وعن المسور بن مخرمة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «فاطمة بضعة مني فمن اغضبها اغضبني» وفي رواية: «يريبني ما ارابها ويؤذيني ما آذاها» . متفق عليه وَعَن المِسور بْنِ مَخْرَمَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي فَمَنْ أَغْضَبَهَا أَغْضَبَنِي» وَفِي رِوَايَةٍ: «يُرِيبُنِي مَا أَرَابَهَا وَيُؤْذِينِي مَا آذاها» . مُتَّفق عَلَيْهِ
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے اس سے دشمنی رکھی اس نے مجھ سے دشمنی رکھی۔ “ ایک دوسری روایت میں ہے: ”جو چیز اسے قلق میں مبتلا کر دیتی ہے وہی چیز مجھے قلق میں مبتلا کر دیتی ہے اور جو چیز اسے ایذا پہنچاتی ہے وہی چیز مجھے ایذا پہنچاتی ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3767 و الرواية الثانية: 5230) و مسلم (93/ 2449)»
وعن زيد بن ارقم قال: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما فينا خطيبا بماء يدعى: خما بين مكة والمدينة فحمد الله واثنى عليه ووعظ وذكر ثم قال: اما بعد الا ايها الناس فإنما انا بشر يوشك ان ياتيني رسول ربي فاجيب وانا تارك فيكم الثقلين: اولهما كتاب الله فيه الهدى والنور فخذوا بكتاب الله واستمسكوا به فحث على كتاب الله ورغب فيه ثم قال: «واهل بيتي اذكركم الله في اهل بيتي اذكركم الله في اهل بيتي» وفي رواية: «كتاب الله عز وجل هو حبل الله من اتبعه كان على الهدى ومن تركه كان على الضلالة» . رواه مسلم وَعَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فِينَا خَطِيبًا بِمَاءٍ يُدْعَى: خُمًّا بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَوَعَظَ وَذَكَّرَ ثُمَّ قَالَ: أمَّا بعدُ أَلا أيُّها النَّاس فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَنِي رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيبَ وَأَنَا تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ: أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللَّهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ فَخُذُوا بِكِتَابِ اللَّهِ وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ وَرَغَّبَ فِيهِ ثُمَّ قَالَ: «وَأَهْلُ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي» وَفِي رِوَايَة: «كتاب الله عز وَجل هُوَ حَبْلُ اللَّهِ مَنِ اتَّبَعَهُ كَانَ عَلَى الْهُدَى وَمَنْ تَرَكَهُ كَانَ عَلَى الضَّلَالَةِ» . رَوَاهُ مُسلم
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک روز مکہ اور مدینہ کے درمیان پانی کی جگہ پر خم نامی مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، وعظ و نصیحت کی پھر فرمایا: ”امابعد! لوگو! سنو! میں بھی انسان ہوں، قریب ہے کہ میرے رب کا قاصد آئے اور میں اس کی بات قبول کر لوں، میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، ان دونوں میں سے پہلی چیز اللہ کی کتاب ہے، اس میں ہدایت اور نور ہے، تم اللہ کی کتاب کو پکڑو اور اس سے تمسک اختیار کرو۔ “ آپ نے اللہ کی کتاب (پر عمل کرنے) پر ابھارا اور اس کے متعلق ترغیب دلائی، پھر فرمایا: ”(دوسری چیز) میرے اہل بیت، میں اپنے اہل بیت کے متعلق تمہیں اللہ سے ڈراتا ہوں، اپنے اہل بیت کے متعلق میں تمہیں اللہ سے ڈراتا ہوں۔ “ ایک دوسری روایت میں ہے: ”اللہ کی کتاب، وہ اللہ کی رسی ہے، جس نے اس کی اتباع کی وہ ہدایت پر ہے، اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ گمراہی پر ہو گا۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (37/ 248)»
وعن ابن عمر انه كان إذا سلم على ابن جعفر قال: السلام عليك يا ابن ذي الجناحين. رواه البخاري وَعَن ابْن عمر أَنَّهُ كَانَ إِذَا سَلَّمَ عَلَى ابْنِ جَعْفَرٍ قَالَ: السَّلَام عَلَيْك يَا ابْن ذِي الجناحين. رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب وہ ابن جعفر رضی اللہ عنہ کو سلام کیا کرتے تھے تو یوں کہتے تھے: ذوالجناحین (جعفر رضی اللہ عنہ کا لقب) کے بیٹے! تم پر سلام ہو۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (3709)»
وعن البراء قال: رايت النبي صلى الله عليه وسلم والحسن بن علي على عاتقه يقول: «اللهم إني احبه فاحبه» متفق عليه وَعَنِ الْبَرَاءِ قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ عَلَى عَاتِقِهِ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ» مُتَّفق عَلَيْهِ
براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا اس وقت حسن بن علی رضی اللہ عنہ آپ کے کندھے پر تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے: ”اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3749) و مسلم (58/ 2422)»
وعن ابي هريرة قال: خرجت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في طائفة من النهار حتى اتى خباء فاطمة فقال: «اثم لكع؟ اثم لكع؟» يعني حسنا فلم يلبث ان جاء يسعى حتى اعتنق كل واحد منهما صاحبه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اللهم إني احبه فاحبه واحب من يحبه» . متفق عليه وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي طَائِفَةٍ مِنَ النَّهَارِ حَتَّى أَتَى خِبَاءَ فَاطِمَةَ فَقَالَ: «أَثَمَّ لُكَعُ؟ أَثَمَّ لُكَعُ؟» يَعْنِي حَسَنًا فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ جَاءَ يَسْعَى حَتَّى اعْتَنَقَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ وَأَحِبَّ مَنْ يُحِبُّهُ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، دن کے کسی حصے میں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوا حتیٰ کہ آپ فاطمہ رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: ”کیا یہاں چھوٹا بچہ ہے کیا یہاں چھوٹا بچہ یعنی حسن ہے؟“ تھوڑی دیر گزری تھی کہ وہ دوڑتے ہوئے آئے حتیٰ کہ ان دونوں میں سے ہر ایک نے اپنے ساتھی کو گلے لگایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! بے شک میں اس سے محبت کرتا ہوں، تو بھی اس سے محبت رکھنے والے سے محبت فرما۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (2122) و مسلم (57/ 2421)»
وعن ابي بكرة قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر والحسن بن علي إلى جنبه وهو يقبل على الناس مرة وعليه اخرى ويقول: «إن ابني هذا سيد ولعل الله ان يصلح به بين فئتين عظيمتين من المسلمين» . رواه البخاري وَعَن أبي بكرَة قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ إِلَى جَنْبِهِ وَهُوَ يُقْبِلُ عَلَى النَّاسِ مَرَّةً وَعَلَيْهِ أُخْرَى وَيَقُولُ: «إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر پر دیکھا جبکہ حسن بن علی رضی اللہ عنہ آپ کے پہلو میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مرتبہ لوگوں کی طرف توجہ فرماتے اور دوسری مرتبہ ان حسن رضی اللہ عنہ کی طرف توجہ فرماتے، اور فرماتے: ”بے شک میرا یہ بیٹا سردار ہے، امید ہے کہ اللہ اس کی وجہ سے مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں کے درمیان صلح کرائے گا۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (2704)»
وعن عبد الرحمن بن ابي نعم قال: سمعت عبد الله بن عمر وساله رجل عن المحرم قال شعبة احسبه يقتل الذباب؟ قال: اهل العراق يسالوني عن الذباب وقد قتلوا ابن بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «هما ريحاني من الدنيا» . رواه البخاري وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي نُعْمٍ قَالَ: سمعتُ عبدَ اللَّهِ بن عُمَرَ وَسَأَلَهُ رَجُلٌ عَنِ الْمُحْرِمِ قَالَ شُعْبَةُ أَحْسَبُهُ يَقْتُلُ الذُّبَابَ؟ قَالَ: أَهْلُ الْعِرَاقِ يَسْأَلُونِي عَنِ الذُّبَابِ وَقَدْ قَتَلُوا ابْنَ بِنْتُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هُمَا رَيْحَانَّيَّ مِنَ الدُّنْيَا» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
عبد الرحمن بن ابی نعم ؒ بیان کرتے ہیں، میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے اس وقت سنا جب ان سے کسی آدمی نے محرم (حالت احرام والے شخص) کے متعلق مسئلہ دریافت کیا، شعبہ بیان کرتے ہیں، میرا خیال ہے کہ وہ پوچھ رہا تھا (اگر محرم) مکھی مار دے (تو اس پر کیا کفارہ ہو گا؟) انہوں نے فرمایا: اہل عراق مکھی (مارنے) کے متعلق مجھ سے مسئلہ دریافت کرتے ہیں جبکہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے کو قتل کر دیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا: ”وہ دونوں (حسن و حسین رضی اللہ عنہ) دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (3753)»
وعن انس قال: لم يكن احد اشبه بالنبي صلى الله عليه وسلم من الحسن بن علي وقال في الحسن ايضا: كان اشبههم برسول الله صلى الله عليه وسلم. رواه البخاري وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: لَمْ يَكُنْ أَحَدٌ أَشْبَهَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْحَسَنِ بن عليّ وَقَالَ فِي الْحسن أَيْضًا: كَانَ أَشْبَهَهُمْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، حسن بن علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے۔ اور انہوں نے حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی فرمایا: وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان سب سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (3752، 3748)»
وعن ابن عباس قال: ضمني النبي صلى الله عليه وسلم إلى صدره فقال: «اللهم علمه الحكمة» وفي رواية: «علمه الكتاب» . رواه البخاري وَعَن ابْن عَبَّاس قَالَ: ضَمَّنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى صَدْرِهِ فَقَالَ: «اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْحِكْمَةَ» وَفِي رِوَايَة: «علمه الْكتاب» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے سینے سے لگا کر فرمایا: ”اے اللہ! اسے حکمت کی تعلیم عطا فرما۔ “ ایک دوسری روایت میں ہے: ”اسے کتاب کی تعلیم عطا فرما۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (3756)»
وعنه قال: إن النبي صلى الله عليه وسلم دخل الخلاء فوضعت له وضوءا فلما خرج قال: «من وضع هذا؟» فاخبر فقال: «اللهم فقهه في الدين» . متفق عليه وَعَنْهُ قَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْخَلَاءَ فَوَضَعْتُ لَهُ وَضُوءًا فَلَمَّا خَرَجَ قَالَ: «مَنْ وَضَعَ هَذَا؟» فَأُخْبِرَ فَقَالَ: «اللَّهُمَّ فقهه فِي الدّين» . مُتَّفق عَلَيْهِ
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت الخلا میں داخل ہوئے تو میں نے طہارت کے لیے پانی رکھ دیا، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے تو فرمایا: ”یہ کس نے رکھا تھا؟“ آپ کو بتایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! اسے دین کی سمجھ بوجھ عطا فرما۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (143) و مسلم (138/ 2477)»