حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْخَيْلُ لِثَلَاثَةٍ: لِرَجُلٍ أَجْرٌ، وَلِرَجُلٍ سِتْرٌ، وَعَلَى رَجُلٍ وِزْرٌ، فَأَمَّا الَّذِي لَهُ أَجْرٌ فَرَجُلٌ رَبَطَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَأَطَالَ لَهَا فِي مَرْجٍ أَوْ رَوْضَةٍ فَمَا أَصَابَتْ فِي طِيَلِهَا ذَلِكَ مِنَ الْمَرْجِ أَوِ الرَّوْضَةِ كَانَ لَهُ حَسَنَاتٍ وَلَوْ أَنَّهَا قَطَعَتْ طِيَلَهَا، فَاسْتَنَّتْ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ كَانَتْ آثَارُهَا وَأَرْوَاثُهَا حَسَنَاتٍ لَهُ وَلَوْ أَنَّهَا مَرَّتْ بِنَهَرٍ، فَشَرِبَتْ مِنْهُ وَلَمْ يُرِدْ أَنْ يَسْقِيَ بِهِ كَانَ ذَلِكَ حَسَنَاتٍ لَهُ، وَهِيَ لِذَلِكَ الرَّجُلِ أَجْرٌ وَرَجُلٌ رَبَطَهَا تَغَنِّيًا وَتَعَفُّفًا وَلَمْ يَنْسَ حَقَّ اللَّهِ فِي رِقَابِهَا وَلَا ظُهُورِهَا فَهِيَ لَهُ سِتْرٌ وَرَجُلٌ رَبَطَهَا فَخْرًا وَرِيَاءً فَهِيَ عَلَى ذَلِكَ وِزْرٌ، وَسُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحُمُرِ؟، قَالَ: مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيَّ فِيهَا إِلَّا هَذِهِ الْآيَةَ الْفَاذَّةَ الْجَامِعَةَ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ {7} وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ {8} سورة الزلزلة آية 7-8.
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7356
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خاص چیز کے حکم کو عام کے تحت داخل فرمایا ہے۔
یہ بھی کتاب وسنت سے تمسک (دلیل پکڑنے)
کی ہی ایک صورت ہے۔
ہرامرخیر کے لیے اس آیت کو بطور دلیل پیش کیا جا سکتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب ہے کہ جو کوئی ان گدھوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں باندھے رکھے وہ خیر کاعامل ہے اور وہ قیامت کے دن اس خیر کی جزا دیکھ لے گا اور جو کوئی فخر وریاء اور مسلمانوں سے دشمنی کے لیے انھیں باندھتا ہے وہ شر کا عامل ہے اور اپنے اس شر کی سزا قیامت کے دن پالے گا۔
بہرحال گدھوں کو اپنے کام کے لیے پالنا، پھر انھیں دوسروں کو بطور تعاون دینا باعث خیر وثواب ہے جیسا کہ آیت کریمہ کا تقاضا ہے۔
اسے دلالت شرعی کہا جاتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7356
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 560
´جہاد کے لئے گھوڑا تیار کرنے کی فضیلت`
«. . . عن ابى هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”الخيل لرجل اجر ولرجل ستر وعلى رجل وزر . . .»
”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(بعض) گھوڑے آدمی کے لئے اجر (کا باعث) ہوتے ہیں اور بعض اس کا پردہ ہیں اور بعض آدمی پر بوجھ (گناہ) ہوتے ہیں۔ باعث اجر وہ گھوڑے ہیں جنہیں آدمی اللہ کے راستے میں (جہاد کے لئے) تیار کرتا ہے. . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 560]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2860، من حديث مالك به]
تفقه:
① اگر کسی مسئلے میں خاص دلیل نہ ہو تو عام دلیل سے استدلال کرنا بالکل جائز ہے۔
② نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دین میں بغیر وحی کے اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں کہتے تھے سوائے بعض حالتوں میں اجتہاد فرمانے کے۔ آپ کا اجتہاد بھی شرعی حجت ہے سوائے اس کے جس کی تخصیص ثابت ہے یا جس کے خلاف وحی نازل ہوئی ہے۔
③ اگر کوئی مسئلہ کتاب و سنت اور اجماع میں نہ ملے تو آثار سلف صالحین کی روشنی میں اجتہاد کرنا جائز ہے۔
④ جہاد فی سبیل اللہ میں بہت بڑا اجر ہے۔
⑤ اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے۔
⑥ گھوڑوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا ہے تو وہ وحی میں سے ہے۔ معلوم ہوا کہ حدیث بھی وحی ہے۔
⑦ ریاکار کا عمل مردود ہوتا ہے۔ نیز دیکھئے ح345، 346
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 178
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3593
´گھوڑے کی پیشانی میں خیر اور بھلائی کے ہونے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کچھ گھوڑے ایسے ہیں جو آدمی کے لیے اجر و ثواب کا باعث ہیں، اور بعض گھوڑے ایسے ہیں جو آدمی کے لیے ستر و حجاب کا ذریعہ ہیں، اور بعض گھوڑے وہ ہیں جو آدمی پر بوجھ ہوتے ہیں، اب رہا وہ آدمی جس کے لیے گھوڑے اجر و ثواب کا باعث ہوتے ہیں تو وہ ایسا آدمی ہے جس نے گھوڑوں کو اللہ کی راہ میں کام آنے کے لیے باندھ کر پالا اور باغ و چراگاہ میں چرنے کے لیے ان کی رسی لمبی کی،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الخيل/حدیث: 3593]
اردو حاشہ:
(1) ”نیک نیتی“ معمول کے کاموں کو بھی ثواب کا ذریعہ بنا دیتی ہے‘ خواہ انسان جزئیات میں ثواب کی نیت نہ بھی کرے۔ اسی طرح بد نیتی نیکی کے کاموں کو بھی عذاب کا ذریعہ بنا دیتی ہے۔
(2) ”اللہ تعالیٰ کا حق فراموش نہیں کیا“ اللہ کے حق سے مراد گھوڑے کی مناسب دیکھ بھال کرنا‘ طاقت سے زیادہ کام نہ لینا‘ ضرورت مند کو سواری کے لیے دینا‘ نیز نیکی اور خیر کے دوسرے کاموں کے لیے دینا ہے۔ بعض نے اس سے مراد گھوڑوں کی زکاۃ ادا کرنا بھی لیا ہے‘ تاہم پہلا مفہوم ہی درست ہے کیونکہ گھوڑوں پر زکاۃ نہیں ہے‘ بشرطیکہ انہیں تجارتی مقصد کے لیے نہ رکھا ہوا ہو۔
(3) انسان ہو یا جانور‘ سب سے اچھے طریقے سے پیش آنا چاہیے اور جو کسی کے ساتھ نیکی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ضائع نہیں کرتا بلکہ پورا اجر دیتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3593
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2371
2371. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” گھوڑا کسی کے لیے اجر بنتا ہے تو کسی کے لیے پردہ بنتا ہے، نیز کسی کے لیے بوجھ بھی ہوتا ہے۔ ثواب کا ذریعہ اس شخص کے لیے ہے جس نے اسے اللہ کی راہ میں کام کے لیے رکھا۔ وہ شخص اس کی رسی کو چراگاہ یا باغ میں دراز کردے تو جتنا کچھ بھی اس کے دائرے میں رہتے ہوئے چراگاہ یا باغ میں چرے گا وہ اس کے لیے نیکیاں ہوں گی۔ اور اگر اس کی رسی ٹوٹ جائے اور وہ اگلی ٹانگیں اٹھا کر ایک دو چھلانگیں لگائے (اور دوڑے)تو اس کے قدموں کے نشانات اور اس کی لید اس شخص کے لیے نیکیاں ہوں گی۔ اور اگروہ کسی نہر کے پاس سے گزر ے اور اس سے پانی پیے۔ حالانکہ اس کا پانی پلانے کا ارادہ بھی نہیں تھا تو بھی اس کے لیے نیکیوں کا باعث ہے۔ اور وہ شخص جس نے مال داری اور سوال سے بچنے کے لیے گھوڑا باندھا، پھر اس کی گردن اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2371]
حدیث حاشیہ:
باب کا مضمون حدیث کے جملہ و لو أنها مرت بنهر الخ سے نکلتا ہے کیوں کہ اگر جانوروں کو نہر سے پانی پی لینا جائز نہ ہوتا تو اس پر ثواب کیوں ملتا۔
اور جب غیر پلانے کے قصد کے ان کے خود بخود پانی پی لینے سے ثواب ملا، تو قصداً پلانا بطریق اولیٰ جائز ہے بلکہ موجب ثواب ہوگا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2371
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3646
3646. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”گھوڑے تین قسم کے آدمیوں کے لیے ہیں: ایک کے لیے باعث ثواب، دوسرے کے لیے پردہ پوشی کا ذریعہ اور تیسرے کے لیے وبال جان ہیں۔ جس کے لیے گھوڑا باعث ثواب ہے وہ تو وہ شخص ہے جس نے اپنا گھوڑا اللہ کی راہ میں باندھ رکھاہے، وہ اسے چراگاہ یاباغ میں لمبی رسی سے باندھے رکھتاہے۔ گھوڑا اپنے طول وعرض میں جو کچھ چرلےگا وہ سب مالک کے لیے نیکیاں بن جائیں گی۔ اگر وہ رسی توڑ ڈالے اور ایک یا دو بلندیاں دوڑجائے تو اس کی لید(اور اس کے قدموں کے آثار)اس شخص کے لیے نیکیاں ہوں گے۔ اور اگر وہ نہر کے پاس سے گزرے اور وہاں سے پانی پی لے، حالانکہ مالک کا اسے پانی پلانے کاارادہ نہیں تھا، یہ بھی اس کی نیکیوں میں شمار ہوگا۔ دوسرا وہ شخص جو کوئی مالداری ظاہر کرنے، پردہ پوشی اور سوال سے بچنے کی غرض سے گھوڑاپالتا ہے اور اللہ کا حق بھی فراموش نہیں کرتا جو اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3646]
حدیث حاشیہ:
آج کے دور میں گھوڑوں کی جگہ لاریوں اور ٹرکوں نے لے لی ہے جن کی دنیا کے ہر میدان میں ضرورت پڑتی ہے، جنگی مواقع پر حکومتیں کتنی پبلک لاریوں اور ٹرکوں کو حاصل کرلیتی ہیں اور ایسا کرنا حکومتوں کے لیے ضروری ہوجاتا ہے۔
حدیث میں مذکورہ تین اشخاص کا اطلاق تفصیل بالا کے مطابق آج لاری وٹرک رکھنے والے مسلمانوں پر بھی ہوسکتا ہے کہ کتنی گاڑیاں بعض دفعہ بہترین ملی مفاد کے لیے استعمال میں آجاتی ہیں۔
ان کے مالک مذکورہ اجر وثواب کے مستحق ہوں گے۔
﴿ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ﴾ گھوڑوں کی تفصیلات آج بھی قائم ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3646
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4962
4962. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”گھوڑا تین طرح کے لوگ پالتے ہیں: ایک شخص کے لیے باعث اجر و ثواب ہے، دوسرے کے لیے باعث پردہ ہے اور تیسرے کے لیے وبال جان ہے۔ جس شخص کے لیے وہ باعث اجر و ثواب ہے، وہ ہے جس نے اسے اللہ کی راہ میں جہاد کی نیت سے باندھا ہے۔ وہ چرا گاہ یا باغ میں اس کی رسی کو دراز کر دیتا ہے، جس قدر وہ چراگاہ یا باغ میں چارا کھائے گا وہ اس کے لیے نیکیاں ہوں گی۔ اور اگر اس کی رسی ٹوٹ جائے اور وہ ایک یا دو بلندیاں (ٹیلے) دوڑ جائے تو اس کے نشانات قدم اور اس کی لید بھی مالک کے لیے ثواب بن جاتی ہے۔ اور اگر وہ کسی نہر کے پاس سے گزرے اور اس سے پانی پیے، حالانکہ اس کا پانی پلانے کا ارادہ نہیں تھا، یہ بھی اس کی نیکیاں ہوں گی۔ یہ گھوڑا اس کے لیے باعث اجر و ثواب ہے۔ اور جس شخص نے مالداری اور لوگوں سے سوال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4962]
حدیث حاشیہ:
پہلا شخص جس کے لئے گھوڑا باعث اجر و ثواب ہے وہ جس نے اسے فی سبیل اللہ کے تصور سے رکھا۔
دوسرا وہ جس کے لئے وہ معافی ہے اپنی ذاتی ضروریات کے لئے پالنے والا نہ بطور فخر و ریا کے۔
تیسرا محض ریا و نمود، فخر و غرور کے لئے پالنے والا۔
آج کل کی جملہ برقی سواریاں بھی سب اسی ذیل میں ہیں۔
گردن کا جس کا اوپر ذکر ہوا ہے کہ اگر وہ تجارتی ہیں تو ان کی زکوٰۃ ادا کرے۔
پشت کا حق یہ کہ تھکے ماندے مسافر مانگنے والے کو عاریتاً سواری کے لئے دیدے۔
آج کل برقی سواریاں بھی سب اسی ذیل میں آ کر باعث عذاب و ثواب بن سکتی ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4962
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2860
2860. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” گھوڑے تین قسم کے ہیں: کسی شخص کے لیے ثواب کا ذریعہ، کسی کے لیےبچاؤ کا سبب اور کسی کے لیے گناہ کا باعث ہوتے ہیں۔ ثواب کا ذریعہ تو اس شخص کے لیے ہے جس نے اسے اللہ کی راہ میں باندھا اور اس کی رسی کو چراگاہ یا باغ میں لمبا کردیا۔ جس قدروہ چراگاہ یا باغ میں چاراکھائے گا وہ اس کے لیے نیکیاں ہوں گی۔ اور اگر وہ رسی توڑڈالے اور وہ ایک یا دو بلندیاں دوڑجائے تو اس کی لید اور قدموں کے نشانات اس کے لیے نیکیاں ہوں گی۔ اور اگر وہ نہر کے پاس سے گزرے اور وہاں سے پانی پیے۔ حالانکہ مالک کا اسے پانی پلانے کا ارادہ نہیں تھا تو اس میں اس کے لیے نیکیاں ہوں گی۔ اور جس شخص نے اسے فخر وغرور، نمود ونمائش اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی کے لیے باندھا تو وہ اس کے لیے گناہ کا سبب ہے۔“ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ سے گدھوں کے متعلق دریافت کیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2860]
حدیث حاشیہ:
اس روایت میں اس کا ذکر چھوڑ دیا جس کے لئے ثواب ہے نہ عذاب۔
دوسری روایت میں اس کا بیان ہے وہ وہ شخص ہے جو اپنی تونگری کی وجہ سے اور اس لئے کہ کسی سے سواری مانگنا نہ پڑے باندھے پھر اللہ کا حق فراموش نہ کرے یعنی تھکے ماندے محتاج کو ضرورت کے وقت سوار کرا دے‘ کوئی مسلمان عاریتاً مانگے تو اس کو دے دے۔
آیت مذکورہ کو بیان فرما کر آپ ﷺنے لوگوں کو استنباط احکام کا طریقہ بتلایا کہ تم لوگ آیت اور احادیث سے استدلال کرسکتے ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2860
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4963
4963. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سے گدھوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اس اکیلی اور جامع آیت کے سوا مجھ پر اور کوئی خاص حکم ان کے متعلق نازل نہیں ہوا، وہ آیت یہ ہے: جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر بدی کی ہو گی وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4963]
حدیث حاشیہ:
یعنی اس آیت کے ذیل گدھے بھی اگر کوئی نیک نیتی سے پالے گا تو اسے ثواب ملے گا، بدنیتی سے پالے گا تو اس کو عذاب ہوگا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4963
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2371
2371. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” گھوڑا کسی کے لیے اجر بنتا ہے تو کسی کے لیے پردہ بنتا ہے، نیز کسی کے لیے بوجھ بھی ہوتا ہے۔ ثواب کا ذریعہ اس شخص کے لیے ہے جس نے اسے اللہ کی راہ میں کام کے لیے رکھا۔ وہ شخص اس کی رسی کو چراگاہ یا باغ میں دراز کردے تو جتنا کچھ بھی اس کے دائرے میں رہتے ہوئے چراگاہ یا باغ میں چرے گا وہ اس کے لیے نیکیاں ہوں گی۔ اور اگر اس کی رسی ٹوٹ جائے اور وہ اگلی ٹانگیں اٹھا کر ایک دو چھلانگیں لگائے (اور دوڑے)تو اس کے قدموں کے نشانات اور اس کی لید اس شخص کے لیے نیکیاں ہوں گی۔ اور اگروہ کسی نہر کے پاس سے گزر ے اور اس سے پانی پیے۔ حالانکہ اس کا پانی پلانے کا ارادہ بھی نہیں تھا تو بھی اس کے لیے نیکیوں کا باعث ہے۔ اور وہ شخص جس نے مال داری اور سوال سے بچنے کے لیے گھوڑا باندھا، پھر اس کی گردن اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2371]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں گھوڑے کا نہر کے پاس سے گزرنے اور وہاں سے پانی پینے کا ذکر ہے، اگر اس کے مالک کی گھوڑے کو پانی پلانے کی نیت نہ ہو تو بھی اسے اجروثواب ملے گا اور اگر اسے پانی پلانے کا ارادہ اور نیت ہو تو بالاولیٰ ثواب کا حق دار ہو گا۔
جب رسول اللہ ﷺ سے گدھوں کے متعلق سوال ہوا کہ ان کا حکم بھی گھوڑوں جیسا ہے تو آپ نے فرمایا:
”اگر ان سے خیر مطلوب ہے تو اس کی جزا دیکھ لے گا اور قیامت کے دن اسے ثواب ملے گا بصورت دیگر عقاب و سزا کا حق دار ہو گا۔
“ (2)
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ جو نہریں راستے پر واقع ہوں، ان میں سے آدمی اور حیوانات پانی پی سکتے ہیں۔
وہ کسی کے لیے خاص نہیں ہو سکتیں، اور نہ ان کے متعلق کوئی حق ملکیت کا دعویٰ ہی کر سکتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2371
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2860
2860. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” گھوڑے تین قسم کے ہیں: کسی شخص کے لیے ثواب کا ذریعہ، کسی کے لیےبچاؤ کا سبب اور کسی کے لیے گناہ کا باعث ہوتے ہیں۔ ثواب کا ذریعہ تو اس شخص کے لیے ہے جس نے اسے اللہ کی راہ میں باندھا اور اس کی رسی کو چراگاہ یا باغ میں لمبا کردیا۔ جس قدروہ چراگاہ یا باغ میں چاراکھائے گا وہ اس کے لیے نیکیاں ہوں گی۔ اور اگر وہ رسی توڑڈالے اور وہ ایک یا دو بلندیاں دوڑجائے تو اس کی لید اور قدموں کے نشانات اس کے لیے نیکیاں ہوں گی۔ اور اگر وہ نہر کے پاس سے گزرے اور وہاں سے پانی پیے۔ حالانکہ مالک کا اسے پانی پلانے کا ارادہ نہیں تھا تو اس میں اس کے لیے نیکیاں ہوں گی۔ اور جس شخص نے اسے فخر وغرور، نمود ونمائش اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی کے لیے باندھا تو وہ اس کے لیے گناہ کا سبب ہے۔“ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ سے گدھوں کے متعلق دریافت کیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2860]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں گھوڑوں کی دوسری قسم کا ذکر نہیں ہے۔
دوسری روایات میں اس کا بیان ہے کہ جس نے تونگری کی بنا پر گھوڑوں کو باندھا تاکہ بوقت ضرورت کسی سے مانگنا نہ پڑے اور ان میں اللہ کا حق بھی اداکیا تو اس قسم کے گھوڑے اس کے لیے بچاؤ اور پردہ پوشی کاباعث ہیں۔
2۔
امام بخاری ؒنےدانستہ اس مختصر روایت کا انتخاب کیا ہے تاکہ گھوڑوں میں برکت اور نحوست کی وضاحت کریں:
یعنی پہلی قسم کے گھوڑے انسان کے لیے خیر و برکت کا باعث ہیں جو جہاد کے لیے تیارکررکھے ہیں۔
ان کی برکت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی لید،پیشاب وغیرہ بھی نامہ اعمال میں اضافے کا باعث ہوگا جبکہ دوسری قسم میں گھوڑوں کی نحوست کا ذکر ہے جو شخص محض ریاکاری اور مسلمانوں سے دشمنی کی بناپر گھوڑے باندھتا ہے تو یہ گھوڑے اس کے لیے وبال جان اور قیامت کے دن عذاب وعقاب کا باعث ہو ں گے۔
3۔
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ گھوڑوں میں نحوست ذاتی نہیں بلکہ انسان کے اپنے کردار سے پیدا ہوتی ہے،لہذا حیوانات میں ذاتی طور پر نحوست کا عقیدہ رکھنا دور جاہلیت کی باقیات سے ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2860
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3646
3646. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”گھوڑے تین قسم کے آدمیوں کے لیے ہیں: ایک کے لیے باعث ثواب، دوسرے کے لیے پردہ پوشی کا ذریعہ اور تیسرے کے لیے وبال جان ہیں۔ جس کے لیے گھوڑا باعث ثواب ہے وہ تو وہ شخص ہے جس نے اپنا گھوڑا اللہ کی راہ میں باندھ رکھاہے، وہ اسے چراگاہ یاباغ میں لمبی رسی سے باندھے رکھتاہے۔ گھوڑا اپنے طول وعرض میں جو کچھ چرلےگا وہ سب مالک کے لیے نیکیاں بن جائیں گی۔ اگر وہ رسی توڑ ڈالے اور ایک یا دو بلندیاں دوڑجائے تو اس کی لید(اور اس کے قدموں کے آثار)اس شخص کے لیے نیکیاں ہوں گے۔ اور اگر وہ نہر کے پاس سے گزرے اور وہاں سے پانی پی لے، حالانکہ مالک کا اسے پانی پلانے کاارادہ نہیں تھا، یہ بھی اس کی نیکیوں میں شمار ہوگا۔ دوسرا وہ شخص جو کوئی مالداری ظاہر کرنے، پردہ پوشی اور سوال سے بچنے کی غرض سے گھوڑاپالتا ہے اور اللہ کا حق بھی فراموش نہیں کرتا جو اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3646]
حدیث حاشیہ:
1۔
شارحین کو اس حدیث کے متعلق اشکال ہے کہ اسے عنوان سے کیا مطابقت ہے؟حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جس طرح خبر دی اسی طرح وقوع ہوا۔
وجہ مطابقت کے لیے یہی کافی ہے لیکن اس توجیہ پر دل مطمئن نہیں۔
ہمارارجحان یہ ہےکہ یہ حدیث سابقہ احادیث کا تکملہ اور تتمہ ہے جن میں گھوڑوں میں خیروبرکت کا ہونا بیان کیا گیا ہے،یعنی قیامت کے دن تک انھیں خیر ہی خیر لازم ہے۔
واللہ أعلم۔
2۔
آج کے جدید دور میں گاڑیوں نے گھوڑوں کی جگہ لے لی ہے جن کی دنیا کے ہرمیدان میں ضرورت پڑتی ہے،جنگی مواقع پر بالخصوص ان سے کام لیا جاتا ہے۔
3۔
حدیث میں مذکورہ تین اشخاص کا اطلاق لاری اور کاررکھنے والوں پر بھی ہوتا ہے۔
بہت سی گاڑیاں بعض دفعہ بہترین ملی مفاد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
ان کے مالک تفصیل بالا کے مطابق اجروثواب کے حقدار ہوں گے۔
اس کے باوجود گھوڑوں کی ضروریات بھی قائم ہیں۔
پہاڑی علاقوں میں جنگی حالات سے ان کے بغیر نبرآزما ہونا بہت مشکل ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3646
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4962
4962. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”گھوڑا تین طرح کے لوگ پالتے ہیں: ایک شخص کے لیے باعث اجر و ثواب ہے، دوسرے کے لیے باعث پردہ ہے اور تیسرے کے لیے وبال جان ہے۔ جس شخص کے لیے وہ باعث اجر و ثواب ہے، وہ ہے جس نے اسے اللہ کی راہ میں جہاد کی نیت سے باندھا ہے۔ وہ چرا گاہ یا باغ میں اس کی رسی کو دراز کر دیتا ہے، جس قدر وہ چراگاہ یا باغ میں چارا کھائے گا وہ اس کے لیے نیکیاں ہوں گی۔ اور اگر اس کی رسی ٹوٹ جائے اور وہ ایک یا دو بلندیاں (ٹیلے) دوڑ جائے تو اس کے نشانات قدم اور اس کی لید بھی مالک کے لیے ثواب بن جاتی ہے۔ اور اگر وہ کسی نہر کے پاس سے گزرے اور اس سے پانی پیے، حالانکہ اس کا پانی پلانے کا ارادہ نہیں تھا، یہ بھی اس کی نیکیاں ہوں گی۔ یہ گھوڑا اس کے لیے باعث اجر و ثواب ہے۔ اور جس شخص نے مالداری اور لوگوں سے سوال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4962]
حدیث حاشیہ:
1۔
پہلا شخص جس نے فی سبیل اللہ کی نیت سے پالا وہ گھوڑا باعث اجر و ثواب ہے اور جس نے اپنی ضروریات کے لیے گھوڑا رکھا۔
لیکن فخر اور ریا کاری مقصود نہیں وہ قابل معافی ہے اور جس نے محض نمود و نمائش، دکھلاوے اور فخر و غرور کے لیے گھوڑا رکھا وہ باعث عذاب اور وبال جان ہے۔
آج کل دیگر تمام سواریاں بھی اسی ذیل میں آکر باعث ثواب یا موجب عذاب بن سکتی ہیں۔
2۔
سواری کی گردن میں اللہ کا حق یہ ہے کہ اگر وہ تجارتی کام میں استعمال ہوتی ہے تو اس کی زکاۃ ادا کی جائے اور پشت کا حق یہ ہے کہ کسی تھکے ماندے مسافر کو ساتھ بٹھا لیا جائے یا کسی کو بوقت ضرورت عاریتاً دے دی جائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4962
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4963
4963. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سے گدھوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اس اکیلی اور جامع آیت کے سوا مجھ پر اور کوئی خاص حکم ان کے متعلق نازل نہیں ہوا، وہ آیت یہ ہے: جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر بدی کی ہو گی وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4963]
حدیث حاشیہ:
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص گدھے نیک نیتی سے پالے گا۔
تو اسے ثواب ملے گا اور اگر بدنیتی سے پالے گا۔
تو اسے عذاب ہو گا۔
بہرحال قیامت کے دن چھوٹی نیکی یا برائی انسان کے سامنے آجائے گی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
”قیامت کے دن ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو کو درمیان میں لا رکھیں گے۔
پھر کسی پر کچھ ظلم نہ کیا جائے گا۔
اور اگر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی عمل ہو گا۔
ہم اسے لا حاضرکریں گے۔
اور ہم حساب لینے کے لیے کافی ہیں۔
“ (الأنبیاء: 21۔
47)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4963