(مرفوع) حدثنا علي، حدثنا سفيان، حدثني الزهري، انه سمعه من الاعرج، يقول: اخبرني ابو هريرة، قال: إنكم تزعمون ان ابا هريرة يكثر الحديث على رسول الله صلى الله عليه وسلم، والله الموعد إني كنت امرا مسكينا الزم رسول الله صلى الله عليه وسلم على ملء بطني، وكان المهاجرون يشغلهم الصفق بالاسواق، وكانت الانصار يشغلهم القيام على اموالهم، فشهدت من رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم، وقال:" من يبسط رداءه حتى اقضي مقالتي، ثم يقبضه فلن ينسى شيئا سمعه مني، فبسطت بردة كانت علي، فوالذي بعثه بالحق ما نسيت شيئا سمعته منه".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنَ الْأَعْرَجِ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ: إِنَّكُمْ تَزْعُمُونَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ يُكْثِرُ الْحَدِيثَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاللَّهُ الْمَوْعِدُ إِنِّي كُنْتُ امْرَأً مِسْكِينًا أَلْزَمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مِلْءِ بَطْنِي، وَكَانَ الْمُهَاجِرُونَ يَشْغَلُهُمُ الصَّفْقُ بِالْأَسْوَاقِ، وَكَانَتْ الْأَنْصَارُ يَشْغَلُهُمُ الْقِيَامُ عَلَى أَمْوَالِهِمْ، فَشَهِدْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، وَقَالَ:" مَنْ يَبْسُطْ رِدَاءَهُ حَتَّى أَقْضِيَ مَقَالَتِي، ثُمَّ يَقْبِضْهُ فَلَنْ يَنْسَى شَيْئًا سَمِعَهُ مِنِّي، فَبَسَطْتُ بُرْدَةً كَانَتْ عَلَيَّ، فَوَالَّذِي بَعَثَهُ بِالْحَقِّ مَا نَسِيتُ شَيْئًا سَمِعْتُهُ مِنْهُ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے کہا، مجھ سے زہری نے، انہوں نے اعرج سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ تم سمجھتے ہو کہ ابوہریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات زیادہ حدیث بیان کرتے ہیں، اللہ کے حضور میں سب کو جانا ہے۔ بات یہ تھی کہ میں ایک مسکین شخص تھا اور پیٹ بھرنے کے بعد ہر وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتا تھا لیکن مہاجرین کو بازار کے کاروبار مشغول رکھتے تھے اور انصار کو اپنے مالوں کی دیکھ بھال مصروف رکھتی تھی۔ میں ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون اپنی چادر پھیلائے گا، یہاں تک کہ میں اپنی بات پوری کر لوں اور پھر وہ اپنی چادر سمیٹ لے اور اس کے بعد کبھی مجھ سے سنی ہوئی کوئی بات نہ بھولے۔ چنانچہ میں نے اپنی چادر جو میرے جسم پر تھی، پھیلا دی اور اس ذات کی قسم جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا تھا پھر کبھی میں آپ کی کوئی حدیث جو آپ سے سنی تھی، نہیں بھولا۔
Narrated Al-A'raj: Abu Huraira said, "You people claim that Abu Huraira narrates many narrations of Allah's Apostle. (Anyhow) with Allah will be our appointment. I was a poor man, and used to stick to Allah's Apostle contented with what will fill my stomach, and the Muhajirin (emigrants) used to be busy trading in the markets, and the Ansar used to be busy looking after their properties. One-day I heard Allah's Apostle saying, 'Who will spread his Rida' (a garment covering the upper part of the body) till I finished my speech and then fold it, (i.e. wrap it over your body), in which case he will never forget anything he had heard from me." So I spread my garment which I was wearing; and by Him Who sent Muhammad with the Truth, ever since, I have never forgotten whatever I heard from him (the Prophet)" (See, Hadith No. 119, Vol. 1)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 452
23. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بات کہی جائے اور آپ اس پر انکار نہ کریں جسے تقریر کہتے ہیں تو یہ حجت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کسی کی تقریر پر حجت نہیں۔
(23) Chapter. Whoever thinks that if the Prophet (p.b.u.h.) did not disapprove of something (said or done in his presence), his silence indicated that it was permissible, but if another person faced a similar situation, his silence should not be taken as a sign of his agreement.
ہم سے حماد بن حمید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ بن معاذ نے، کہا ہم سے ہمارے والد معاذ بن حسان نے بیان کیا، ان سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا، ان سے سعد بن ابراہیم نے، ان سے محمد بن المنکدر نے بیان کیا، ان سے سعد بن ابراہیم نے، ان سے محمد بن المنکدر نے بیان کیا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ وہ ابن صیاد کے واقعہ پر اللہ کی قسم کھاتے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ اللہ کی قسم کھاتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اللہ کی قسم کھاتے دیکھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی انکار نہیں فرمایا۔
Narrated Muhammad bin Al-Munkadir: I saw Jabir bin `Abdullah swearing by Allah that Ibn Sayyad was the Dajjal. I said to Jabir, "How can you swear by Allah?" Jabir said, "I have heard `Umar swearing by Allah regarding this matter in the presence of the Prophet and the Prophet did not disapprove of it."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 453
وقد اخبر النبي صلى الله عليه وسلم امر الخيل وغيرها، ثم سئل عن الحمر فدلهم على قوله تعالى: فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره سورة الزلزلة آية 7 وسئل النبي صلى الله عليه وسلم عن الضب، فقال: لا آكله ولا احرمه، واكل على مائدة النبي صلى الله عليه وسلم الضب فاستدل ابن عباس بانه ليس بحرام.وَقَدْ أَخْبَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْرَ الْخَيْلِ وَغَيْرِهَا، ثُمَّ سُئِلَ عَنِ الْحُمُرِ فَدَلَّهُمْ عَلَى قَوْلِهِ تَعَالَى: فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ سورة الزلزلة آية 7 وَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الضَّبِّ، فَقَالَ: لَا آكُلُهُ وَلَا أُحَرِّمُهُ، وَأُكِلَ عَلَى مَائِدَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الضَّبُّ فَاسْتَدَلَّ ابْنُ عَبَّاسٍ بِأَنَّهُ لَيْسَ بِحَرَامٍ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے وغیرہ کے احکام بیان کئے پھر آپ سے گدھوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت بیان فرمائی «فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره» کہ ”جو ایک ذرہ برابر بھی بھلائی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا“ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ساہنہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں خود اسے نہیں کھاتا اور (دوسروں کے لیے) اسے حرام بھی نہیں قرار دیتا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر خوان پر ساہنہ کھایا گیا اور اس سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے استدلال کیا کہ وہ حرام نہیں ہے (یہ بھی دلالت کی مثال ہے یہ حدیث آگے آ رہی ہے)۔
(مرفوع) حدثنا إسماعيل، حدثني مالك، عن زيد بن اسلم، عن ابي صالح السمان، عن ابي هريرة رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" الخيل لثلاثة: لرجل اجر، ولرجل ستر، وعلى رجل وزر، فاما الذي له اجر فرجل ربطها في سبيل الله، فاطال لها في مرج او روضة فما اصابت في طيلها ذلك من المرج او الروضة كان له حسنات ولو انها قطعت طيلها، فاستنت شرفا او شرفين كانت آثارها وارواثها حسنات له ولو انها مرت بنهر، فشربت منه ولم يرد ان يسقي به كان ذلك حسنات له، وهي لذلك الرجل اجر ورجل ربطها تغنيا وتعففا ولم ينس حق الله في رقابها ولا ظهورها فهي له ستر ورجل ربطها فخرا ورياء فهي على ذلك وزر، وسئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الحمر؟، قال: ما انزل الله علي فيها إلا هذه الآية الفاذة الجامعة فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره {7} ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره {8} سورة الزلزلة آية 7-8.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْخَيْلُ لِثَلَاثَةٍ: لِرَجُلٍ أَجْرٌ، وَلِرَجُلٍ سِتْرٌ، وَعَلَى رَجُلٍ وِزْرٌ، فَأَمَّا الَّذِي لَهُ أَجْرٌ فَرَجُلٌ رَبَطَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَأَطَالَ لَهَا فِي مَرْجٍ أَوْ رَوْضَةٍ فَمَا أَصَابَتْ فِي طِيَلِهَا ذَلِكَ مِنَ الْمَرْجِ أَوِ الرَّوْضَةِ كَانَ لَهُ حَسَنَاتٍ وَلَوْ أَنَّهَا قَطَعَتْ طِيَلَهَا، فَاسْتَنَّتْ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ كَانَتْ آثَارُهَا وَأَرْوَاثُهَا حَسَنَاتٍ لَهُ وَلَوْ أَنَّهَا مَرَّتْ بِنَهَرٍ، فَشَرِبَتْ مِنْهُ وَلَمْ يُرِدْ أَنْ يَسْقِيَ بِهِ كَانَ ذَلِكَ حَسَنَاتٍ لَهُ، وَهِيَ لِذَلِكَ الرَّجُلِ أَجْرٌ وَرَجُلٌ رَبَطَهَا تَغَنِّيًا وَتَعَفُّفًا وَلَمْ يَنْسَ حَقَّ اللَّهِ فِي رِقَابِهَا وَلَا ظُهُورِهَا فَهِيَ لَهُ سِتْرٌ وَرَجُلٌ رَبَطَهَا فَخْرًا وَرِيَاءً فَهِيَ عَلَى ذَلِكَ وِزْرٌ، وَسُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحُمُرِ؟، قَالَ: مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيَّ فِيهَا إِلَّا هَذِهِ الْآيَةَ الْفَاذَّةَ الْجَامِعَةَ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ {7} وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ {8} سورة الزلزلة آية 7-8.
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے ابی صالح السمان نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”گھوڑے تین طرح کے لوگوں کے لیے ہیں۔ ایک شخص کے لیے ان کا رکھنا کار ثواب ہے، دوسرے کے لیے برابر برابر نہ عذاب نہ ثواب اور تیسرے کے لیے وبال جان ہیں۔ جس کے لیے وہ اجر ہیں یہ وہ شخص ہے جس نے اسے اللہ کے راستے کے لیے باندھ کر رکھا اور اس کی رسی چراہ گاہ میں دراز کر دی تو وہ گھوڑا جتنی دور تک چراہ گاہ میں گھوم کر چرے گا وہ مالک کی نیکیوں میں ترقی کا ذریعہ ہو گا اور اگر گھوڑے نے اس دراز رسی کو بھی تڑوا لیا اور ایک یا دو دوڑ اس نے لگائی تو اس کے نشانات قدم اور اس کی لید بھی مالک کے لیے باعث اجر و ثواب ہو گی اور اگر گھوڑا کسی نہر سے گزرا اور اس نے نہر کا پانی پی لیا، مالک نے اسے پلانے کا کوئی ارادہ نہیں کیا تھا تب بھی مالک کے لیے یہ اجر کا باعث ہو گا اور ایسا گھوڑا اپنے مالک کے لیے ثواب ہوتا ہے اور دوسرا شخص برابر برابر والا ہوتا ہے جو گھوڑے کو اظہار بے نیازی یا اپنے بچاؤ کی غرض سے باندھتا ہے اور اس کی پشت اور گردن پر اللہ کے حق کو بھی نہیں بھولتا تو یہ گھوڑا اس کے لیے نہ عذاب ہے نہ ثواب اور تیسرا وہ شخص ہے جو گھوڑے کو فخر اور ریا کے لیے باندھتا ہے تو یہ اس کے لیے وبال جان ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گدھوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں مجھ پر اس جامع اور نادر آیت کے سوا اور کچھ نہیں نازل فرمایا ہے «فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره * ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره»”پس جو کوئی ایک ذرہ برابر بھی بھلائی کرے گا وہ اسے دیکھے گا اور جو کوئی ایک ذرہ برابر بھی برائی کرے گا وہ اسے دیکھے گا۔“
Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "Horses may be used for three purposes: For a man they may be a source of reward (in the Hereafter); for another, a means of protection; and for another, a source of sin. The man for whom they are a source of reward, is the one who keeps them for Allah's Cause and ties them with long ropes and lets them graze in a pasture or garden. Whatever those long ropes allow them to eat of that pasture or garden, will be written as good deeds for him and if they break their ropes and run one or two rounds, then all their footsteps and dung will be written as good deeds for him, and if they pass a river and drink from it though he has had no intention of watering them, even then, that will be written as good deeds for him. So such horses are a source of reward for that man. For the man who keeps horses for his livelihood in order not to ask others for help or beg his bread, and at the same time he does not forget Allah's right of what he earns through them and of their backs (that he presents it to be used in Allah's Cause), such horses are a shelter for him (from poverty). For the man who keeps them just out of pride and for showing off, they are a source of sin." Then Allah's Apostle was asked about donkeys. He said, "Allah has not revealed anything to me regarding them except this comprehensive Verse: "Then anyone who has done good, equal to the weight of an atom (or a small ant) shall see it, and any one who has done evil, equal to the weight of an atom (or a small ant) shall see it." (99.7-8)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 454
(مرفوع) حدثنا يحيى، حدثنا ابن عيينة، عن منصور بن صفية، عن امه، عن عائشة، ان امراة سالت النبي صلى الله عليه وسلم. ح وحدثنا محمد هو ابن عقبة، حدثنا الفضيل بن سليمان النميري البصري، حدثنا منصور بن عبد الرحمن ابن شيبة، حدثتني امي، عن عائشة رضي الله عنها،" ان امراة سالت النبي صلى الله عليه وسلم عن الحيض كيف تغتسل منه؟، قال: تاخذين فرصة ممسكة، فتوضئين بها، قالت: كيف اتوضا بها يا رسول الله؟، قال النبي صلى الله عليه وسلم: توضئي، قالت: كيف اتوضا بها يا رسول الله؟، قال النبي صلى الله عليه وسلم: توضئين بها، قالت عائشة: فعرفت الذي يريد رسول الله صلى الله عليه وسلم فجذبتها إلي فعلمتها".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ صَفِيَّةَ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ عُقْبَةَ، حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ النُّمَيْرِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ابْنُ شَيْبَةَ، حَدَّثَتْنِي أُمِّي، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،" أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحَيْضِ كَيْفَ تَغْتَسِلُ مِنْهُ؟، قَالَ: تَأْخُذِينَ فِرْصَةً مُمَسَّكَةً، فَتَوَضَّئِينَ بِهَا، قَالَتْ: كَيْفَ أَتَوَضَّأُ بِهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَوَضَّئِي، قَالَتْ: كَيْفَ أَتَوَضَّأُ بِهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَوَضَّئِينَ بِهَا، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَعَرَفْتُ الَّذِي يُرِيدُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَذَبْتُهَا إِلَيَّ فَعَلَّمْتُهَا".
ہم سے یحییٰ بن جعفر بیکندی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے منصور بن صفیہ نے، ان سے کی والدہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ایک خاتون نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور ہم سے محمد نے بیان کیا یعنی ابن عقبہ نے، کہا ہم سے فضیل بن سلیمان النمیری نے بیان کیا، کہا ہم سے منصور بن عبدالرحمٰن بن شیبہ نے بیان کیا، ان سے ان کی والدہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حیض کے متعلق پوچھا کہ اس سے غسل کس طرح کیا جائے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مشک لگا ہوا ایک کپڑا لے کر اس سے پاکی حاصل کر۔ اس عورت نے پوچھا: یا رسول اللہ! میں اس سے پاکی کس طرح حاصل کروں گی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے پاکی حاصل کرو۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ کس طرح پاکی حاصل کروں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی جواب دیا کہ پاکی حاصل کرو۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا سمجھ گئی اور اس عورت کو میں نے اپنی طرف کھینچ لیا اور انہیں طریقہ بتایا کہ پاکی سے آپ کا مطلب یہ ہے کہ اس کپڑے کو خون کے مقاموں پر پھیر تاکہ خون کی بدبو رفع ہو جائے۔
Narrated `Aisha: A woman asked the Prophet (Hadith 456). Narrated `Aisha: A woman asked the Prophet about the periods: How to take a bath after the periods. He said, "Take a perfumed piece of cloth and clean yourself with it." She said,' "How shall I clean myself with it, O Allah's Apostle?" The Prophet said, "Clean yourself" She said again, "How shall I clean myself, O Allah's Apostle?" The Prophet said, "Clean yourself with it." Then I knew what Allah's Apostle meant. So I pulled her aside and explained it to her.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 455
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا ابو عوانة، عن ابي بشر، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس،" ان ام حفيد بنت الحارث بن حزن اهدت إلى النبي صلى الله عليه وسلم سمنا واقطا واضبا، فدعا بهن النبي صلى الله عليه وسلم، فاكلن على مائدته، فتركهن النبي صلى الله عليه وسلم كالمتقذر لهن، ولو كن حراما ما اكلن على مائدته ولا امر باكلهن".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ،" أَنَّ أُمَّ حُفَيْدٍ بِنْتَ الْحَارِثِ بْنِ حَزْنٍ أَهْدَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمْنًا وَأَقِطًا وَأَضُبًّا، فَدَعَا بِهِنَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُكِلْنَ عَلَى مَائِدَتِهِ، فَتَرَكَهُنَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَالْمُتَقَذِّرِ لَهُنَّ، وَلَوْ كُنَّ حَرَامًا مَا أُكِلْنَ عَلَى مَائِدَتِهِ وَلَا أَمَرَ بِأَكْلِهِنَّ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ ام حفید بنت حارث بن حزن رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھی اور پنیر اور بھنا ہوا سانڈا ہدیہ میں بھیجا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ چیزیں قبول فرما لیں اور آپ کے دستر خوان پر انہیں کھایا گیا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (سانڈے کو) ہاتھ نہیں لگایا، جیسے آپ کو پسند نہ ہو اور اگر وہ حرام ہوتا تو آپ کے دستر خوان پر نہ کھایا جاتا اور نہ آپ کھانے کے لیے کہتے۔
Narrated Ibn `Abbas: Um Hufaid bint Al-Harith bin Hazn presented the Prophet with some butter, dried yoghurt (curd milk) and mastigures as a gift. The Prophet then asked for a meal (mastigures etc. to be put) and it was eaten over his table cloth, but the Prophet did not eat of it, as he had aversion to it. But if it had been illegal to eat, it would not have been eaten over his table cloth nor would he have ordered that (mastigures meat) to be eaten.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 457
(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، حدثنا ابن وهب، اخبرني يونس، عن ابن شهاب، اخبرني عطاء بن ابي رباح، عن جابر بن عبد الله، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" من اكل ثوما او بصلا فليعتزلنا، او ليعتزل مسجدنا وليقعد في بيته وإنه اتي ببدر"، قال ابن وهب: يعني: طبقا فيه خضرات من بقول، فوجد لها ريحا، فسال عنها؟، فاخبر بما فيها من البقول، فقال: قربوها، فقربوها إلى بعض اصحابه كان معه، فلما رآه كره اكلها، قال: كل فإني اناجي من لا تناجي، وقال ابن عفير، عن ابن وهب بقدر فيه خضرات ولم يذكر الليث وابو صفوان، عن يونس قصة القدر فلا ادري هو من قول الزهري او في الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَكَلَ ثُومًا أَوْ بَصَلًا فَلْيَعْتَزِلْنَا، أَوْ لِيَعْتَزِلْ مَسْجِدَنَا وَلْيَقْعُدْ فِي بَيْتِهِ وَإِنَّهُ أُتِيَ بِبَدْرٍ"، قَالَ ابْنُ وَهْبٍ: يَعْنِي: طَبَقًا فِيهِ خَضِرَاتٌ مِنْ بُقُولٍ، فَوَجَدَ لَهَا رِيحًا، فَسَأَلَ عَنْهَا؟، فَأُخْبِرَ بِمَا فِيهَا مِنَ الْبُقُولِ، فَقَالَ: قَرِّبُوهَا، فَقَرَّبُوهَا إِلَى بَعْضِ أَصْحَابِهِ كَانَ مَعَهُ، فَلَمَّا رَآهُ كَرِهَ أَكْلَهَا، قَالَ: كُلْ فَإِنِّي أُنَاجِي مَنْ لَا تُنَاجِي، وَقَالَ ابْنُ عُفَيْرٍ، عَنْ ابْنِ وَهْبٍ بِقِدْرٍ فِيهِ خَضِرَاتٌ وَلَمْ يَذْكُرِ اللَّيْثُ وَأَبُو صَفْوَانَ، عَنْ يُونُسَ قِصَّةَ الْقِدْرِ فَلَا أَدْرِي هُوَ مِنْ قَوْلِ الزُّهْرِيِّ أَوْ فِي الْحَدِيثِ.
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا مجھے یونس نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے کہا کہ مجھ کو عطاء بن ابی رباح نے خبر دی، انہیں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو شخص کچی لہسن یا پیاز کھائے وہ ہم سے دور رہے یا (یہ فرمایا کہ) ہماری مسجد سے دور رہے اور اپنے گھر میں بیٹھا رہے (یہاں تک کہ وہ بو رفع ہو جائے) اور آپ کے پاس ایک طباق لایا گیا جس میں سبزیاں تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں بو محسوس کی، پھر آپ کو اس میں رکھی ہوئی سبزیوں کے متعلق بتایا گیا تو آپ نے اپنے بعض صحابی کی طرف جو آپ کے ساتھ تھے اشارہ کر کے فرمایا کہ ان کے پاس لے جاؤ لیکن جب ان صحابی نے اسے دیکھا تو انہوں نے بھی اسے کھانا پسند نہیں کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ان سے فرمایا کہ تم کھا لو کیونکہ میں جس سے سرگوشی کرتا ہوں تم اس سے نہیں کرتے۔ (آپ کی مراد فرشتوں سے تھی) سعید بن کثیر بن عفیر نے جو امام بخاری رحمہ اللہ کے شیخ ہیں، عبداللہ بن وہب سے اس حدیث میں یوں روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہانڈی لائی گئی جس میں ترکاریاں تھیں اور لیث و ابوصفوان عبداللہ بن سعید اموی نے بھی اس حدیث کو یونس سے روایت کیا لیکن انہوں نے ہانڈی کا قصہ نہیں بیان کیا، اب میں نہیں جانتا کہ ہانڈی کا قصہ حدیث میں داخل ہے یا زہری نے بڑھا دیا ہے۔
Narrated Jabir bin `Abdullah: The Prophet said, "Whoever has eaten garlic or onion, should keep away from us, or should keep away from our mosque and should stay at home." Ibn Wahb said, "Once a plate full of cooked vegetables was brought to the Prophet at Badr. Detecting a bad smell from it, he asked about the dish and was informed of the kinds of vegetables in contained. He then said, "Bring it near," and so it was brought near to one of his companions who was with him. When the Prophet saw it, he disliked eating it and said (to his companion), "Eat, for I talk in secret to ones whom you do not talk to."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 458
مجھ سے عبیداللہ بن سعد بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد اور چچا نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا اور ان سے ان کے والد نے، انہیں محمد بن جبیر نے خبر دی اور انہیں ان کے والد جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ایک خاتون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک حکم دیا۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر میں آپ کو نہ پاؤں تو پھر کیا کروں گی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مجھے نہ پانا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جانا۔ حمیدی نے ابراہیم بن سعد سے یہ اضافہ کیا کہ غالباً خاتون کی مراد وفات تھی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ حمیدی نے اس روایت میں ابراہیم بن سعد سے اتنا بڑھایا ہے کہ آپ کو نہ پاؤں، اس سے مراد یہ ہے کہ آپ کی وفات ہو جائے۔
Narrated Jubair bin Mut`im: A lady came to Allah's Apostle and she talked to him about something, and he gave her some order. She said, "O Allah's Apostle! If I should not find you?" He said, "If you should not find me, then go to Abu Bakr." Ibrahim bin Sa`d said, "As if she meant the death (of the Prophet).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 459
(مرفوع) وقال ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، اخبرني حميد بن عبد الرحمن، سمع معاوية يحدث رهطا من قريش بالمدينة وذكر كعب الاحبار، فقال: إن كان من اصدق هؤلاء المحدثين الذين يحدثون عن اهل الكتاب وإن كنا مع ذلك لنبلو عليه الكذب.(مرفوع) وَقَالَ أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، سَمِعَ مُعَاوِيَةَ يُحَدِّثُ رَهْطًا مِنْ قُرَيْشٍ بِالْمَدِينَةِ وَذَكَرَ كَعْبَ الْأَحْبَارِ، فَقَالَ: إِنْ كَانَ مِنْ أَصْدَقِ هَؤُلَاءِ الْمُحَدِّثِينَ الَّذِينَ يُحَدِّثُونَ عَنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَإِنْ كُنَّا مَعَ ذَلِكَ لَنَبْلُو عَلَيْهِ الْكَذِبَ.
ابوالیمان امام بخاری رحمہ اللہ کے شیخ نے بیان کیا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں حمید بن عبدالرحمٰن نے خبر دی، انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ مدینے میں قریش کی ایک جماعت سے حدیث بیان کر رہے تھے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے کعب احبار کا ذکر کیا اور فرمایا جتنے لوگ اہل کتاب سے احادیث نقل کرتے ہیں ان سب میں کعب احبار بہت سچے تھے اور باوجود اس کے کبھی کبھی ان کی بات جھوٹ نکلتی تھی، یہ مطلب نہیں ہے کہ کعب احبار جھوٹ بولتے تھے۔
Narrated Humaid bin 'Abdur-Rahman that he heard Mu'awiya talking to a group of people from Quraish at Al-Madina, and on mentioning Ka'b Al-Ashbar, he said, "He was one of the most truthful of those who used to talk about the people of the Scripture, yet we used to detect certain faults in his information."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 459
(مرفوع) حدثني محمد بن بشار، حدثنا عثمان بن عمر، اخبرنا علي بن المبارك، عن يحيى بن ابي كثير، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال:" كان اهل الكتاب يقرءون التوراة بالعبرانية ويفسرونها بالعربية لاهل الإسلام، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تصدقوا اهل الكتاب ولا تكذبوهم وقولوا: آمنا بالله وما انزل إلينا وما انزل إليكم.(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:" كَانَ أَهْلُ الْكِتَابِ يَقْرَءُونَ التَّوْرَاةَ بِالْعِبْرَانِيَّةِ وَيُفَسِّرُونَهَا بِالْعَرَبِيَّةِ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تُصَدِّقُوا أَهْلَ الْكِتَابِ وَلَا تُكَذِّبُوهُمْ وَقُولُوا: آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ.
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عثمان بن عمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو علی بن المبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، انہیں ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اہل کتاب توریت عبرانی زبان میں پڑھتے تھے اور اس کی تفسیر مسلمانوں کے لیے عربی میں کرتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ ان کی تکذیب کرو کیونکہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس پر جو ہم پر نازل ہوا اور جو ہم سے پہلے تم پر نازل ہوا آخر آیت تک جو سورۃ البقرہ میں ہے۔
Narrated Abu Huraira: The people of the Book used to read the Torah in Hebrew and then explain it in Arabic to the Muslims. Allah's Apostle said (to the Muslims). "Do not believe the people of the Book, nor disbelieve them, but say, 'We believe in Allah and whatever is revealed to us, and whatever is revealed to you.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 460