وعن ام قيس قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «على م تدغرن اولادكن بهذا العلاق؟ عليكن بهذا العود الهندي فإن فيه سبعة اشفية منها ذات الجنب يسعط من العذرة ويلد من ذات الجنب» وَعَن أُمِّ قَيْسٍ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «على مَ تَدْغَرْنَ أَوْلَادَكُنَّ بِهَذَا الْعِلَاقِ؟ عَلَيْكُنَّ بِهَذَا الْعُودِ الْهِنْدِيِّ فَإِنَّ فِيهِ سَبْعَةَ أَشْفِيَةٍ مِنْهَا ذَاتُ الْجَنْبِ يُسْعَطُ مِنَ الْعُذْرَةِ وَيُلَدُّ مِنْ ذَاتِ الْجنب»
ام قیس رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم اس علاق (حلق کے ورم) کی وجہ سے اپنی اولاد کا حلق کیوں دباتی ہو؟ بس تم یہ عود ہندی استعمال کرو، کیونکہ اس میں سات بیماریوں سے شفا ہے، ان میں سے ایک نمونیہ ہے، حلق کے ورم کی وجہ سے اسے ناک سے ڈالا جائے اور نمونیہ کی صورت میں منہ کے ایک طرف سے ڈالی جائے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5713) و مسلم (2214/76)»
وعن عائشة ورافع بن خديج عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «الحمى من فيج جهنم فابردوها بالماء» وَعَنْ عَائِشَةَ وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الْحمى من فيج جَهَنَّم فَأَبْرِدُوهَا بِالْمَاءِ»
عائشہ اور رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بخار جہنم کی بھاپ سے ہے، تم اسے پانی کے ساتھ ٹھنڈا کرو۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3263) و مسلم (2210/81)»
وعن انس قال: رخص رسول الله صلى الله عليه وسلم في الرقية من العين والحمة والنملة. رواه مسلم وَعَن أنسٍ قَالَ: رَخَّصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الرُّقْيَةِ مِنَ الْعَيْنِ وَالْحُمَّةِ وَالنَّمْلَةِ. رَوَاهُ مُسلم
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نظر لگ جانے، ڈنک میں اور نملہ بیماری (پسلی میں دانے نکل آتے ہیں اور زخم پڑ جاتے ہیں) کی صورت میں دم کرنے کی رخصت عنایت فرمائی ہے۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (2196/58)»
وعن عائشة قالت: امر النبي صلى الله عليه وسلم ان نسترقي من العين وَعَن عَائِشَة قَالَتْ: أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَسْتَرْقِيَ مِنَ الْعَيْنِ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نظر لگ جانے کی صورت میں دم کرانے کا حکم فرمایا ہے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5738) و مسلم (2195/56)»
وعن ام سلمة ان النبي صلى الله عليه وسلم راى في بيتها جارية في وجهها سفعة يعني صفرة فقال: «استرقوا لها فإن بها النظرة» وَعَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى فِي بَيْتِهَا جَارِيَةً فِي وجهِها سفعة يَعْنِي صُفْرَةً فَقَالَ: «اسْتَرْقُوا لَهَا فَإِنَّ بِهَا النَّظْرَةَ»
ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے گھر میں ایک لڑکی دیکھی جس کے چہرے پر زردی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اسے دم کراؤ کیونکہ اسے نظر لگی ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5738) ومسلم (2197/59)»
وعن جابر قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الرقى فجاء آل عمرو بن حزم فقالوا: يا رسول الله إنه كانت عندنا رقية نرقي بها من العقرب وانت نهيت عن الرقى فعرضوها عليه فقال: «ما ارى بها باسا من استطاع منكم ان ينفع اخاه فلينفعه» . رواه مسلم وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرُّقَى فَجَاءَ آلُ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ كَانَتْ عِنْدَنَا رُقْيَةٌ نَرْقِي بِهَا مِنَ الْعَقْرَبِ وَأَنْتَ نَهَيْتَ عَنِ الرُّقَى فَعَرَضُوهَا عَلَيْهِ فَقَالَ: «مَا أَرَى بِهَا بَأْسًا مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَنْفَعَ أَخَاهُ فَلْيَنْفَعْهُ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دم سے منع فرما دیا تو، آل عمرو بن حزم آئے اور انہوں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! ہمارے پاس دم تھا جو ہم بچھو کے ڈس لینے پر کیا کرتے تھے، اور آپ نے اس سے منع فرما دیا ہے، انہوں نے وہ دم آپ کو سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا، تم میں سے جو شخص اپنے بھائی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے تو وہ اسے فائدہ پہنچائے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (2199/63)»
وعن عوف بن مالك الاشجعي قال: كنا نرقي في الجاهلية فقلنا: يا رسول الله كيف ترى في ذلك؟ فقال: «اعرضوا علي رقاكم لا باس بالرقى ما لم يكن فيه شرك» . رواه مسلم وَعَن عوفِ بن مَالك الْأَشْجَعِيّ قَالَ: كُنَّا نَرْقِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ تَرَى فِي ذَلِكَ؟ فَقَالَ: «اعْرِضُوا عَلَيَّ رُقَاكُمْ لَا بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لم يكن فِيهِ شرك» . رَوَاهُ مُسلم
عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم دورِ جاہلیت میں دم کیا کرتے تھے، ہم نے عرض کیا، اللہ کے رسول! آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے دم مجھے سناؤ، ایسا دم جس میں شرک نہ ہو، اس میں کوئی حرج نہیں۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (64/ 2200)»
وعن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «العين حق فلو كان شيء سابق القدر سبقته العين وإذا استغسلتم فاغسلوا» . رواه مسلم وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الْعَيْنُ حَقٌّ فَلَوْ كَانَ شَيْءٌ سَابَقَ الْقَدَرِ سَبَقَتْهُ الْعَيْنُ وَإِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فاغسِلوا» . رَوَاهُ مُسلم
ابن عباس رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”نظر (کی تاثیر) ثابت ہے، اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت لے جانے والی ہوتی تو نظر اس پر سبقت لے جاتی اور جب تم سے غسل کا مطالبہ کیا جائے تو غسل کرو۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (2188/42)»
عن اسامة بن شريك قال: قالوا: يا رسول الله افنتداوى؟ قال: «نعم يا عبد الله تداووا فإن الله لم يضع داء إلا وضع له شفاء غير داء واحد الهرم» . رواه احمد والترمذي وابو داود عَنْ أُسَامَةَ بْنِ شَرِيكٍ قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُول الله أفنتداوى؟ قَالَ: «نعم يَا عبد اللَّهِ تَدَاوَوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَضَعْ دَاءً إِلَّا وَضَعَ لَهُ شِفَاءً غَيْرَ دَاءٍ وَاحِدٍ الْهَرم» . رَوَاهُ أَحْمد وَالتِّرْمِذِيّ وَأَبُو دَاوُد
اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم علاج معالجہ کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، اللہ کے بندو! علاج معالجہ کرو کیونکہ اللہ نے بڑھاپے کے سوا ایسی کوئی بیماری پیدا نہیں کی جس کے لیے شفا پیدا نہ کی ہو۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ احمد و الترمذی و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أحمد (278/4) و الترمذي (2038 وقال: حسن صحيح) [وابن ماجه (3436)] وأبو داود (3855) [وصححه الحاکم (399/4) ووافقه الذهبي]»
وعن عقبة بن عامر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تكرهوا مرضاكم على الطعام فإن الله يطعمهم ويسقيهم» . رواه الترمذي وابن ماجه وقال الترمذي: هذا حديث غريب وَعَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُكْرِهُوا مَرْضَاكُمْ عَلَى الطَّعَامِ فَإِنَّ اللَّهَ يُطْعِمُهُمْ وَيَسْقِيهِمْ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيث غَرِيب
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے بیماروں کو کھانے پر مجبور نہ کیا کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ انہیں کھلاتا پلاتا ہے۔ “ ترمذی، ابن ماجہ۔ اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2040) و ابن ماجه (3444) ٭ بکر بن يونس بن بکير ضعيف ضعفه الجمھور و للحديث شواھد ضعيفة عند الحاکم (410/4) وغيره.»