(مرفوع) وقال ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، اخبرني حميد بن عبد الرحمن، سمع معاوية يحدث رهطا من قريش بالمدينة وذكر كعب الاحبار، فقال: إن كان من اصدق هؤلاء المحدثين الذين يحدثون عن اهل الكتاب وإن كنا مع ذلك لنبلو عليه الكذب.(مرفوع) وَقَالَ أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، سَمِعَ مُعَاوِيَةَ يُحَدِّثُ رَهْطًا مِنْ قُرَيْشٍ بِالْمَدِينَةِ وَذَكَرَ كَعْبَ الْأَحْبَارِ، فَقَالَ: إِنْ كَانَ مِنْ أَصْدَقِ هَؤُلَاءِ الْمُحَدِّثِينَ الَّذِينَ يُحَدِّثُونَ عَنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَإِنْ كُنَّا مَعَ ذَلِكَ لَنَبْلُو عَلَيْهِ الْكَذِبَ.
ابوالیمان امام بخاری رحمہ اللہ کے شیخ نے بیان کیا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں حمید بن عبدالرحمٰن نے خبر دی، انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ مدینے میں قریش کی ایک جماعت سے حدیث بیان کر رہے تھے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے کعب احبار کا ذکر کیا اور فرمایا جتنے لوگ اہل کتاب سے احادیث نقل کرتے ہیں ان سب میں کعب احبار بہت سچے تھے اور باوجود اس کے کبھی کبھی ان کی بات جھوٹ نکلتی تھی، یہ مطلب نہیں ہے کہ کعب احبار جھوٹ بولتے تھے۔
Narrated Humaid bin 'Abdur-Rahman that he heard Mu'awiya talking to a group of people from Quraish at Al-Madina, and on mentioning Ka'b Al-Ashbar, he said, "He was one of the most truthful of those who used to talk about the people of the Scripture, yet we used to detect certain faults in his information."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 459
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7361
حدیث حاشیہ: کعب احبار رضی اللہ عنہ یہود کے بڑے عالم تھے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں مسلمان ہو گئے تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7361
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7361
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت کعب احبار اہل کتاب کے علماء اور فضلاء میں سے تھے وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں مسلمان ہوئے فضلاء تابعین میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیان کے مطابق کعب احبار اہل کتاب میں سب سے زیادہ سچے تھے لیکن اہل کتاب کے متعلق جب کوئی خبر دیتے تو بسا اوقات خطا کر جاتے تھے چونکہ علمائے یہود نے تورات وغیرہ میں بہت تحریف کی ہےاس لیے وہ تحریف شدہ خبریں دیتے تھے اس لیے ان کی بیان کی ہوئی خبر جھوٹی ہوتی تھی۔ وہ جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولا کرتے تھے۔ ایسے حالات میں اہل کتاب سے پوچھنے کا کیا فائدہ ہے۔ 2۔ دور حاضر کے بعض روشن خیال مسلمان اس حدیث کو مانتے ہیں جس کی تصدیق فرنگی تہذیب جدید سائنس یا انگریزی طب سے ہو جائے۔ ایسی تصدیق کا کیا فائدہ ہے؟ ایمان کا تقاضا تو یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ بات کو فوراً تسلیم کیا جائے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7361