبد الاعلى الثعلبي ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، قال: كنت مع عمر ، فاتاه رجل، فقال:" إني رايت الهلال، هلال شوال، فقال عمر: يا ايها الناس، افطروا، ثم قام إلى عس فيه ماء، فتوضا، ومسح على خفيه، فقال الرجل: والله يا امير المؤمنين ما اتيتك إلا لاسالك عن هذا، افرايت غيرك فعله؟ فقال: نعم، خيرا مني، وخير الامة، رايت ابا القاسم صلى الله عليه وسلم فعل مثل الذي فعلت، وعليه جبة شامية ضيقة الكمين، فادخل يده من تحت الجبة"، ثم صلى عمر المغرب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَنْبَأَنَا إِسْرَائِيلُ بْنُ يُونُسَ ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى الثَّعْلَبِيِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ عُمَرَ ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ:" إِنِّي رَأَيْتُ الْهِلَالَ، هِلَالَ شَوَّالٍ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَفْطِرُوا، ثُمَّ قَامَ إِلَى عُسٍّ فِيهِ مَاءٌ، فَتَوَضَّأَ، وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ، فَقَالَ الرَّجُلُ: وَاللَّهِ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَا أَتَيْتُكَ إِلَّا لِأَسْأَلَكَ عَنْ هَذَا، أَفَرَأَيْتَ غَيْرَكَ فَعَلَهُ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، خَيْرًا مِنِّي، وَخَيْرَ الْأُمَّةِ، رَأَيْتُ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ مِثْلَ الَّذِي فَعَلْتُ، وَعَلَيْهِ جُبَّةٌ شَامِيَّةٌ ضَيِّقَةُ الْكُمَّيْنِ، فَأَدْخَلَ يَدَهُ مِنْ تَحْتِ الْجُبَّةِ"، ثُمَّ صَلَّى عُمَرُ الْمَغْرِبَ".
عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا، ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ میں نے شوال کا چاند دیکھ لیا ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگو! روزہ افطار کر لو، پھر خود کھڑے ہو کر ایک برتن سے جس میں پانی تھا وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، وہ آدمی کہنے لگا۔ بخدا! امیر المؤمنین! میں آپ کے پاس یہی پوچھنے کے لئے آیا تھا کہ آپ نے کسی اور کو بھی موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ فرمایا: ہاں! اس ذات کو جو مجھ سے بہتر تھی، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شامی جبہ پہن رکھا تھا جس کی آستینیں تنگ تھیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ جبے کے نیچے سے داخل کئے تھے، یہ کہہ کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مغرب کی نماز پڑھانے کے لئے چلے گئے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف عبدالأعلى الثعلبي وعدم سماع عبدالرحمن بن أبي ليلى من عمر
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عاصم بن عبيد الله ، عن سالم ، عن عبد الله بن عمر ، عن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم:" انه استاذنه في العمرة فاذن له، فقال: يا اخي، لا تنسنا من دعائك، وقال بعد في المدينة: يا اخي، اشركنا في دعائك"، فقال عمر: ما احب ان لي بها ما طلعت عليه الشمس، لقوله: يا اخي.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَّهُ اسْتَأْذَنَهُ فِي الْعُمْرَةِ فَأَذِنَ لَهُ، فَقَالَ: يَا أَخِي، لَا تَنْسَنَا مِنْ دُعَائِكَ، وَقَالَ بَعْدُ فِي الْمَدِينَةِ: يَا أَخِي، أَشْرِكْنَا فِي دُعَائِكَ"، فَقَالَ عُمَرُ: مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِهَا مَا طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ، لِقَوْلِهِ: يَا أَخِي.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرہ پر جانے کے لئے اجازت مانگی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دیتے ہوئے فرمایا بھائی! ہمیں اپنی دعاؤں میں بھول نہ جانا، یا یہ فرمایا کہ بھائی! ہمیں بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر اس ایک لفظ «يا اخي» کے بدلے مجھے وہ سب کچھ دے دیا جائے جن پر سورج طلوع ہوتا ہے یعنی پوری دنیا تو میں اس ایک لفظ کے بدلے پوری دنیا کو پسند نہیں کروں گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة . وحجاج ، قال: سمعت شعبة ، عن عاصم بن عبيد الله ، عن سالم ، عن ابن عمر ، عن عمر :" انه قال للنبي صلى الله عليه وسلم: ارايت ما نعمل فيه، اقد فرغ منه، او في شيء مبتدإ، او امر مبتدع؟ قال:" فيما قد فرغ منه"، فقال عمر: الا نتكل؟ فقال:" اعمل يا ابن الخطاب، فكل ميسر، اما من كان من اهل السعادة، فيعمل للسعادة، واما اهل الشقاء، فيعمل للشقاء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ . وَحَجَّاجٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ شُعْبَةَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ عُمَرَ :" أَنَّهُ قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَأَيْتَ مَا نَعْمَلُ فِيهِ، أَقَدْ فُرِغَ مِنْهُ، أَوْ فِي شَيْءٍ مُبْتَدَإٍ، أَوْ أَمْرٍ مُبْتَدَعٍ؟ قَالَ:" فِيمَا قَدْ فُرِغَ مِنْهُ"، فَقَالَ عُمَرُ: أَلَا نَتَّكِلُ؟ فَقَالَ:" اعْمَلْ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ، أَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ، فَيَعْمَلُ لِلسَّعَادَةِ، وَأَمَّا أَهْلُ الشَّقَاءِ، فَيَعْمَلُ لِلشَّقَاءِ".
ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ہم جو عمل کرتے ہیں، کیا وہ پہلے سے لکھا جا چکا ہے یا ہمارا عمل پہلے ہوتا؟ فرمایا: ”نہیں! بلکہ وہ پہلے سے لکھا جا چکا ہے“، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ کیا ہم اسی پر بھروسہ نہ کر لیں؟ فرمایا: ”ابن خطاب! عمل کرتے رہو کیونکہ جو شخص جس مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے، اسے اس کے اسباب مہیا کر دئیے جاتے ہیں اور وہ عمل اس کے لئے آسان کر دیا جاتا ہے، پھر جو سعادت مند ہوتا ہے وہ نیکی کے کام کرتا ہے اور جو اشقیاء میں سے ہوتا ہے وہ بدبختی کے کام کرتا ہے۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عاصم بن عبيدالله
سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یاد رکھو! بعض لوگ کہتے ہیں کہ رجم کا کیا مطلب؟ قرآن کریم میں تو صرف کوڑے مارنے کا ذکر آتا ہے، حالانکہ رجم کی سزا خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے اور ہم نے بھی دی ہے، اگر کہنے والے یہ نہ کہتے کہ عمر نے قرآن میں اضافہ کر دیا تو میں اسے قرآن میں لکھ دیتا۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت يزيد بن خمير يحدث، عن حبيب بن عبيد ، عن جبير بن نفير ، عن ابن السمط : انه اتى ارضا يقال لها: دومين، من حمص على راس ثمانية عشر ميلا، فصلى ركعتين، فقلت له: اتصلي ركعتين؟ فقال:" رايت عمر بن الخطاب بذي الحليفة يصلي ركعتين، فسالته، فقال: إنما افعل كما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم، او قال: فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ يَزِيدَ بْنَ خُمَيْرٍ يُحَدِّثُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ عُبَيْدٍ ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ السِّمْطِ : أَنَّهُ أَتَى أَرْضًا يُقَالُ لَهَا: دَوْمِينُ، مِنْ حِمْصَ عَلَى رَأْسِ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ مِيلًا، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَقُلْتُ لَهُ: أَتُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ؟ فَقَالَ:" رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بِذِي الْحُلَيْفَةِ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: إِنَّمَا أَفْعَلُ كَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ قَالَ: فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ابن سمط کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سر زمین ”دومین“ جو حمص سے اٹھارہ میل کے فاصلے پر ہے، پر میرا آنا ہوا، وہاں سیدنا جبیر بن نفیر نے دو رکعتیں پڑھیں، میں نے ان سے پوچھا کہ یہ رکعتیں کیسی ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں نے بھی ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ذوالحلیفہ میں دو رکعتیں پڑھتے ہوئے دیکھ کر یہی سوال کیا تھا، انہوں نے مجھے جواب دیا تھا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
(حديث مرفوع) قرات على عبد الرحمن بن مهدي : مالك ، عن ابن شهاب ، عن سالم بن عبد الله ، عن ابن عمر ، قال: دخل رجل من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم المسجد يوم الجمعة، وعمر بن الخطاب يخطب الناس، فقال عمر: اية ساعة هذه؟ فقال: يا امير المؤمنين، انقلبت من السوق، فسمعت النداء، فما زدت على ان توضات، فقال عمر : والوضوء ايضا، وقد علمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" كان يامر بالغسل".(حديث مرفوع) قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ : مَالِكٌ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: دَخَلَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْجِدَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَخْطُبُ النَّاسَ، فَقَالَ عُمَرُ: أَيَّةُ سَاعَةٍ هَذِهِ؟ فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، انْقَلَبْتُ مِنَ السُّوقِ، فَسَمِعْتُ النِّدَاءَ، فَمَا زِدْتُ عَلَى أَنْ تَوَضَّأْتُ، فَقَالَ عُمَرُ : وَالْوُضُوءَ أَيْضًا، وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يَأْمُرُ بِالْغُسْلِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، دوران خطبہ ایک صاحب آئے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ یہ کون سا وقت ہے آنے کا؟ انہوں نے جواباً کہا کہ امیر المؤمنین! میں بازار سے واپس آیا تھا، میں نے تو جیسے ہی اذان سنی، وضو کرتے ہی آ گیا ہوں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اوپر سے وضو بھی؟ جبکہ آپ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے لئے غسل کرنے کا حکم دیتے تھے۔